عرب کے زمانۂ جاہلیت کے شاعروں میں یہ نہایت ہی ممتاز اور دور اولین کا مستند ترین استاد سخن تھا۔ اور قبیلہ مضر بن عدنان یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھا جو بڑھتے بڑھتے سارے عرب پر چھا گئی تھی۔ اس کا اصل نام زیاد بن معاویہ تھا۔ کنیت ابو امامہ تھی اور لقب جس نے سب سے زیادہ شہرت پائی نابغہ تھا۔ نابغہ دنیائے عرب کا ہومر ہے۔ اس لیے کہ اس دنیا کا سب سے پہلا شاعر یہی ہے جس کے کلام پر عرب ناز کرتے تھے۔
طلوع اسلام کے بعد بھی اہل عرب میں اس کی شاعری کی ویسی ہی عظمت و قدر باقی رہی۔ چنانچہ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے ایک روز بنی غطفان کے چند نو وارد لوگوں کے سامنے ایک شعر پڑھ کر فرمایا: ‘‘یہ کس کا شعر ہے؟’’ انھوں نے کہا: ‘‘نابغہ کا’’۔ انھوں نے فرمایا: ‘‘لوگو! تمھارے شعراء میں سب سے بلند پایہ یہی ہے۔’’
اسی طرح ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے پوچھا ‘‘عرب کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟’’ انھوں نے کہا: ‘‘امیر المومنین ہی بہتر جانتے ہیں’’۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے دو اشعار پڑھے اور پوچھا: ‘‘یہ کس کے اشعار ہیں؟’’ لوگوں نے جواب دیا: ‘‘ نابغہ کے’’۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک اور شعر پڑھ کر لوگوں سے یہی سوال کیا۔ لوگوں نے جواب دیا: ‘‘یہ شعر بھی نابغہ کا ہے’’۔ اس پر آپؓ نے تین اشعار اور پڑھ کر لوگوں سے یہی سوال کیا۔ اور جواب تھا: ‘‘یہ اشعار بھی نابغہ ہی کے ہیں۔’’ آپؓ نے فرمایا: ‘‘ پھر تو تمھاری قوم کا سب سے بڑا شاعر وہی ہے۔’’ اس واقعہ میں دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس موقع پر جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نابغہ کے جتنے بھی شعر سنائے وہ سب توحید اور درستی اخلاق کے بارے میں تھے۔ ان میں انبیائے سلف کا ذکر بھی تھا۔
ایک دن کسی نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے اٹھ کر آپ سے دریافت کیا: ‘‘سب سے بڑا شاعر آپ کے خیال میں کون ہو سکتا ہے؟’’ آپ نے ابو الاسود دولی کی طرف اشارہ کیا کہ تم بتاؤ۔ ابو الاسود دولی اس وقت کے ادیب بے ہمتا، زبان عرب کے ماہر بے بدل اور نحو و صرف اور اصلاح رسم الخط کے موجد تھے۔ لہٰذا ان سے زیادہ قابل استناد کس کا فیصلہ ہو سکتا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی نابغہ کا ایک شعر پڑھا اور کہا: ‘‘ جس کا یہ شعر ہے وہی سب سے بڑا شاعر ہے۔’’
بنی مراد کا ایک وفد عبد الملک بن مروان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باریابی ہوتے ہی ان میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اپنے کسی گذشتہ فعل پر عذر خواہی کی اور قسم کھائی کہ ہم سے آئندہ کبھی ایسی حرکت کا صدور نہ ہو گا۔ عبد الملک اس کی عذر خواہی سن کر خوش ہوا۔ اور ان لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ‘‘تمھارے لیے یہ مناسب بھی نہ تھا کہ تم یہ کام کرو، او رپھر معذرت خواہی بھی نہ کرو۔’’ پھر اس نے اہل دربار اور شام کی طرف رخ کر کے کہا: ‘‘ نابغہ نے نعمان بن منذر کے سامنے جو قصیدہ سنا کر عذر خواہی کی تھی وہ قصیدہ کیا تم میں سے کسی کو یاد ہے جس کا ایک شعر یہ ہے:
