رحمان ہے تو خالقِ لیل و نہار ہے
افکار کے ہجوم میں دل کا قرار ہے
تیرے ہی فضلِ خاص سے گلشن کی نکہتیں
رنگینیوں کے بیچ میں قائم بہار ہے
صانع کی زر گری میں ہیں پوشیدہ حکمتیں
خاروں میں پھول اور گلابوں میں خار ہے
کر لو تم اس کے آگے جبینِ نیاز خم
غیر کے در پہ سر کا جھکانا عار ہے
باہر ہیں تیری نعمتیں حد و شمار سے
مخلوق لمحہ لمحہ، تیری زیر بار ہے
تجھ پر ہی اعتماد ہے دریا کی موج میں
خاموشیوں کے خوف میں تو غمگسار ہے
تیرے کرم نے سب کو سکھائی ہے آگہی
وہ فلسفیِ دہر ہے یا شیر خوار ہے
قادر کی حکمتوں کی کوئی انتہا نہیں
طائف چمن ہے، ارضِ حرم ریگزار ہے
ہر لمحہ نعمتوں میں ہے ڈوبا ہوا رضاؔ
تیری مدد سے اس کا قلم ذوالفقار ہے