اسلام میں ابدال و اقطاب کا نظریہ
ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ‘‘ الابدال فی ہذہ الامۃ ثلاثون ، مثل ابراہیم خلیل الرحمن عز وجل کلما مات رجل ابدل اللہ تبارک و تعالی مکانہ رجلا’’ اس امت میں ابدال تیس ہیں جو ابراہیم خلیل اللہ کی مانند ہیں جب ان میں سے کوئی آدمی مرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اس کی جگہ کوئی دوسرا آدمی پیدا کر دیتا ہے۔
یہ ایک منکر حدیث ہے جس کی روایت امام احمد نے مسند ۵؍۳۳۲ میں ، الہیثم بن کلیب نے اپنی مسند ۱؍۱۵۹ میں ، حافظ ابوالحسن بن محمد الخلال نے کرامات اولیا ، ق ۱؍۲ میں ، حافظ ابو تعیم احمد بن عبداللہ الصوفی نے اخبار اصبہان ۱؍۱۸۰ میں، ان ہی کے واسطے سے حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق ۱؍۶۷میں اس سند سے کی ہے۔‘‘الحسن بن ذکوان سے روایت ہے وہ عبدالواحد بن قیس سے روایت کرتے ہیں او ر انہوں نے عبادہ بن الصامت سے مرفوعاً روایت کی ہے ’’۔ یہ روایت نقل کر کے امام احمد لکھتے ہیں۔ ہو حدیث منکر ۔ یہ ایک منکر حدیث ہے ۔
محدث ناصر البانی نے السلسۃ الضعیفۃ ۲؍۳۴۰ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی نکارت کی دو علتیں ہیں۔نمبر ایک کہ عبدالواحد بن قیس کی عدالت مختلف فیہ ہے ۔ ایک روایت میں ابن معین اور ابو زرعہ نے اس کی توثیق کی ہے مگر ایک دوسری روایت میں ان ہی ابن معین نے یہ صراحت کی ہے کہ وہ ثقہ نہیں تھا بلکہ ثقاہت کے قریب بھی نہیں تھا۔امام ابو حاتم نے اس کے بارے میں فرمایاہے کہ وہ قوی نہیں تھا۔ اس رائے کا اظہار صالح بن محمد البغدادی نے بھی کیا ہے ۔اور اس پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ اس نے ابوہریرہ سے حدیثیں روایت کی ہیں حالانکہ اس نے یہ حدیثیں ان سے سنی بھی نہیں۔امام ذہبی فرماتے ہیں‘‘ عبدالواحد بن قیس کی ابو ہریرہ سے ملاقات ثابت بھی نہیں ہے اس لیے ان سے اس کی روایت مرسل ہے البتہ اس نے عروہ اور نافع کا زمانہ پایا ہے۔یہ تفصیلات بیان کر نے کے بعد محدث البانی لکھتے ہیں۔‘‘ اس طرح عبادہ بن صامت سے بھی اس کی ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا یہ سند ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے ۔
نمبر دو یہ کہ اس منکر حدیث کی سندکا دوسرا راوی ، الحسن بن ذکوان بھی اپنی عدالت اور ثقاہت میں مختلف فیہ ہے ۔ جمہو ر محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔امام احمد نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی روایت کردہ حدیثیں باطل ہیں۔ امام ابن معین کہتے ہیں وہ صاحب مصائب تھا۔ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں اس کے بارے میں لکھا ہے ، سچاتھا لیکن غلطیا ں کرتا تھا اور مدلس تھا۔
مذکورہ حدیث عبادہ بن صامت سے الفاظ میں بھی مروی ہے ۔ لا یزال فی امتی ثلاثون بھم تقوم الارض و بھم تمطرون و بھم تنصرون ۔ میری امت میں ہمیشہ تیس افراد ایسے رہیں گے جن کے ذریعے زمین قائم رہے گی ان ہی کے ذریعے تم پر بارش ہو گی اور ان ہی کی بدولت تم کو فتح ونصر ت حاصل ہو گی۔
یہ بھی ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ۔حافظ نورالدین علی بن ابی بکر الہیثمی نے مجمع الزوائد ۱۰؍۶۳ میں لکھا ہے ‘ اس کی روایت طبرانی نے عمر و البزاز عن عنبسۃ الخواص کی سند سے کی ہے ۔ میں ان دونوں راویوں کو نہیں جانتا بقیہ راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔
یہی حدیث علیؓ سے ان الفاظ میں مروی ہے۔ ان الابدال بالشام یکونون، وہم اربعون رجلا بھم تسقون الغیث و بھم تنتصرون علی اعدائکم و یصرف عن اہل الارض البلا والغرق ۔‘‘ بے شک ابدال شام میں ہو ں گے ۔ وہ چالیس مر د ہیں۔ ان ہی کے ذریعے تمہیں بارش سے سیراب کیا جاتا ہے ان ہی کے ذریعے تم کو تمہارے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان ہی کی وجہ سے اہل زمین سی مصائب اور غرقابی کے حوادث دور کیے جاتے ہیں’’۔اس کی تخریج حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق ۱؍۶۲ میں کی ہے اور لکھا ہے ‘ اس کی سند شریح بن عبید الحضرمی اور علی کے درمیان منقطع ہے کیونکہ شریح کی علی سے ملاقات نہیں ہے۔علی ؓ سے مروی یہ حدیث ان الفاظ میں بھی ملتی ہے الابدال یکونون بالشام وھم اربعون رجلا، کلما مات رجل ابدل اللہ مکانہ رجلا یسقی بھم الغیث و ینتصرھم بھم علی الاعداء و یصرف عن اھل الشام بھم العذاب ۔‘ ابدال شام میں ہو ں گے ، وہ چالیس مرد ہیں۔ جب بھی ان میں کوئی مرے گا تو اللہ اس کی جگہ دوسرا مرد پیدا کر دے گا ان ہی کے ذریعے مینہ برستا ہے ان ہی کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان ہی کے ذریعے اہل شام سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔’
المختصر یہ سب گھڑ ی ہوئی احادیث ہیں اور جید محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ سب حدیثیں ، اصل میں حدیثیں نہیں ہیں۔
٭٭٭