دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں یہ نہ بتایا گیا ہو کہ ایک دینی مقتدا آخری عہد میں پیدا ہو گا جس کی مساعی جمیلہ سے ساری دنیا ایک دین یعنی دین اسلام کی پابند ہو جائے گی۔ یہ کچھ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں کہ وہ امام آخر الزمان کے منتظر ہیں۔ اس میں یہ فلسفیانہ فائدہ تو ضرور ہے کہ انسان کبھی مایوس نہیں ہونے پاتا۔ مگر اس کے ساتھ ہی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات جو نقصان پہنچ جاتا ہے، وہ کسی طرح مٹائے نہیں مٹتا۔ اگر انصاف کیجیے تو اس قسم کی پیشن گوئی اسلام میں بہت ضعیف الفاظ میں کی گئی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی روایات کے چمکانے میں بنو امیہ، بنو عباس اور بنو ہاشم کی سیاسی مخالفتوں نے بہت مدد دی۔ مگر اب تو اہل اسلام عموماً اپنے اعتقاد میں امام مہدی کے منتظر ہیں۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جن ذریعوں سے دیگر مذاہب والے کسی آنے والے مصلح کا انتظار کر رہے ہیں، وہ ذریعے بجائے خود مسلمانوں کی روایات سے قوی ہیں۔ لیکن مسلمانوں میں خدا جانے کس بے صبری سے انتظار کیا گیا کہ جتنے مدعیان مہدویت ان کی تاریخ میں نظر آتے ہیں اور کہیں نظر نہیں آتے۔
برصغیر ہند و پاک میں سب سے پہلے مہدویت کا دعویٰ کرنے والا شخص ملا محمود جونپوری تھا۔ ان کا فرقہ مہدویہ آج کل دکن میں پورے استقلال کے ساتھ قائم ہے۔ لیکن ملا محمود کو باوجود ہزار کوششوں سے کوئی سیاسی قوت حاصل نہ ہو سکی۔ براعظم افریقہ میں مہدویت کا دعویٰ مہدی سوڈانی نے کیا۔ وہ ایک زبردست سیاسی قوت کے مالک بھی بنے۔ ان کی تعلیمات اور انگریزوں کے خلاف جہاد مسلسل کی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔ ان کے مقابل ارض مغرب میں مہدویت کا دعویٰ کرنے والا شخص محمد بن عبد اللہ بن تومرت تھا۔ جس نے اندلس میں ہلچل مچا دی تھی۔ وہ ایک عجیب و غریب شخص تھا۔ اس کے حالات زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا کہ چالاکیاں زہد و اتقاء کے دامن میں چھپ کر کس قدر سرسبز ہوتی ہیں۔ محمد بن تومرت اگرچہ مسلمانوں میں بہ حیثیت مہدی و مصلح وقت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے گا مگر اس کی سوانح عمری سے اکثر تجربات حاصل ہوں گے، جن کی اہل اسلام کو ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
اکثر مورخین کا بیان ہے کہ جن دنوں امام غزالیؒ نظامیہ بغداد میں درس دیتے تھے۔ اور ان کے حلقہ درس میں اطراف عالم کا ایک عجیب مجموعہ موجودرہتا تھ۔ ایک روز وہ بیٹھے درس دے رہے تھے کہ ایک نو عمر بے ریش و بروت طالب عمل بغداد کی معمولی وضع کے خلاف ایک سوتی ٹوپی پہنے ہوئے مدرسے میں آیا۔ امام غزالی نے غور سے اس کی صورت دیکھی۔ اور متحیر ہو کے پوچھا: ‘‘تم کس ملک کے رہنے والے ہو؟’