اس کی اصلیت یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت عرب میں جس طرح حیرہ میں آل منذر کی سلطنت قائم تھی جو کہ ایران کی سرحد پر واقع ہونے کے سبب خسروان عجم کے ماتحت اور ان کے زیر اثر تھی اسی طرح عرب کے شمال میں بنی غسان کی ایک اور زبردست سلطنت تھی، جو شام اور ارض ِ یہود کی سرحد پر ہونے کے سبب قیاصرۂ روم کے ماتحت اور ان کی ہم مذاق و ہم مذہب تھی۔ شہر تبوک کے قریب پرانا عالی شان شہر بلقاء اس کا دار الحکومت تھا۔ اس کا شاہی خاندان اپنے کسی پرانے مورث جفنہ کے نام پر ‘‘آل جفنہ’’ کہلاتا تھا۔ صحرا نشینان عرب عموماً یہاں آ کے فرمانرواؤں اور امیروں سے تہذیب و تمدن کا سبق لیتے تھے، اور شعرائے عرب دور دور سے آ کے ان کی مدح میں غزل سرائی کرتے تھے۔ ا س ملک کا آخری تاجدار جبلہ بن الایہم تھا جس کے دادا حارث اعرج کی شجاعت اور اس کی دادی ذات القرطین (دو گوشواروں والی) کی خوش وصفی اور تراش خراش سارے عرب میں مشہور تھی۔ حبلہ بن الایہم نے جب دیکھا کہ سارے قبائل عرب نے علم اسلام کے سامنے سر جھکا دیا اور کل شرفائے عرب مسلمان ہو گئے اور نظر آیا کہ حجاز کی دینی حکومت کی سطوت، ایران اور روم کی صدیوں پرانی عظمت و جبروت کو پائمال کیے ڈالتی ہے تو خود بھی دین اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔
مسند خلافت پر ان دنوں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جلوہ افروز تھے، اور درۂ عمری کے رعب سے سلاطین ارض کانپ رہے تھے۔ اس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے ارادے کی خبر کی اور لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ بذات خود مدینہ میں حاضر ہو کر پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤں۔ اہل مدینہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا مژدہ تھا۔ کیونکہ فرمانروائے بنی غسان اور تاجدار بلقاء کے ایمان لانے کی مسلمانوں کو جتنی خوشی ہو سکتی تھی، اتنی قیصر روم کے قبول اسلام پر ہو سکتی تھی نہ خسرو عجم کے ایمان لانے پر۔ جناب فاروق رضی اللہ عنہ نے خوش ہو کر لکھا۔ بصد شوق آؤ۔ ایمان لانے کے بعد تم کو وہ تمام حقوق حاصل ہو جائیں گے جو ہمیں حاصل ہیں اور تمھارے فرائض بھی وہی ہو جائیں گے جو ہمارے ہیں۔ یہ قابل اطمینان جواب پر کر جبلہ پانچ سو سواروں کے جلوس کے ساتھ مدینہ طیبہ پہنچا۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر اس نے اپنے جلوس کے تمام سواروں کو جو تعداد میں پانچ سو تھے، دھاری دار زربفت کی قبائیں پہنائیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا گویا اس کا سارا لشکر سونے کے دریا میں غرق ہے۔ اس لشکر کے بیچ میں وہ خود اپنا مرصع تاج سر پر رکھے اور مرصع و مغرق کپڑے پہنے جلوہ گر تھا۔ اس کے سونے کے تاج میں ہیروں جواہرات کے ساتھ اس کی دادی ماریہ ذات القرطین کے دونوں مشہور گوشوارے بھی آویزاں تھے۔
جبلہ کے آنے کی خبر مشہور ہوئی تو اہل مدینہ تماشا دیکھنے یا استقبال کے لیے شہر سے باہر نکل آئے۔ بچے اور گھرو ں میں بیٹھنے والی عورتیں تک اس کے جلوس کی آن بان دیکھنے کے شوق میں گھروں سے باہر نکل پڑیں۔ ایسی دھوم دھام مدینہ میں پہلے کبھی نظر نہ آئی تھی۔ غرض جبلہ بڑے ٹھاٹ اور شان و شوکت کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملا، ان کے ہاتھ پر ایمان لایا، پھر جب حج کا موسم آیا تو اس نے حج کے شوق میں جناب فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ معظمہ کا سفر کیا اور تمام مسلمانوں کے ساتھ حج کیا۔
