تیسری جنس کے طبی مساءل

مصنف : لبنیِ مرزا

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : مئی2016

طب و صحت 
تیسری جنس کے طبی مسائل 
لبنیٰ مرزا

 

دنیا ایک حیرت کدہ ہے۔ ہم سب انسان انفرادی طور پر دنیا کو صرف اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ایک انسان دوسرے انسان کے احساسات، جذبات اور مسائل کو آسانی سے نہیں سمجھ سکتا ہے۔ پھر اگر یہ انسان کسی اور وقتوں کے ہوں یا ہمارے ماحول سے کہیں دور رہتے ہوں تو پھر ہمیں ان کو سمجھنا اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ زبان سیکھنے سے، لکھنے اور پڑھنے سے اور کہانیوں، موسیقی اور گیتوں سے انسان ایک دوسرے کے حال کو جاننے لگے، پھر آج کے دور کی ایجاد انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے لائق بنے جس کی وجہ سے ایمپتھی (Empathy) یعنی دوسرے انسانوں پر بیتنے والی حالت کو سمجھنے میں مدد ملی۔

میں ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہوں۔ اینڈوکرنالوجی ہارمون سے متعلق بیماریوں کے علم کو کہتے ہیں۔ ذیابیطس چونکہ انسولین کی کمی یا اس کے درست طریقے سے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہو جاتی ہے، اور انسولین ایک ہارمون ہے، یہ ہماری پریکٹس کا بڑا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ہم لوگ تھائرائڈ اور دیگر ہارمون کی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ اینڈوکرنالوجی ایک پیچیدہ مضمون ہے جس میں جسم کے مختلف ہارمون ایک دوسرے کے ساتھ ایک توازن میں موجود ہوتے ہیں۔ میں نے 2008 سے 2010 کے درمیان یونیورسٹی آف اوکلاہوما سے اینڈوکرنالوجی میں فیلوشپ کی۔ پاکستان میں?اس وقت ابھی اس فیلڈ میں فیلوشپ شروع نہیں ہوئی تھی اور میں چانڈکا میڈیکل کالج کی پہلی ایسی ڈاکٹر بن گئی جو ایک اینڈوکرنالوجسٹ ہو۔ بہرحال یہ صرف ایک پس منظر ہے اور آج کا پیپر میرے بارے میں نہیں بلکہ اینڈوکرنالوجی کے ایک نازک موضوع پر ہے۔
میں نے اپنی فیلوشپ کے دوران وی اے ہسپتال میں کام کیا جہاں ہم لوگ ہفتے میں دو کلینک کرتے تھے ایک ذیابیطس کا اور دوسرا جنرل اینڈوکرنالوجی کا۔ ایک دن میں مریض دیکھ رہی تھی اور ایک خاتون آئیں۔ وہ بوڑھی تھیں، نہایت شائستہ، اچھے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے، بال سلیقے سے بنے ہوئے اور بغل میں پرس دبایا ہوا تھا۔ جب میں نے ان کا چارٹ کمپیوٹر میں کھول کر دیکھا تو مجھے یہ پڑھ کر ایک جھٹکا سا لگا کہ وہ ہمیشہ سے ایک خاتون نہیں تھیں بلکہ انہوں نے بہت سال پہلے 18 سال کی عمر میں اپنی جنس مرد سے خاتون کروالی تھی اور اپنی تمام زندگی ایک خاتون کی طرح گذاری۔ اگر میں نے ان کو سڑک پر دیکھا ہوتا تو میں ان کے بارے میں یہ بات ہرگز نہیں جان پاتی۔ میں نے اپنی حیرت کو ان پر ظاہر ہونے نہیں دیا اور پروفیشنل طریقے سے ہی ان کی ہسٹری لی، ایگزام کیا اور دوا کا ری فل ان کو دیا۔ یہ پہلا واقعہ تھا جب میں ایسے کسی انسان کو کتابوں سے باہر دیکھا ہو۔
آج تک میں نے جتنے بھی مریض دیکھے اور جتنی بھی حیرت انگیز بیماریوں کے بارے میں سیکھا ان میں سے سب سے زیادہ مشکل، پیچیدہ اور نہ سمجھ آنے والا موضوع ہے ٹرانس جینڈر کے علاج کا۔ یعنی کہ نہ تو کوئی خون کا ٹیسٹ ہے جس سے اس بیماری کو ثابت کیا جاسکے اور نہ ہی کوئی ایسا ماحولیاتی اثر ابھی تک ڈھونڈا گیا ہے جس کو لے کر ہم یہ کہہ سکیں کہ اس وجہ سے ان مریضوں کو یہ پرابلم ہے۔
