حسن بن صباح ، صباحیہ فرقہ کا بانی تھا۔ اسے مبہط وحی ہونے اور اللہ تعالیٰ سے احکام پانے کا دعویٰ تھا۔ وہ ۴۲۸ ہجری بمطابق ۱۰۳۴ عیسوی میں خراسان کے شہر طوس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ علی اسماعیلی مذہب کا پیرو کار تھا۔ اس کا سلسلۂ نسب یہ ہے: حسن بن علی بن احمد بن جعفر بن حسن بن صباح حمیری۔
اس کا باپ علی بڑا شری اور مفسد قسم کا شخص تھا اور اپنے خبث باطن اور الحاد زندقہ میں بڑا بدنام تھا۔ حالانکہ وہ ہر کسی کے سامنے قسمیں کھایا کرتا تھا کہ میں بڑا راسخ العقیدہ مسلمان ہوں۔ جب اہل سنت والجماعت کے ایک بڑے عالم دین امام موفق نے نیشاپور میں مسند درس سنبھالی اور مختلف شہروں اور ممالک کے لوگ ان کے حلقۂ درس میں شریک ہونے کے لیے آنے لگے تو علی نے بھی اپنے بیٹے حسن کو نیشاپور لے جا کر امام موفق کے درس میں داخل کروا دیا۔ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حسن اپنے باپ کے پاس رے واپس آ گیا۔ ۴۶۵ ھ بمطابق ۱۰۷۲ء کو وہ اپنے ہم مکتب اور ہم درس نظام الملک طوسی کے پاس نیشاپور پہنچا۔ نظام الملک نے اس کی ملاقات سلطان ملک شاہ سے کروائی اور اسے سلطان کا معتمد خاص مقرر کروا دیا۔ حسن چونکہ بے حد بد فطرت اور شیطان صفت آدمی تھا، وہ ہر دم اس تاک میں رہنے لگا کہ کسی نہ کسی طرح نظام الملک کو بادشاہ کی نظروں سے گرا دے، اور خود اس کے عہدے پر یعنی وزارت عظمیٰ پر پہنچ جائے۔ اپنی انھی حرکتوں کی وجہ سے اسے سلجوقیوں کے دربار سے نکلنا پڑا۔ یہاں سے نکل کر وہ اصفہان پہنچا۔ کچھ عرصہ بعد اسے اصفہان کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ اور عازمِ رے ہونا پڑا۔
رے پہنچ کر حسن کو معلوم ہوا کہ اسماعیلی مذہب کا داعی الکبیر وہاں رہتا ہے، جو اسماعیلی مذہب کی ترویج و ترقی کے لیے مبلغ ملازم رکھتا ہے۔ چنانچہ اس نے داعی الکبیر سے مل کر درخواست کی کہ اس کے لائق بھی کوئی خدمت سپرد کی جائے۔ داعی الکبیر نے اسے ملازم رکھ لیا، اور کچھ عرصہ بعد مصر بھیج دیا جہاں اس وقت عبیدیوں کی حکومت تھی۔ جو بظاہر اسماعیلی اور در پردہ باطنی تھے۔ حسن کی مصر میں بہت قدر و منزلت کی گئی۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اسے حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور ایک پرانے قلعے ومیاط میں قید کر دیا گیا۔ اتفاق سے اس روز قلعہ کا ایک نہایت مضبوط برج گر پڑا۔ لوگوں نے اسے حسن کی کرامات سے منسوب کیا۔ امیر الجیش نے بر افروختہ ہو کر حسن کو ایک جہاز میں چند عیسائیوں کے ہمراہ بٹھا دیا، اور افریقہ کی طرف بھیج دیا۔ جہاز سے اتر کر حسن حلب، بغداد، خزستان سے ہوتا ہوا اصفہان آن پہنچا۔ اور ان تمام علاقوں میں اسماعیلی مذہب کی تبلیغ کرتا رہا۔
اس اثناء میں حسن کا استاد زادہ اور چند دوسرے لوگ بعض مضبوط قلعوں پر قابض ہو گئے۔ سب سے پہلے وہ جس قلعے پر قابض ہوئے وہ فارس کے قریب تھا۔ جب یہاں ان کی جمعیت بڑھنے لگی، تو انھوں نے قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ چند ہی دنوں میں ان کی چیرہ دستیاں ان اطراف میں عام ہو گئیں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد ان لوگوں نے قلعہ اصفہان پر بھی قبضہ کر لیا۔