اس حج کے دنوں میں ایک دن خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ عرب کے دنیا پرست امرا کی پرانی وضع یہ تھی کہ ازار (تہبند) ایسی باندھتے تھے جو بہت نیچی ہوتی تھی۔ اور اس کے دونوں سرے زمین پر لوٹے جاتے تھے، جس کی حدیث شریف میں سخت ممانعت آئی ہے۔ جبلہ بھی اسی وضع میں تھا، اور شاید اس کے نئے نئے مسلمان ہونے کے خیال سے لوگوں نے اس کی یہ متکبرانہ وضع گوارا کر لی تھی۔ اتفاق سے اسی وقت بنی فزارہ کا ایک معمولی شخص بھی طواف میں مصروف تھا۔ اس کا پاؤں جبلہ کے اس کونے پر پڑ گیا، جو زمین پر لوٹ رہا تھا۔ ساتھ ہی جبلہ نے بے دیکھے آگے قدم بڑھایا تو ازار کھل گئی۔ جبلہ کا سا مغرور فرمانروا بھلا اس کی تاب کیسے لا سکتا تھا۔ اس نے اس فزاری شخص کے منہ پر اس زور کا طمانچہ رسید کیا کہ ناک کا بانسہ پھوٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ فزاری نے آ کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اور آپ کے دربار سے انصاف کا طالب ہوا۔ آپ نے آدمی بھیج کر جبلہ سے دریافت کیا کہ تم نے اس بے گناہ شخص کو طمانچہ کیوں مارا۔ اس نے کہلا بھیجا، اس نے بڑی گستاخی کی جو میری ازار پر پاؤں رکھ دیا اور وہ کھل گئی۔ یہ تو طمانچہ تھا، مجھے اگر حرمت کعبہ کا پاس نہ ہوتا تو میں اس گستاخ کا سر اڑا دیتا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: خیر جو ہوتا وہ تو ہوتا لیکن تم نے اپنا یہ جرم قبول کر لیا ہے کہ اسے تھپڑ مارا ہے۔ اب یا تو جس طرح بنے اسے راضی کرو ورنہ بحکم شریعت میں فزاری کو مجاز کروں گا کہ وہ ویسا ہی تھپڑ تمھیں مارے۔ یہ سن کر جبلہ کو بے حد حیرت ہوئی۔ بولا: مجھ سے اور قصاص! میں ایک فرمانروا ہوں اور وہ ایک ادنیٰ بے حیثیت شخص ہے۔ جناب فاروقؓ نے فرمایا: مگر اسلام نے اس کو او رتمھیں برابر کر دیا۔ اب سوائے تقویٰ اور نیکوکاری کے کوئی کسی پر فضیلت نہیں رکھ سکتا۔ جبلہ نے کہا: میں تو سمجھتا تھا کہ اسلام لانے سے میری عزت بڑھ جائے گی نہ کہ جو کچھ آبرو باقی ہے وہ بھی ڈوب جائے گی۔ جناب فاروقؓ نے کہا: تمھاری عزت بے شک بڑھ گئی اور یہی باہمی مساوات اور اخوت دینی ہے۔ اس پر جبلہ بگڑ کر بولا: یہی حال ہے تو میں پھر عیسائی ہو جاؤں گا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اگر تم مرتد ہو گئے تو میں تمھارا سر اڑا دوں گا۔ جناب فاروق ؓ کی زبان سے یہ کلمات سن کر جبلہ کے ہوش ٹھکانے آئے اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں۔
یہاں یہ حالت ہو رہی تھی کہ ایک طرف بنی فزارہ کے بہت سے آدمی اکٹھے ہو گئے تھے کہ ہمارے قبیلے والے کے ساتھ بے انصافی نہ ہونے پائے، دوسری طرف جبلہ کے سوار شمشیر بدست تھے کہ ہمارے تاجدار کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کیا جائے۔ آخر جبلہ نے سیدنا فاروق سے کہا: تو پھر مجھے سوچنے کے لیے کل تک کی مہلت دیجیے۔ جو کچھ مناسب ہو گا، کل کروں گا۔ آپ نے فرمایا: چلو منظور ہے۔