ترجمہ: ‘‘ میں نے قسم کھائی اور آپ کے لیے شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی اور خدا کے بعد یعنی اس کی قسم کھانے کے بعد انسان کے لیے اور کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا۔’’ اتفاق کی بات ہے کہ اہل شام میں کسی کو یہ قصیدہ یاد نہ تھا۔ تب عبد الملک نے اہل وفد کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا: ‘‘ کیا تم میں سے کسی کو یاد ہے؟’’ ان میں سے ایک شخص نے عرض کیا: ‘‘جی ہاں! یاد ہے’’۔ اور سارا قصیدہ اسے کہہ سنایا۔ عبد الملک نے ہر شعر کی بڑی تعریف کی اور کہا: ‘‘عرب کا سب سے بڑا شاعر یہی شخص تھا۔’’
معاویہ بن بکر باہلی نے ایک دن حمادراویہ سے جو کلام عرب کا بہت بڑا حافظ اور محقق تھا، پوچھا: ‘‘ لوگ نابغہ کو تمام شاعروں پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟’’ اس پر حماد نے اسے چند اشعار سنائے اور کہا کہ اس شعر جیسا ایک شعر بلکہ اس کا آدھا یا چوتھا بھی تم کو نصیب ہو جائے تو تمھارے شاعر ہو جانے کے لیے کافی ہے۔’’
اس موقع پر عبد الملک کا ایک اور واقعہ بھی اگرچہ طولانی ہے مگر غالباً اس کا ذکر لطف سے خالی نہ ہو گا۔ اس نے اپنے والئ عراق حجاج کو لکھا: ‘‘دنیا کی کوئی لذت نہیں جو مجھے نصیب نہ ہوئی ہو اور میرے نزدیک قابل و فاضل ندیموں کی باتوں سے زیادہ اچھی لذت دنیا میں نہیں ہے ۔ تمھارے ہاں عامر شعبی ہیں جن کی میں بڑی تعریف سنتا ہوں۔ انھیں میرے پاس بھیج دو۔’’ عامر اکابر تابعین میں تھے۔ فاضل اجل اور مجتہد بے بدل تھے۔ چنانچہ ہزاروں حدیثیں ان کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔ بخاری و مسلم اور تمام ائمہ حدیث کے مستند ترین راویوں میں تھے اور زندگی ہی میں ان کے فضل و کمال کی بے حد شہرت ہو گئی تھی۔
خلیفہ کا خط پاتے ہی حجاج نے سامان ِ سفر درست کر کے عامر شعبی کو دمشق روانہ کر دیا۔ خود شعبی کہتے ہیں کہ میں دمشق پہنچتے ہی سیدھا عبد الملک کے قصر کے دروازے پر پہنچا اور عرض بیگی سے کہا: ‘‘میری اطلاع کر دیجیے’’۔ اس نے پوچھا: ‘آپ کون ہیں۔’’ میں نے اپنا نام بتایا۔ نام سنتے ہی اس نے بڑے جوش و خروش سے مرحبا کہا او رمجھے اپنی کرسی پر بٹھا کر اندر گیا اور فوراً واپس آ کر کہا: ‘‘آئیے تشریف لے چلئے’’۔میں اندر گیا اور دیکھاکہ ایک کرسی پر خلیفہ عبد الملک بیٹھا ہے اور دوسری کرسی پر ایک پیر کہن سال بیٹھا ہے جس کے سر او رداڑھی کے تمام بال سفید ہیں۔ میں نے جا کر سلام کیا۔ عبد الملک نے جواب دے کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ چنانچہ میں اس کے بائیں ہاتھ ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