حسن نے اصفہان آنے کے بعد اپنے چند لوگ اس غرض سے قلعہ الموت کی طرف بھیج دیے تھے کہ اس کے گرد و نواح میں اسماعیلی مذہب کو پھیلائیں۔ چنانچہ اسماعیلی مناد قلعہ الموت کے چاروں طرف نہایت زبردست طریقے سے اپنے مذہب کا پرچار کر رہے تھے۔ اور خود حسن قلعے کے قریب قیام کر کے لوگوں پر اپنے ریاکارانہ زہد و اتقاء کا سکہ جما رہا تھا۔ چنانچہ ہزار ہا آدمیوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ جب اس کے مریدین کی تعداد زیادہ ہو گئی، تو حاکم علاقہ اس پر بہت متردد ہوا۔ اس نے سپاہیوں کے ایک دستے کو رات کی تاریکی میں حسن کو گرفتار کرنے کو بھیج دیا۔ اور انھیں حکم دیا کہ اسے قلعہ میں نظر بند کر دیا جائے۔ لیکن قلعہ میں داخل ہونے کے بعد حسن نے ایک ایسی چال چلا کہ حاکم علاقہ اس قلعے سے بالکل بے دخل ہو گیا۔ حسن نے یہ زمین تین ہزار دینار کے بدلے خرید لی۔ اگرچہ اس نے نماز پڑھنے کے لیے ایک چرسہ زمین مانگی تھی، جب بیع نامہ تیار ہو گیا تو اس نے بیل کی ایک کھال منگوا کر اس کے باریک باریک ٹکڑے کرا کے اس سارے علاقے پر اپنے قبضے کا دعویٰ کر دیا۔ جب اسے الموت جیسا مضبوط و مستحکم قلعہ مل گیا، تو اس نے صوبہ رود بار اور فزوین میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اپنے مذہبی خیالات کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس صوبے کے بہت سے لوگ بطبیب خاطر اور بہت سے لوگ قہراً و جبراً اس کے مذہب میں داخل ہو گئے۔ اور یوں مذہب کی آڑ ہی آڑ میں میں تمام صوبہ رودبار اور کوہستان میں حسن کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس نے قلعہ الموت کو بحیثیت مستقر حکومت خوب مضبوط و مستحکم کیا۔ اس کے چاروں طرف عالی شان محلات تعمیر کروائے اور باغ لگوائے۔
اب حسن پر ہر وقت یہ دھن سوار رہنے لگی کہ کسی نہ کسی طور سلطان ملک شاہ اور اپنے ہم مکتب دوست نظام الملک طوسی کا خاتمہ کر دے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ اتنے زبردست حریفوں کے ساتھ مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ چنانچہ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب سوچی۔ اس نے جانبازوں کی ایک جماعت تیار کروائی اور ان کے لوح ِ دل پر یہ بات مرقسم کر دی کہ شیخ الجبل یعنی حسن بن صباح تمام دنیا کا مالک اور دنیا میں بڑا قادر بڑا عظیم و کبیر ہے۔ اس تعلیم و تلقین کے علاوہ اس نے ایک ایسی تدبیر کی جس وجہ سے اس جماعت کو جان سپاری پر آمادہ کرنا بالکل آسان تھا۔ اس نے قلعہ الموت کے ارد گرد خوب صورت مرغزاروں اور جان بخش نزہت گاہوں میں نہایت خوب صورت محل، برج اور کوشکیں تعمیر کرائیں۔ عالی شان محلات کی پاکیزگی و خوش نمائی، باغوں اور مرغزاروں کی نزہت و ترو تازگی دیکھنے والے کے دل پر جادو کا اثر کرتی تھیں۔ ان کے بیچوں بیچ بہشت ِ بریں کے نام سے ایک خوش سواد باغ بنوایا۔ جس میں وہ تمام سامان مہیا کیے گئے جو انسان کے لیے موجب تفریح ہو سکتے تھے۔ ہر قسم کی اشیائے تعیش، ہر قسم کے میوہ جات کے درخت ، پھول، رنگا رنگ چینی ظروف، بلوری، طلائی، نقرئی سامان، بیش قیمت فرش و فروش، یونان کے اسباب تعیشات، پر تکلف سامان خور و نوش، چنگ و چغانہ، نغمہ و سرور، جنت کی دیواروں پر نقش و نگار کا نہایت نازک کام کروایا۔ نلوں کے ذریعے محلات میں دودھ، شہد، پانی اور شراب جاتے تھے۔ ان تمام تکلفات کے علاوہ دل بہلاوے کے لیے پری تمثال نو عمر حسینائیں موجود تھیں۔ ان مہ وشوں کی سادگی وضع اور ان کی حسن و جمال کی دلربائی معاً دیکھنے والے کو یہ یقین دلاتی تھی کہ یہ عالم اسفلی کے سوا کسی اور ہی عالم کی نورانی پیکر ہیں۔ اس بارے میں کوشش یہ کی گئی تھی کہ داخلہ کے بعد زائرین کے دل پر فرحت و انبساط کا ایسا شریں اثر پیدا کیا جائے کہ وہ اس فرحت و مسرت کو دنیوی نہیں بلکہ اخروی یقین کرے۔
حسن نے اپنے مریدوں کو تین جماعتوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک تو داعی و مناد تھے۔ جو دور دراز ممالک میں خفیہ لوگوں کو اس مذہب کی دعوت دیتے تھے۔ دوسرے رفیق جن کو حسن کے معتمد علیہ ہونے کی سعادت حاصل تھی۔ تیسرا گروہ فدائیوں کا تھا، جس کے لیے یہ جنت بنائی گئی تھی۔ ابن صباح علاقہ طالقان اور رودبار وغیرہ کے خوب صورت قوی ہیکل اور تندرست و توانا نوجوان جو سادہ لوح ہوتے اور ان میں ہر بیان کے باور کرنے اور جلد ایمان لانے کی صلاحیت نظر آتی، فدائیوں کی فوج میں بھرتی کیا کرتا تھا۔ وہ حسن کے ہر حکم کی بلا عذر آنکھیں بند کر کے تعمیل کرتے تھے۔ بھنگ جسے حشیش کہتے ہیں، ان ایام میں غیر معمولی شے تھی۔ اور غالباً حسن بن صباح ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنی دانش مندی سے حشیش سے وہ کام لیا جو اس سے پہلے شاید کسی نے نہ لیا ہو گا۔ جب فدائی سپاہی امیدواری کا دور ختم کر لیتا تو حسن اسے بھنگ کے زیر اثر بے ہوش کر کے اپنی جنت میں بھجوا دیتا۔ جہاں وہ جان پرور حوروں کی آغوش میں آنکھ کھولتا۔ اور اپنے آپ کو ایسے عالم میں پاتا جس کی خوشیاں اور مسرتیں شاید بڑے بڑے شاہان عالم کو بھی نصیب نہیں۔ یہاں وہ انواع و اقسام کی نزہت گاہوں کی سیر کرتا، حوروں کے حسن سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا، ان مہ وشوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر مئے ارغوانی کے جام لنڈھاتا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ غذائیں او ربہترین قسم کے پھل کھاتا، اور ہر قسم کے تعیشات میں محو رہتا۔ ہفتہ عشرہ بعد جب ان محبت شعار حوروں کی الفت کا نقش اس کے دل پر اتنا گہرا پڑا جاتا کہ مدت تک کبھی نہ مٹ سکے تو وہی حوریں اسے بھنگ کا ایک جام پلا کر اسے شیخ الجبل کے پاس بھجوا دیتیں۔ جہاں وہ شیخ کے قدموں میں آنکھ کھولتا۔ جنت کے چند روزہ قیام کی یادیں اسے ہر دم بے تاب و وبے قرار کیے رکھتیں۔ وہ شیخ سے دوبارہ اس جنت میں واپس جانے کی تمنا کرتا تو شیخ اس سے کہتا کہ جنت میں دائمی قیام کی اولین شرط جان سپاری ہے۔ چنانچہ وہ حسن کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے فوراً آمادہ ہو جاتا۔ یوں حسن اس سے اپنی مرضی کا کام نکلوا لیتا۔
