گوشہ اطفال
دوست ہو تو ایسا ہو
ڈاکٹر مشاہد رضوی
ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔ اس ٹولی میں دو بچّے بھی تھے ، جو اتنے شرارتی تھے کہ ان کے ماں باپ بھی ان سے بہت زیادہ تنگ آگئے تھے۔
اسی جنگل میں ایک ننھاژرافہ بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اوربھولا بھالا تھا۔ ایک مرتبہ چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتّے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژرافہ کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔ کیوں کہ ان بندروں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔
بندر کے ایک بچّے نے کہا:’’ ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آو! اسے چھیڑتے اور ستاتے ہیں۔‘‘
دونوں بندر کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہوکر ژرافہ گھاس کھارہا تھا۔ اس درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژرافہ سے کہا:’’ اے لمبو! تیرا کیانام ہے؟‘‘
ژرافہ نے بڑی نرمی سے کہا:’’ مَیں ژرافہ ہوں ،کیا مجھ سے دوستی کروگے ؟ تم لوگوں کے نام کیا ہیں ؟‘‘
دونوں بندر شرارت سے کھلکھلا کر ہنس پڑے او رکہنے لگے کہ :’’ تجھ سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے؟ کتنا بد صورت ہے تْو، مینا رکے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنا ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی! ‘‘ اتناکہہ کر دونوں بندر ژرافہ کو چڑانے لگے۔ اتناہی نہیں ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژرافے پر پھینک مارا۔ پھل ژرافے کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژرافہ کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کود تے پھلانگتے جنگل میں دور بھاگ گئے۔
ژرافہ بے چارہ روہانسا ہوکر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔
ایک دن دونوں شرارتی بندر وں نے یہ طَے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے اور سیر سپاٹا کرنے کے لیے چلیں گے۔ کیوں کہ وہ لوگ اپنی ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار سے بے حد تنگ آچکے تھے اور ان سے آزادی چاہتے تھے۔
صبح صبح جب باقی بندر سورہے تھے ، یہ دونوں شرارتی بندرچپکے سے نکل پڑے۔ کچھ ہی وقت میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہت دور نکل گئے۔ جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھاکر اپنی پیٹ کی آگ بجھائی۔ انھیں اس طرح گھومنے پھرنے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔
دوپہر ہوچلی تھی وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لیے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جاکر بیٹھ گئے ، اْس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کررہا تھا۔اور پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھرا میدان تھا اور میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔ بندراْس سہانے منظر میں ایسا کھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ لیکن جب شیر نے اْس کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو اڑانے کے لیے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔ شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔لیکن کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چوں کہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لیے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی اور ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرادیا۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا ، شیر کو بہت درد ہوا۔اس نے غصے سے دہاڑتے ہوئے ادھر اْدھر دیکھا جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔
بندر کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے ، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے ، کیوں کہ شیر آپے سے باہر ہورہا تھا۔ اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا :’’کیا تمہیں معلوم نہیں مَیں اس جنگل کا راجا ہوں اسی وقت فوراً اس درخت سے نیچے اترومَیں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔‘‘
بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔ انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔ شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر مزید غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بْری طرح لپٹ گئے۔