میرے بیٹھتے ہی عبد الملک نے اس معمر شخص سے پوچھا: ‘سب سے بڑا شاعر کون ہے؟’’ اس نے جواب دیا: ‘‘امیر المومنین! مجھ سے بڑا شاعر بھلا کون ہو سکتا ہے؟’’ یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بے اختیار پوچھ بیٹھا: ‘‘امیر المومنین! یہ کون صاحب ہیں، جو یوں اپنے آپ کو سب سے بڑا شاعر بتا رہے ہیں۔’’ میرے یوں بے باکی سے پوچھ بیٹھنے پر خلیفہ کو تعجب ہوا اور کہا: ‘‘ آپ انھیں نہیں جانتے؟ یہ اخطل ہیں’’۔ لیکن مجھے تاب کہاں تھی، میں نے ان صاحب کی طرف منہ کر کے کہا: ‘‘سنیے جناب! سب سے بڑا شاعر وہ ہے جس کے یہ اشعار ہیں’’ اور نابغہ کے چند اشعار پڑھ دیے۔ اب اخطل نے خلیفہ سے پوچھا: ‘‘یہ کون بزرگ ہیں۔’’ خلیفہ نے اسے میرا نام بتا کر تعارف کرا دیا۔ میرا نام سن کر ان صاحب نے کہا: ‘‘امیر المومنین! انھوں نے سچ کہا۔ نابغہ واقعی مجھ سے بڑا شاعر ہے۔’’
اب عبد الملک نے میری خیریت پوچھی۔ میں نے کہا: ‘‘اللہ کا فضل ہے۔’’ پھر میں نے اس بارے میں عذر خواہی کی کہ میں گزشتہ لڑائیوں میں ابن اشعث کے ساتھ اور حجاج کے خلاف تھا۔ خلیفہ نے کہا ان باتوں کو جانے دیجیے۔ میرے کسی قول و فعل پر آپ ان امور کا اثر نہ پائیں گے۔ پھر اس نے دریافت کیا کہ نابغہ کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: ‘‘ امیر المومنین! نابغہ کا پوچھنا ہی کیا ہے۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے تمام شعرائے عرب پر فضیلت دے چکے ہیں۔’’ یہ کہہ کر شعبی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا واقعہ بیان کیا۔ اس پر عبد الملک اخطل کی طرف متوجہ ہو کر بولا: ‘‘بھلا شعرائے عرب میں کسی کا کلام ایسا بھی ہے جسے سن کر تمھارا جی چاہتا ہو کہ یہ اشعار میرے ہوتے؟’’ اخطل بولا: ‘‘ کوئی نہیں، مگر میرے قبیلے کا ایک شخص ہے جس کے بعض اشعار سن کر میرا دل چاہا کہ اگر یہ میرے ہوتے تو اچھا تھا۔’’ عبدالملک نے ان شعروں کو سنانے کی فرمائش کی۔ اخطل نے کچھ اشعار پڑھے۔ شعبی کہتے ہیں، ان اشعار کو سن کر میں بے ساختہ پکار اٹھا کہ یہ تو قطامیٰ شاعر کے اشعار ہیں۔ او رکہتے ہیں کہ میں نے قطامیٰ شاعر کے بہت سے اشعار خلیفہ کو سنائے۔ وہ انھیں سن کر بے تاب ہو گیا اور بولا: ‘‘ خدا کم بخت کو غارت کرے خوب شعر کہتا ہے۔’’
اخطل اب بے حد ملول اور شکستہ خاطر دکھائی دینے لگا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا: ‘‘ سنئے! آپ علوم حدیث او راس کے متعلق بہت سے فنون میں کمال رکھتے ہیں، اور میرا ایک اکیلا فن شاعری ہے۔ لہٰذا عرض ہے کہ اگر آپ مجھے اپنی قوم کی صف اولین میں نہیں بیٹھنے دیتے تو اس جگہ پڑا رہنے دیجیے جہاں میں ہوں۔’’ میں نے کہا: ‘‘میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی آپ کے اشعار پر معترض نہ ہوں گا۔’’ نہ آپ کی شہرت میں مزاحم ہوں گا۔ اور اس وقت جو کچھ ہوا آپ اسے معاف فرما دیں۔’’ اس نے کہا: ‘‘ اس عہد و پیمان میں آپ کا کوئی ضامن بھی ہے؟’’ میں نے کہا: ‘‘ امید ہے امیر المومنین خود میری ضمانت لیں گے۔’’ خلیفہ بولا: ‘‘ ہاں ضرور! میں شعبی کی ضمانت کرتا ہوں، اور ذمہ دار ہوں کہ یہ کبھی آپ کی شہرت میں مزاحم نہ ہوں گے۔’’
