وہ اپنی بیٹی کو رخصت کرنے ایئر پورٹ آئی تھی۔ فلائٹ کا اعلان ہوچکا تھا اور مسافر دھیرے دھیرے ،اداس چہرے لیے اپنوں سے رخصت ہو رہے تھے۔ اس نے بھی اپنی بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیا، اس سے بغلگیر ہوئی اور کپکپاتی آواز میں کہا‘خدا حافظ’ میری بیٹی ، میں تمہارے لیے ‘‘اتنی ’’ کی تمنا کرتی ہوں۔بیٹی نے کہا ، امی جان، میری بھی آپ کے لیے یہی تمنا ہے ۔ اور پھر آنکھوں میں آنسو لیے، آہستہ آہستہ چلتے او رہاتھ ہلاتے ہلاتے وہ بھی رخصت ہو گئی۔ماں کچھ دیر سیکورٹی گیٹ کے پاس کھڑی کالے شیشوں کے اُس پار بیٹی کو دیکھنے کی کوشش کرتی رہی اور جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو وہاں سے ہٹ آئی اوردیوار سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔وہ دور خلاؤں میں گھور رہی تھی اور اس کے چہرے کی زردی اس کے اندر بپا طوفان کا پتا دے رہی تھی۔وہ کچھ دیر خود کو سنبھالتی ر ہی اور پھر اس نے ‘‘مسافر’ ’سے کہا کہ کیاتم نے کبھی، کسی کو، اس طرح رخصت کیا ہے جب کہ تم کو یہ معلوم ہو کہ یہ رخصت کرنا ہمیشہ کے لیے ہے۔مسافر نے کہا ، نہیں، ایسا تجربہ تو نہیں ہوا۔ لیکن ، مسافر نے پوچھا ، آپ کا یہ رخصت کرنا ہمیشہ کے لیے کیوں ہے؟ اس بات کا جوا ب دیتے ہوئے اس کے صبر کا بندھن ٹوٹ گیا اوراس نے برستی آنکھوں سے کہا، میں بہت بوڑھی ہو چکی ہوں، صحت میرا ساتھ نہیں دیتی۔وہ سات سمندر پار رہتی ہے ، وہاں سے جلد لوٹ کے آنہیں سکتی۔ میر ی صحت مجھے بتا رہی ہے کہ اب اسے میرے جنازے پر ہی آنا ہو گا۔ اور پھر اس نے ہولے سے کہا ، وہ بھی بیچاری اگر آسکی تو۔۔۔۔مسافر خاموش ہو گیا ۔ جب وہ چلنے لگی تو مسافر نے کہا اگر آپ محسوس نہ فرمائیں توایک بات پوچھوں۔ اس نے کہا پوچھو۔مسافر نے کہا، یہ جو آپ نے کہا تھا کہ بیٹی میں تمہارے لیے ‘‘اتنی’’ کی تمنا کرتی ہوں، اسکا کیا مطلب ہے۔وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرائی ، اور پھر اس نے کہا کہ میری والدہ بھی مجھے ایسے ہی کہا کرتی تھیں اور جب میں نے ان سے پوچھا تھا تو انہوں نے مجھے کہا تھا کہ ان کی والدہ بھی انہیں ایسے ہی کہا کرتی تھیں۔مسافر نے کہا ،شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے لیے اتنی چیزوں ، اتنی خوشیوں ، اتنے نفع ، اتنے پیاراور اتنے اپنوں کی تمناکرتی ہوں کہ جس سے تمہاری زندگی آرام سے بسر ہو سکے ۔ اس نے کہا ہاں ، شاید یہی مطلب ہے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں تمہارے لیے اتنی محرومیوں، اتنے غموں،اتنے نقصان ،اتنی نفرت اور اتنے غیروں کی بھی تمناکرتی ہوں کہ جس سے تمہیں چیزوں،خوشیوں ، نفع ،پیار او راپنوں کی قدر کرنا آ جائے۔