جب حسن کو اپنے کسی دشمن کا کام تمام کروانا مقصود ہوتا تو وہ ایک فدائی نوجوان کو حکم دیتا کہ جا فلاں شخص کو قتل کر کے خود بھی قتل ہو جا۔ مرنے کے بعد فرشتے تجھے جنت میں پہنچا دیں گے۔ یہی وہ خطرناک لوگ تھے جن سے خون آشامی کا کام لیا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو جس کے قتل کا اشارہ ہوتا، وہ وہاں روپ بھر کر جاتے ، رسائی اور آشنائی پیدا کرتے، اس کے معتمد علیہ بنتے او رموقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے۔ یہی وہ فدائی تھے جن کی وجہ سے دنیا بھر کے بادشاہ و سلاطین حسن بن صباح کے نام سے کانپتے تھے۔ ان فدائین کو بلی کا گوشت کھلایا جاتا تھا۔ کیونکہ بلی غضب کے وقت آپے میں نہیں رہتی اور بڑی بے جگری سے مخالف پر حملہ کرتی ہے۔ جب خواجہ نظام الملک طوسی نے قلعہ الموت پر حملہ کیا تو اسے بھی ایک فدائی نے درخواست دینے کے بہانے ہلاک کر دیا۔ جب یہ قتل کامیاب رہا تو حسن نے یہ بات طے کر لی کہ فوج کے ذریعے کسی سے لڑنے کے بجائے یہ کام اپنے کسی فدائی سے کروا لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
حسن بن صباح نے نوے (۹۰) برس کی عمر میں انتیس (۲۹) سال تک قلعہ الموت پر نہایت کامیابی سے حکومت کرنے کے بعد انتقال کیا۔
حسن بن صباح کا فرقہ حسنی سب سے آخری مسلم فرقہ ہے، جس سے عالم اسلام کو سابقہ پڑا۔ ان اسماعیلی فرقوں کی تعداد جنھوں نے مختلف ناموں سے خروج کیا کم از کم اکیس تک پہنچتی ہے۔ پہلا فرقہ اسماعیلی تو اصل ہے۔ باقی اس کی شاخیں ہیں۔ جو اپنے دعاۃ کی طرف سے منسوب ہو کر یا کسی خاص عقیدے کے ماتحت کسی نام سے شہرت پذیر ہوئیں۔ حسن بن صباح کے فرقے کو حسنی کے علاوہ تعلیمیہ، فدائیہ، باطنیہ، حشاشین، صباحیہ اور ملاحدہ وغیرہ کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
باطنیہ فرقہ کے لوگ قرآن حکیم اور احادیث کے ظاہری الفاظ کے ‘‘باطنی’’ معنوں پر زور دیتے ہیں۔ یعنی لفظی معنوں کو تو رد کرتے ہیں اور باطنی معنوں پر زور دیتے ہیں۔ مثلاً ابو المنصور العجلی کی طرف سے ایک قول منسوب ہے کہ ‘‘السمٰوات’’ سے مراد امام اور ‘‘الارض’’ سے مراد پیرو کار ہیں۔
باطنیوں کے چار بنیادی تصورات ہیں:(۱) باطن۔ (۲) تاویل۔ (۳) خاص و عام۔ (۴) تقیہ۔
ان کے خیا ل کے مطابق ہر مقدس متن کے باطنی معنی ہوا کرتے ہیں، جو ظاہری معنوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہر نبی جس کو کتاب دی جاتی ہے، کا ایک وصی ہوا کرتا ہے، اس وصی کا کام یہ ہے کہ وہ خفیہ طریقے سے اس کلام کی تاویل قابل لوگوں کے ایک خاص گروہ جو اسے وصی مانتا ہے، کے سامنے کرے۔ چنانچہ اس طرح وہ انسانوں کو دو طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک خواص جو باطنی کو جاننے والے ہیں۔ دوسرے عوام۔
ان کے نزدیک باطن صرف اس لیے باطن نہیں کہ وہ ظاہر نہیں، بلکہ اس لیے بھی باطن ہے کہ وہ بھید ہے۔ اور اس کا علم وحی کی ظاہری پیروی کرنے والوں کو نہیں حاصل ہوتا۔ باطنیوں میں یہ عقیدہ بار بار خاص طور پر دہرایا جاتا رہا ہے کہ جو لوگ امام کے صحیح منصب اور حقیقت سے واقف ہوتے ہیں، ان کے لیے شریعت اور اس کے ظواہر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