اس کے بعد جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو جبلہ اپنے تمام ہمراہیوں کے ہمراہ مکہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ ایسا وحشت زدہ اور سراسیمہ تھا کہ اپنے ملک اپنے وطن پہنچنے تک اس نے راستے میں کہیں دم نہ لیا۔ بلکہ اپنے ملک میں داخل ہو کر بھی وہاں نہ رکا اور اس میں سے گزر کر رومی قلمرو میں داخل ہو گیا اور رکے بغیر بھاگتے بھاگتے قسطنطنیہ جا پہنچا اور ہرقل سے ملا۔ ہرقل غازیان اسلام کی متواتر فتوحات کی خبریں سن کر ڈرا سہما ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ عربوں ہی کا ایک سردار بلکہ تاجدار ان سے ٹوٹ کر میرے پاس چلا آیا ہے تو بے حد خوش ہوا۔ بڑی قدر و منزلت سے پیش آیا۔ حد درجہ عزت و توقیر کی اور بہت بڑی جاگیر عطا کی کہ اطمینان اور فارغ البالی اور شاہانہ تمکنت کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ بہت سے غسانی لوگ بھی جبلہ کے ساتھ وہاں چلے آئے تھے، انھیں رومی فوج میں اعلیٰ درجے کے عہدے دیے گئے۔
چند روز بعد حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت دحیہ کلبیؓ کو اپنا ایلچی بنا کر ہرقل کے پاس بھیجا اور اسے دعوت اسلام دی اور اپنے خط میں اسے بتایا کہ اسلام میں کیسی کیسی خوبیاں ہیں۔ ہرقل نے دین اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن چند شرائط پر صلح کر لی۔ کیونکہ بغیر صلح کے اسے اپنی سلطنت خطرے میں دکھائی دیتی تھی۔ وہ جب حضرت عمرؓ کے خط کا جواب لکھنے بیٹھا تو اسے تاجدار غسان جبلہ کا خیال آ گیا۔ اس نے جناب فاروقؓ کے ایلچی سے دریافت کیا، کیا تم اپنے اس ملکی و قومی بھائی سے بھی ملے ہو جو ہمارے دین کا گرویدہ ہو کر یہاں آیا اور ہمارا مہمان ہے۔ دحیہ کلبی ؓ نے کہا نہیں۔ اس پر ہرقل نے کہا: تو جا کر اس سے مل آؤ۔ جب تک میں خط کا جواب لکھتا ہوں۔
خود ان ایلچی کا بیان ہے کہ قیصر کے قصر سے نکل کر جب میں جبلہ بن الایہم کی ڈیوڑھی میں پہنچا تو وہاں بھی مجھے ویسے ہی ٹھاٹ اور ویسی ہی شان و شوکت نظر آئی جیسی کہ خود ہرقل کے دروازے پر تھی۔ دربانوں اور حاجبوں کا ہجوم تھا۔ غلام زرق برق کپڑے پہنے اور فوجی ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ ملنا تو درکنار جبلہ کو اپنے آنے کی خبر دینا بھی دشوار معلوم ہوتا تھا۔ بڑی دشواریوں سے میں نے اسے اپنی آمد کی اطلاع کرائی اور تھوڑی دیر بعد مجھے باریابی کا موقع ملا۔ اندر جا کر جب میں اسے ملا تو پہچان نہ سکا۔ اس لیے کہ وہ جب مدینہ آیا تھا تو اس وقت اس کی داڑھی اور مونچھیں سیاہ تھیں۔ اب سفید ہو گئی تھیں۔ اتنے میں اس نے خادم کے ہاتھ سے سونے کا برادہ لے کر اپنی داڑھی پر چھڑک لیا۔ اس کے چہرے کے تمام بال سنہرے ہو گئے اور داڑھی سونے کی طرح جگمگا اٹھی۔
وہ ایک شیشہ کے تخت پربیٹھا ہوا تھا جس کے پائے آبنوس کے تھے اور ان میں سونے کی پچی کاری تھی۔ سر پر ایک مرصع تاج پہنے تھا، جس کی چوٹی پر صلیب تھی۔ مجھے پہچانتے ہی اس نے کھینچ کر اپنے برابر تخت پر بٹھا لیا اور مسلمانوں کے حالات پوچھے۔ میں نے کہا: الحمد للہ! سب خیریت سے ہیں۔ ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ پوچھا: عمر بن خطاب کیسے ہیں؟ میں نے کہا وہ بھی خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر اس کا چہرہ بگڑ گیا۔ مجھے اس کی حرکت ایسی بری معلوم ہوئی کہ تخت سے اتر کر زمین پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے متحیرانہ کہا: حیرت ہے میں تو تمھاری قدر و منزلت کر رہا ہوں اور تم مجھ سے دور ہٹتے ہو۔ میں نے کہا: ایسے تخت پر بیٹھنے سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ اس نے کہا: ہاں انھوں (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ اللہ ان پر رحمت نازل کرے۔ میں تو کہتا ہوں اپنا دل پاک صاف رکھو اور جن تختوں اور فرشوں پر چاہے بیٹھو، اس کے آنحضورؐ پر درود پڑھنے سے میرے دل میں کچھ حوصلہ پیدا ہوا۔ میں نے کہا: افسوس تم ایمان نہیں لائے، آخر اس میں تامل کیا ہے۔ بولا: ان سب باتوں اور اپنے مرتد ہونے کے بعد بھی کیا مسلمان ہو سکتا ہوں؟ میں نے کہا: بے شک۔ بنی فزارہ ہی کا ایک شخص مرتد ہو گیا تھا، اس نے مسلمانوں سے دشمنی کی اور ان سے جنگ لڑی۔ مگر اب اللہ کے ہدایت دینے سے وہ دوبارہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا ہے اور اس کا اسلام قبول بھی کر لیا گیا ہے۔ میں ابھی اسے مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں۔ بولا: اب مجھے رہنے ہی دو۔ پھر کچھ سوچ کر بولا: اگر میں مسلمان ہو جاتا ہوں تو کیا عمر فاروقؓ مجھے اپنا داماد بنا لیں گے اور مجھے اپنا جانشین قرار دیں گے؟ میں نے کہا: ان کی بیٹی سے تمھاری شادی کا تو ذمہ لے لیتا ہوں، مگر اس کا اطمینان نہیں دلا سکتا کہ وہ تمھیں اپنا جانشین بھی بنا لیں گے۔
اب جبلہ نے اس گفتگو کو ٹال کر اپنے ایک خادم کو اشارہ کیا جو فوراً ہی تعمیل حکم کے لیے دوڑ گیا اور چند لمحوں بعد خدام نے آگے دستر خوان بچھایا اور طرح طرح کی نفیس غذائیں اور فواکہات سونے چاندی کے برتنوں میں لا کر دسترخوانوں پر چن دیے گئے۔ جب سب کچھ آ گیا تو مجھ سے بولا: لو شوق کرو۔ میں نے کہا: حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے۔ سن کر بولا: ہاں! انھوں (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا ہے، اللہ ان پر رحمت نازل کرے، مگر میں تو کہتا ہوں اپنا دل پاک صاف رکھو اور جیسے برتنوں میں چاہو کھاؤ پیو۔ آخر میں نے مٹی کے برتنوں میں اور اس نے سونے چاندی کے برتنوں میں کھایا پیا۔ جب ناؤ نوش سے فراغت ہوئی تو چاندی کی سلنچی میں سونے کے آفتاب سے ہاتھ دھلوا لیے گئے اور دسترخوان بڑھا دیا گیا۔
اب پھر اس نے اپنے خادم کو اشارہ کیا، دم بھر میں دس مرصع طلائی کرسیاں داہنی طرف اور دس بائیں طرف بچھا دی گئیں۔ چند دقیقے نہ گزرے ہوں گے کہ دونوں جانب ان کرسیوں پر نہایت ہی حسین و جمیل مرصع لباس میں آراستہ سرتا پا زیورات میں لدی حسینائیں آ کر بیٹھ گئیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی زہرہ جمال مہوشیں کبھی نہ دیکھی تھیں۔ میں انھیں دیکھ دیکھ کر حیران ہی ہو رہا تھا کہ ناگہاں ایک حسینہ برآمد ہوئی۔ وہ ان سب سے زیادہ حسین و جمیل تھی۔ اس کے سر پر ایک مرصع تاج رکھا تھا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔ اس کنیز کے دائیں ہاتھ میں مشک و عنبر سے بھرا جام تھا اور بائیں ہاتھ میں گلاب کا کٹورہ۔ اس کے تاج کی چوٹی پر ایک خوش رنگ پرندہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نازنین نے جبلہ کے سامنے مودبانہ کھڑے ہو کر سیٹی بجائی، وہ پرندہ فوراً تاج سے نیچے اتر آیا اور گلاب کے جام میں لوٹنے اور غوطے لگانے لگا۔ اس نے پھر سیٹی بجائی، پرندہ اڑ کے جبلہ کے تاج کے گرد چکر لگانے اور تاج کی صلیب پر گلاب چھڑکنے لگا۔ میں تو یہ تماشا دیکھ کر حیران ہوا جا رہا تھا او رجبلہ کو اس میں بے حد لطف آ رہا تھا۔ ہنسی سے اس کے دانت جبڑوں تک کھلے جا رہے تھے۔اب یہ کنیز تو ایک طرف کھڑی ہو گئی اور جبلہ نے دائیں طرف کرسیوں پر بیٹھی حسیناؤں سے کہا: اب ذرا تم مجھے خوش کرو۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی چنگوں کے تار کھینچ لیے اور سر ملا کر اشعار گانے لگیں۔
