پانی

مصنف : مسز اسماء حسن

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : جون 2009

میرے استاد ڈاکٹر عبد الحق صاحب انتہائی ذہین شخص تھے۔ جدید ترین ادویہ سے لے کر جڑی بوٹیوں تک، جوگیوں اور یوگیوں کے آزمودہ نسخوں سے لے کر ہومیو پیتھی کی دواؤں تک، سب ان کے پاس موجود تھیں۔ تحقیق پر مبنی جڑی بوٹیوں اور دوائیوں پر مجھے چیدہ چیدہ نوٹ بنا کر دیا کرتے۔ امریکہ، جرمنی، لندن سے ان کے پاس کتابیں آتیں۔ مطالعے کے شوقین تھے۔ ایک بار مجھے پتا چلا کہ وہ بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں فوراً گئی۔ پتا چلا عشاء کی نماز میں سجدے میں بے ہوش ہو گئے تھے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں دل کی تکلیف ہے۔

 آج سے دس پندرہ برس پہلے اتنی سہولت موجود نہ تھی ۔ڈاکٹر عبد الحق کہنے لگے: تم آ گئیں اچھا ہوا۔ بارش کا پانی میرے گھر میں موجود ہے اور میرے سرہانے سونے کا پانی چھوٹی بوتل میں رکھا ہے۔ تم شیشے کی پلیٹ پر سونے کے پانی میں زعفران ملا کر آیات شفا لکھ کر بارش کے پانی سے دھو کر مجھے لا دو۔ میں ان شاء اللہ کل صبح تک ٹھیک ہو جاؤں گا اور میری ای سی جی نارمل آئے گی۔ ڈاکٹر صاحب کی بات پر عمل کیا۔ اگلے دن صبح دس بجے میں خود ہسپتال گئی۔ ان کا چیک اپ ہوا، بالکل ٹھیک تھے۔ چنانچہ گھر واپس آ گئے۔ اس کے بعد انہوں نے ‘‘آبی علاج’’ شروع کیا۔ تازہ سبزی، پھل اور کریم نکلا دودھ غذا میں شامل کیا۔ صبح شام غسل کرتے جس کے لیے انہوں نے بڑے بڑے دو ٹب خود بنوا لیے تھے۔ جب تک زندہ رہے، کوئی ایلوپیتھک دوا کھائی نہ بیمار پڑے۔ رمضان کے روزے پورے رکھتے۔ پانی کے علاج پر انہیں مکمل اعتماد تھا۔ آدھے سے زیادہ مریضوں کو وہ صبح اٹھ کر آدھ گھنٹے کے اندر اندر تین بار ایک ایک گلاس پانی پینے کی تاکید کرتے۔ اس سے قبض کی دیرینہ شکایت، صبح اٹھتے ہی جی کا متلانا، طبیعت کا بھاری پن، پیٹ کی گرانی وغیرہ خود بخود بغیر کسی دوا کے چند روز میں ٹھیک ہو جاتی۔ وہ کہا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی جیسی نعمت انسانوں کے لیے بنائی ہے۔ زندگی کے لیے پانی ناگزیر ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ‘‘اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے پیدا کی ہے۔’’ سورۂ فرقان میں 48-49 آیت کا ترجمہ ہے: ‘‘اور وہی ہے جو اپنی رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے۔ پھر آسمان سے پاک پانی نازل کرتا ہے جو پیاس بجھاتا ہے تاکہ مردہ علاقے کو اس کے ذریعے زندگی بخشے اور پانی مخلوق میں سے بہت سے جانوروں اور انسانوں کو سیراب کرے۔’’ اسی طرح قرآن پاک میں ہے: ‘‘اور اتارا اس نے آسمان سے ایک بابرکت اور مبارک پانی۔’’

بارش کے پانی کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عوف بن مالکؓ بیمار پڑے تو آپ نے بیٹے سے فرمایا: ‘‘بارش کا پانی کسی کے گھر سے لے کر آؤ۔’’ اس نے وجہ پوچھی تو فرمایا: ‘‘اور اتارا اس نے آسمان سے ایک بابرکت اور مبارک پانی’’ پھر فرمایا : ‘‘شہد لے کر آؤ’’ قرآن پاک میں ہے : ‘‘اس میں لوگوں کے لیے بیماریوں سے شفا ہے۔’’ جب شہد آ گیا تو کہنے لگے زیتون کا تیل لاؤ کیونکہ یہ زیتون مبارک درخت سے ہے۔ پھر وہ ان تینوں چیزوں کو ملا کر پی گئے اوردو تین دن میں شفا یاب ہو گئے۔