شیر نے چھلانگ تو بہت اچھی لگائی تھی لیکن وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیر نے دوبارہ زبردست چھلانگ لگائی۔ بندروں کی حالت بڑی پتلی ہوگئی تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں ان کی پکار سننے والا کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ تو اپنی ٹولی اور اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کر آئے تھے۔ اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہ تھا کہ وہ چھلانگ لگا کر اس پر چلے جاتے ، اور نہ ہی اس درخت پر کہ جس پر وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے اونچائی کی طرف کوئی مضبوط شاخ تھی جس پر جاکر وہ بیٹھ سکتے یوں سمجھ لیں کہ شرارتی اور نافرمان بندر آج بْری طرح پھنس گئے تھے۔ شیر کی تیز دہاڑ اور غراہٹ سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ رہے تھے۔ ان کا کلیجا بھی کانپ رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے تھے۔
وہ اس حالت میں تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھاکہ یکایک ان کے کانوں میں دھیمے سے آواز آئی کہ :’’ گھبراوْ مت ! مَیں تم دونوں کو یہاں سے نکال لے جاوں گا۔ چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اترآو۔‘‘
وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ٹھیک اوپردرخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژرافہ کا سر نکلا ہواتھا جس کی ان لوگوں نے ابھی کچھ دن پہلے خوب مذاق اڑائی تھی۔ بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژرافہ ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے۔اس ڑراف کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق وغیر ہ کا ذرابھی خیال نہیں ہے۔ دونوں بندروں نے اپنی نگاہیں نیچی کرلیں۔
ژرافہ نے کہا:’’ میرے دوستو! جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھاجائے گا۔‘‘
بندروں نے اب بلاجھجک اس کی گردن پر پھسلتے ہوئے ژرافہ کی پیٹھ پر سوار ہوگئے اورژرافہ انھیں لیے ہوئے تیز رفتاری سے وہاں سے کھسک گیا۔
شیر کو پہلے تو پتا نہیں چل سکا کہ کیا ماجرا ہے۔لیکن جب اس نے ژرافہ کی پیٹھ پر سوار ہوکر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔
بندر وں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لیے دوڑ لگارہا تھا اور غراتے جارہا تھا۔ ژرافہ نے بندروں کو سمجھایا کہ :’’ ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔‘‘
اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژرافہ نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژرافہ رک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔
تب ژرافہ نے ان دونوں سے کہا :’’ اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کی بہت مذاق اڑائی تھی نا ، آج دیکھ لیا نا کہ انھیں کی وجہ سے تم لوگوں کی جان بچ سکی ہے۔ لمبی گردن کی وجہ سے ہی مَیں تم دونوں کو دور سے دیکھ سکااور درخت سے تم کو اتار سکا۔ اور لمبی ٹانگوں کی وجہ سے تیز دوڑ سکا۔ ‘‘
بندر اس پر کیا کہہ سکتے تھے ، دونوں نے شرم کے مارے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں اور خاموش رہے۔
ان کی یہ حالت، خاموشی اور شرمندگی کو دیکھ کر ژرافہ نے ہنستے ہوئے خود کہا کہ :’’چلو! چھوڑو ان باتوں کو ، بھول جاو پچھلے قصے کو ، اب آج سے تو تم میرے دوست بن کر میرے ساتھ روزانہ کھیلو گے نا۔‘‘
ژرافہ کی یہ بھلائی دیکھ کردونوں شرارتی بندروں کی تو بولتی ہی بند ہوگئی۔ انھیں خود کی حرکتوں پر سخت غصہ آنے لگا کہ ان لوگوں نے اتنے اچھے اور پیارے ژرافہ کو کیوں ستایاتھا اور اس کی مذاق کیوں اڑائی تھی؟ ان دونوں نے اسی وقت ژرافہ سے معافی مانگی۔ ژرافہ نے کہا:’’ دوستو! معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
اتنے بڑے دل والے ژرافہ کی یہ باتیں سن کر ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ آج کے بعد سے وہ شرارت نہیں کریں گے۔ اور بڑی نرمی اور پیار سے ان دونوں نے ژرافہ سے کہا کہ : ’’ ہم نے تمہیں جان بوجھ کر بہت ستایا تھا ، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے ، نہ کسی کو بْرا بھلا کہیں گے اور رہی تمہاری بات تو آج سے تم ہمارے سب سے اچھے دوست ہو۔ کیوں کہ دوست وہی سچا ہے جو سکھ سے زیادہ دکھ میں کام آئے اور آج تم نے دکھ میں ہمارا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ تم ہمارے سچے دوست ہو۔
دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژرافہ کو بڑی خوشی ہوئی اور وہ خوشی سے ناچنے لگا۔