وارثان دولت فراعنۂ قدیم اور خدیوان مصر کے خاندان کا بانی یہی محمد علی پاشا تھا۔ یہ نامور شخص دنیا کے ان ممتاز لوگوں میں سے ہے جنھوں نے ادنیٰ درجے سے ترقی کرنا شروع کی اور بڑھتے بڑھتے اپنے آپ کو عروج و کمال کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا لیا۔ ایسے لوگوں کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان اپنے مقصد کے حصول میں سچا ہو تو اپنی ترقی اور عروج کی راہیں خود ہی پیدا کر لیا کرتا ہے۔ کسی قسم کی دشواریاں اور مشکلات اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتیں۔
یہ محمد علی پاشا البانیہ کا باشندہ تھا۔ جسے ترک ارناؤط کہتے ہیں۔ البانیہ جزیرہ نمائے بلقان کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ سارا ملک دشوار گزار پہاڑوں سے پٹا پڑا ہے۔ گویا حد درجہ پیچیدہ سلسلہ ہائے کوہ کی ایک لا ینحل گتھی ہے۔ اس کے سیاسی حالات بھی شروع ہی سے انتہائی الجھن آمیز رہے ہیں۔ اس سنگستانی سرزمین میں ایسے درشت مزاج، جفا کش اور خیرہ سر لوگ رہتے ہیں جو بات بات پر بگڑتے اور دل میں ٹھان لیں تو ہر کام کر گزرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
البانیہ عثمانی قلمرو میں شامل تھا۔ جب عثمانی سلطنت کو زوال آیا اور یورپی طاقتوں نے اس کے حصے بخرے کیے اور اس کے اکثر مقبوضہ علاقے خود مختار ملک بن گئے تو البانیہ بھی ایک الگ ملک کی حیثیت سے ابھر آیا۔ وہاں پہلے مسلمانوں کی اکثریت تھی اور عیسائی اقلیت میں تھے۔ پھر سیاسیات یورپ کی بازی گری نے ان دونوں میں مناقشوں اور محاذ آرائیوں کا دروازہ کھول دیا، جس کے نتیجے میں کمیونسٹوں کو وہاں اپنے قدم جمانے کا موقع مل گیا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہو گئی، روس کے زوال اور اس کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے بعد جب ان میں مذہب کی لہر تموج پذیر ہوئی تو البانیہ میں بھی احیائے مذہب کی تحریک پیدا ہوئی۔ مسلم اکثریت کے اس ملک نے اسلام کو اپنا مذہب قرار دے دیا۔ جس پر یورپی ممالک چراغ پا تو ضرور ہوئے، لیکن یوگو سلاویہ کے تجربے کے بعد انھوں نے اس جگہ عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ یوں بوسنیا و ہرزی گونیا کے بعد براعظم یورپ میں یہ دوسرا آزاد اسلامی ملک ہے۔
الغرض محمد علی اسی ملک کا ایک بہت ادنیٰ اور معمولی درجہ کا کسان تھا۔ اس کی کسانی میں بھی اتنی حیثیت نہ تھی کہ اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکے اس لیے وہ ترک وطن کر کے رومیلیا یعنی اس صوبہ میں چلا آیا جہاں قسطنطنیہ واقع ہے اور شہر قبالہ میں ایک چھوٹی سی دکان کھول لی۔ لیکن کسانی کی طرح دکانداری بھی اس کے معاشی حالات نہ سنوار سکی۔ مجبوراً اسے دکان بند کرنی پڑی۔ اس وقت اس کی عمر سولہ سترہ سال تھی، کوئی اور ذریعۂ معاش نہ دیکھ کر وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ یوں وہ اس راستے پر آ گیا جسے تقدیر نے اس کی ترقی و عروج کا راستہ بنا رکھا تھا۔ فوج میں بھرتی ہوتے ہی وہ تیزی سے ترقی کے مدراج طے کرنے لگا۔
