سبا تائی سیوی

مصنف : توراکینہ قاضی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2009

ہمارے ملک میں یہ نام شاید اس سے پیشتر کبھی نہ سنا گیا ہو گا۔ سترھویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہو گزرنے والا یہ شخص یہودیوں کے ایک فرقے ‘‘دون مے’’ یا ‘‘دون مہ’’ کا بانی ہے۔ اس فرقے کے پیروکار اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو یہود سے الگ باور کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مامینی یعنی ایمان دار کہتے ہیں۔ یہ ‘‘دون’’ کا لقب انھیں ترکوں نے دیا ہے۔ اس لفظ کے معنی ہیں ‘‘پھرے ہوئے’’ یا ‘‘مرتد’’۔

موجودہ عہد میں بعض لوگ پیغمبری یا الہامی قوت کادعویٰ کرتے ہیں تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جہاں ہر قسم کے لوگوں کو پیدا کرتا ہے وہاں اس قسم کے اشخاص بھی ہمیشہ اور ہر زمانے میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنی تعلیمات اور مساعی کی بدولت تھوڑے بہت پیروکار ضرور بنا لیا کرتے ہیں۔ لہٰذا ظہور اسلام کے بعد مسلمانوں میں عبد اللہ بن مرت مہدی المغربی، مرزا علی محمد باب، سید محمد جونپوری اور ہمارے معاصر مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ نے دعوائے نبوت نہیں کیا بلکہ دیگر ادیان و ملل میں بھی اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ یہی شان مسیحیوں میں بھی نظر آئی جس کا ایک حیرت انگیز نمونہ جون آف آرک تھی جسے انگریزوں نے پکڑ کر زندہ جلا دیا۔

اسی وضع پر یہود میں اور بطور خاص سلطنت عثمانیہ کی قلمرو میں سترھویں صدی عیسوی میں ‘‘دون مہ’’ مذہب نمودار ہوا۔ جس کا بانی سباتائی سیوی تھا۔ جو ایک عجیب و غریب شخص تھا۔ اس نے ۱۶۶۶ ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ سب سے پہلے مدعی مسیحیت تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جن کے دعویٰ کی قرآن حکیم نے بھی تصدیق کر دی۔ مگر یہود انھیں (معاذ اللہ) کاذب مسیح سمجھتے رہے۔ ڈاکٹر جان دی لنٹ سباتائی کو اٹھارہواں مسیح کاذب بتاتے ہیں۔ مگر ہمیں اس سے بحث نہیں کہ سباتائی جھوٹا تھا یا سچا۔ یہاں یہ بتانا مطلوب ہے کہ سباتائی کون تھا؟ کیسا شخص تھا؟ اس کے عقائد کیا تھے۔

سباتائی سیوی ایشیائی روم کے مشہور و معروف شہر سمرنا میں پیدا ہوا تھا، جہاں اس کا باپ ایک انگریز تاجر کے کارخانے کی دلالی کیا کرتا تھا۔ بچپن ہی سے اسے تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ باپ نے جب اس میں علم و فضل کی اہلیت دیکھی تو اسے ایک ربانی سکول میں داخل کر دیا۔ (یہود اپنے موجود مقتداؤں کو ربانی کہتے ہیں۔ اور اپنی شریعت کو ربانی شریعت ... اسی بنیاد پر ان کے مذہبی مدارس بھی ربانی مدارس کہے جاتے ہیں)۔

اس ربانی مدرسے میں سباتائی نے طالمود (تورات کے بعد جو روایتوں اور واقعات سلف کی کتابیں یہود کا دستور العمل ہیں اور جن کی پیروی واجب سمجھی جاتی ہے وہ طالمود کہلاتی ہیں) کے دوروں اور ان کی روایتوں کی مکمل تعلیم حاصل کی۔ جب اس کی عمر پندرہ برس ہوئی تو وہ تورات اور طالمود کی تعلیم سے فارغ ہو کر تاثرات حروف و اشارات اور جفر وغیرہ علوم کی تحصیل میں منہمک ہو گیا۔ اس فن کا یہود میں زیادہ رواج ہے او ران میں آیات تورات کے ہر حرف کی جداگانہ تاثیر مانی جاتی ہے۔ مذہبی رمزشناسی کا زیادہ تر دار و مدار اسی فن پر ہے۔ مختصر یہ کہ مختصر سی مدت میں سباتائی علوم ظاہری و باطنی اور رموز مذہب میں یکتائے روزگار ہو گیا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں اسے دربار علم و فضل سے ‘‘مقدس’’ کا خطاب حاصل ہو گیا اور وہ بڑے بڑے مجمعوں میں مذہبی موضوعات پر بڑے فصیح و بلیغ خطبے دینے لگا۔