نوجوان نے کہا: ‘‘میں ارض مغرب کے شہر سوس اقصیٰ کا رہنے والا ہوں۔’’امام غزالی نے پوچھا: ‘‘اچھا تو تم غالباً قرطبہ کے مدرسے میں بھی رہے ہو گے۔ جو دنیا کے تمام مدارس میں عمدہ خیال کیا جاتا ہے۔’’نوجوان نے جواب دیا: ‘‘جی ہاں۔’’ اس کے بعد امام غزالی اس سے قرطبہ کے مشہور علما کے بارے میں دریافت کرتے گئے۔ وہ نوجوان جواب دیتا گیا۔ اس کے جوابات سے امام غزالی نے اندازہ لگایا کہ بے شک یہ نوجوان سچا ہے۔ اور ذہن و فطین بھی ہے۔ انھوں نے پھر پوچھا: ‘‘ کیا تم نے میری کتاب ‘‘احیاء العلوم’’ بھی دیکھی ہے؟’’نوجوان نے کہا: ‘‘جی ہاں’’۔امام نے پوچھا: ‘‘اچھا بتاؤ، اس کی نسبت علمائے قرطبہ کے کیا خیالات ہیں’’؟اس نوجوان نے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ امام نے اس کے سکوت کو حیرت سے دیکھا۔ اور کہا: ‘‘جو بات ہو تم بے خوف ہو کر آزادی سے بیان کرو۔’’ اس پر نوجوان بولا:‘‘اگرچہ اس امر کا عرض کرنا گستاخی ہے، مگر آپ اصرار فرماتے ہیں تو میں بصد احترام و ادب عرض کرتا ہوں کہ آپ کی اس کتاب پر وہاں کفر و الحاد کا الزام لگایا گیا۔ علمائے قرطبہ نے اس پر خوب غور و خوض کرنے کے بعد فیصلہ دیا کہ احیاء العلوم کو سر عام نذر آتش کر دیا جائے۔ اس کارروائی کے بعد سب نے بادشاہ علی بن یوسف کو اطلاع دی کہ احیاء العلوم یہاں کثرت سے پھیلتی جا رہی ہے۔ اس سے مسلمانوں کے عقائد بگڑ جانے کا خطرہ ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ کے حکم سے قرطبہ کے بعد مراکش، فاس، قیروان اور مغرب کے ان تمام شہروں میں جن میں علم ہے، احیاء العلوم جلا دی گئی۔’’نوجوان کی یہ باتیں سنتے ہی امام غزالی کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے اور کانپتی آواز میں خدا کی بارگاہ میں اس توہین کی صلاح دینے والے علما اور بادشاہ کے حق میں بددعا کی۔ جو لوگ اس موقع پر موجود تھے انھوں نے بعد میں بتایا کہ بادشاہ علی بن یوسف کے حق میں امام غزالی کے الفاظ تھے:‘‘بار الٰہی! جس طرح اس نے میری کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے برباد کیا ہے اس طرح اس کی سلطنت کو تو ٹکڑے ٹکڑے کر کے برباد کر۔ اور جو کچھ اسے ورثہ میں ملا ہے، وہ سب کچھ اس سے چھین لے۔’’امام کی اس بددعا پر طالب علموں کے حلقے سے ‘‘آمین’’ کی صدا بلند ہوئی۔ امام نے ہنوز ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ وہ نوجوان آگے بڑھا اور بولا: ‘‘یا امام! اپنی اس دعا میں اتنا اضافہ فرما دیجیے کہ ان باتوں کی تعمیل میرے ہاتھ سے ہو۔’’امام نے اپنے ہاتھ دعا میں روک کر کہا کہ یا اللہ! اس دعا کی تکمیل خاص اسی شخص کے ہاتھوں ہو۔طالب علموں نے ایک بار پھر اس پر ‘‘آمین’’ کہا۔ یہ طالب علم محمد بن عبد اللہ بن تومرت تھا۔ جس نے یہاں سے مغرب واپس جا کر دعوائے مہدویت کیا۔