اتفاقاً انھی دنوں کانڈیا یعنی کریٹ میں بحری قذاقوں نے سر اٹھایا۔ دولت عثمانیہ نے ان کی سرکوبی کے لیے جو فوج بھیجی اس میں محمد علی بھی تھا۔ وہاں بغاوت فرو کرنے اور قذاقوں کی سرکوبی کرنے میں اس نے ایسی بہادری اور جانبازی دکھائی اور ایسی ہوشیاری اور دانائی سے کام لیا کہ اس کے افسر اس سے بے حد خوش ہوئے۔ انھوں نے بابِ عالی میں اس کے کارناموں کی رپورٹ لکھ بھیجی۔ اس پر سلطنت اس کی قدردانی اور قدر افزائی پر آمادہ ہو گئی۔
چنانچہ ۱۲۱۹ ھ بمطابق ۱۷۹۰ ء میں محمد علی ایک البانوی لشکر کا سالار بنا کر مصر بھیجا گیا، تاکہ وہاں پر قابض فرانسیسیوں سے جنگ لڑے اور انگریزوں کا ساتھ دے جو مصر کو فرانس کے تصرف سے بچانا چاہتے تھے۔ اس وقت محمد علی کی عمر اکیس سال تھی۔ مگر اس کم عمری کے باوجود اس نے اس حکمت عملی اور شجاعت کے ساتھ فرانسیسیوں سے جنگ کی کہ انھیں مصر سے بھاگنا پڑا۔ مصر کو فرانسیسیوں سے خالی کرنے کے بعد وہ مصر میں ہی ٹھہر گیا۔
اس مہم میں محمد علی کو سب سے اہم اور قیمتی فائدہ یہ ہوا کہ انگریز اس کے دوست بن گئے، جن کی حالت دیکھ کر اس نے اپنی ذات اور فوج میں بہت سی اصلاحات کیں۔ اس نے اہل مصر کے ساتھ بڑی ہمدردی کی، رعایا کو اپنا دوست بنا لیا، وہ ہر قضیے اور جھگڑے کو والئ مصر اور شرفائے ملک کے درمیان ثالثی کر کے اہل وطن کی مرضی کے موافق طے کرا دیتا تھا۔ اس طرح رعایا میں اس کی ہر دلعزیزی بڑھتی گئی۔
پرانے ممالیک جن کے ذریعے دولت عثمانیہ نے کئی صدیاں قبل مصر کو فتح کیا تھا۔ اس وقت بھی موجود تھے۔ حکومت ہاتھ سے نکل جانے کے سبب وہ دبے ہوئے تھے، لیکن ختم نہیں ہوئے تھے۔ مصر کے سیاسی حالات دیکھ کر محمد علی نے اپنی ترقی و کامیابی کا ذریعہ انھی لوگوں کو بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے عروج و ترقی کے جو منصوبے اس نے اپنے دل میں بنا رکھے تھے، ان پر عمل درآمد شروع کر دیا۔
چنانچہ اس نے اب یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ابنائے وطن خصوصاً ممالیک کا حامی اور طرف دار بن گیا۔ اس نے ہرامر میں ان کی پشتیبانی کر کے انھیں اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اس کے حد درجہ وفادار اور جانثار بن گئے۔ ان دنوں باب عالی کی طرف سے مصر کا نائب خسرو پاشا تھا۔ محمد علی نے مصریوں کو اس کے خلاف ابھارنا اور نت نئے فتنے اٹھانے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ اہل مصر نے خسرو پاشا کے خلاف باقاعدہ بغاوت برپا کر دی اور محمد علی کو اپنا حاکم بنانے کا اعلان کر دیا۔ جب یہ ہنگامہ کسی بھی طرح موقوف نہ ہوا تو باب عالی نے مجبوراً ۱۸۰۱ ء میں محمد علی کو مصر کا گورنر بنا کر قاہرہ بھیج دیا اور اسے ‘‘پاشا’’ کے لقب سے بھی سرفراز کیا۔ پھر اس کی خوش انتظامی اور اطاعت گزاری دیکھ کر دوسرے سال اسے اسکندریہ کی نیابت بھی دے دی گئی۔ یوں سارا ملک مصر چند ہی سالوں میں اس کے زیر نیابت آ گیا۔ باب عالی نے بظاہر تو یہ ترقیاں اس کو اس لیے دی گئیں کہ وہ ان کا اہل تھا۔ اور اس نے سلطنت کی بڑی قابل قدر خدمات انجام دی تھیں۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ اس نے باب عالی کے تمام وزیروں اور سلطنت کے اکابر اہل کاروں کو بے انتہا رشوتیں دے کر اپنا حامی و مددگار بنا لیا تھا۔
اس انقلاب نے مملکوں اور امرائے مصر کاحوصلہ بڑھا دیا۔ ان کے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم بادشاہ گر ہیں، حکومتیں بدلنا ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم جب چاہیں سرکشی کر کے ایک حاکم کو نکال کر اس کی جگہ نیا حاکم لا سکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب محمد علی پاشا بلا شرکت غیرے مصر کا حاکم ہو گیا تو یہ لوگ اس کی اطاعت میں بھی چون و چرا کرنے لگے۔ یوں ہر دم ان کی طرف سے بغاوت کا اندیشہ لگا رہنے لگا۔ سلطان کے دربار کو تو محمد علی رشوتیں دے کر اپنا موافق بنا چکا تھا۔ مگر ان لوگوں کو سیدھا کرنا اسے بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا تھا۔
لیکن محمد علی پاشا کمزور طبیعت کا حاکم نہ تھا کہ ان سے دب کر رہ جاتا ، نہ ایسا نرم دل اور سادہ لوح تھا کہ ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جاتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اسے امرائے مصر اور مملوکوں کی قوت کا خاتمہ کر دینا چاہیے۔ پہلے اس نے افہام و تفہیم اور حکمت علمی سے کام لیتے ہوئے انھیں اپنا مطیع و منقاد بنانے کی کوشش کی مگر مطلق کامیابی نہ ہوئی۔ آخر اس نے ۱۲۴۰ ھ بمطابق ۱۸۱۱ ء میں قاہرہ کی شہر پناہ میں چار سو ستر مملکوں اور سرکش امیروں کی دعوت کی اور جب وہ مصروف ناؤ نوش تھے تو ان پر شمشیر بکف سپاہی ٹوٹ پڑے اورآناً فاناً انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ ساتھ ہی اس نے حکم دیا کہ جہاں کہیں بھی کوئی مملوک یا ا ن لوگوں کا طرف دار ملے اسے فوراً قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ اس دعوت میں قتل ہو جانے والے مملکوں اور سرکش امرائے مصر سمیت مصر بھر میں بارہ سو کے لگ بھگ ممالیک اور دیگر امرائے مصر قتل ہوئے۔ یوں دو چار دنوں میں ہی تمام مفسدوں اور سرکشوں کا صفایا ہو گیا اور ہر جگہ محمد علی پاشا کا ایسا رعب بیٹھ گیا کہ ملک بھر میں کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے سامنے چوں بھی کر سکے۔ لوگ اس کے نام سے کانپتے اور اس کی صورت سے ڈرتے تھے۔ ملک میں تمام مخالفانہ قوتیں فنا ہو گئیں۔ اور ساحل بحر روم سے مصر کی افریقی سرحدات تک ہر جگہ محمد علی پاشا کی دھاک بیٹھ گئی۔