اس بے مثل علم و فضل، بے پناہ مقبولیت، عزت و حشمت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے چوبیس سال کی عمر میں اپنے شاگردوں اور مقلدوں کے سامنے اپنے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر ڈالا کہ میں ہی وہ مسیح موعو د ہوں جو حضرت داؤد علیہ السلام کی اولاد میں ہو گا اور یہود کو مسیحیوں اور مسلمانوں کی غلامی سے آزادی دلائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ حرکت کی کہ اللہ تعالیٰ کا نام ‘‘یہوا’’ جو یہود میں اسم ذات اور نہایت جلالی خیال کیا جاتا ہے اور جسے سوائے اس کے کہ سب سے بڑا مقتدائے دین خاص مقام اقدس والقدس میں صرف مخصوص قربانی کے دن اپنی زبان سے ادا کرے او رکہیں کسی حال اور کسی زبان پرلانا ہر گز جائز نہیں، علانیہ برسرعام مجمع عام زبان پر لے آیا۔ جونہی یہ خبر عام ہوئی اور ربیوں کے دار القضاۃ میں جو ‘‘پیش دین’’ کہلاتا ہے، پہنچی تو اس کے دو کارکنوں نے دار القضاۃ کی طرف سے آکر اسے ڈرایا دھمکایا اور کہا اگر تم سے پھر کبھی یہ گناہ سرزد ہوا تو تم ہمارے معبد اور ہماری جماعت سے خارج اور واجب القتل قرار دیے جاؤ گے اور تمھیں قتل کر نے والا شخص قابل مبارک باد قرار دیا جائے گا۔ سباتائی بھلا ایسی دھمکیوں کو کب خاطر میں لانے والا تھا۔ اس نے کہا:

‘‘مجھے خدائے اسرائیل نے اپنا مخصوص پیغمبر بنایا ہے اور مجھے بطور خاص اپنا جلالی نام زبان پر لانے کی اجازت دی ہے۔’’

ربیوں نے جب یہ دیکھا کہ یہ اپنے افعال سے باز نہیں آتا تو انھوں نے اسے جماعت سے خارج کر کے اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر کر دیا۔

اپنے وطن سمرنا میں جب اسے کامیابی ہوتی نہ دکھائی دی تو سباتائی یورپی ترکی کے شہر سالونیکا جا پہنچا۔ جہاں یہودیوں کی بہت زیادہ آبادی تھی۔ وہاں اسے اپنے مذہب کے پھیلاؤ میں کامیابی ہونے لگی۔ بے شمار یہودی اس کے پیرو کار بن گئے۔ وہیں اس نے دو یہودی عورتوں سے یکے بعد دیگرے شادی رچائی اور انھیں بدمزگی پر طلاقیں دے دیں۔ اس کے بعد وہ سالونیکا سے نکل کر یونان جا پہنچا۔ وہاں سے اس نے اٹلی کی راہ لی۔ وہاں لیگہورن شہر میں اس نے ایک تیسری یہودیہ عورت سے شادی کی اس کے بعد وہ اپنے اعتقادات کی تلقین و تبلیغ کرتا، طرابلس الغرب اور شام سے ہوتا ہو ا بیت المقدس جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے دعویٰ کیا کہ :

‘‘میں شریعت موسوی کا مجدد ہوں، میں نے تموذ کا روزہ (جو یہود میں مروج تھا) موقوف کر دیا ہے۔’’

بیت المقدس میں قیام کے دوران اس کی ملاقات ناتھن نامی ایک یہودی سے ہوئی۔ جسے اپنا ہم مذاق و ہم فطرت پا کر اس نے اسے اپنے راز میں شریک کر لیا۔ اب یہ دونوں اپنی متحدہ کوششوں سے ایک نیا مذہب قائم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چنانچہ اس زیرک و فہیم شخص ناتھن نے ، جس میں سباتائی جیسی ہی جودت طبع تھی،مسیح سے پہلے آنے والے یا پیش رو کی خدمت اپنے ذمے لے لی۔ اور اس سے جدا ہوکر ہر جگہ منادی کرنے لگا کہ مسیح کے ظہور کا وقت آ گیا ہے۔ اب تم شریعت کے ناگوار احکامات سے آزاد ہو جاؤ گے۔ اس لیے اب پورے جوش و خروش اور مسرت سے اس کا استقبال کرو۔ ان دنوں ویسے بھی لوگوں کے دل ایک اخلاقی اور مذہبی انقلاب کی طرف مائل ہو رہے تھے اور ۱۶۶۶ء میں عظیم اور اہم واقعات کے ظہور کی پیش گوئیاں چلی آتی تھیں۔ لہٰذابے شمار جاہل اور متعصب لوگ اس مذہب میں داخل ہو گئے اور ناتھن کو اپنے مقاصد میں کامیابی کی صورت دکھائی دینے لگی۔