ان اشعار میں اس کے خاندان کی عظمت اور اس کی خوبیاں بتائی گئی تھیں، اور ان کی فیاضی اور دریا دلی کی مداح تھیں۔ وہ اشعار سن کر جبلہ بے حد ہنسا اور میری طرف دیکھ کر بولا: جانتے ہو یہ شعر کس کے طبع زاد ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ بولا: حسان بن ثابت کے اشعار ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مداح خاص ہیں۔
اس کے بعد ا س نے بائیں طرف والی حسیناؤں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اب تم مجھے ذرا خوش کرو۔ ان حسیناؤں نے اپنے ساز درست کیے اور چند اشعار گائے۔ یہ اشعار نہ تھے بلکہ فرمانروایان بنی غسان کے قصر شاہی کے اجڑنے کا مرثیہ تھا۔ جسے سن کر جبلہ کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے۔ پھر اس نے مجھ سے پوچھا: جانتے ہو یہ اشعار کس کے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ ا س نے کہا: یہ اشعار بھی حسان بن ثابت ہی کے ہیں۔ پھر اس نے خود اپنے اشعار پڑھے جن میں اس نے اپنے بنی فزارہ کے آدمی کو چانٹا مارنے اور اپنی ضد پر قائم رہنے پر پچھتا کر اپنی جلا وطنی پر اظہار غم کیا تھا۔
یہ اشعار پڑھ کر اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا حسان بن ثابت زندہ ہیں۔ میں نے کہا جب میں مدینے سے چلا تو وہ بقید حیات ہی تھے۔ اس پر اس نے ایک خلعت اور چند نہایت ہی اعلیٰ درجے کے اونٹ منگوا کر میرے حوالے کیے اور کہا کہ یہ حسانؓ کو میری طرف سے دینا۔ میں نے کہا: بہت بہتر۔
اب اس سے رخصت ہو کر میں ہرقل کے پاس گیا اور اس کا خط لے کر مدینہ طیبہ واپس آیا اور کل واقعات سیدنا فاروق اعظمؓ کی خدمت میں عرض کر دیے۔ جب میں نے جبلہ کو اسلام کی طرف مدعو کرنے اور اس کی شرطوں کے بارے میں بتلایا تو آپؓ نے فرمایا: تم نے دونوں باتوں کا وعدہ کیوں نہ کیا۔ جب اسلام اس پر اثر کر چکتا تو پھر وہ خود ہی اس کی تعلیمات پر چلنے لگتا۔ اس کے بعد میں نے ان ہدیوں کا ذکر کیا جو جبلہ نے حسان بن ثابت کے لیے بھیجے تھے۔ آپؓ نے فوراً ہی حسانؓ کو بلوا بھیجا۔ وہ اب نابینا ہو چکے تھے۔ انھوں نے آتے ہی کہا: یا امیر المومنین! مجھے آپ کے پاس سے آل جفنہ کی بو آ رہی ہے۔ آپؓ نے کہا: ہاں! یہ صاحب روم گئے تھے وہاں جبلہ سے مل کر آئے ہیں، اس نے آپ کے لیے کچھ تحائف بھیجے ہیں۔ اس پر حسان نے کہا: میں نے زمانۂ جاہلیت میں اس کی شان میں ایک قصیدہ کہا تھا جس پر اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تمھارا کوئی شناسا ملے گا تو اس کے ہاتھ تمھیں کوئی ہدیہ ضرور بھیجوں گا۔ وہ فیاض آدمی ہے اور فیاضوں کی نسل سے ہے۔
جبلہ بن الایہم کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے عیسائی ہو جانے پر مرتے دم تک نادم اور پشیمان رہا۔ وہ عیسائیت پر ہی مرا، مگر زندگی بھر اس کی یہ حالت رہی کہ اپنے کیے پر ہر دم پچھتاتا تھا اور وطن کی صحبتوں اور عربوں کی انجمنوں کو یاد کر کے رویا کرتا تھا۔
٭٭٭