موبائل فون کا خالق
موبائل فون کے خالق مارٹن کوپرمارٹن کوپر کوئی بہت معروف نام نہیں ہے لیکن دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ان کی ایجاد سے آشنا ہے۔فون ہاتھ میں لے کر گھومنے کا خیال ان ہی کے ذہن میں آیا تھا اور پھر موٹرولا کی ٹیم کے ساتھ انہوں نے انیس سو تہتر میں پہلا دستی ٹیلی فون بنایا جس کا وزن دو کلو تھا۔نیویارک کی ایک سڑک پر جب انہوں نے اس دستی فون سے پہلی کال کی تھی اس وقت وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ ایجاد اتنی مقبول اور اتنی عام ہو جائے گی۔اب دنیا بھر میں ایسی صنعتوں کا جال بچھ گیا ہے جو موبائل فون کی مختلف ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔انیس سو تراسی تک ایک موبائل فون کی قیمت چار ہزار ڈالر تھی جو ڈالر کی آج کی قدر کے لحاظ سے دس ہزار ڈالر بنتے ہیں۔کوپر نے کہا کہ ان کی ٹیم کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ ہزار کی تعداد میں آلات کے حجم کو کم سے کم کرنا تھا۔انھوں نے کہا کہ صنعتی ڈیزائنزبنانے والوں نے یہ کام کر دکھایا اور جب تک وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ان کے پاس صرف چند ڈالر بچے تھے۔اس نئے فون کا دراصل ایک بڑا حصہ اس کی بیٹری پر مشتمل تھا اور اس کا وزن باقی فون کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ تھا۔اس بیٹری کی زندگی صرف بیس منٹ تھی لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ فون کا وزن اتنا تھا کہ اسے کوئی اتنی دیر تک کان سے لگا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔فون بنانے کے بعد ایک بڑا مرحلہ یہ تھا کہ اس وقت گاڑیوں میں نصب فون کے لیے لگائے گئے نظام کو کسی طرح وسیع کیا جائے تاکہ وہ موبائل فون کا بوجھ بھی برداشت کر سکے۔اس وقت نیا چیلنج یہ تھا کہ کس طرح ایک ایسا نیٹ ورک یا نظام بنایا جائے جو تین میگا ہرٹز یا پانچ ٹی وی چینلز کے برابر ایک قوس بنائے اور جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق پوری دنیا کا احاطہ کرلے۔مارٹن نے بی بی سی کے پروگرام کلک میں بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹرولا کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچ آیا تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ تمام انجنیر جو اس فون پر کام کر رہے تھے انہیں حقیقتاً مقید رکھا گیا۔ہم مذاق کرتے تھے کہ مستقبل میں جب کوئی پیدا ہو گا تو اسے ایک موبائل نمبر دیا جائے گا اور جس دن اس کے موبائل فون سے جواب آنا بند ہو گیا یہ سمجھا جائے گا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کی ٹیم کو امید تھی کہ ایک دن ہر کسی کے پاس اپنا دستی فون ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں اندازہ نہیں تھا صرف پینتیس سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا۔ابتدا میں دستی فون کو بنانے کا مقصد ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے باہم رابطوں کو بہتر بنانا تھا۔انھیں امید تھی کہ اس ایجاد سے لوگوں میں تحفظ اور آزادی کا احساس پیدا ہو گا لیکن چار دہائی قبل انھیں اس کے سماجی اثرات کا مکمل طور پر ادراک نہیں تھا۔انھوں نے کہا کہ انھیں اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ فیس بک اور ٹویٹر بھی کبھی وجود میں آئیں گے۔جدید دور کے موبائل فون نے اس صنعت میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اور اس کے استعمال کے نئے طریقے بھی نکل آئے ہیں۔نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت اب صرف کال کرنے کے علاوہ پورٹیبل میڈیا پلیئر، ویب براؤزر اور کیمرہ بھی فون میں شامل ہو گیا ہے۔
چمپینزی بھی موت پر غم کرتے ہیں
چمپینزی بھی انسانوں کی طرح ہی موت پر سوگوار ہوتے ہیں اور مرنے والے کا غم کرتے ہیں۔یہ مشاہدہ ایک تازہ تحقیق میں سامنے آیا ہے جو سکاٹ لینڈ کے سائنس دانوں نے جنگلی جانوروں کے ایک مقامی پارک میں کی جہاں وہ پچاس سالہ ایک بوڑھی ‘بیمار اور قریب المرگ پینسی’ نامی مادہ چیمپنزی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ایک حالیہ سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق ان سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ متعدد رْخ سے انسان سے قریب تر چمپنزی اپنے ہم نفس کی موت کا ماتم بھی انسانوں کی طرح ہی کرتے ہیں۔سائینس دانوں کا کہنا ہے کہ یوں تو یہ فلسفہ صدیوں پرانا ہے کہ بن مانس سمیت کتنی ہی دیگرذی حیات انسانوں کی طرح ہے لیکن چمپینزی ہماری سوچ سے بھی زیادہ انسانوں کے قریب تر ہیں۔سکاٹ لینڈ کے ان سائنس دانوں نے اپنی تحقیق کے دوران مشاہدہ کیا کہ جنگل میں چمپینزیوں کے اس گروہ نے جب اپنی حس سے محسوس کیا کہ بیمار مادہ چیمپنزی مرنے والی ہے تو وہ اسکی دیکھ بھال بھی زیادہ کرنے لگے اور اسی دوران اسے گلے لگاتے اور محبت اور قربت کا اظہار کرتے۔