مجھے بچپن سے ہی کہانیاں پڑھنے کا جنون تھا اور میں نے پچھل پیری کی کہانیوں کے علاوہ عمران سیریز، انسپکٹر جمشید، نواب محی الدین کی سسپنس میں سیریز دیوتا، لمبے ناول جیسے کہ آدھا چہرہ اور ناگ عنبر ماریا اور کیٹی کی ۳۰۰ سے زیادہ قسطیں میڈیکل کالج جانے سے کافی پہلے ہی پڑھ لی تھیں۔ مجھے ایسی کہانیاں پڑھنا آج بھی یاد ہے جن میں ٹرانس جینڈر افراد کا ذکر تھا۔ ایک کہانی میں فیملی پلان بناتی ہے کہ لڑکی کا ریپ کروائیں تو وہ خود کو لڑکی سمجھنے لگے گی۔ یہ سننے میں پاگل پن لگ رہا ہو گا لیکن میں نے یہ بات ایک ڈاکیومینٹری میں بھی سنی تو معلوم ہوا کہ لوگ اس طرح کے فضول اور بے فائدہ خیالات اور عقائد رکھتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے شعور بڑھانے کی ضرورت بھی ہے۔
اچھا اب کچھ لوگ کہیں گے کہ ایسی پاگل پنے کی بیماریاں محض مغربی ہیں۔ حالانکہ میرے اپنے کئی مریضں جو دوسرے ملکوں کے ہیں، ایرانی، برازیلی، امریکی، انگریز، کالے گورے، ہسپانوی سب۔ یعنی یہ مسئلہ ایک انٹرنیشنل مسئلہ ہے صرف مغربی نہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مغرب میں لوگوں کو اپنی زندگی اپنی مرضی سے سچی گزارنے کی آزادی ہے اور ہر ملک میں ایسا نہیں ہے۔ مجھے ایک مریض سے پتا چلا کہ برازیل میں ٹرانس جینڈر افراد کو قتل کردینے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
دو سال کی فیلوشپ کے دوران صرف دو ایسے مریض دیکھے۔ ایک دن ایک ینگ نرس آئی جس کے تھائرائڈ میں پرابلم تھی۔ جب میں نے اس کو بلایا تو اس کی شکل دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی تھی۔ وہ ویٹنگ ایریا میں ایک ایسے صاحب کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی جو ٹرانس جینڈر تھے۔ کہنے لگی کہ مجھے اس سے زیادہ تہذیب یافتہ ہونا چاہئیے لیکن میں اس لمبے چوڑے آدمی کو خواتین کے کپڑے پہنے دیکھ کر اپنی ہنسی نہیں روک پا رہی ہوں۔ ان صاحب کو کلینک میں سبھی جانتے تھے، انہوں نے جنگیں لڑی تھیں، کئی ناکام شادیاں بھی کیں، بچے بھی پیدا کئے، ہر وہ کام کیا جس سے وہ اپنے آپ کو نارمل محسوس کرسکیں لیکن ادھیڑ عمر ہونے کے بعد ، کئی طلاقوں اور خود کشی کی کوشش کے بعد انہوں نے اس بات کو ذہنی اور معاشرتی طور پر مکمل طور پر قبول کرلیا تھا کہ وہ اصل میں ایک خاتون ہیں۔ اور وہ اب ایسے ہی رہتے تھے۔ اس تجربے نے مجھے کافی سوچنے پر مجبور کیا۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم سب دنیا کے زیادہ تر لوگ جہاں بھی جائیں یہی چاہتے ہیں کہ ہماری طرف کسی کی توجہ نہ ہو، ہم جتنا ہوسکے کسی بھی ماحول میں رہیں و ویسے ہی نارمل دکھائی دیں۔ ہر کوئی فٹ ہونا چاہتا ہے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ آخر ان ٹرانس جینڈر لوگوں کی کیا پرابلم ہے؟ سارا جسم نارمل ہے پھر دماغ میں کیا خلل ہے؟