محمد بن تومرت دینی اور دنیوی دونوں قسم کی حکومتیں حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ وہ اپنے عنفوان شباب ہی سے اس ادھیڑ بن میں رہا کرتا تھا، جس طرح امام غزالی کا واقعہ اس کے شوق کی خبر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک اور واقعہ ہے جس نے اس کے ارادوں کو بہت تقویت دے دی تھی۔ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں اسے علم جفر پر ایک کتاب مل گئی۔ اس کتاب کا اس نے خوب غور سے مطالعہ کیا اور اس کے احکام سے اسے معلوم ہوا کہ سوس میں نسل بنی فاطمہ سے ایک شخص پیدا ہو گا، جو لوگوں کو خدا کی طرف بلائے گا اور اس کا مستقر مقام ایک ایسی جگہ ہو گی جس کے نام کے حروف‘ ت ی ن م ل’ ہوں گے۔ اسے ایک اور شخص ملے گا جس کی مدد سے وہ اپنی اغراض میں کامیابی حاصل کرے گا۔ اس شخص کے نام کے حروف ‘ع ب د م و م ن’ ہوں گے۔ زمانہ طالب علمی ختم ہونے کے بعد اس نے اس شہر اور اس نام کے شخص کو تلاش کرنا شروع کر دیا تاکہ خود اپنے آپ کو وہ شخص ثابت کر سکے۔ جو سوس میں پیدا ہونے والا ہے۔ اس لیے کہ وہ خود بھی اطراف سوس میں پیدا ہوا تھا۔ اور نسل بنی فاطمہ سے بھی تھا۔
محمد بن تومرت نسبا ً حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھا۔ اس کے باپ کا نام عبد اللہ تھا۔ وہ بربر قبیلے کا سردار تھا۔ محمد بن تومرت کوہستان سوس میں ۴۸۵ ھ میں پیدا ہوا تھا۔ پہاڑوں میں نشو نما پا کر وہ کم عمری ہی میں حصول علم کی خاطر وطن سے نکل کھڑا ہوا۔ پھرتے پھراتے سپین و مصر ہوتا ہوا وہ بغداد پہنچا۔ تین برس امام غزالی کی صحبت میں رہا۔ اس زمانے میں امام ممدوح کے علاوہ ہراش اور طرطوشی وغیرہ و دیگر اساتذہ بغداد کے فیض درس سے بھی فیض یاب ہوا۔ تحصیل علم سے فارغ ہو کر وہ بغرض حج مکہ مکرمہ گیا۔ مدت تک وہیں رہا اور علوم دینی میں علمائے حرمین سے بہت کچھ فائدہ اٹھایا۔
ابن تومرت نہایت ہی متقی اور پرہیزگار آدمی تھا۔ اس کی دین داری اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ خود مخالف شرع ہونا تو درکنار کسی اور کو بھی کوئی خلاف شرع بات کرتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ اپنے ان جذبات کا اظہار کرنے میں وہ اتنا جری اور بے باک تھا کہ نہ کسی بادشاہ کا خوف اس کے دل پر بیٹھتا تھا نہ وہ عوام کی برہمی سے ڈرتا تھا۔ نہ ایسے موقعوں پر علما و فضلا کا کوئی لحاظ کرتا تھا۔ یہ آزادی شروع ہی سے اس کی فطرت میں موجود تھی۔ اب علم و فضل نے اس میں اور بھی زیادہ ضد اور جرأت پیدا کر دی۔ وہ ذرا سی بات پر بلا تامل علما سے لڑ بیٹھتا تھا۔ اور اکثر شہروں سے انھی جھگڑوں کے سبب اسے نہایت ذلت و خواری کے ساتھ نکلنا پڑا۔ مگر اس نے کبھی اس کی پروا نہ کی۔ ایسی ہی آزادانہ خود سریوں کے سبب جب اسے مکہ مکرمہ سے نکال دیا گیا تو وہاں سے نکل کروہ مصر جا پہنچا۔ وہاں بھی ایسے ہی حالات پیش آئے اور اسے وہاں سے بھی نکلنا پڑا۔
