کتب خانوں کی تاریخ اور مسلمانوں کا علمی انہماک

مصنف : شمیم طارق

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جون 2009

کتب خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابوں کی شکل میں انسانی خیالات، تجربات اور مشاہدات کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ ایک شخص کے خیالات سے نہ صرف اس کی نسل کے ہزاروں افراد بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے افراد بھی استفادہ کرتے رہیں۔ کتب خانوں کا وجود یعنی کتابوں کو ایک خاص جگہ اس طرح محفوظ رکھنے کا انتظام کہ وہ محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت بغیر کسی دشواری کے حاصل کی جا سکیں، کسی نہ کسی شکل میں قدیم ترین زمانے سے ملتا ہے۔ چنانچہ بعثت نبویؐ سے قبل ہی ہندوستان، ایران، یونان وغیرہ میں لائبریریاں قائم ہو چکی تھیں۔ انگریزی زبان کا لفظ Library لاطینی زبان کے لفظ Libra سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں چھال یا گودہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں کتابیں یا تحریریں پیپرس (Papyrus) نامی درخت کی چھال پر لکھی جاتی تھیں۔ مٹی اور چھال کے استعمال سے پہلے اس مقصد کے لیے پتھر کا بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ تحریروں کے اولین نقوش پتھروں پر ہی ملتے ہیں۔ لوہے، تانبے اور کانسی کی ایجاد کے بعد ان چیزوں کو بھی تحریروں کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ ان کو استعمال کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تحریر کو مزید صاف اور خوش نما بنایا جا سکے۔ ابتدا میں جن چیزوں کو کاغذ کی طرح استعمال کیا گیا ان میں کھال بھی شامل تھی، البتہ پیپرس (Papyrus) کے استعمال کی مدت بہت طویل ہے۔ کاغذ کی ایجاد جو چین کی رہین منت ہے اس کے بعد ہوئی اور کاغذ کی ایجاد کے ساتھ ہی لکھنے پڑھنے کے ذرائع میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا۔ چھاپہ خانوں کی ابتدا نے اس انقلاب کو مزید ہمہ گیر بنا دیا۔ لکھنے پڑھنے کی ابتدا چونکہ سب سے پہلے ایشائے کوچک، مصر اور چین میں ہوئی تھی اس لیے سب سے پہلے کتب خانوں کی بنیاد بھی یہیں پڑی۔ قدیم نینوا کے کھنڈرات سے ایک کتب خانہ برآمد ہوا ہے جو ۷۰۰ قبل مسیح کا ہے۔ اس کتب خانہ کی تقریباً ۲۲ ہزار مٹی کی تختیاں برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے ایتھنز میں ایک بڑا کتب خانہ موجود تھا۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے یونانی مندروں میں بھی کتب خانوں کے موجود ہونے کے سراغ ملتے ہیں۔ ارسطو اور افلاطون کے ذاتی کتب خانے مشہور ہیں مگر ان سے بھی قبل تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں مصر کے فرعونوں کے محلوں میں کتب خانوں کی موجودگی کے شواہد مسترد نہیں کیے جا سکتے۔ بابل کے کتب خانوں میں موجود مٹی کی تختیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ۳۲۳ قبل مسیح میں اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ میں پیپرس پر لکھی ہوئی تقریباً پانچ لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ ۵۰ قبل مسیح میں ان کی تعداد بڑھ کر سات لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ ۴۷ قبل مسیح میں ان کی تعداد بڑھ کر سات لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ ۴۷ قبل مسیح جولیس سیزر کے لشکر نے ان میں سے بہت سی کتابوں کو جلا کر راکھ کر دیا اور پھر بچی کچھی کتابوں کو ٹھیوڈرس کے حکم سے ضائع کر دیا تھا۔ اس کو شکایت تھی کہ ان کتابوں سے کفر و شرک کی بو آتی ہے۔

لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہونے کے ساتھ گھر گھر کتب خانے قائم ہونے لگے۔ لوگ کتابوں کو بہت احتیاط سے دھوپ کے رخ پر رکھتے تھے تاکہ انہیں دیمک اور کیڑوں سے نقصان نہ پہنچے۔ عیسائیوں کے گرجا گھروں میں بھی کتب خانے ہوا کرتے تھے۔ ۲۰۰ ء میں اسکندریہ کے گرجا گھر میں ایک کتب خانہ موجود تھا۔ ۲۵۰ء میں بشپ اسکندر نے یروشلم کے گرجا گھر میں کتب خانہ قائم کیا تھا۔ ارسطو کا ذاتی کتب خانہ بھی روم لایا گیا تھا۔