اب میں روز خلیفہ کو نابغہ کا کلام سنایا کرتا اور وہ اسے سنتے سنتے کبھی نہ اکتاتا۔ برابر سنے جاتا۔ ایک دن باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے پوچھا: ‘‘عربی زبان کی سب سے بڑی شاعرہ کون ہے’’۔ میں نے خنساء کا نام لیا۔ خلیفہ نے اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے جواباً خنساء کے چند اشعار اسے سنائے۔ عبد الملک نے کہا: ‘‘میرے خیال میں لیلیٰ نامی شاعرہ سب سے بڑی شاعرہ ہے۔’’ اور اس کے چند اشعار مجھے سنائے۔ میں خاموش رہا۔ اس نے کہا: ‘‘شعبی! میرے اختلاف سے آپ ناراض تو نہیں ہو گئے۔’’ میں نے کہا: ‘‘جی نہیں، ناراضی کیسی۔ میں تو ایک نیا دلکش کلام سن کر بہت خوش ہوا ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مجھے یہاں آئے دو ماہ گزر چکے ہیں اور میں سوائے نابغہ کا کلام سنانے کے کچھ نہیں کر سکا۔’’ خلیفہ نے کہا: ‘‘اور میں نے جو تم سے ایک بات میں اختلاف کیا اورتم کو ایک نئی شاعرۂ عرب کا کلام سنایا تو اس لیے کہ اہل عراق اہل شام کی نسبت اکثر کہا کرتے ہیں کہ یہ لوگ دولت و حکومت میں اگرچہ ہم پر غالب آ گئے مگر علم و روایت میں ہم ان سے بڑھے ہوئے ہیں، جس پر انھیں ناز ہے۔ یعنی علم و روایت میں بھی ان پر فوقیت رکھتے ہیں۔’’ اس کے بعد اس نے لیلیٰ کے اشعار بار بار پڑھے، یہاں تک کہ مجھے یاد ہو گئے۔
اس واقعے کے بعد شعبی کہتے ہیں ، جب تک میں شام میں رہا یہ معمول تھا کہ روز بلاناغہ سب سے پہلے خلیفہ کی خدمت میں پہنچتا اور سب کے بعد واپس آتا۔ اس پابندی سے مجھے کئی سال تک وہاں رہنے کا اتفاق ہوا۔ اس مدت میں اس نے مجھے اور میرے بیٹوں کو جن کی تعداد بیس تھی، دو دو ہزار درہم انعام دیے۔ پھر مجھے اپنے بھائی عبد العزیز والئ مصر کے پاس بھیج دیا۔ اسے اس مضمون کی تحریر بھیجی: ‘‘میں شعبی کو تمھارے پاس بھیج رہا ہوں، ان کے علم و فضل کو دیکھو اور بتاؤ کہ ایسا صاحب کمال تم نے کوئی اور بھی دیکھا ہے؟’’ جب عبدالعزیز کی صحبت میں چند روز رہ کر میں دمشق واپس آیا تب مجھے اپنے گھر جانے کی اجازت دی۔
نابغہ کی شاعری کی عرب میں اس درجہ قدر تھی کہ عکاظ کے میلے میں جہاں تمام شعراء کا مجمع ہوتا تھا، نابغہ کے لیے ایک الگ خیمہ کھڑا کیا جاتا تھا، جس میں وہ منہ پر نقاب ڈال کر بڑی شان و وقار کے ساتھ اونچی جگہ پر بیٹھتا تھا۔ تمام شعرائے عرب اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ اگر وہ پسند کر لیتا تو وہ اپنی شاعری پر ناز کرتے۔ ایک سال اسی میلے میں نابغہ کو پہلے اعشیٰ نے اپنا کلام سنایا، پھر حسان بن ثابت نے سنایا، ان کے بعد بہت سے شاعر اپنا اپنا کلام اسے سناتے رہے۔ یہاں تک کہ خنساء بنت عمرو نے اس کے رو برو کھڑے ہو کر اپنے بھائی صخر کے غم میں اپنا مرثیہ سنایا۔ جس کے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ ‘‘صخرہ وہ شخص تھا کہ سرداران قوم اس کی اقتدا کرتے تھے، گویا وہ ایک جھنڈا تھا جس کی نوک پر آگ روشن تھی اور رہنمائی کے لیے پہاڑوں میں آگ سلگائی جاتی ہے، اور اس کا دھواں فوجوں اور راہزنوں دونوں کو راستہ بتایا کرتا ہے۔’’ نابغہ یہ اشعار سن کر پھڑک اٹھا اور بولا: ‘‘ابو بصیر (حسان بن ثابت) اگر تم سے پہلے اپنا کلام نہ سنا چکا ہوتا تو میں کہتا کہ تم تمام جن و انس سے بہتر شاعری کرتی ہو۔’’ حسان کو اس کا یہ کہنا ناگوار گزرا، وہ بگڑ کر کہنے لگے: ‘‘میں قسم کھاتا ہوں کہ میں تجھ سے اور تیرے باپ سے زیادہ اچھے شعر کہتا ہوں، اور تم دونوں سے بڑا شاعر ہوں۔’’ یہ سن کر نابغہ متانت سے بولا: ‘‘بھتیجے! تو اپنے دل میں جو چاہے خیال کر، لیکن تو نے یہ شعر اچھے نہیں کہے ہیں۔’’ پھر اس نے ان کے چند اشعار پر ایسے اعتراضات کیے کہ حسان کو کوئی جواب نہ بن پڑا۔
فرمانروائے حیرہ نعمان بن منذر کے دربار میں نابغہ کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ وہ اس کے مخصوص اور مقرب ندیموں میں تھا۔ اور خلوت و جلوت ہر جگہ حاضر رہتا تھا۔ ایک دن نعمان کی حسین و جمیل ملکہ سے اس کا سامنا ہو گیا۔ اس کے حسن و جمال نے نابغہ کے دل پر ایسا اثر کیا کہ اس نے اس کی تعریف میں ایک قصیدہ کہہ ڈالا جو نعمان کے گوش گزار ہو گیا۔ اس پر وہ خوف زدہ ہو کر حیرہ سے بھاگ کھڑا ہوا اور یثرب پہنچ گیا۔ مگر اس کا کلام اس قدر مقبول تھا کہ وہ قصیدہ اس سے پہلے یثرب پہنچ کر سخن فہمان یثرب کو یاد ہو چکا تھا۔ اتفاق سے اس قصیدہ کے ایک شعر میں کچھ عیب تھا، مگر نابغہ کا رعب اس قدر غالب تھا کہ کس کو اعتراض کی ہمت نہ تھی۔ آخر سب نے ایک گانے والی کو بلا کر اس سے نغمہ سرائی کروائی۔ جب وہ بہت سی چیزیں گا چکی تو اس کی زبان سے وہی قصیدہ گوایا جانے لگا اور اس طرح کہ جس شعر میں عیب تھا اس کے معیوب لفظ پر پہنچتے ہی ہر بار مغنیہ کی زبان کو لغزش ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر نابغہ چونک پڑا اور اپنے عیب سے واقف ہو گیا۔ مگر اس وقت تو خاموش رہا۔ پھر یہاں سے جانے کے بعد اس نے اپنا وہ مصرع بدل دیا۔اس کا دل اتنا صاف تھا کہ جب کبھی لوگ اس کے شاعرانہ کمال کا تذکرہ کرتے تو وہ کہتا: ‘‘ ہونے کو تو میں سب سے بڑا شاعر ہوں، مگر میرے کلام میں اکثر عیب رہ جاتا ہے۔’’ اور اس کے ثبوت میں اسی قصیدے کا واقعہ سنا دیتا۔
نعمان بن منذر کی ملکہ کی تعریف میں نابغہ نے قصیدہ کہا تو سب سے الگ لے جا کر اپنے ایک دوست کو سنایا۔ اس نے جا کر نعمان کو سنا دیا۔ اس کی یہ حالت ہوئی کہ وہ مارے طیش و غضب کے آپے سے باہر ہوا جاتا تھا۔ اس نے نابغہ کو پکڑ لانے کے لیے اپنے آدمی دوڑائے مگر وہ غائب تھا۔ اس پر اس نے کہا: ‘‘اچھا کبھی تو ملے گا، جب ہاتھ آیا تو زندہ نہ چھوڑوں گا۔’’ نابغہ یثرب ہوتا ہوا اپنے قبیلے میں چلا گیا، اور اس کے بعد فرمانروائے آل عنسان حارث اعرج کے پوتے کے دربار میں جا پہنچا اور اس کی مدح میں قصیدہ کہا۔
بعض راویان سلف کہتے ہیں کہ نعمان بن منذر کے نابغہ سے ناراض ہونے کی بنیاد اور تھی اور وہ یہ کہ دربار داران حیرہ میں سے مرہ بن سعد سعدی کے پاس ایک بے نظیر و لاجواب تلوار تھی۔ نابغہ نے ایک دن اس کی تعریف نعمان کے سامنے کر دی۔ نعمان نے وہ تلوار دیکھنے کے بہانے منگوائی اور پسند کر کے چھین لی۔ اس نقصان کی وجہ سے مرہ کو نابغہ سے عداوت ہو گئی۔ اس نے عبد القیس نامی ایک تمیمی الاصل درباری کو گانٹھا۔ دونوں نے مل کر نعمان کی ملکہ کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس کے بعض شعروں میں فحش الفاظ بھی تھے۔ انھوں نے یہ فحش قصیدہ نعمان کو سنا کر کہا کہ ‘‘ یہ قصیدہ نابغہ نے ملکہ کی تعریف میں کہا ہے’’ جس پر نعمان بے سوچے سمجھے نابغہ کا دشمن بن گیا۔