حضرت علی ؓ شفا کے لیے بیماروں سے کہا کرتے تھے: ‘‘قرآن پاک کی آیت لکھ کر بارش کے پانی سے دھونے کے بعد اس میں شہد ملا کر پی لیں، ان شاء اللہ صحت ہو جائے گی۔’’

آب زم زم جس غرض سے نیت کر کے پیا جائے اس کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ شفا کی نیت سے پئیں تو اللہ شفا دیتا ہے۔ پیاس کے لیے پیو تو پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ پانی ہی نہیں بلکہ جسم انسانی کے لیے خوراک اور بیماریوں سے شفا ہے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اس کرۂ ارض پر سب سے بہترین مفید اور عمدہ پانی زمزم کا ہے۔’’

حرم شریف، مکہ میں بہت لوگوں کو دیکھا جو پیٹ بھر کر زم زم پیتے اور دعا مانگتے ہیں۔ مریض بھی ان میں شامل تھے۔ بعض رات کو عشاء کی نماز کے بعد پلاسٹک کی تھیلیوں میں زم زم بھر کر لے جاتے پھر تہجد کے وقت آ کر پانی پیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پانی سے شفا بخشی ۔ پاکستان سے بہت لوگ عمرے کے لیے جاتے ہیں ان میں کچھ کی نیت یہی ہوتی ہے کہ زم زم کثرت سے پی کر شفا حاصل کی جائے۔ زم زم میں یہ خاصیت ہے کہ یقین اور اعتقاد سے پیا جائے تو جسمانی بیماریوں، کمزوریوں کو دور کرتا ہے۔ آب زم زم میں کھرل کیا ہوا سرمہ آنکھوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

پانی پینے کے آداب جو احادیث سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں۔ اونٹ کی طرح غٹ غٹ کر کے ایک سانس میں پانی نہیں پینا چاہیے۔ بلکہ دو تین گھونٹ کر کے پیجئے۔ پیتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیے اور پانی پینے کے بعد الحمد للہ کہیے۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرماتے تو برتن سے تین گھونٹ لیتے۔ ہر گھونٹ پر الحمد للہ کہتے۔ پانی میں سانس لینے، اس میں پھونک مارنے اور مشکیزے سے منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے منع فرمایا ۔ اسی طرح جو برتن شکستہ ہو جائے اس سے بھی پانی نہیں پینا چاہیے۔ ٹوٹی ہوئی جگہ میں جراثیم، میل کچیل جگہ لے لیتا ہے اور پانی پیتے وقت مضر رطوبات جسم میں چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح پانی، دودھ کے برتن ڈھانپ کر رکھنے کو کہا گیا تاکہ اس میں کوئی چیز یا کیڑا نہ گر پڑے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تین برتن ڈھانپ کر رکھے جاتے تھے۔ ایک برتن وضو کے لیے ، دوسرا مسواک کے لیے اور تیسرا پینے کے لیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ مشروب ٹھنڈا میٹھا پانی تھا۔ پانی بیٹھ کر پینا چاہیے۔ پانی پینے کا برتن دائیں ہاتھ سے پکڑنا چاہیے۔ بسم اللہ پڑھ کر تین گھونٹ میں پانی پی کر الحمد للہ کہنا چاہیے۔ اسلام نے پانی کو طہارت اور پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا اور کنوؤں کی تعمیر اور پانی کی فراہمی کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے۔ بخار کی حالت میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے علاج فرمایا۔

زندہ رہنے کے لیے ایک انسان کو روزانہ ڈیڑھ دو لیٹر پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن ہم اس سے کئی گنا زیادہ پانی نہانے، کپڑے دھونے میں خرچ کر دیتے ہیں۔ آپ پڑھ کر حیران ہو ں گے کہ ہمارے جسم کا ستر فیصد وزن پانی پر مشتمل ہے۔ دماغ کے خاکستری مادے کا 85 فیصد پانی ہوتا ہے یہاں تک کہ خشک ہڈیوں میں 20 فیصد سے 24 فیصد پانی ہوتا ہے۔ مشین میں تیل ڈالا جائے تو صحیح رہتی ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم میں پانی تیل کی طرح کام کرتا ہے۔ پانی نہ ہو تو چراغ زندگی گل ہو جائے۔ ہمارے عضلات ، ہڈیاں، پٹھے اور کرکری ہڈیوں میں لچک اسی سے آتی ہے۔ غذا کے ہضم ہونے میں پانی کام کرتا ہے۔ ہمارے جسم کو ٹھنڈا رکھتا ہے، خون کو درست رکھتا ہے۔ ہم لوگ نہاتے دھوتے ہیں مگر جسم کے اندر کی صفائی کے لیے چند گھونٹ پانی پی کر سمجھ لیتے ہیں کہ پیاس بجھ گئی، حالانکہ جسم کی اندرونی صفائی کے لیے وافر پانی پینا اشد ضروری ہے۔