دوسری طرف سباتائی شہر غزہ میں اپنے دین کی تبلیغ کر رہا تھااور نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ غزہ او راس کے قرب و جوار کے یہود غیر مذاہب کی غلامی سے رہائی پانے اور اسرائیل کے جدید اوج و عروج کے شوق میں اپنے معصیت کے مشاغل کو چھوڑ کر جوق در جوق اس نئے دین میں داخل ہو کر زہد و تقویٰ کی راہ اختیار کرنے لگے اور بڑی سخاوتیں اور فیاضیاں دکھانے لگے۔ یہاں کے یہود نے عثمانی قلمرو کے اور دیگر مقامات کے یہودیوں کو مطلع کیا کہ وہ جس مسیح کے ظہور کا انتظار کر رہے تھے وہ بالآخر آن ہی پہنچا ہے۔ ارض شام کے یہودیوں نے جو اس جوش و خروش سے سباتائی کے دعوے کو قبول کیا تو اس کا حوصلہ بڑھا۔ وہ اب بڑی شان و شوکت کے ساتھ اپنے وطن سمرنا میں داخل ہوا۔ اور بطور خاص قسطنطنیہ کے یہودیوں کو بھی اپنی طرف مدعو کیا۔ ناتھن ان دنوں دمشق میں تھا۔ وہاں سے اس نے سباتائی کو ایک خط لکھا۔ جس میں احکم الحاکمین اور خدائے یعقوب کا مسیحا تسلیم کیا۔ حلب کے یہودیوں کے پاس بھی اس نے ہدایت نامے بھیجے۔ جن کے ذریعے اس نے لوگوں کو اپنے دعوؤں او رمسیح جدید کے اصول سے مطلع کیا۔ اب سلطنت عثمانیہ میں ہر جگہ او رہر شہر کے یہودی مسیح کے ظہور پر حد سے زیادہ جوش و خروش او رمجنونانہ خوشیوں اور مسرتوں کا مظاہرہ کرنے لگے۔ بعض شہروں میں یہودیوں کو یوں طفلانہ مزاجی کی خوشیوں میں غرق اور آپے سے باہر دیکھ کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو انتہائی حیرت ہوتی تھی۔ بنی اسرائیل میں ایسا جوش و خروش نظر آتا تھا کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوتا تھا۔ اس نئے مسیح کی مسیحیت پر ایمان لانے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ بعض شہروں میں کاروبار رک گئے۔ بازار بند ہو گئے۔ یہودیوں نے اس شوق میں کہ انھیں بالآخر غلامی سے نجات مل جائے گی اور مسیح موعود انھیں ساتھ لے کر فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہو گا، اپنے دنیوی معاملات بگاڑ لیے او رتجارت و کاروبار سے دست کش ہو گئے۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطنت عثمانیہ میں یورپی حکومتوں کے جو سفیر تھے انھیں ان کی حکومتوں نے حکم دیا کہ وہ اس نئی مذہبی تحریک کے متعلق تحقیقات کر کے کیفیت پیش کریں۔ اور عثمانی حکام نے باب عالی میں رپورٹ پیش کی کہ ہماری ولایتوں میں کاروبار بالکل رک گیا ہے۔ تجارت و صنعت و حرفت ٹھپ ہو گئی ہے۔ اب یہ تحریک ایک وبائی مرض کی طرح مغربی ممالک کی طرف بڑھی۔ اٹلی، ہالینڈ او رجرمنی کے اکثر یہودی اس پر تیار ہو گئے کہ اپنی جائیدادوں کو بیچ کر یا انھیں چھوڑ کر نئے مسیح کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جائیں۔ سب کو یقین تھا کہ بالآخر ان کی نجات اور دنیا کے حکمران بننے کا وقت آ چکا تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے مالک ہوں گے۔ غرض سب جگہ تجارت و حرفت کا کاروبار رک گیا اور دولت مند یہودی محتاج و نادار یہودیوں کی بسر اوقات کے متکفل ہو گئے کیونکہ سب کو یقین تھا کہ اس قومی فیاضی کے صلے میں بڑی بھاری دولت ان کے ہاتھ آئے گی۔ اب اس سے بھی زیادہ خطرناک مصیبت یہ نمودار ہوئی کہ یہودی اپنے حاکموں اور والیوں کی اطاعت سے منہ موڑنے لگے اور سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہونے لگے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھنے لگے تھے کہ عنقریب ہمارے یہی آقا اور حکمران ہمارے غلام او رمحکوم ہوں گے۔