یورپ میں کتب خانوں کی ابتدا بادشاہوں اور امیر زادوں کے ذاتی کتب خانوں سے ہوئی، وہ بھی بہت بعد میں۔ فرانس کا موجودہ قومی کتب خانہ چارلس ہشتم کا ذاتی کتب خانہ تھا۔ ان کتب خانوں سے صرف خواص ہی مستفید ہو سکتے تھے۔ مطالعہ پر سخت پابندی تھی کیونکہ علم حاصل کرنا صرف خواص کا حق سمجھا جاتا تھا۔ کتابیں زنجیروں میں باندھ کر رکھی جاتی تھیں تاکہ کوئی عام آدمی ان کو نہ پڑھ سکے۔

ہندوستان میں مہا بھارت کے زمانہ ہی سے ویدوں اور شاستروں کے لکھے جانے کا سراغ ملتا ہے۔ بودھ گرنتھ جمع کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا۔ بودھ اور جین مٹھوں میں مختلف مذاہب کی ہزاروں کتابیں موجود تھیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے چینی سیاح ہوان سانگ نے نالندہ (بہار) میں ہزاروں کتابوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ مشہور ہے کہ وطن لوٹتے ہوئے وہ جو کتابیں اپنے ساتھ لے گیا تھا وہ ۲۲ گھوڑوں پر لدی ہوئی تھی۔ راجہ بھوج کے مشہور کتب خانے کا منتظم مشہور شاعر وان بھت تھا۔ قدیم کتب خانوں میں تکشلا، وکرم شلا اور وکبھی کے نام مشہور ہیں۔ ایک دوسرا چینی سیاح فاہیان نالندہ کے کتب خانے سے مختلف مضامین کی تقریباً ساڑھے چھ سو کتابیں نقل کرا کر اور تقریباً پانچ سو قلمی نسخے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ پال کے زمانہ میں وکرم شلا یونیورسٹی کا کتب خانہ اپنے کثیر ذخیرۂ کتب کے سبب اپنی مثال آپ تھا اور اس کی مثال دی جاتی تھی۔ اموی اور عباسی دور میں مسلمانوں نے بھی بڑے بڑے کتب خانے قائم کیے تھے جس کا سلسلہ ہندوستان کے مسلم دور حکومت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں مسلمان بادشاہوں میں سب سے پہلے علاؤالدین خلجی نے عوامی کتب خانوں کی بنیاد ڈالی اور امیر خسرو کو شاہی کتب خانے کا نگراں مقرر کیا۔ نظام الدین اولیا کے ذاتی کتب خانے کی دیکھ بھال بھی امیر خسرو ہی کے سپرد تھی۔ ہمایوں کے کتب خانہ کے آثار دہلی کے پرانے قلعے میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ اکبر کے زمانہ میں عبد الرحیم خانخاناں اور فیضی کے کتب خانوں کو بڑی شہرت حاصل تھی جن میں نجوم، فلسفہ، قانون، حکمت، تصوف، شاعری کے علاوہ جیومیٹری کی کتابیں بھی تھیں اور مضامین کے لحاظ سے درجہ بندی کر کے ان کتابوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ اکبر کی موت کے وقت قلعے میں تقریباً چوبیس ہزار نایاب کتابیں موجود تھیں جن میں رامائن اور مہا بھارت کے فارسی تراجم بھی شامل تھے۔ اکبر کی طرح جہانگیر کو بھی کتابوں سے دلچسپی تھی اور سفر وشکار میں وہ اپنے ساتھ کتابیں لے جایا کرتا تھا۔ شاہجہاں کے ذاتی کتب خانہ میں بیس ہزار کتابیں موجود ہونے کی روایت ملتی ہے۔ اورنگ زیب نے علمی اور مذہبی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ اکٹھا کر لیا تھا۔ اس کی بیٹی زیب النساء نے بھی عالموں کے لیے ایک بہترین کتب خانہ بنوایا تھا جو ہوادار کمروں اور ضرورت کی دوسری چیزوں سے مزین تھا۔ دیگر مغل شاہزادے اور شاہزادیاں بھی کتابوں میں دلچسپی لیتے تھے اور ان کے ذاتی کتب خانے ہوا کرتے تھے، دکن میں بہمنی راجہ بھی علم دوست تھے۔ مشہور بہمنی وزیر محمود گاواں اپنی ساری کمائی کتابوں اور کتب خانوں پر خرچ کرتا تھا۔ بیجا پور کے عادل شاہی دور میں بھی کئی بڑے کتب خانے تھے۔ میسور کے راجا چکا دیورائے (۱۷۰۴ء- ۱۶۷۲ء) کے یہاں سنسکرت اور تاریخ کی کتابوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ گجرات میں ۹۸۰ء میں ایک کتب خانے کا ذکر ملتا ہے۔ ٹیپو سلطان کے کتب خانے میں دو ہزار نایاب کتابیں تھیں جن میں سے بہت سی کتابیں آج بھی کلکتہ کی ایشیاٹک سوسائٹی میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سلطان ٹیپو کی عادت تھی کہ وہ جو کتاب پڑھ لیتے تھے اس پر دستخط کر دیتے تھے۔ ان کے محل سے جو کتابیں برآمد کی گئیں ان میں سے بیشتر پر ان کے دستخط تھے۔ مغل حکومت کے زوال کے بعد نواب اور صوبیدار حکمراں ہوئے تو انہوں نے بھی کتب خانوں کے قیام میں دلچسپی لی۔ مدرسوں کے کتب خانے شاہی کتب خانوں سے الگ تھے۔ ان میں قرآن، حدیث، فقہ او رمنطق و فلسفہ پر قابل لحاظ تعداد میں کتابیں جمع کی جاتی تھیں۔ ۱۸۸۹ء میں کاٹھیا واڑ کے ایک مدرسہ میں ایک بڑا کتب خانہ قائم تھا۔ کئی مسجدوں کے ساتھ بھی کتب خانے ملحق تھے۔ مختصر یہ کہ عہد وسطیٰ کے ہندستان میں کتب خانوں کا جال پھیلا ہوا تھا اور ان میں علم و سائنس کی ایسی ایسی نایاب و نادر کتابیں موجود تھیں جن پر آج کی جدید سائنس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