اسی اثنا میں ارض حجاز میں وہابی اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ لوگ حنبلی یا اہل حدیث تھے۔ توحید کے زبردست حامی اور شرک و بدعات کے سخت مخالف اور قبر پرستی کے سخت دشمن تھے۔ ان میں عبد الوہاب نامی ایک مجدد دین پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے ان کا مقتدا بن کر سارے نجد کو اپنے زیر فرمان کر لیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے محمد بن عبد الوہاب مسند نشین ہوئے۔ انھوں نے قوم کا مقتدا بن کر اس میں حد سے زیادہ دینی جوش پیدا کر دیا اور فتویٰ دے دیا کہ جو لوگ شرک و بدعات میں مبتلا ہوں اور قبر پرستی کی لعنت میں مبتلا ہوں پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں، ان کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔
یہ فتویٰ سنتے ہیں سارا نجد جہاد کے لیے کھڑا ہوا۔ اور سب نے یکایک نرغہ کر کے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ پر قبضہ کر لیا۔ گو اس میں شک نہیں کہ ان میں اعلیٰ درجہ کی بدوی شجاعت موجود تھی، مگر یہ تمدن سے کوسوں دور تھے۔ جس کے باعث حرمین شریفین میں ان کے ہاتھوں لوگوں پر حد درجہ ظلم ہوا۔ کہتے ہیں کہ سوائے روضۂ اقدس کے انھوں نے تمام قبریں پیوند زمین کر دیں۔ اس لیے کہ حدیث مبارک ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی تھی کہ ‘‘جو قبر ملے اسے کھود کر زمین کے برابر کر دینا۔’’
دولت عثمانیہ کو جب نظر آیا کہ وہابیوں نے حرمین پر سے ترکوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے، تو محمد علی پاشا کے نام سلطانی فرمان جاری ہوا کہ فوراً جا کر وہابیوں کی سرکوبی کرے، اور حرمین شریفین میں پھر ترکی علم بلند کرے۔ محمد علی پاشا ایک زبردست فوج لے کر ارض حجاز روانہ ہو گیا۔ چھ سال کی مسلسل خونریز جنگوں کے بعد اس نے بالآخر وہابیوں کو حرمین شریفین سے نکال کر دوبارہ ارض نجد کی طرف بھگا دیا۔ اور حرمین شریفین کا طریق احسن انتظام کر کے مصر واپس آ گیا۔
محمد علی پاشا کی زندگی اولو العزمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ارض حجاز کی مہم سے فراغت ملی تو اس نے اپنے بیٹے اسماعیل پاشا کو ایک زبردست لشکر دے کر مملکت نوبیہ (سوڈان) روانہ کیا تاکہ اسے فتح کر کے مصری قلمرو میں شامل کر دے۔ اسماعیل پاشا نے اپنی اس مہم میں بڑی کامیابی حاصل کی اور علاقہ جات ڈنگولہ، سنعار اور کردخان وغیرہ فتح کر کے اپنے زیر نگین کر لیے۔
ادھر محمد علی پاشا نے نوبیہ کو فتح کیا، ادھر یورپی ملکوں کے بھڑکانے اور اکسانے پر یونانیوں نے دولت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ سلطان نے باغیوں کی سرکوبی کے لیے فوج بھیجی۔ محمد علی پاشا نے بھی چھ سو تریسٹھ جہازوں کا ایک زبردست بیڑہ سواحل یونان پر بھیجا، جس کا امیر البحر اس کا بیٹا ابراہیم پاشا تھا۔ اس مصری بیڑے نے یونانیوں کو حواس باختہ کر دیا۔ یہ بیڑہ جس شہر میں پہنچا اسے تہہ و بالا کر دیا۔ اور اس کے سپاہیوں نے جہاں کہیں خشکی پر قدم رکھا، یونانیوں کو مار کاٹ ڈالا۔ کئی مہینوں تک ان مصری جہازوں نے یونانیوں کو نہایت ہی پریشان رکھا، اہل یورپ نے جب یہ دیکھا کہ یونان کے بنائے کچھ نہیں بنتی تو انھوں نے آواز بلند کی کہ ‘‘یونان کو آزادی دی جائے’’۔ باب عالی نے اس کی کچھ پروا نہ کی۔ اس پر برطانیہ، فرانس اور روس کے متحدہ بیڑے یوناینوں کی مدد کو جاپہنچے۔ خلیج نیوارینو میں ۱۲۵۲ ھ بمطابق ۱۸۲۷ء میں دنیا کی یادگار بحری جنگ ہوئی۔ جس میں یورپ کے متحدہ بحری بیڑے نے عثمانی اور مصری بحری بیڑوں کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اور یہی وہ بدنصیبی کا دن تھا جب دولت عثمانیہ کی بحری طاقت کا خاتمہ ہوا۔ اب یورپ کی خواہش کے مطابق صلح ہوئی، جس کی رو سے یونان کو آزادی ملی اور ڈنمارک کا ایک شہزادہ وہاں کا حکمران بنا دیا گیا۔
گو کہ ترکوں کا اس جنگ میں بڑا بھاری نقصان ہوا تھا۔ باب عالی نے یہ تسلیم کیا کہ محمد علی پاشا کی فوج اور بیڑے سے سلطان کو بڑی مدد ملی۔ اس صلہ میں اسے کانڈیا یعنی کریٹ کی گورنری بھی عطا کی گئی۔ مگر یہ انعام اور معاوضہ محمد علی پاشا کی امید سے بہت کم تھا۔ اس نے درخواست کی کہ تمام شام کی گورنری بھی مجھے عطا کی جائے۔ باب عالی نے یہ درخواست منظور نہ کی،اس پر برافروختہ ہو کر محمد علی پاشا نے شام پر چڑھائی کر دی۔ سلطان کا لشکر ملک شام سے دور اور غیر منظم حالت میں تھا۔ بخلاف اس کے مصر کی سرحد شام سے ملی ہوئی تھی اور محمد علی پاشا کا لشکر بھی خوب منظم اور تیار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مصری فوج شہر پر شہر فتح کرتی چلی گئی، اور سلطان سے کچھ بنائے نہ بنی تھی۔ آخر چند ہی روز میں سارا ملک شام محمد علی پاشا کے زیر نگین ہو گیا۔ اور وہ فاتحانہ ایشیائے کوچک میں داخل ہو گیا۔ وہاں شہر قونیہ کے نزدیک ترک افواج اور محمد علی پاشا کی فوجوں میں بڑی گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں ترک افواج کو شکست ہو گئی اور محمد علی پاشا قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
مگر یہ امر یورپ کی پالیسی کے خلاف تھا کہ حاکم مصر سلطان ترکی پر غالب آ جائے اور مشرق میں ایک نئی زبردست حکومت قائم ہو جائے۔ سب نے درمیان میں دخل دیا اور پیش قدمی کی صورت میں محمد علی پاشا کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی۔ اس نے اپنے آقا و مربی کے کہنے کی تو کچھ پروا نہ کی تھی لیکن یورپ والوں کی دھمکیوں سے ڈر گیا اور صلح پر آمادگی ظاہر کی۔ شہر قطاہیہ میں دونوں طرفین کے سفرا نے معاہدۂ صلح کی تکمیل کی جس کی رو سے محمد علی پاشا کو شام اور مصر کے علاقوں کا حکمران تسلیم کر لیا گیا۔
