روزے کی شریعت
اہلِ عرب کے ہاں دیگر عبادات کی طرح روزہ بھی ایک معلوم و معروف عبادت تھی ۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ قرآنِ مجید نے آکر اس عبادت کو شروع کیا ۔ ‘کما کتب علی الذین من قبلکم، ‘ ‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا’’ کے الفاظ بھی اسی حقیقت کو بیان کر رہے ہیں۔ چنانچہ روزے کی شریعت کے حوالے سے قرآنِ مجید نے صرف انھی معاملات کو واضح کیا جن کے بارے میں لوگوں کے ہاں کچھ ابہام موجود تھا یا جن میں کچھ تجدید و اصلاح کی ضرورت تھی۔ یہ معاملات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ ماہِ رمضان کا تعین
روزوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے کا انتخاب کیا ہے۔اس مہینے کو اس لیے خاص کیا گیا کہ اس میں قرآنِ مجید نازل ہونا شروع ہوا۔ ارشاد فرمایا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ ۔ (البقرہ ۲:۱۸۵) ‘‘رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر۔’’
مولانا امین احسن اصلاحی اس پہلو کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
‘‘ رمضان وہ مبارک مہینا ہے جس میں دنیا کی ہدایت کے لیے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا تقاضا یہ ہواکہ اللہ تعالیٰ نے اسی مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا تاکہ اس میں بندے اپنے نفس کی خواہشات اور شیطان کی ترغیبات سے آزاد ہو کر اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو سکیں اور اپنے قول و فعل ، اپنے ظاہر و باطن اور اپنے روز وشب، ہر چیزسے اس حقیقت کا اظہار و اعلان کریں کہ خدا اوراس کے حکم سے بڑی ان کے نزدیک اس دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ ’’ (تدبرِ قرآن ۴۵۱/۱)
۲۔ گنتی کے چند دن
قرآنِ مجید نے روزوں کی مدت کو ‘ایاماً معدودات ’‘‘گنتی کے چند دن’’ سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے مراد ماہِ رمضان کے ۳۰ یا ۲۹ دن ہیں۔ یعنی روزے کی یہ مشقت زیادہ عرصے کے لیے نہیں ڈالی گئی، بلکہ سال بھر میں یہ گنے چنے چند روز ہیں جن میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ گویایہ تزکیۂ نفس اور تقویٰ کی تربیت کا محض چند روزہ کورس ہے ، اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
۳۔ روزے کے اوقات
روزے کے اوقات کے حوالے سے قرآنِ مجید کا اراشاد ہے :
وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتیّٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلیَ الَّیْلِ۔ (البقرہ۲ :۱۸۷) ‘‘اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری شب کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے ، پھر رات تک روزہ پورا کرو۔’’
مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
‘‘کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہو جائے، یہ چیز ہمارے روزوں کو اہل کتاب کے روزوں سے بالکل الگ کر دیتی ہے۔ ان کے ہاں رات کو اٹھ کر کھانے پینے یا ازدواجی تعلقات کی اجازت نہیں تھی ۔ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دی ، بلکہ اس کی تاکید کی ہے ۔ قرآن کے الفاظ سے بھی یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کی یہ اجازت صبحِ صادق کے اچھی طرح نمایاں ہوجانے تک ہے ، اسی بات کی تائید احادیث اور صحابہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے محض احتیاط کے غلو کے سبب سے اپنے یا دوسروں کے روزے محض معمولی تقدیم و تاخیر پر مشتبہ قرار دے بیٹھنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ۱/ ۴۵۹)
‘‘ روزے کو رات ہونے تک پورا کرو’’ کے حکم کے اطلاق کے حوالے سے اس امت کے فقہا میں کچھ اختلاف رہا ہے۔ بعض فقہا کا خیال ہے کہ غروبِ آفتاب کے ساتھ رات کا آغاز ہوتے ہی روزہ کھول لینا چاہیے بعض اہلِ علم کے نزدیک جب کچھ رات گزر جائے تو پھر روزہ افطار کرنا چاہیے۔ اس اختلاف کے نتیجے میں عملاً تقریباً دس پندرہ منٹ کا فرق پڑتا ہے۔ یہ بات کو سمجھنے کا اختلاف ہے ۔ اسے بڑا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے جس بات پر اطمینان محسوس ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔
۴۔ مریضوں اور مسافروں کے لیے رخصت
ابتدائی طور پر قرآنِ مجید نے یہ رخصت دی تھی کہ اگر کوئی شخص حالتِ مرض میں یا حالتِ سفر میں ہونے کی وجہ سے روزے چھوڑنا چاہے تو وہ بعد میں چھوڑے ہوئے روزوں کو پورا کر لے یا پھر ایک روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ ارشاد ہے: فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ (البقرہ ۲: ۱۸۴) ‘‘اس پر بھی جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر دے۔ اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکیں ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔’’
بعدازاں قرآنِ مجید نے مسکین کو کھانا کھلا کر روزے سے بری ہونے کی اجازت ختم کر دی: وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ۔ (البقرہ ۲: ۱۸۵)‘‘اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے۔’’
۵۔ رمضان کی راتوں میں ازدواجی تعلق کی اجازت
اہل عرب میں سے یہود کے ہاں روزے کی عبادت سب سے نمایاں تھی ۔ ان کے ہاں افطار کے ساتھ ہی اگلا روزہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس وجہ سے انھیں رات کے اوقات میں کھانے پینے اور زن و شو کے تعلق کی ممانعت تھی ۔ یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیے باعثِ تردد تھی ۔ چنانچہ بعض مسلمانوں نے اسی تردد میں اپنے تئیں یہ تصور کر لیا کہ رات کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہے۔ پھر بعض لوگوں نے اپنے اس تصور کی خلاف ورزی بھی کر ڈالی۔ اسی کو قرآنِ مجید نے اپنے نفس کے ساتھ خیانت سے تعبیر فرمایا ہے، مسلمانوں کی یہ ہدایت چونکہ شریعت کے منشا کے مطابق نہیں تھی اور بعض محتاط مسلمانوں نے اسے از خود اپنے اوپر عائد کر لیا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس خیانت سے در گزر فرمایا اور رات میں بیویوں سے تعلق کی اجازت دے دی: اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ ۔ (البقرہ ۲ : ۱۸۷)‘‘ تمھارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا جائز کیا گیا ۔ وہ تمھارے لیے بمنزلہ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلہ لباس ہو ۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگزر فرمایا تو اب تم ان سے ملو اور اللہ نے جو تمھارے لیے مقدر کر رکھا ہے اس کے طالب بنو۔’’
اعتکاف
اعتکاف رمضان کے آخری عشرے کی عبادت ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندۂ خدا ہر چیز سے کٹ کر اور دنیا کے ہر معاملے سے الگ ہو کر پوری یک سوئی کے ساتھ یادِ الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہو جائے۔قرآنِ مجید میں اس کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے: وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ ۔ (البقرہ ۲: ۱۸۷)‘‘اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو تواس حالت میں بیویوں سے نہ ملو۔’’
اس آیت سے حسبِ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:ایک یہ کہ یہ انبیا علیھم السلام کی سنت ہے۔ اعتکاف کا ذکر جس طریقے سے کیا گیا ہے ، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبادت پہلے سے موجود تھی۔ دوسرے یہ کہ اس عبادت کی مناسبت روزے اور رمضان کے ساتھ ہے ۔تیسرے یہ کہ اعتکاف مسجد ہی میں ہونا چاہیے۔ چوتھے یہ کہ اعتکاف کی حالت میں ازدواجی تعلق پر پابندی ہو گی۔
ماہِ رمضان تقویٰ کی تربیت پانے کا مہینا ہے ۔ اس مہینے کو انسان اگر پوری قوتِ ارادی کے ساتھ اپنے نفس کی اصلاح و تربیت کے لیے خاص کر دے تو وہ خواہشات اور جذبات کی غلامی سے نکل کر اپنے پروردگار کی غلامی میں آ جاتا ہے ۔ یہی غلامی جنت کی ابدی بادشاہی کا پیش خیمہ ہے ۔