ان حالات میں سباتائی اپنے وطن سمرنا میں داخل ہوا۔ اس کے استقبال کے لیے یہود نے ایسے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا کہ حکومت وقت تشویش و گھبراہٹ میں مبتلا ہو گئی۔ ان یہودیوں کا یہ حال تھا کہ اس وقت وہ یہ بھول ہی گئے تھے کہ ان پر کسی او رکی حکومت ہے۔ ان کے مقتداؤں اور ربیوں نے مسلمان حکمرانوں کے خوف سے سباتائی کو علانیہ مسیح موعود تسلیم کرنے میں تامل کیا اور اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ آیا سباتائی کو مسیح موعود تسلیم کیا جائے یا نہیں، سب سے بڑے ربی نے جو ‘‘خانم باشی’’ کہلاتا تھا، سباتائی کو مشورہ کرنے کے بہانے اپنے مکان پر بلایا۔ سباتائی فوراً اس کے مکان پر چلا آیا۔ اس کے ہمراہ اس کے پیروکاروں کی ایک جماعت بھی تھی جو ا س مکان کے باہر ٹھہر گئی۔ جب سباتائی کو اس ربی کے گھر سے نکلنے میں دیر ہو گئی تو اس کے پیروکاروں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوئی ، انھوں نے خیال کیا کہ شاید ربی نے اسے زبردستی اپنے مکان میں بند کر رکھا ہے۔ وہ فوراً قاضی شہر کی خدمت میں پہنچے او راس سے کہا:‘‘ہمارے مسیح کی رہائی کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ ہم بغاوت پر آمادہ ہو جائیں گے۔’’کہا جاتا ہے کہ قاضی نے دونوں جانب سے رشوتیں لیں او ربالآخر جھگڑے کا انفصال ربیوں ہی کے محکمے دار القضاۃ پر محمول کر دیا۔ ربی سباتائی کے ساتھ کچھ نہ کچھ بدسلوکی ضرور کرتے، مگر نہ کر سکے۔ اس لیے کہ سباتائی کی حمایت کرنے والی جماعت اس قدر غالب تھی کہ ان کا کچھ زور نہ چلا اور انھیں مجبوراً اسے چھوڑتے ہی بنی۔

تاہم ربیوں نے اس کے خلاف سازش کا ایک جال قسطنطیہ تک پھیلا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب سباتائی سمرنا سے چھوٹ کر قسطنطنیہ پہنچا اور وہاں کے یہودی بھی بڑے جوش و خروش سے اس پر ایمان لانے لگے تو وزیراعظم نے اسے گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا۔ اس قید سے سباتائی کا اثر کم ہونے کی بجائے اور بھی بڑھنے لگا۔ ہر طرف سے لوگ جوق در جوق اس کی زیارت کو آنے لگے۔ او روہ قید خانہ ایک بہت بڑی زیارت گاہ بن گیا اور مسیح کا ایک دیدار نصیب ہو جانے کے معاوضے میں ترک محافظوں کو بڑی بڑی رقمیں ملنے لگیں۔

اب سباتائی کی شہرت ہر جگہ پر لگا کر اڑنے لگی۔ وہ اس قید خانے میں بیٹھا ایک نئے مذہب او رنئے رسوم کو منضبط کر رہا تھا۔ اپنی پیدایش کا دن منانے کے لیے اس نے خاص رسوم اور طریقے وضع کیے۔ لوگوں کو اپنی ماں کے مقبرے کی زیارت کا حکم دیا۔ اور اس مقبرے کی زیارت سے فیض یاب ہونے والوں کو خاص قسم کے حقوق اور فضائل بتائے۔ اس اثنا میں اس کے جنونی پیروکاروں نے یہ کارروائی کی کہ قدیم الایام سے جتنی پیش گوئیاں چلی آتی تھیں، سب اس سے وابستہ کر دیں اور تورات کے جن جملوں میں تحریف کر کے اس کا نام شامل کر دیا گیا تھا، وہ قطعات کے طرز پر چوکھٹوں میں لگا کر یا اور طریقوں سے لکھ کر یہودیوں کے صومعوں میں آویزاں کر دیے گئے۔

انھی دنوں اتفاق سے نحمیاہ کوہن نامی ایک شخص منظر عام پر نمودار ہوا۔ جس نے سباتائی سے خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی اپنی مسیحیت میں شامل کر لیجیے۔ سباتائی نے اس سے قطعاً انکار کر دیا او رنحمیاہ نے اس کا انتقام یوں لیا کہ اس کی شکایت لے کر وزرائے سلطانی کے پاس پہنچا اور کہا‘‘اگر یہ جعلی مسیح جلد ہی اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچایا گیا تو سلطنت کا امن و امان سب خطرے میں پڑ جائے گا۔ اور ملک بدنظمی اور طوائف الملوکی کا شکار ہو جائے گا۔’’

آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطان محمد رابع نے سباتائی کو اپنے دربار میں بلوایا۔ جب وہ ادرنہ (ایڈرنا نوپل) کے قصر شاہی میں اس کے سامنے حاضر کیا گیا تو سلطان نے اس سے پوچھا: ‘‘کیا تم معجزے دکھا سکتے ہو؟’’ اس نے فوراً جواب دیا: ‘‘دکھا سکتا ہوں’’۔ سلطان نے کہا: ‘‘اچھا میں تمھیں اپنے تیر اندازوں کا نشانہ بنواتا ہوں۔ اگر تمھیں کوئی تیر نہ لگ سکا تو بے شک تم پیغمبر ہو’’۔ یہ سن کر سباتائی بہت گھبرایا۔ اس نے دل میں سوچا۔ اب دو ہی صورتیں ہیں۔ یا توسلطان کے تیر اندازوں کا نشانہ بن کر مر جاؤں یا اسلام قبول کر کے اپنی جان بچا لوں۔ جب کوئی راہ نہ سجھائی دی تو اس نے آخری صورت قبول کی اور سلطان سے بولا:‘‘اپنی ان تمام کوششوں سے میرا اصلی مقصود یہ تھا کہ لوگوں کو اللہ کی توحید، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی طرف بلاؤں اور کلمہ طیبہ ‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ کو ان کا شعار بنا دوں۔ اس عقیدے کو اس وقت تک جو میں نے ظاہر نہیں کیا تو اس کا سبب یہ تھا کہ میں چاہتاتھا کہ خاص دربار سلطانی میں اور سلطان معظم کے سامنے کلمہ توحید کا اقرار کروں۔’’

اس کی زبانی یہ کلمات سنتے ہی اس کے پیرو متحیر و سراسیمہ سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور جتنے یہودی اور مسلمان دربار میں موجود تھے سب نے ایک قہقہہ لگایا۔ اکثر معتقدین منحرف ہو گئے۔ لیکن بعض سادہ لوح عقیدت مندوں نے اب بھی اس کی پیروی نہیں چھوڑی، بلکہ خود سباتائی ہی کی طرح یہ طرز عمل اختیار کر لیا کہ بظاہر تو یہودیوں کی آزار رسانی سے بچنے کے لیے عام خیالات کے یہودی بن گئے۔ مگر دل سے سباتائی کی مسیحیت اور اس کے دین کے معترف و معتقد رہے۔

اس واقعہ کے بعد سباتائی کو سلطان کے دربا میں حاضر باشی کی اجازت مل گئی۔ جہاں وہ شیخ الاسلام کے قدموں میں بیٹھا نظر آیا کرتا۔ انٹوان گلان جس نے سب سے پہلے الف لیلہ کا ترجمہ یورپی زبانوں میں کیا، ۱۶۷۴ ء میں قسطنطنیہ میں موجود تھا۔ اس نے سباتائی کے بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات اپنے روزنامچے میں درج کیے ہیں۔ سباتائی کا انجام تاریخی طور پر صرف اس قدر معلوم ہو سکا ہے کہ ۱۶۷۶ ء میں بلغراد کے قید خانے میں مر گیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں اس کے پیروؤں میں عجیب عجیب اختلاف پڑے ہوئے ہیں۔

سباتائی نے اگرچہ ایسی کمزوری دکھائی اور دربار سلطانی میں ذلیل ہونے کے بعد گمنامی میں مر گیا، مگر اس کے پیرو اور معتقدین بعد میں بھی ویسے ہی راسخ العقیدہ رہے جیسے کہ اس کی زندگی میں تھے۔ وہ اپنے آپ کو مامینی (مومن) کے معزز و محترم لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہمارا مسیح برحق مرا نہیں بلکہ اپنے اسی مادی جسم کے ساتھ آسمان پر چلا گیا ہے۔ سالونیکا میں آج کل بھی ان کے مخفی معبد موجود ہیں جو ‘‘کل’’ کہلاتے ہیں اور ان میں وہ پوشیدہ طور پر جا کر اپنی مذہبی رسومات بجا لاتے ہیں۔ لوگوں کا بیان ہے کہ ہر ایک ‘‘کل ’’ میں ہر وقت ایک بچھونا تیار رہتا ہے تاکہ جب ان کا مسیح اپنے دوسرے ظہور کے وقت تھکا ماندہ آئے تو آتے ہی اس پر لیٹ کر آرام کرے۔ ان میں یہ بھی مشہور ہے کہ ہمارے مسیح سباتائی سیوی شہر کے شمالی پھاٹک سے جو ‘‘باب ورود’’ کہلاتا ہے، شہر میں داخل ہوں گے۔ یہ خیال یا تو اس سبب سے پیدا ہوا ہے کہ سباتائی نے شہر بلغراد میں دنیا کوچھوڑا جو یہاں سے جانب شمال ہے یا شاید اس بنیاد پر ہو کہ پچھلی مرتبہ جب وہ سالونیکا سے گیا تھا تو اس پھاٹک سے نکل گیا تھا۔ بہرحال لوگوں کو بلغراد ہی کی طرف سے اس کے آنے کا یقین اور انتظار ہے۔ چنانچہ تین صدیوں سے یہ معمول چلا آتا ہے کہ ہر روز طلوع آفتاب کے وقت ایک ‘‘دون مہ’’ مسیح کے استقبال کے لیے ‘‘باب ورود’’ سے باہر نکل کر خالی سڑک پر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ تاکہ وہ آئیں تو انھیں تعظیم و تکریم سے شہر میں لے آئے۔ لیکن جب سے سالونیکا اور بلغراد کے درمیان ریلوے لائن کھل گئی ہے اس وقت یہ بحث پیدا ہوئی کہ ممکن ہے کہ حضرت مسیح ریل میں بیٹھ کر سالونیکا تشریف لائیں۔