اب ۱۲۶۸ ھ بمطابق ۱۸۳۹ ء میں جبکہ محمد علی پاشا کی عمر ستر سال ہو چکی تھی اور وہ بڑی حکمت عملی ہوشیاری اور حسن تدبیر کے ساتھ مصر، سوڈان، شام عرب اور جزیرہ کریٹ پر حکومت کر رہا تھا کہ سلطان ترکی محمود خان ثانی کو خیال ہوا کہ شام کا علاقہ محمد علی سے چھین لینا چاہیے۔ مگر پہلی ہی لڑائی میں سلطانی لشکر کو شکست ہو گئی۔ اس پر سلطان نے مجبوراً یورپی حکومتوں سے مدد کی درخواست کی۔ غیروں کے معاملات میں دخل دینے کی شوقین یہ حکومتیں فوراً ہی اس کی مدد کو تیار ہو گئیں۔ محمد علی پاشا ہر چند کہ خلیج نیوارون میں ان کی بحری طاقت سے زک اٹھا چکا تھا، پھر بھی ان کے مقابلے کو تیار ہو بیٹھا۔ ساحل شام پر بیروت کے قریب لڑائی ہوئی، جس میں محمد علی پاشا کو شکست ہوئی، یورپی جہازوں نے اسکندریہ کا یہ راستہ بھی بند کر دیا۔ اپنی یہ بے دست و پائی دیکھ کر اس نے دشمنوں کی شرائط قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور ملک شام سے دست بردار ہو کر صرف مصر وغیرہ کا حاکم رہ گیا۔
لیکن اسی معاہدہ میں اس کی اتنی اشک سوئی بھی کی گئی کہ اسے ملک مصر کا مستقل والی تسلیم کر لیا گیا اور قرار پایا گیا کہ وہ سلطان ہی کی جانب سے مصر کا والی رہے گا اور ولایت مصر ہمیشہ اسی کی نسل میں رہے گی۔ یوں مصر اس کی اولاد کا حق بن گیا۔
اب اس کی عمر زیادہ ہو چکی تھی، حوصلے اگرچہ بڑے تھے، مگر جسمانی طاقت نے جواب دے دیا۔ یہاں تک کہ ۱۲۷۷ ھ بمطابق ۱۸۴۸ء میں اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کو اپنا وارث بنا کر حکومت سے علیحدہ ہو گیا اور دوسرے ہی برس پورے اسی سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کے جانشین ابراہیم پاشا کی عمر نے بھی وفا نہ کی۔ چند روز بعد اس نے سفر آخرت کیا۔ اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عباس پاشا والئ مصر مقرر ہو کر اپنے باپ دادا کی مسند حکومت پر بیٹھا۔
زندگی کے آخری دو برسوں میں محمد علی پاشا کے حواس بجا نہ رہے تھے۔ بڑھاپے نے دماغ ماؤف کر دیا تھا۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ایک بہت غیر معمولی آدمی تھا۔ اس نے یورپ کے نظام سلطنت کو اپنی قلمرو میں جاری کیا۔ مغربی اصول و آئین جنگ اختیار کیے۔ اپنے ملک میں زراعت، تجارت، صنعت و حرفت کو بے حد ترقی دی، طبی مدرسے کھولے، وہ اہل فرانس کی قابلیت کا ایسا معترف تھا کہ غالباً وہی پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے ضرورت اور مصلحت دیکھ کر اپنے دو بیٹوں کو تعلیم و تربیت کے لیے پیرس بھیجا۔
اس نے اپنی زندگی خود بنائی اور بغیر کسی کی مدد اور سہارے کے صرف اپنی کوششوں سے ہر میدان میں ترقی کر کے ایک ادنیٰ درجہ کے کسان سے ایک زبردست فرمانروا اور تاجدار بن گیا۔ یہ امر البتہ قابل افسوس ہے کہ عروج و ترقی حاصل کرنے کے شوق میں اس کے ہاتھوں بڑے بڑے مظالم ہوئے، سازشوں کا بازار گرم ہوا، بد عہدیاں بھی اس نے کیں، دغا بازیوں سے بھی کام لیا، محسن کشی بھی کی، رعایا سے جھوٹے وعدے کیے، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے، مگر ہوس ملک گیری کے لیے یہ باتیں ہمیشہ ایک معمولی چیز ہوا کرتی ہیں۔
٭٭٭