بہرکیف .... نابغہ فرمانروائے غسان حارث اعرج کے پوتے کے دربار میں جا پہنچا۔ اس کی پردادی یعنی حارث اعرج کی ماں بے حد ظالم عورت تھی، جو ‘‘ذات القرطین’’ یعنی دو گوشواروں والی کے لقب سے مشہور تھی۔ اس کے گوشوارے بیش قیمت ہونے میں ضرب المثل بنے ہوئے تھے اور سارے عرب کا یہ حال تھا کہ جب کسی چیز کی زیادہ قیمت بتائی جاتی تو لوگ کہتے ‘‘کیا یہ ماریہ کے گوشوارے ہیں؟’’ بہرحال اب نابغہ اسی ماریہ کے پڑپوتے کے دربار میں تھا۔ وہ وہاں رہتے ہوئے اس کی اور اس کے بھائی نعمان کی شان میں قصائد کہتا اور صلہ یاب ہوتا۔ یہاں تک کہ اسی مشغلہ میں خاک ِ بنی غسان ہی میں اس نے دنیا چھوڑ کر سفر آخرت کیا۔
مگر نابغہ کا بنی غسان میں مرنا صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ نعمان بن منذر کو اس سے اس درجہ لگاؤ تھا اور وہ اس کی شاعری کا ایسا شوقین و مداح تھا کہ اس کے جانے کے بعد وہ اس کی صحبت سے محروم ہو جانے پر حد درجہ غمگین اور پشیمان ہوا۔ ادھر نابغہ کو بھی نعمان کی فیاضیاں اور قدر دانیاں یاد آتی رہتی تھیں اور اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ قصور معاف ہو جائے، اور وہ دوبارہ دربار حیرہ میں جا پہنچے۔ وہ مآل کار اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا۔ اس واقعے کو حضرت حسان بن ثابت نے جو دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے، شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس لیے کہ یہ واقعات خود ان پر گزرے تھے۔ وہ فرماتے ہیں: ‘‘ میں نے عہد جاہلی میں نعمان بن منذر کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا او رحیرہ پہنچا کہ اسے سنا کر انعام حاصل کروں۔ نعمان کے قصر میں گیا تو ا س کے عرض بیگی عصام بن شہسر سے میری ملاقات ہوئی، اس نے مجھے دیکھ کر کہا: ‘‘ تم اندرونی علاقہ عرب کے آدمی دکھائی دیتے ہو۔ میرے خیال میں تم کو حجازی ہونا چاہیے۔’’ میں نے کہا: ‘‘ جی ہاں! میں حجازی ہی ہوں۔’’ اس نے کہا: ‘‘پھر تم قحطانی ہو گے’’۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے کہا: ‘‘ پھر تم یثربی او رخزرجی ہو گے۔’’ میں نے اس پر اثبات میں جواب دیا۔ اس پر وہ ہنس کر بولا: ‘‘ تو پھر تم حسان بن ثابت ہی ہو گے’’۔ میں نے کہا: ‘ہاں! میں وہی ہوں۔’’ اس پر اس نے کہا: ‘‘ تو پھر دربار میں جانے سے پہلے تین باتیں یاد کر لو۔ اول تو جونہی تمھارا بادشاہ کا سامنا ہو گا وہ تم سے جبلہ بن الالیہم شاہ ِ غسان کا حال پوچھیں گے اور گالی دے کر اس کا نام لیں گے۔ خبردار! تم ان کی ہاں میں ہاں نہ ملانا۔ وہ لاکھ اسے برا بھلا کہیں تم اس کے خلاف کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا، نہ ہی اس کی طرف داری میں کچھ کہنا۔ بلکہ اگر وہ تم سے تائید چاہیں تو عرض کرنا:حضور میں کیا ہوں جو آپ کے اور شاہِ غسان کے معاملات میں دخل دوں۔ حضور اسے جانیں اور وہ حضور کو جانیں۔ اس کے بعد وہ تم کو دستر خوان پر بلائیں تو حتی الامکان اس سے بچنا۔ لیکن اصرارکریں تو ادب سے بیٹھ جانا اور اعتدال سے کھانا پینا۔ اس کا بھی خیال رہے کہ بادشاہ کے سامنے باتوں کو طول نہ دینا، او رخواہ مخواہ کی باتیں نہ کرنا۔ نہ ان کی صحبت میں زیادہ دیر تک ٹھہرنا۔’’