یہ کہتے ہوئے وہ ایئر پورٹ سے نکل گئی اور مسافر سوچنے لگا کہ یہ رخصت ہونا اور رخصت کرنا بھی اک عجیب تجربہ ہے ۔ زندگی میں بارہا انسان کو اس تجربے سے گزرنا پڑتا ہے مگر ہر تجربے کی نوعیت الگ ہوتی ہے ۔ بھائی بہنوں کو ، باپ لاڈلیوں کو اورمائیں بیٹیوں کواپنے گھر رخصت کیا کرتی ہیں،یہ بھی یقینا دل فگار لمحے ہوتے ہیں مگر رخصت کرنے یا ہونے کاجو تجربہ ایئر پورٹ پر ہوتاہے وہ سب سے الگ ہے ۔ ایئر پورٹ پر جب مائیں اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کو، بیویاں اپنے خاوندوں کو ، بیٹے بیٹیاں اپنے باپوں کو اور بہنیں بھائیوں کو رخصت کرتی ہیں تو ان کے دل کوساتھ ہی یہ دھڑکا بھی لگا ہوتا ہے کہ جانے اب ملنا ہو گا بھی کہ نہیں کیونکہ جانے والا ایسی دنیا میں جا رہا ہوتا ہے کہ جہاں بہت سی چیزیں اس کے بس میں نہیں ہوتیں اور بعض اوقات وہ آناچاہے بھی تونہیں آ سکتا اور بعض اوقات آ بھی پائے تو وقت آگے نکل چکا ہوتاہے۔ مجبوریوں کی زنجیروں کی جو جھنکارغریب ملکوں کے ایئر پورٹس پر سنائی دیتی ہے اس طرح کی جھنکار شاید کہیں اور سنائی نہیں دیتی۔مسافر سوچوں کے دائرے کے مرکز میں پہنچا تو اسے یا د آیا کہ ایک رخصت ہونا وہ بھی ہے جب انسان دنیا سے ہی رخصت ہوجاتا ہے ۔ اس نے سوچا کہ اس وقتِ رخصت دل کی جو کیفیت ہو گی اس کا بیان شاید الفاظ کے احاطے سے باہر کی چیز ہے۔ جب چند پیاری چیزوں اور چندپیاروں سے وقتی رخصت کااتناکرب ہوتاہے تو سب پیار ی چیزوں اور سب پیاروں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتے وقت کیسا کرب اور کیسی اذیت ہو گی۔مسافر اپنی سوچوں کے سفر میں یہیں تک پہنچا تھا کہ اس کی فلائٹ کا بھی اعلا ن ہو گیا اور وہ بھی اپنوں کی طرف ہاتھ ہلاتاہلاتا رخصت ہوگیا۔جہاز میں بیٹھا توسوچوں کے بادل پھر امڈ آئے اس نے اپنے ساتھ بیٹھے معزز مسافر سے پوچھا کہ ہمیں رخصت ہوتے وقت تکلیف کیوں ہوتی ہے ۔ معززمسافر نے اسے غور سے دیکھا اور اپناچشمہ اتارتے ہوئے کہا اس لیے کہ ہما را دل ان میں اٹکا ہوتا ہے۔ دل کو وہاں سے ہٹالو، تکلیف نہیں ہو گی۔اور پھر معزز مسافر نے اس کی سوچوں کو بھانپتے ہوئے کہا اسی لیے ہمیں دنیا سے جاتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارا دل دنیاکی ہر ہر چیز میں اٹکا ہوتا ہے ۔ اگر دنیا میں رہتے ہوئے ہم دل کو دنیا سے نکال لیں تو یقیناوقت رخصت ہمیں تکلیف نہ ہو گی۔ مسافر نے کہا دل کو دنیا سے نکالنے کا کیا طریقہ ہے ۔ معزز مسافر نے کہا وہی جو حضور ﷺنے فرمایا ہے کہ کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل۔مسافر کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کی آنکھوں پرپڑا پردہ ہٹ گیا ہو ۔ اور اس نے دیکھا کہ واقعی اب اسے باہر کی چیزیں صاف نظر آرہی تھیں۔