ہمارے جسم میں گردے اہم کام انجام دیتے ہیں۔ یوں سمجھئے وہ دھوبی کا کام کرتے ہیں۔ خراب اور مضر مادے خون اور پانی کے ساتھ شامل ہو کر گردوں میں آتے ہیں جنہیں وہ خون سے چھان کر پیشاب کی صورت میں خارج کر دیتے ہیں۔

پانی نہ ہو تو گردے ہمارے جسم سے یورک ایسڈ اور یوریا خارج نہیں کر سکتے۔ جو لوگ کم مقدار میں پانی پیتے ہیں ان کے جسم کے ردی مادے آہستہ آہستہ گردوں اور مثانے میں جم کر پتھریوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پانی ہمارے نظام ہضم کے لیے ضروری ہے اور فاسد مادوں کے اخراج کے لیے بھی۔ پانی کی وجہ سے ہمارے جوڑ تر رہتے ہیں۔ ہمیں پسینہ آ کر جسم سے زائد حرارت دور ہو جاتی ہے۔ پانی پھیپھڑوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ آکسیجن جذب کرنے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے لیے پھیپھڑوں کا تر یا گیلا ہونا بہت ضروری ہے۔

صبح کے وقت پانی پینا بہت اچھی عادت ہے۔ پانی پینے کے فوراً بعد ورزش نہیں کرنی چاہیے۔ بین الاقوامی اسپورٹس میڈیسن انسٹی ٹیوٹ نے کھلاڑیوں کے لیے جسم کے ہر ایک پونڈ وزن کے لیے نصف اونس پانی کی مقدار کو معیار قرار دیا ہے۔ پانی ایک ہی وقت میں پینے کے بجائے صبح سے شام تک مناسب وقفوں سے پینا چاہیے۔ جو لوگ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں وہ عموماً پانی کم پیتے ہیں اس کی وجہ سے جسم مناسب مقدار میں چربی کو ٹھکانے نہیں لگاتا اور وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔ ایک ماہر معالج ڈونلڈ رابرٹسن کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کے لیے پانی خاصی مقدار میں پینا ضروری ہے۔ اسی طرح موٹاپے کے ایک اور ماہر معالج ڈاکٹر ہوورڈ کہتے ہیں کہ کم پانی پینے والے اپنے جسم میں زیادہ چربی جمع کر لیتے ہیں۔ پانی کی کمی سے عضلات کا حجم اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ ہاضمہ کمزور ہو جاتا ہے اور جسم میں زہریلے مادے جمع ہونے سے نت نئے امراض جنم لیتے ہیں۔

ہندو آیوروید میں پانی کے نام یہ ہیں: جل، سیلل، نیل، کیلال، امبو، آپ، وار، پاتھ، جیون، ون، امرت، دھن رس وغیرہ۔ آیوروید کے مطابق ٹھنڈا پانی پینے کے فوائد ان امراض میں سود مند ہوتے ہیں: ‘‘امراض سکتہ، صفرا، دھوپ کے سبب جسم میں جلن، خون کی خرابی، نشہ، سر چکرانا، کھٹی ڈکاریں آنا اور دم پھولنا۔’’

پانی اندرونی و بیرونی کثافتوں کو دھو دیتا ہے۔ جرمنی کے ڈاکٹر لوئی کوہنی نے اپنی کتاب ‘‘پانی سے علاج’’ میں اپنے تجربات شائع کیے تھے۔ اس نے اپنی بیماریوں کا علاج پانی سے کیا۔ اس علاج کی تھیوری یہ ہے کہ ہم جو بھی خوراک استعمال کرتے ہیں جسم میں تکسید (Oxidition) کا عمل ہوتا ہے۔ توانائی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ، پوٹاشیم فاسفیٹ ، لیکٹک ایسڈ، پسینہ، پیشاب، فضلے کی صورت میں خارج ہو جاتے ہیں۔ ہماری خوراک صحیح نہ ہو تو ہاضمے کا نظام خلل پذیر ہو کر نظام اخراج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جسم سے فاسد مادے خارج نہ ہوں تو انسانی صحت نارمل رہنے کے بجائے خراب ہونے لگتی ہے۔ مرض جو بھی ہو ، بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ جسم کے فاسد مادوں کا صحیح اخراج نہیں ہو پاتا۔

پانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ مختلف پودوں میں بھی اس کی مقدار 50 سے 80 فیصد تک ہوتی ہے۔ دو تہائی سے زیادہ سطح زمین پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔ دریاؤں ، سمندروں ، کنوؤں کے پانی میں سوڈیم، کیلشیم اور میکنیشیم کے کلورائیڈ، سلفیٹ، کاربونیٹ، بائی کاربونیٹ نمکیات شامل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر غلیظ اجزا کو صاف کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی میں آئیوڈین اور فلورائیڈ جیسے اجزا کم ہونے سے گلہڑ اور دانتوں کی خرابی پیدا ہوتی ہے۔ پرانی پائپ لائنوں سے سیسہ چھوٹ چھوٹ کر پانی میں شامل ہوتا ہے جس سے ذہنی پسماندگی اور اعصابی امراض جنم لیتے ہیں۔ نئے طریق پر کلورین پانی میں ملائی جاتی ہے تاکہ وہ صاف ہو جائے مگر اس کی کثرت بھی مضر صحت ہے۔

پانی دو بے رنگ گیسوں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے بنتا ہے۔ اس کے ہر سالمے (Molecule) میں ہائیڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک جوہر ہوتا ہے۔ ہائیڈروجن ایک یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب پانی ہے۔ اسی سے ہائیڈروجن کا نام دیا گیا ہے ، یعنی پانی پیدا کرنے والی... کیونکہ ہائیڈروجن جب ہوا میں جلتی ہے تو پانی پیدا ہوتا ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی۔ مدتوں پہلے یہی بات قرآن پاک میں سورۂ انبیاء میں بیان ہوئی ہے: ‘‘کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین کے منہ بند تھے، پھر ہم نے ان دونوں کے دروازے کھول دیے اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا۔’’

گندھک اور خاموش آتش فشاں پہاڑوں کی تہوں سے نکلنے والا پانی گرم ہوتا ہے اور جلدی امراض کے لیے اکسیر ۔ لاہور میں ہال روڈ پر پمپ کا پانی جلدی امراض کے لیے مشہور رہا ہے۔ یہاں آ کر لوگ بچوں کو نہلاتے اور خود نہا کر شفا حاصل کرتے تھے۔ کراچی میں منگھو پیر کے مقام پر ایک زمانے میں لوگ نہانے کے لیے جایا کرتے تھے۔ سری نگر اور ایبٹ آباد کے پانی میں بھاری معدنیات شامل ہیں جن سے کھانا جلدی ہضم ہوتا ہے۔

آج کل گھروں میں سوئی گیس کے ہیٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان سے جہاں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے وہاں نقصان بھی ہوتا ہے۔ ہوا کی نمی ختم ہو جاتی ہے۔ سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے۔ سوئی گیس کے ہیٹر کے سامنے ایک کھلے برتن میں پانی بھر کر سطح کے برابر رکھا جائے اور تین چار گھنٹے بعد پانی تبدیل کر دیا جائے تو گیس کے مضر اثرات ختم ہو جائیں گے۔

گرم پانی کے غرارے کرنے سے گلے کو آرام ملتا ہے۔ نزلہ کنپٹیوں میں جم کر سخت تکلیف دیتا ہے۔ اس کے لیے پانی گرم کر کے بھاپ لی جائے تو فوری طور پر آرام آتا ہے۔ بھاپ لینے کے بعد ہوا میں جانے سے گریز کیا جائے۔ فلو ہو جائے تو یوکلپٹس آئل کے دو چار قطرے گرم پانی میں ڈال کر بھاپ لینے سے ناک اور گلے کا ورم دور ہو جاتا ہے۔ یوکلپٹس آئل نہ ہو تو تھوڑی سی وکس ملا کر بھاپ لیجیے۔ بطور غذا آپ دو تین بوٹیوں میں ایک دو ہڈیاں اور لہسن، ادرک، کالی مرچ، پیاز، نمک ڈال کر سوپ بنائیے۔ گرم گرم سوپ پینے سے فائدہ ہو گا۔ اس میں آپ سبزی بھی ملا سکتے ہیں۔ چائے بنائیے تو اس میں دار چینی کا ایک ٹکڑا شامل کیجیے۔ آپ ادرک اور لہسن ملا کر کالے چنے کا شوربا بھی پی سکتے ہیں۔ لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی استعمال کیجیے۔ چنے کا پانی جسمانی قوت کے لیے بہت اچھا ہے۔ 20 گرام چنے رات کے وقت ایک گلاس پانی میں بھگوئیے، صبح خوب چبا چبا کر کھائیے اور پانی میں ایک چمچہ شہد ملا کر پی لیجیے۔