چنانچہ اب یہ ہونے لگا کہ سٹیشن پر شمال کی طرف سے آنے والی ہر ٹرین کے پہنچنے کے وقت ایک ‘‘دون مہ’’ ضرور موجود ہوتا ہے۔ اور اپنے اس مسیح کو آنکھیں پھاڑ کر ڈھونڈتا ہے جس کے ورود کے ساتھ ہی اس کی قوم ساری زمین کی مالک ہو جائے گی۔ دولت عثمانیہ میں سباتائی سیوی کے پیروکاروں کا مرکز و مستقر یہی شہر سالونیکا ریل ہے۔ جدید معلومات و تحقیقات کے مطابق یہ شہر اب بھی ان کا مستقر و مرکز چلا آ رہا ہے۔ ان میں بڑی بڑی قد آور شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً مدحت پاشا، جمال پاشا وغیرہ۔ کہتے ہیں کہ اتائے ترک مصطفی کما ل پاشا بھی انھی ‘‘دون مہ’’ لوگوں سے تعلق رکھتے تھے۔ واللہ اعلم

اگرچہ ان ‘‘دون مے’’ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں، لیکن اس کی کمی کے باوجود یہ لوگ تین فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ جن میں ہر ایک اپنی مخفی عبادتوں میں دوسرے فرقے والوں کو شامل نہیں ہونے دیتا۔ لیکن دنیاوی معاشرت میں تینوں ملے جلے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان تینوں میں پہلا اور خاص فرقہ ‘‘اسمیرلی’’ ہے۔ یہ لوگ سباتائی کے آرتھوڈوکس متبعین ہیں۔ ان کی پہچان یہ ہے کہ داڑھیاں منڈواتے ہیں اور ‘‘چلبی’’ یا شریف کے لقب سے پکارے جاتے ہیں۔ انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ جو یہودی خاندان معزز تھے یہ ان کی نسل خیال کیے جاتے ہیں۔ دوسرا فرقہ ‘‘یعقوبی ’’ کہلاتا ہے۔ یہ لوگ یعقوبوس قے ری دو نامی ایک شخص کے متبع ہیں جس کا دعویٰ تھا کہ وہ سباتائی کا بیٹا، وارث اور جانشین ہے، مگر راسخ العقیدہ دون مہ لوگوں نے اس کی تردید کی اور اسے کاذب قرار دیا۔ تیسرا اور سب سے چھوٹا فرقہ عثمان بابا نامی ایک شخص کا پیرو کار ہے جو اٹھارھویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہو گزرا تھا۔ اس شخص نے کوشش کی تھی کہ اسمیرلی اور یعقوبی فرقوں کوملا کر ایک کر دے۔ لیکن اس کی کوششوں سے بجائے ان فرقوں کے مل کر ایک ہونے کے ایک تیسرا فرقہ پیدا ہو گیا۔ اس فرقے والوں کی دھج اور پہچان یہ ہے کہ داڑھیاں اور سر نہیں منڈواتے۔ ان فرقوں میں بہت بے ہودہ اور لغو قسم کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک تو دستہ دار کٹورے میں پانی پینا لازمی سمجھتا ہے۔ دوسرا بغیر دستے کے کٹورے میں۔ کچھ مخفی اور خاص قسم کی نشانیاں بھی ہر فرقے کی ہیں جو غیروں کو خرافاتی اور بے ہودہ معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ان میں باہمی امتیاز ضرور ہو جاتا ہے۔