انگریزی دور حکومت میں ذرائع ترسیل کی ترقی کے سبب کتابوں کو فروغ حاصل ہوا۔ اس زمانہ میں بمبئی، کلکتہ اور مدراس جیسے بڑے بڑے شہروں میں عوامی کتب خانے کھولے گئے۔ بمبئی کی رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے تحت ۱۸۰۴ء میں ایک کتب خانہ قائم ہوا۔ اس سے قبل بنگال میں فورٹ ولیم کے رائل ایشیاٹک سوسائٹی میں ایک کتب خانہ قائم کیا جا چکا تھا۔ ۱۹۰۳ء میں کلکتہ کے مختلف کتب خانوں کو ملا کر ‘‘امپریل لائبریری’’ بنائی گئی اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ آزادی کے بعد اسی کا نام بدل کر ‘‘نیشنل لائبریری’’ رکھ دیا گیا۔ لائبریری سائنس کا پہلا کورس بھی یہیں شروع کیا گیا اس کے علاوہ پہلی ‘‘لائبریری ایسوسی ایشن’’ کا قیام بھی یہیں عمل میں آیا۔

بڑودہ میں کتب خانوں کا کام ایک منظم تحریک کی شکل میں ہوا۔ ۱۹۱۰ء میں سر ولیم اے بوڈن (W.A Bodon) کو بڑودہ کے کتب خانوں کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جنہوں نے تین سال کے عرصے میں پورے صوبے میں کتب خانوں کا ایک جال بچھا دیا اور ان کی نگرانی میں مختلف حدود میں الگ الگ سطحوں پر کتب خانے قائم کیے گئے۔ گشتی کتب خانہ بھی قائم کیا گیا۔ بڑودہ سرکار نے ایک دار الترجمہ بھی قائم کیا۔ خواتین اور بچوں کے لیے بھی مخصوص کتب خانے قائم کیے گئے اور اخبارات کی کٹنگ کا ایک الگ شعبہ قائم ہوا۔ لائبریری ٹریننگ کا بھی انتظام کیا گیا۔ ۱۹۳۴ء میں سر سیاجی راؤ گائیکواڑ کے انتقال سے اس تحریک کو شدید نقصان پہنچا مگر اپنی زندگی میں وہ جو کام کر چکے تھے اس سے دوسروں کو تحریک ملتی رہی۔