دربار داری کی یہ ہدایتیں سن کر میں نے اعصام کا شکریہ ادا کیا اور وہ بادشاہ سے اجازت حاصل کر کے مجھے اس کی خدمت میں لے گیا۔ بادشاہ کا سامنا ہوتے ہی میں آداب بجا لایا۔ اس نے چھوٹتے ہی شاہ ِ غسان کا ذکر چھیڑ دیا۔ میں نے اسے وہی جواب دیا جو اعصام نے بتایا تھا۔ اب میں نے اس کی اجازت سے اپنا قصیدہ اسے سنایا، جسے اس نے بے حد پسند کیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے اپنے دسترخوان پر چلنے کی دعوت دی، جس سے میں نے معذرت کر دی۔ آخر خاطر خواہ انعام پا کر نکلا۔
اب مجھے حیرہ میں کوئی کام نہ تھا۔ جب میں وہاں سے جانے لگا تو مجھے اعصام نے روکا او رکہا: ‘‘ ابھی مجھے تمھیں ایک بات بتانا باقی ہے۔ خبر ملی ہے کہ نابغہ زبیانی آیا ہوا ہے، گو کہ بادشاہ اس سے ناراض ہیں، لیکن انھیں اس کی صحبت میں اس قدر لطف آتا ہے کہ جب وہ موجود ہوتا ہے تو کسی اور کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ تم بھی اس کے سامنے دربار میں چلنا اور عزت کے ساتھ واپس آنا۔ معمولی طریقے سے چلے جانے کے مقابلے میں یہ اچھا ہو گا۔’’
اس کے کہنے پر میں ٹھہر گیا اور مہینا بھر تک وہیں نعمان کی ڈیوڑھی پر پڑا رہا۔ اس اثناء میں میں نے یہ تماشا دیکھا کہ بنی فزارہ کے دو شیخ نعمان کے پاس آئے جن سے نعمان کے خاص تعلقات تھے اور وہ ان کی باتوں کو بہت کم رد کیا کرتا تھا۔ نابغہ نے آخر میں جا کے انھی لوگوں میں پناہ لی تھی اوران کی خوشامد کی تھی کہ بیچ میں پڑ کے اس کی نعمان کے ساتھ ضلح صفائی کر دیں۔ چنانچہ اس موقع پر وہ اسے اپنے ہمراہ لیتے آئے اور چرمی خیمے میں جو نعمان کے حکم پر ان کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، اسے چھپا کر بٹھا رکھا۔ نابغہ نے ان فزاری سرداروں کی ایک خوش گلو مغنیہ کو اپنا ایک قصیدہ یاد کرا دیا۔ اس قصیدے کو اس مغنیہ نے نعمان کے دربار میں جا کر گایا۔ دو چار ہی اشعار سنے تھے کہ نعمان بے قرار ہو اٹھا اور بولا: ‘‘ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ اشعار نابغہ کے ہیں۔’’ پھر وہ اہل دربار سے پوچھنے لگا کہ آیا کسی کو یہ معلوم تھا کہ نابغہ اس وقت کہاں تھا کس حال میں تھا؟ اسے یوں مہربان دیکھ کر کسی نے کہہ دیا: ‘‘ حضور! وہ اس وقت آپ کے فزاری دوستوں کے خیمے میں موجود ہے۔’’’ یہ سنتے ہی نعمان نے متحیرانہ اپنے دوستوں کی طرف دیکھا۔ انھوں نے کہا: ‘‘جی ہاں! وہ حضور سے عفو تقصیر کے لیے حاضر ہوا ہے، مگر سامنے آنے کی جرأت نہیں ہوتی۔’’ اس کے بعد انھوں نے خوشامدانہ اس سے اس کی معافی کی درخواست کی اور نعمان نے نابغہ قصورمعاف کر دیا۔