یہ آزادیاں ابن تومرت سے نبھ بھی خوب جاتی تھیں، اس لیے کہ وہ نہایت شیریں زبان تھا۔ اور عربی میں ایسی فصیح و بلیغ تقریر کرتا تھا کہ سننے والوں پر سحر سا طاری ہو جاتا تھا۔ اور جہاں اس کی مخالفت کا شور ہوتا تھا، وہاں بہت سے لوگ اس کے طرف دار بھی ہو جاتے تھے۔
دولت دنیاوی کی ابن تومرت کو کوئی پروا نہ تھی۔ وہ اس سادگی سے سفر کرتا تھا کہ سوائے ایک مشکیزے اور ایک چھڑی کے اپنے ساتھ کچھ نہ رکھتا تھا۔ مخالفت کے طوفان میں پڑ کے اس نے یہ آخری تدبیر نکالی تھی کہ سودائی بن جاتا اور بہکی بہکی باتیں کرے لگتا۔ قاہرہ سے جب اسے نکال دیا گیا تو وہ سکندریہ جا کر جہاز پر سوار ہو گیا اور مغرب کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس جہاز کے مسافروں میں پابند شرع مسافر بہت ہی کم تھے۔ ابن تومرت کو اس بات پر شدید غصہ آیا۔ اس نے پابندئ شرع سے غفلت برتنے والے مسافروں سے لڑنا شروع کر دیا۔ ان لوگوں پر اس کا ایسا رعب بیٹھا کہ جب جہاز مہدیہ کی بندر گاہ پر اترا تو جہاز میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو پابند صلوٰۃ نہ ہو یا کسی دن قرآن کا ناغہ کرتا ہو۔ محمد بن تومرت ۵۰۵ ھ میں مہدیہ میں داخل ہوا۔
مہدیہ میں ان دنوں امیر یحییٰ بن تمیم بن مغرکی حکومت تھی۔ یہ جا کے ایک مسجد میں اترا جو شہر کی ایک سڑک کے کنارے پر واقع تھی۔ وہ ہر روز مسجد کے سڑک کی جانب واقع جھروکے میں بیٹھ کر سڑک پر سے گزرنے والوں کو دیکھا کرتا تھا اور جہاں کسی کو خلاف شرع کی حالت میں دیکھتا تو فوراً جھروکے سے اتر کر اس سے دست بگریبان ہو جاتا۔ دو تین دنوں میں ہی اس نے بہت سے لوگوں کی ڈھولکیں پھاڑ دیں۔ بہتوں کے طبل توڑ ڈالے، بہتوں کے قرنا اور طنبورے توڑ ڈالے، سینکڑوں خمہائے شراب اور دیگر ظروف ِ شراب چکنا چور کیے۔ غرض سارے شہر میں اک آفت مچا دی۔ اس کی ان کارروائیوں سے اس کی ہر جگہ شہرت ہو گئی۔ عام لوگ اس کے معتقد ہو گئے اور ہر جگہ دھوم ہو گئی کہ ایک بڑا متبحر عالم وارد مہدیہ ہوا ہے۔ جب اس کے طلبا کی تعداد بہت بڑھ گئی تو اس نے سلسلۂ تدریس شروع کر دیا۔ ہوتے ہوتے اس کی شہرت امیر کے کان تک جا پہنچی۔ اس نے اسے اپنے دربار میں بلوایا اور بڑی قدر و منزلت کی اور بہت کچھ حسن عقیدت ظاہر کر کے رخصت کیا۔
ابن تومرت کو ایک جگہ بھلا کیوں کر قرار آ سکتا تھا۔ وہ علم جفر کے بتائے ہوئے شہر اور شخص کو ہر جگہ ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ چند روز بعد وہ مہدیہ چھوڑ کر بجایہ جا پہنچا۔ وہاں بھی حسب معمول اپنی آزادانہ خود سریوں کے مظاہرے کرتا رہا۔ اتفاقاً وہ اپنے قیام بجایہ کے زمانے میں ایک مرتبہ ایک گاؤں گیا، جس کا نام ملالہ تھا۔ اس گاؤں میں راہ چلتے چلتے اس نے ایک نہایت حسین اور خوبصورت نو عمر لڑکے کو دیکھا، جس کے چہرے پر اسے ذہانت و ذکاوت کے ساتھ ساتھ دولت و اقبال کے ستارے بھی چمکتے دکھائی دیے۔ وہ اسے دیکھتے ہی بے اختیار سا ہو گیا اور فوراً ہی اس لڑکے کے پاس جا پہنچا اور پوچھا :‘‘میاں صاحب زادے! تمھارا نام کیا ہے؟’’اس لڑکے نے جواب دیا: ‘‘عبد المومن’’۔اس کا نام سنتے ہی ابن تومرت بے اختیار اچھل پڑا۔ وہ عرصۂ دراز سے اسی نام کے شخص ہی کو تلاش کرتا پھر رہا تھا۔ ا س نے اس سے پوچھا: ‘‘تمھارا گھر کہاں ہے؟’’لڑکے نے جواب دیا: ‘‘کومبہ میں’’۔اس نے پوچھا: ‘‘آج کل تم کیا کر رہے ہو؟’’لڑکے نے جواب دیا: ‘‘میں حصول علم کی خاطر ارض مشرق کے سفر پر جانے کی تیاری کر رہا ہوں۔’’ابن تومرت نے کہا: ‘‘علم و فضل، دولت و ثروت سب چیزیں اللہ نے تمھیں دیں۔ آؤ میرے ساتھ چلو، میں تم پر و ہ باطنی رموز ظاہر کروں گا کہ تم کو میرے کہے کا یقین آ جائے گا۔’’وہ لڑکا فوراً ہی اس کے ساتھ ہو لیا۔ اپنے گھر پہنچ کر ابن تومرت نے اپنے سارے راز اس پر آشکار کر دیے اور اسے یقین دلایا کہ وہ عنقریب ایک بہت بڑا شہنشاہ بننے والا تھا۔ عبد المومن پر اس کی باتوں نے گہرا اثر کیا۔ وہ دن رات اس کے ساتھ لگا رہنے لگا۔ تھوڑے عرصہ بعد ایک تیسرا شخص بھی ان میں شامل ہو گیا۔ اور ان کا ایک مضبوط اتحاد ثلاثہ قائم ہو گیا۔ اس تیسرے شخص کا نام عبد اللہ شر ابشی تھا۔ یہ بڑا زبردست فقیہ اور متبحر عالم تھا۔ قرآن مجید اور موطا امام مالک کا حافظ تھا۔ اور فصاحت و بلاغت میں ابن تومرت کا ہم پلہ تھا۔ اب ملالہ ہی میں تینوں نے مل کر اپنی کارروائی شروع کی اور پہلی حکمت عملی یہ قرار پائی کہ شرابشی بالکل گونگا بن جائے اور اپنے تمام علم و فضل اور فصاحت و بلاغت کو اس موقع پر یکایک ایک معجزے کی طرح ظاہر کرے جب اس کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ تجویز بہت مناسب خیال کی گئی۔ اور شرابشی ایک گونگے مرید کی طرح ابن تومرت کے ہمراہ ہو لیا۔ اب اس بات کی کوشش کی گئی کہ مریدوں کی ایک چھوٹی اور مضبوط جماعت بنا لی جائے۔ ابن تومرت کی ایک حکمت عملی یہ بھی تھی کہ لوگوں کو مرید بنا کے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اور ایسے لوگوں کو مرید بناتا تھا جو علم و فضل کے لحاظ سے تو معمولی لیاقت کے ہوتے تھے، لیکن شکل و صورت کے خوبصورت اور ہاتھ پاؤں کے مضبوط ہوتے تھے۔ اس لیے کہ ایسے لوگ گہرے عقیدت مند ہو سکتے تھے اور لوگوں پر اچھا اثر بھی ڈال سکتے تھے۔ الغرض اس قسم کے چھ سات آدمی اس نے چن لیے۔ یہ ہمیشہ اس کے لیے بارونق جلوس کا کام دیتے تھے۔