مشاہدے کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ باقی چیمپنزی یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا قریب المرگ مادہ چمپینزی میں زندگی کی رمق باقی ہے لمحے لمحے اسکے جسم کو ہاتھ لگاتے ،اسکے چہر ے کو اور آنکھوں پر ہاتھ لگا کر غور سے دیکھتے اور کسی کسی وقت جسم کو جھنجھوڑتے۔سٹرلنگ یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز اینڈرسن کا جنہوں نے اس سائنسی تحقیقی ٹیم کی قیادت کی ،کہنا ہے کہ انسان اور دیگر بنی نوع کے درمیان مماثلت کے لیے بہت سے معیار قائم کیے گئے جن میں اہلیت، صلاحیت،ثقافت، خود آگاہی جیسی چیزیں شامل ہیں لیکن اسکے باوجود سائنس کے پاس مضبوط شواہد ہیں کہ انسان اور دوسری انسان نما حیات کے درمیان ایسی کوئی مصدقہ مماثلت نہیں کہ اسے انسان کے خاندان کا حصہ قرار دیا جا سکے۔سکاٹ لینڈ کے سائنس دانوں نے اپنی حالیہ تحقیق کی وڈیو بھی تیار کی ہے جس میں انکے مطابق یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ مرنے والی چمپینزی کی بیٹی بھی آخری لمحات میں اور پھر تمام شب اپنی ماں کی لاش کے قریب بیٹھی رہی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بھی گِنی کے جنگلات میں چمپینزیوں پر ایسی ہی ایک تحقیق کے دوران پتا چلایا کہ بن مانس اپنے مرے ہوئے بچوں کی لاشوں کو محفوظ کر لتے ہیں اور مائیں ان لاشوں کو کئی کئی ہفتے گود میں لیے پھرتی ہیں۔ڈاکٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ انسان اور چمپینزی کا ڈی این اے ننانوے فیصد ایک جیسا ہے اور شاید اسی بنیاد پر علم البشریات کے کچھ ماہرین نے اسے انسانی خاندان کی اولین صورت قرار دیا ہے۔
چلی میں دنیا کی سب سے بڑی دوربین
یورپ نے دنیا کی سب سے بڑی دوربین کی تنصیب کے لیے لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں ایک جگہ کا انتخاب کیا ہے۔یہ دوربین دو ہزار اٹھارہ کو کام شروع کر دے گی ۔دوربین کی تنصیب چلی کے شمال میں آٹاکاما کے صحرا میں واقع سیرو آرمازونز نامی تین ہزار میٹر بلند پہاڑ پر کی جائے گئی۔ای ای ایل ٹی نامی یا ( یورپیئن ایکسٹریملی لارج ٹیلی سکوپ) دوربین کے شیشے کا حجم بیالیس ڈائیا میٹر ہو گا جو دنیا میں موجودہ سب سے بڑی دوربین سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ یا دوربین کی تیاری سے کائنات کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ ہوگا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیلی سکوپ کی مدد سے وہ بلیک ہولز کا مشاہدہ، کہکشاوں کے وجود میں آنے کے عمل بارے میں، پراسرار سیاہ مادہ اور اس سے بھی زیادہ پراسرار سیاہ توانائی کا مشاہدہ کر سکیں گے۔میونخ میں قائم ایک یورپی مشاہدات کی ٹیم نے چلی کے شمال میں آرمازونز پہاڑیوں کو خشک موسم کی وجہ سے اس منصوبے کے لیے چنا ہے۔اس ٹیلی سکوپ کے ڈیزائن کا کام دو ہزار چھ میں مکمل ہو گیا تھا جبکہ دو ہزار گیارہ میں اس کی تیاری شروع ہو گی۔اس ٹیلی سکوپ کی تیاری میں ایک ارب یورو خرچہ آئے گا اور دو ہزار اٹھارہ سے کام شروع کر دے گی۔
بلندی پر بسنے کا راز ڈی این اے میں
امریکی محققین کا کہنا ہے کہ تبتی باشندوں کا انتہائی بلند علاقوں میں زندگی بسر کی صلاحیت کا راز اْن کے ڈی این اے میں پوشیدہ ہے۔ یونیورسٹی آف یوتھا کے محققین نے تبتی باشندوں کے ڈی این اے میں دس ایسے جینز تلاش کیے ہیں جن سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تبتی باشندے ایسے بلند علاقوں میں باآسانی زندگی بسر کر سکتے ہیں جہاں دیگر افراد بیمار ہو جاتے ہیں۔اْن دس میں سے دو جینز کو انسانی جسم میں آکسیجن پہنچانے والے ہومیوگلوبن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق اس تحقیق سے شدید بلندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کا علاج کرنے میں مدد ملے گی۔ یونیورسٹی آف یوتھا کے پروفیسر جوزف پرکل کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ایسے افراد کا علاج کرنے میں مدد ملے گی جو بلندی پر رہنے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔یونیورسٹی آف یوتھا سکول آف میڈیسن کے پروفیسر لین جورڈ کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ایسے مریضوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں جو آکسیجن کی شرح کم ہو جانے کے باعث اس صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔اْن کے مطابق اس صورتحال کی وجہ سے دماغ اور پھیپھڑوں میں پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں جس سے تندرست کوہ پیما بھی بیمار ہو سکتے ہیں۔ڈی این اے کی یہ تحقیق پچھتر افراد کے خون کے نمونوں پر کی گئی ہے جو پندرہ ہزار فِٹ کی بلندی پر رہتے ہیں۔ یوتھا کی ٹیم نے چین کی کوئن ہائی یونیورسٹی کے میڈیکل سکول کے تعاون سے ان افراد کے جنیٹک کوڈ کا چینی اور جاپانی آبادی سے موازنہ کیا اوراسی دوران دس آکسیجن پروسیسنگ جینز کے بارے میں پتا چلا۔
٭٭٭