اس کے بعد حسان نے نابغہ کو نعمان کے دربار میں آتے جاتے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں مجھے اس کی تین باتوں پر شدید حسد محسوس ہوا اور کہہ نہیں سکتا کہ ان تینوں میں سے کس کی جلن زیادہ تھی۔ اول تو مجھے اس پر حسد تھا کہ نکالے جاننے کے بعد جب پھر دربار یاب ہوا تو اسے بادشاہ سے کس قدر تقرب حاصل تھا اور کس شان سے ہر وقت شریک صحبت اور مدح سرا رہتا تھا۔ دوسرے اس کے کلام کی خوبی و لطافت اور سادگی و بے تکلفی پر اور تیسرے ان سو اعلیٰ درجے کے اونٹوں پر جو اس تجدید تعلق کے بعد اسے تحفہ میں ملے تھے۔ اور یہی چیز تھی جس نے نابغہ کو پھر اس دربار میں پہنچا دیا تھا۔ دراصل وہ نہ نعمان کی فوجوں سے ڈرتا تھا اور نہ اس کے لیے زندگی کا کوئی خطرہ تھا۔ اصلی وجہ یہ تھی کہ جب نعمان کے انعام و اکرام کا خیال آتا اور اس کی مہربانیوں اور شفقتوں کو یاد کرتا تو اسے اپنی زندگی بے روح و بے مزہ معلوم ہوتی تھی۔ اس دربار کی فیاضیوں نے اس کی معاشرت بدل دی تھی، اور اسے ایک بدوی صحرا نشین سے ایک عالی مرتبت رئیس عجم بنا دیا تھا۔ چنانچہ وہ سونے چاندی کے برتنوں میں کھاتا پیتا تھا، ان کے بغیر اسے کھانا ہضم نہ ہوتا تھا۔ یہ ظروف اسے دربار حیرہ سے مرحمت ہوئے تھے، اور یہ رئیسانہ ٹھاٹ باٹ سب اسی دربار کے مرہون منت تھے۔
بعض راویان اخبار دربار حیرہ میں نابغہ کی واپسی کا کوئی اور ہی سبب بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نابغہ نے جب سنا کہ نعمان سخت بیمار ہے اور ایسا شدید بیمار ہے کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اسے بے حد صدمہ اورملال ہوا۔ اسے پرانے تعلقات یاد آ گئے اور گو کہ صدہا طرح کے اندیشے تھے اورقتل ہو جانے کا خوف بھی تھا، مگر دل بے قرار ہو گیا۔ فوراً سفر کر کے اس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہاں پہنچا تو نعمان کوسخت بیماری میں مبتلا پایا۔ وہ بستر پر پڑا کراہ رہا تھا۔ ہلنے جلنے کی طاقت نہ تھی ۔ مگر لوگ شاہان حیرہ کے قدیم رواج کے مطابق پلنگ اٹھا کر ادھر ادھر لے جاتے۔ کبھی دربار میں لے جاتے، کبھی باغوں میں لے جاتے، کبھی محلوں قصروں اور ایوانوں میں پھراتے، کبھی زنانہ محل سراؤں میں پہنچا دیتے۔ نابغہ اس عرض بیگی اعصام سے ملا۔ اور نظم میں اس سے پوچھا کہ بتاؤ بادشاہ کا کیا حال ہے؟ میں تمھیں اس کا الزام نہیں دیتا کہ میرے لیے باریابی کی اجازت کیوں نہ حاصل کی مگر بتاؤ کہ وہ کیسے ہیں؟ اگر خدانخواستہ وہ نہ ہوئے تو ساری نعمتیں اور برکتیں بھی ان کے ساتھ رخصت ہو جائیں گی۔ بہرحال اعصام سے حال معلوم ہونے پر وہ نعمان کی خدمت میں حاضر ہوا اور معافی تلافی کے بعد پھر اپنے سابقہ مقام پر بحال ہو گیا۔عرب کے لوگ نابغہ کی قادر الکلامی کے اس قدر قائل تھے کہ اور کسی کے نہ تھے۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خود بیان کیا ہے کہ انھیں باوجود بلند پایہ مقبول عام شاعر ہونے کے نابغہ کے کلام کی خوبی و لطافت پر رشک آتا تھا۔ نابغہ زبیانی چونکہ شعرائے جاہلیت میں ہے اس لیے اس کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہو سکی۔