کیا یہ لوگ ہم جنس پرست ہیں؟ لیکن نہیں۔ ایک ہوتی ہے جینڈر یعنی کہ کوئی انسان مرد ہے یا خاتون۔ اور جنسیت دوسری چیز ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ سے انسانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ انیسویں صدی میں ٹرانس جینڈر افراد اور ان کے مسائل کے بارے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ دوائیں ایجاد ہو گئیں۔ اب ان مریضوں کی سرجری کے علاوہ ہارمون سے علاج بھی ممکن ہوگیا ہے۔
اوکلاہوما میں بوڑھے اینڈوکرنالوجسٹ ریٹائر ہونا شروع ہوئے تو ایسے مریض جو ان کو کافی برس سے دیکھ رہے تھے نئے ڈاکٹر تلاش کرنے لگے۔ جب ہمارے آفس میں کالیں آنا شروع ہوئیں تو ہم لوگوں نے میٹنگ بلائی کہ اب کیا کیا جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ دو مریض دیکھ کر کوئی بھی ڈاکٹر کسی شعبے میں ماہر نہیں کہا جا سکتا۔ میرا اپنا تجربہ زیادہ نہیں تھا اور میرے پارٹنر کا بھی نہیں۔ لیکن ہم سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ہم نے ان مریضوں کا علاج کرنے کی حامی بھری۔ مجھے آج بھی شروع کے دن یاد ہیں جب میں اینڈو سوسائٹی کی گائیڈ لائن کھول کر ایک ایک لائن دیکھ کر ان مریضوں کا علاج کرنا سیکھ رہی تھی۔
اب اس بات کو پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اوکلاہوما کی ساری اسٹیٹ میں سب سے زیادہ ٹرانس جینڈر مریض ہمارے کلینک میں ہیں۔ کچھ اینڈوکرنالوجسٹ ریٹائر ہوگئے، کچھ نے صاف انکار کردیا کہ ہمیں ان مریضوں کو دیکھنا ہی نہیں ہے اور ویسے بھی ہارمون کے ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اپنے منفرد تجربے کے بارے میں نہ صرف دیگر ڈاکٹروں کو بتانا ضروری ہے بلکہ عام افراد میں بھی شعور بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ جینڈر ڈسفوریا کے مریضوں میں جنس تبدیل کروا لینے کے بعد خود کشی کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ آج تک میں نے جتنے بھی ٹرانس جینڈر مریض دیکھے ہیں ان میں سے کسی نے بھی آگے چل کر یہ افسوس ظاہر نہیں کیا کہ ان کا جنس تبدیل کرلینے کا فیصلہ غلط تھا۔
پہلے زمانے میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خود کو غلط جسم میں سمجھنا یا ہم جنس پرست ہونا دماغی مسائل ہیں۔ پرانے سائکاٹرسٹ کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو اس بات پر رضامند کرلیں کہ وہ بھی دنیا کی اکثریت کی طرح نارمل بن جائیں۔ لیکن تجربے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایسا کرنے سے محض تمام لوگوں کا وقت برباد ہوتا ہے۔ یہ دماغی بیماریاں ہیں ہی نہیں بلکہ اقلیتی نارمل روئیے ہیں اور ان کو ایسے ہی دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ تمام انسان برابر ہیں۔ اگر ہم دوسرے انسانوں کے مسائل سمجھ نہیں سکتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن ان کے مسائل میں اضافہ ہرگز نہیں کرنا چاہئیے۔ کیا ضرورت ہے کہ بلاوجہ ان ٹرانس جینڈر افراد پر آپ ہنسیں، ان پر تشدد کریں، بلاوجہ ان کو ستائیں۔ اگر کسی کا بچہ آ کر بولے کہ میں غلط جسم میں ہوں تو ان کے دماغ کا علاج کرنے کے بجائے اس مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو دہری اور نقلی زندگی گذارنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔ ناخوش لوگ مل کر ایک خوش معاشرہ کبھی بھی نہیں بنا سکتے ہیں۔