جنوری ۲۰۱۰ کے شمارے میں ہم نے ‘ہمارے سیاست دان ’ کے عنوان سے اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ لوگ اسلام سے کس قدر ‘‘مخلص ’’ہیں اور انہوں نے ہر دورمیں اسلام اور قرآن کے نام کو کس طر ح exploitکیا ہے اور کس طرح کرتے رہتے ہیں۔ اس پر ہمارے بہت سے احباب نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس موضوع پر مزید لکھنے کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ یہ موضوع پوری ایک کتاب کا متضاضی ہے ۔عدیم الفرصتی اس کتاب کو ترتیب دینے میں میں آڑے آ رہی ہے البتہ ہماری کوشش ہو گی کہ وقتا ً فوقتاً چند نادر پہلووں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتے رہیں تا کہ ووٹ دینے میں آسانی ہو۔انہی میں سے ایک بہت ہی عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان امریکی یا برطانوی شہری بھی ہیں۔اور یہ اس شہریت کو بہت سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں تاکہ آڑے وقت میں کام آئے۔ اس سے ان کی اس ملک سے وفاداری اور محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مرحوم محمد خان جونیجو ہمارے ہاں ایک شریف سیاست دان شمار ہوتے تھے ۔اللہ ان کی مغفرت کرے ۔ ان کے حوالے سے یہ واقعہ پڑھیے اور اندازہ لگائیے کہ اگر شریف سیاست دان کایہ حال تھاتو ان کا کیا حال ہو گا جنہیں نہ لوگ شریف سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ خود کوشریف کہتے ہیں۔
یہ واقعہ تنظیم الاخوان کے امیر اور سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے شیخ مولانا محمد اکرم صاحب اعوان نے بیان کیا جسے ان کے رسالے ‘‘المرشد’’ نے جولائی ۱۹۹۳ میں لکھا ہے ۔ہمیں یہ راوی ثقہ معلو م ہوتا ہے اس لیے ہم اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ثبوت راوی کے ذمے ہے البتہ روایتاً اور درایتاً بات صحیح معلوم ہوتی ہے ‘‘ میں چلا گیا بالٹی مور ،وہیں وہ ہسپتال ہے جس میں ہمارے ملک کے نامور وزیر اعظم کا وصا ل ہوا۔محمد خان جونیجو صاحب کا۔میں نے پوچھابھئی وہ یہاں فوت ہوئے تھے کس طرح فوت ہوئے ۔ کیا حال ہوا؟وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے ان سے گزارش کی تو وہ کہنے لگے یہاں تو کوئی محمد خان جونیجو نہیں مرا۔ نہ آیایہاں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔کمال کرتے ہو یار ، ساری دنیا میں وہاں ٹیلی ویژن پر سنا، اخبارات میں دھوم مچی ، آپ کے اس جان ھاپکنز ہسپتال کی۔ میری لینڈ بالٹی مور میں ہے تو انہوں نے کہا ، اچھا بھائی کل دیکھیں گے ۔ تو دوسرے دن انہوں نے مجھے کمپیوٹر کی رپورٹ بھجوا دی ۔کمپیوٹر کی رپورٹ میں اوپر ایک جملہ ہے ۔ ایک شخص محمد خان جونیجو ، جس کی تاریخ ولادت فلاں ہے ، اور وہ جان بکسی کے نام سے امریکہ میں رہتا ہے ، بکس بی جان۔ یعنی آپ کا وزیر اعظم امریکہ کا شہری ہے ، بکس بی جان کے نام سے ۔ اس لیے کہ یہاں سے جو کچھ لوٹا جاتا ہے ، وہ بکس بی جان کے اکاونٹ میں جمع ہوتا ہے ۔اور جب علاج کے لیے وہاں تشریف لے گئے تو بکس بی جان داخل ہوا اس جان ھاپکنز ہسپتال میں اور وہاں بکس بی جان مرااور اس کے سرہانے صلیب گاڑی گئی اور نرسوں نے باقاعدہ اپنے شانے پر صلیب بنا کر بکس بی جان کو رخصت کیا۔یہاں ان غریبوں سے غائبانہ جنازے پڑھائے جاتے ہیں جن کا خون بیچ کر ، جن کا خون چوس کر ، یہ لوگ کیا لیتے ہیں۔ارے یا ر یہ اسلامی حکومتیں اور یہ مسلمان ہیں۔’’(بحوالہ ماہنامہ المرشد جولائی ۱۹۹۳)
باقی سب سیاست دانوں کے امریکہ میں کیانام ہیں اس کی تحقیق ان سب کے ذمے ہے جو دن رات ان کے گن گاتے ہیں اور ان کی پجارو اور پراڈو کے ساتھ دوڑتے ہوتے مٹی پھانکتے ہوئے بھی زندہ باد کے نعر ے لگاتے رہتے ہیں۔ہمارا کام تو صرف متوجہ کرنا ہے۔ بہرحال ایک بات اور سن لیجے جسے امپیکٹ نے دسمبر ۱۹۹۴ میں لکھا ہے ۔‘‘معین قریشی کا پاسپورٹ راز میں رکھا گیا مگر وہ امریکہ میں مستقل رہایش پذیر ہیں۔ اب معلوم ہوا ہے کہ منتخب صدر فاروق لغاری بھی امریکی گرین کارڈ رکھتے ہیں۔آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم کاکہنا ہے کہ انہوں نے خود صدر صاحب سے اس بارے میں پوچھا تھا مگر انہوں نے ہنس کر ٹال دیا۔بہر حال سردار عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ لغاری صاحب کے گرین کارڈ پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں اس ضمن میں کئی اور بھی نام ہیں۔’’