آج سے پانچ برس قبل جب میں نے ‘‘نورالقرآن سفر ’’کا آغاز کیا تھا تو بالکل تن تنہا تھا۔ آج الحمد للہ یہ ایک چھوٹا سا قافلہ بن چکا ہے جس کے سرخیل ڈاکٹر عبدالرزاق ، حافظ سجاد الہی اور افتخار تبسم ہیں۔راستہ کٹھن ، سفر لمبا اور منزل دور ہے اس لیے میں نہیں جانتا کہ کون، کتنا ساتھ چلے گا اور کون، کہاں ساتھ چھوڑ جائے گا۔البتہ اتنا جانتا ہوں کہ بات قابلیت کی نہیں قبولیت کی ہوتی ہے اگر میرا کریم مالک قبول فرما لے تو سب کچھ کے بغیر بھی سب کچھ ہو سکتا ہے اورنہ قبول فرمائے تو سب کچھ کے ساتھ بھی کچھ نہیں ہو سکتا۔
مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ راستہ دکھانا ، راستے پہ چلانا اور راستے کو منزل آشنا کرنا اسی کا کام ہے ۔ اس لیے مالک سے التجا ہے کہ کریم آقا، تو نے جس جس کو بھی میرے ساتھ، اس راہ چلایا ہے اسے راستہ دکھا ئے بھی رکھنا اور چلائے بھی رکھنا ، کہ چلنے والوں کو ہی منزل نصیب ہو ا کرتی ہے ۔ منزل پہ پہنچنے کی آرزو کسے نہیں ہوتی ۔ اس طرح ہم سب کو بھی ہے مگر ہم میں سے کوئی بھی، یہ بہرحال، نہیں جانتا کہ کس کو کتنی مہلت ملے گی اور وہ کتنا کام کر پائے گا۔مالک، جو، جتنا بھی کر پائے، اسی کو قبول فرماتے ہوئے اس کی نجات اور بخشش کا ذریعہ بنانا۔قارئین سے بھی استدعا ہے کہ وہ قبولیت کی اس دعا میں ہمارے ساتھ آمین کہہ دیں۔
اپنے عجز کے اعتراف اور مالک کے حضور قبولیت کی التجا کے ساتھ ہم نورالقرآن کے سلسلے میں دوسرا پارہ پیش کر رہے ہیں۔انشا ء اللہ جلد ہی پوری سورہ بقرہ بھی ایک جلد میں منظر عام پر آ جائے گی۔ مالک کا کرم رہا ، زندگی نے وفا کی اوردوستوں نے ساتھ دیا تو انشا ء اللہ ہم جلدہی نورالقرآن کے ان صفحات کو سورہ آل عمران سے زینت بخشیں گے۔
نور القرآن کی تکمیل کے بعد انشا ء اللہ ‘‘ قرآنیات ’’ کے نا م سے کتاب مرتب کرنے کا خیا ل ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی جائے گی کہ مفسرین یا مترجمین میں کسی مقام پر اختلاف کیوں ہو اہے اور ان کے دلائل کیا ہیں۔اور اس سلسلے میں ہماری رائے کیا ہے ۔ دعا کرے کہ اللہ کریم یہ موقع بھی نصیب فرمائے۔