حکومت ہند نے وقتاً فوقتاً مختلف کمیشن اور کالج و اسکول کے علاوہ یونیورسٹی کے لیے لائبریریاں قائم کیں جن میں انڈین ایجوکیشن کمیشن (۱۸۸۲ء)، انڈین یونیورسٹی کمیشن (۱۹۰۲ء)، کلکتہ یونیورسٹی کمیشن (۱۸۔۱۹۱۷ء)، یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (۴۹۔۱۹۴۸ء)، سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن (۶۶۔۱۹۶۴ء) قابل ذکر ہیں۔ ان مختلف کمیشنوں اور کمیٹیوں کی سفارشات کے نتیجے میں مختلف قسم کی لائبریریوں کے قیام اور ان کے فروغ میں بہت مدد ملی۔ لیکن سرسیاجی راؤ گائیکواڑ نے ۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۱ء کے دوران کتب خانوں کے قیام میں جو دلچسپی لی تھی اور اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا تھا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ اس سے پہلے ۱۹۶۷ء کے اس حکم سے بھی کہ ناشر کتاب شائع ہوتے ہی ایک کاپی نیشنل لائبریری کو بھیجے تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ ملک میں کتنی کتابیں شائع ہوئیں، کتب خانے کے قیام کی تحریک کو فائدہ پہنچا تھا۔ اس کا نقطۂ عروج ۱۹۴۱ء میں ‘‘آندھرا لائبریری ایسوسی ایشن’’ کا قیام اور اس کے تحت لائبریری سے متعلق ایک رسالہ کے اجرا کے علاوہ ایک ‘‘بحری لائبریری’’ کا قیام تھا جو دریا کے کنارے رہنے والوں کو کتابیں فراہم کیا کرتی تھی۔

علامہ شبلی (۱۹۱۴ء۔۱۸۵۷ء) مؤرخ ہونے کی حیثیت سے تاریخ پر تو نظر رکھتے ہی تھے حالات حاضرہ سے بھی بے خبر نہیں تھے اس لیے کتب خانوں کی تاریخ کے ساتھ کتب خانوں کے قیام کی تحریک میں ان کی دلچسپی بڑھتی گئی اور انہوں نے اسلامی کتب خانوں کی گمشدہ تاریخ کی بازیافت کی، اسکندریہ کے کتب خانے کی تباہی کی حقیقت بیان کی اور پھر...

اعلیٰ مصنفین کی جماعت تیار کرنے، اہم کتابوں کی تصنیف و تالیف و ترجمہ کرنے اور ان کی طباعت و اشاعت کی سبیل پیدا کرنے کے لیے ‘‘دار المصنفین’’ کے قیام کے منصوبے کے علاوہ تلامذہ اور معتقدین و متوسلین کی ایک جماعت بھی تیار کی۔ اس جماعت نے مسلم ملکوں کے کتب خانوں کی تاریخ، نظام ترتیب اور کتب خانوں میں موجود موضوعات کے تعارف میں تحقیقی مضامین لکھے اور شائع کیے۔ ‘‘کتب خانہ اسکندریہ’’ پر الگ مضمون لکھ کر بعض مغرب نواز مؤرخین کے اعتراضات کو بے اصل ثابت کیا۔ اس موضوع پر ان کے کچھ دوسرے مضامین بھی معارف کی فائلوں میں موجود ہیں۔ مثلاً ‘‘انڈیا آفس میں اردو کا خزانہ’’ اور ‘‘اردو کتب خانے’’ ۔ مولانا عبد السلام ندوی کے جو مضامین و مقامات ‘‘الندوہ’’، ‘‘الہلال’’ اور ‘‘معارف’’ کی فائلوں میں بکھرے ہوئے ہیں ان میں حروف شناسی اور کتب خانوں سے متعلق کئی مضامین ہیں ۔

ان کے علاوہ معارف کے ‘‘شذرات’’ اور ‘‘اخبار علمیہ’’ کے تحت بھی انہوں نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے اور شائع کیے۔ مولانا ابو ظفر ندوی اور سید نجیب اشرف ندوی نے بھی کتب خانوں سے متعلق کئی اہم مضامین سپرد قلم کیے۔ مثلاً مولانا سید ابو ظفر ندوی نے ‘‘ہندستان کے کتب خانے’’ اور ‘‘ہندستان میں کاغذ سازی کی تاریخ’’ کے عنوان سے جو مضامین لکھے وہ اہم معلومات کا ذخیرہ ہیں۔ سید نجیب اشرف ندوی نے اس موضوع پر جو مضامین لکھے ان کے عناوین یہ ہیں:

٭ ایک مشرقی کتب خانہ

٭ کتب خانہ مشرقیہ (پٹنہ) خدا بخش خاں کی چند نادر کتابیں

٭ انڈیا آفس لائبریری میں اردو مخطوطات

٭ ایرانی کتب خانوں کے چند علمی نوادر

٭ ان مضامین کے عناوین سے ہی ان کی نوعیت اور اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ افکار ملی، مارچ 2009)

٭٭٭