‘‘دون مہ’ ’ لوگ سالونیکا کی دیگر جماعتوں کے مقابل نہایت معزز، ہنر مند اور دولت مند ہیں۔ لوگوں میں مثل مشہور ہے ‘‘دون مہ میں کوئی غریب اور محتاج نہیں’’ ان کے دولت مند اپنے ہم مذہب غربیوں ، بیواؤں اور یتامی کی مدد اور دستگیری عجیب صلاحیت کے ساتھ اور باضابطہ طریقے سے کرتے ہیں۔ ان کے مکانات وسط شہر میں ایک ہی حلقے کے اندر اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ جن میں اندر ہی آمد و رفت کے لیے کھڑکیاں اور دروازے لگے ہوئے ہیں۔ انھی پوشیدہ راستوں سے وہ اپنے مذہبی معبدوں میں بھی جاتے ہیں۔ اور پوشیدہ ہائے عبادت میں شریک ہوتے ہیں۔

‘‘دون مہ’’ لوگوں کی زندگی کا اصلی اسلوب یہ ہے کہ بظاہر ترک اور مسلمان مگر بباطن یہودی ہیں۔ اس لیے کہ خود سباتائی نے تقیۃً اپنے آپ کو سلطان کے سامنے مسلمان ظاہر کیا اور باطن یہودی رہا۔ چنانچہ وضع لباس کی یکسانی کے علاوہ ان کی عورتیں بھی مسلمان عورتوں کی طرح پردہ کرتی ہیں۔ اگرچہ بعض موقعوں پر وہ مسلمان عورتوں سے زیادہ بے باک اور آزاد خیال نظر آتی ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ دولت عثمانیہ کی تمام قوموں کے خلاف دون مہ لوگ دوسری قوموں میں شادی بیاہ کرنے کے نہایت ہی خلاف ہیں۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک ترک نوجوان کا ایک دون مہ قوم کی لڑکی پر بے اختیار دل آ گیا۔ وہ لڑکی بھی اس سے شادی پر آمادہ ہو گئی۔ لیکن لڑکی کے اہل خاندان اور عزیز و اقارب اس شادی کے اس قدر خلاف تھے کہ انھوں نے کوئی تدبیر کار گر نہ دیکھ کر اس ترک نوجوان کو چار ہزار پونڈ دے کر اس شادی سے باز رکھا۔ دون مہ لڑکی اگر کسی دوسری قوم والے کے ساتھ نکل جائے تو اسے واپس بلانے میں کوئی تدبیر اور کوشش نہیں اٹھا رکھی جاتی۔ جب وہ ہاتھ آ جاتی ہے تو ایک مخفی عدالت کے سامنے اس کا مقدمہ پیش ہوتا ہے۔ جس میں وہ مجرم قرار دی جاتی ہے اور ارتکاب جرم کی پاداش میں قتل کر دی جاتی ہے۔

معاشرت کے علاوہ مذہبی حیثیت سے بھی ان لوگوں کی یہی حالت ہے کہ بظاہر اپنے آپ کو مسلمان دکھاتے ہیں مگر سب سے چھپا کر ایسے رسوم بجا لاتے ہیں جو نہ مسلمانوں سے واسطہ رکھتے ہیں نہ یہود سے۔ ان کے تمام تاجر جمعہ کے دن دکانیں اور کاروبار بند کر دیتے ہیں۔ جمعہ کے دن کبھی کبھی مساجد میں اور عیدین کے دن عید گاہوں میں آ کر نمازوں میں شریک ہو تے ہیں۔ ان کے مخصوص قومی اور مخفی عبادت خانوں کی نسبت لوگوں کا بیان ہے کہ ان میں کھڑکیاں اور دروازے نہیں رکھے جاتے۔ اور ان کے اندر سبز رنگ کی روشنیاں جلائی جاتی ہیں۔ یہ عبادت اس اندلسی زبان میں کرتے ہیں جو دولت عثمانیہ کے یہودیوں کی قومی زبان تھی۔ بعض مواقع پر یہ قربانی بھی کرتے ہیں اور اس کے خون کے ٹیکے اپنے دروازوں کے پٹاؤ اور اپنے بچوں کے ماتھوں پر لگاتے ہیں۔

ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ ان کی بعض مخفی صحبتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وہ ہر قسم کی بداخلاقی اور بدکاری میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ گو یہ امر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں عام طور پر مشہور ہے، مگر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس لیے دنیا کے جتنے گروہوں نے اپنی مذہبی رسومات کو خفیہ طور پر بجا لانے کی کوشش کی ہے ، سب پر یہی تہمت لگائی گئی ہے۔

