۱۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں عیدوں میں غسل کرنا ثابت ہے۔ حضرت خالد بن سعد سے مروی ہے کہ آپ کی عادت کریمہ تھی کہ عید الفطر، عید النحر، یوم عرفہ میں غسل فرمایا کرتے تھے۔
۲۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سبز و سرخ دھاری دار چادر شریف اوڑھتے تھے۔ یہ چادر یمن کی ہوتی۔ جسے برد یمانی کہا جاتا ہے وہ یہی چادر ہے۔ عید کے لیے زیب و زینت کرنا مستحب ہے مگر لبا س مشروع ہو۔ (مدارج النبوۃ)
۳۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ روز عید الفطر عید گاہ جانے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے، ان کی تعداد طاق ہوتی۔ یعنی تین، پانچ ، سات وغیرہ۔ (بخاری۔ طبرانی)
۴۔ عید الاضحی کے دن نماز سے واپس آنے سے پہلے کچھ نہ کھاتے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ عید الفطر کو بغیر کچھ کھائے نہ نکلتے۔ اور عید الاضحی کو بغیر کچھ کھائے نکلتے۔ جب تک کہ نماز عید نہ پڑھ لیتے اور قربانی نہ کر لیتے، نہ کھاتے۔
عید گاہ
۵۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی کہ نماز عید ، عید گاہ (میدان ) میں ادا فرماتے تھے۔ (مسلم و بخاری)
یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ نما زعید کے لیے میدان میں نکلنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے، اس لیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود فضل و شرف کے جو آپ کی مسجد شریف کو حاصل ہے، نماز عید کے لیے عید گاہ میں باہر تشریف لے جاتے تھے لیکن اگر کوئی عذر لاحق ہو تو جائز ہے۔ (ابو داؤد۔ مدارج النبوۃ)
۶۔ عیدین میں بکثرت تکبیر کہنا سنت ہے۔ (طبرانی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو بکثرت تکبیر سے مزین کرو۔ (طبرانی)
۷۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ تک پا پیادہ تشریف لے جاتے۔ (سنن ابن ماجہ) اس پر عمل کرنا سنت ہے۔ بعض علما نے مستحب کہا ہے۔
۸۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید الفطر میں تاخیر فرماتے اور نماز عید الاضحی کو جلد تر پڑھتے۔ (مدارج النبوۃ۔ مسند شافعی)
۹۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید گاہ میں پہنچ جاتے تو فوراً نماز شروع فرما دیتے۔ نہ اذان، نہ اقامت اور نہ الصلوٰۃ جامعہ وغیرہ کی ندا کچھ نہ ہوتا۔
۱۰۔ تکبیرات عیدین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں اختلافات ہیں اور مذہب حنفیہ میں مختار یہ ہے کہ تین تکبیریں رکعت اول میں قرأت سے پہلے اور تین تکبیریں دوسری رکعت میں قرأت کے بعد۔
۱۱۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہوتے تو کھڑے ہو کر خطبہ فرماتے۔
۱۲۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس راہ سے عید گاہ تشریف لے جاتے اس راہ سے واپس تشریف نہ لاتے بلکہ دوسرے راستہ سے تشریف لاتے۔
۱۳۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت کی شدت کے باعث طلوع شمس سے قبل گھر سے نہ نکلتے۔ اور گھر سے نکلتے ہی عید گاہ تک تکبیر کہتے رہتے۔ (ابو داؤد۔ زاد المعاد)
۱۴۔ آپ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب عید گاہ میں پہنچتے تو نماز عید سے قبل کوئی نفل وغیرہ نہ پڑھتے او رنہ بعد میں پڑھتے اور خطبہ سے پہلے نماز شروع کرتے، اس طرح آپ عیدین میں دو رکعتیں ادا کرتے۔ (زاد المعاد)
پہلی رکعت میں تکبیریں ختم فرما لیتے تو قرأت شروع فرماتے۔ سورۂ فاتحہ پھر اس کے بعد سورۂ ق والقرآن المجید ایک رکعت میں پڑھتے اور دوسری رکعت میں ‘اِقْتَرَبْتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ’ پڑھتے۔ بسا اوقات آپ دو رکعتوں میں ‘سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الاَعْلی اور ‘ہَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الغَاشِیَۃِ’ پڑھتے۔ (زاد المعاد) لیکن یہ سورتیں متعین نہیں۔ دوسری بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
تذکیر و موعظت
۱۵۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز مکمل فرما لیتے تو فارغ ہونے کے بعد لوگوں کے مقابل کھڑے ہو جاتے۔ لوگ صفوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ ان کے سامنے وعظ کہتے، وصیت کرتے اور امر و نہی فرماتے۔ اور اگر لشکر بھیجنا چاہتے تو اسی وقت بھیجتے یا کسی بات کا حکم کرنا ہوتا تو حکم فرماتے ۔ عید گاہ میں کوئی منبر نہ تھا جس پر چڑھ کر وعظ فرماتے ۔ نہ مدینہ کا منبر یہاں لایا جاتا ۔ بلکہ آپ زمین پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے۔ (زاد المعاد)
۱۶۔ نیز مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن نویں تاریخ فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن (تیرھویں تاریخ) کی نماز عصر تک اس طرح تکبیریں کہتے: ‘اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد’۔ (زاد المعاد)