پانی میں لیموں کا رس اور شہد ملا کر پینے سے موٹاپا کم ہوتا اور ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے۔ پہلے زمانے میں بھاپ سے علاج کیا جاتا تھا۔ مختلف جڑی بوٹیاں پانی کے دیگچے میں پکا کر ان کی بھاپ مریض کو دی جاتی جس سے پسینہ آ کر اسے فائدہ ہوتا۔ جلدی امراض میں نیم کے پتے ڈال کر پانی سے نہایا جاتا۔ بغلوں کی بدبو کے لیے گلاب کے پھول پانی میں استعمال کیے جاتے۔ بیری کے پتے آج بھی پانی میں ڈال کر غسل میت کرایا جاتا ہے۔ پاؤں پھٹ جائیں تو گرم پانی میں شلجم کے قتلے یا صرف نمک ڈال کر پاؤں کچھ دیر بھگونے سے آرام آتا ہے۔

بخار کی تیزی میں ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنے سے بخار کی تیزی کم ہو جاتی ہے۔ چوٹوں اور زخموں کو پانی سے اچھی طرح دھویا جائے تو وہ خراب نہیں ہوتے۔ چوٹ پر برف ملنے سے ورم نہیں ہوتا۔ مغرب میں پانی سے علاج کیا جاتا ہے جسے ہائیڈرو تھراپی کہا جاتا ہے۔ پانی مختلف طریقوں سے پلایا جاتا اور نہلایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بھی بیماریوں کے علاج میں پانی سے غسل کرنے کے طریقے ہیں جن سے گردے کی پتھری اور دیرینہ قبض کی شکایت ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار کا بہترین علاج پانی ڈالنا قرار دیا ہے۔ اپنی علالت کے دوران جسم پر آپؐ نے کئی مرتبہ پانی ڈلوایا۔ جنگ احد میں آپؐ نے زخموں کا علاج بار بار پانی سے دھو کر کیا۔

اسہال اور قے کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن ہو جاتی ہے کیونکہ پانی نکلنے سے خون گاڑھا اور پیشاب کا اخراج کم ہو جاتا ہے۔ نمکول یا شہد اور پانی ملا کر پینے سے یہ شکایت دور ہو جاتی ہے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے استعمال میں کفایت کی تاکید فرمائی ہے۔ پانی ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ نعمت رب جلیل ہے۔ آپؐ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ وضو کرتے وقت تمہارے سامنے بھرا ہوا دریا ہو تب بھی پانی ضائع نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے جنت میں جن عمدہ چیزوں کا ذکر کیا ہے، ان میں پانی بھی شامل ہے۔ سورۂ محمد میں ہے: ‘‘وہاں پر ایسے پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی خراب نہ ہو گا۔’’

آب رواں کو دیکھنے سے نظر تیز ہو تی ہے۔ کھڑے پانی میں نجاست نہیں پھینکنی چاہیے اور نہ پیشاب کرنا چاہیے۔

خواتین کو چاہیے کہ بچوں کو شروع سے پانی پینے کی عادت ڈالیں۔ انہیں آئس کریم، کوکا کولا وغیرہ کے بجائے شہد اور پانی ملا مشروب دیں۔ سادہ پانی دن میں کئی بار پلائیں۔ چھوٹے بچوں کو ابال کر پانی دیں۔ بچوں کو شروع سے پانی پینے کی عادت ہو گی تو وہ تمام عمر نت نئی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ جوگیوں کا کہنا ہے کہ دو گلاسوں میں تھوڑا تھوڑا پانی لے کر ایک گلاس کے پانی کو دوسرے گلاس کے پانی میں انڈیلا جائے ۔ اس طرح پانی میں زندگی بخش اثرات شامل ہو جاتے ہیں۔

پانی کو ریت میں رکھنے سے وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ پیاس کو تسکین دیتا ہے۔ پانی کے گھڑوں کو ریت میں دبا دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ اور اس کی کثافت نیچے بیٹھ جاتی ہے۔

مٹی اور پٹرول کے دھویں کی وجہ سے گلے میں الرجی ہو جاتی ہے۔ فضا میں کثافت ہو تو سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں سوتے وقت سادہ پانی کی بھاپ چند منٹ لی جائے تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ گلے کی خراش، ورم اور ناک کی سوزش دور ہو جاتی ہے۔ یہ بے ضرر علاج ہے۔

(بحوالہ قدرتی غذاؤں کا انسائیکلوپیڈیا، ترتیب و تحقیق ، مسعود احمد خان درانی)

٭٭٭