تمام صوفیائے مشرق کے اصول کے مطابق ان کا عام اعتقاد ہے کہ پیغمبر رب العزت کے مظہر ہوتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے نبی گزرے وہ سب اسی ہستی مطلق کے مظہر تھے۔ ان کے سولہ احکام جو ان کے عقائد کے جامع اور گویا ان کا ایمان مفصل ہیں ، حسب ذیل ہیں:

۱۔ میں خدا کی توحید اور سباتائی سیوی کے مسیحا ہونے پر ایمان رکھتا ہوں اور یقین کرتا ہوں کہ آدم، ابراہیم، موسیٰ ، عیسیٰ علیہم السلام دیگر انبیائے تورات سب اسی مسیحا کے روح کے اجزا تھے جو اٹھارہ مظاہر میں نمایاں ہو چکا ہے۔

۲۔ ساری دنیا مامینی (پیروان سباتائی) لوگوں کے لیے ہے اور باقی اقوام اس لیے پیدا کی گئی ہیں کہ ان کی اطاعت کریں اور ان کی حفاظت کریں۔ ان کا مقولہ ہے کہ کوئی انڈا بغیر چھلکے کے نہیں ہوتا۔ اسی طرح مامینی لوگ اصل انڈا اور باقی اقوام اس کا چھلکا ہیں۔

۳۔ تمام وہ لوگ جو یہودی نہیں انڈے کے چھلکے ہیں، یعنی کلیبہ ہیں۔

۴۔ مامینیوں کے لیے نہ یہودیوں میں شادی جائز ہے، نہ کلیبوں میں۔

۵۔ جنت کی بادشاہی کے وارث صرف مامینی ہوں گے۔

۶۔ کلیبہ مرنے کے بعد جہنم میں جائیں گے اور وہیں رہیں گے۔

۷۔ تمام یہود جو ابھی تک مامینی نہیں ہوئے اس وقت ایمان لے آئیں گے جب ان کی آنکھیں کھلیں گی۔ اور یہ حقیقت نظر آئے گی کہ موسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیا دراصل سباتائی کی روح کی چنگاریاں تھیں۔

۸۔ تمام معاملات میں شریعت موسوی کی پیروی کرنی چاہیے۔

۹۔ یہود سے نفرت نہ کرنی چاہیے، بلکہ ان سے تعاون کیا جائے کیونکہ ان کی نسبت ازل سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمارے بھائی ہو جائیں گے۔

۱۰۔ یہود کو اپنے دین میں لانے کی ہمیں کوشش نہ کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی انھیں عالم آخرت کا راستہ دکھائے گا۔

۱۱۔ ہمیں بظاہر مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کرنی چاہیے، مگر بباطن یہودی ہی رہنا چاہیے۔

۱۲۔ جو مامینی ان قوانین کو توڑ ڈالے وہ اللہ کی نگاہ میں واجب القتل ہے۔

۱۳۔ تمام مامینی لوگوں کے لیے لازم ہے کہ بظاہر شریعت اسلامیہ کی پیروی کریں۔ مگر اپنے معاملات ترکی عدالت میں نہ لے جائیں بلکہ ان کا فیصلہ خود ان کی عدالت کے ارکان کریں۔

۱۴۔ بظاہر ترکوں کی رعایا بنے رہیں لیکن بے ضرورت ان کے سامنے اپنے آپ کو حقیر نہ کریں۔

۱۵۔ اپنے دونام رکھیں۔ ایک ترکی دینوی معاملات کے لیے اور ایک جو صرف اپنی جماعت والوں کو معلوم ہو۔

۱۶۔ پیغمبروں کے نام دن بھر میں کم از کم دو مرتبہ ضرور اپنی زبان سے ادا کریں۔

‘‘دون مہ’’ لوگوں کا بیان ختم ہوا۔ مگر سالونیکا ہی میں یہودیوں کا ایک اور گروہ بھی موجود ہے جس نے مسلمان کے اصول و اخلاق اختیار کر لیے ہیں۔ اس گروہ والوں پر اکثر ‘‘دون مہ’’ لوگوں کا دھوکا ہو جاتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ ‘‘دون مہ’’ نہیں ہیں۔ ان کی اصلیت صرف اس قدر ہے کہ ڈیڑھ یا پونے دو سوبرس گزرے کہ سالونیکا کے چند یہودی مہاجن وہاں کے پاشا یا والی کے دربار میں واجب القتل قرار پائے تھے مگر اظہار اسلام کرکے انھوں نے اپنی جانیں بچا لیں۔ تقریباً تیس یہودی خاندانوں نے اس زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔ بعد میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ جن کا مسلک یہ ہے کہ بظاہر مسلمان ہیں اور بباطن یہودی رسومات مذہبی کو بجا لاتے ہیں۔

٭٭٭