اس دلفریب اور بارعب جماعت کے ساتھ وہ بجایہ سے نکل کر شہر مراکش میں جا پہنچا۔ اور یہی وہ سلطنت تھی جسے اس نے اپنا شکار بنانے کی کوشش کی۔ کیونکہ ارض مغرب میں ان دنوں اس سے بڑھ کر اور کوئی با ہیبت قوت موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ فرمانروایانِ سپین بھی اس کے سامنے سر اطاعت خم کرتے تھے۔ محمد بن تومرت مع اپنے رفقا کے شہر کے باہر ایک ویران مسجد میں جا اترا اور پنی عادت کے موافق عوام شہر، عہدیداروں، علما، فضلا حتیٰ کہ خود حکمرانوں پر شرعی نکتہ چینیاں شروع کر دیں، اور ساتھ ہی مواعظ میں بادشاہ پر بھی جو نہایت ہی نیک دل اور عادل حکمران تھا، سختی سے لعن طعن کا دروازہ کھول دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت میں چاروں طرف اس کی شہرت پر لگا کر اڑنے لگی۔ پھر ایک دن اس نے ایسی جرأت کر ڈالی کہ ہر طرف ہلڑ مچ گیا۔
وہاں رسم تھی کہ شاہزادیاں بہت کم پردے کی پابندی کرتی تھیں۔ اور یہ سب سپین کے نصاریٰ کی عورتوں کی تقلید میں ہوتا تھا۔ اس رسم کے مطابق ایک روز بادشاہ ابو الحسن علی بن تاشفین کی بہن اپنی کنیزوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار بے نقاب شہر کی سڑکوں پر سے گزری۔ محمد بن تومرت یہ خلاف شرع حرکت بھلا کیونکر گوارا کر سکتا تھا۔ وہ اپنے آٹھ مریدوں کے ساتھ ان بے پردہ عورتوں پر جھپٹ پڑا اور مار پیٹ شروع کر دی۔ وہ انھیں مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا: ‘‘مسلمان عورتیں اور یوں بے پردہ پھر رہی ہیں۔’’ اس نے شہزادی کے گھوڑے پر اتنے ڈنڈے برسائے کہ وہ بھڑک گیا اور شہزادی اس پر سے گر کر زخمی ہو گئی۔ یوں مار پیٹ کر کے ابن تومرت اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں سے چل دیا اور شہزادی اور اس کی کنیزوں کو لوگوں نے شاہی محل پہنچا دیا۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگ ابن تومرت کی جرأت و دلیری پر تعجب کرنے لگے۔اس واقعہ کے بعد جمعہ کا دن آیا اور ابن تومرت اپنے مریدوں کے ساتھ شہر کی جامع مسجد میں جا پہنچا۔ اس کے ہمراہی تو ادھر ادھر جا کر کھڑے ہو گئے، لیکن وہ خاص اس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا جہاں بادشاہ نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس پر وہ عہدیدار جس کے سپرد مسجد کا انتظام تھا، اس کے پاس آیا اور کہا:‘‘کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس جگہ بادشاہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرتا ہے۔ اس جگہ اور کوئی دوسرا نہیں کھڑا ہو سکتا۔’’ابن تومرت یہ سنتے ہی شدید غصے میں آ گیا اور بولا:‘‘ان المساجد للہ. (مسجدیں صرف اللہ کی ہیں)۔’’مسجد میں موجود لوگ اس کی دلیری پر تعجب کرنے لگے۔ ابن تومرت نے فوراً ہی ان کی طرف متوجہ ہو کر خلاف شرع امور کی مذمت میں تقریر شروع کی دی۔ اس کی تقریری جاری تھی کہ بادشاہ مسجد میں داخل ہو گیا اور چاروں طرف لوگ آداب شاہی بجا لانے لگے۔ لیکن ابن تومرت نے بادشاہ کی جگہ سے ہٹنا تو درکنار الٹا اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ بادشاہ ابو الحسن علی واقعی ایک بے حد نیک اور شریف انسان تھا۔ اس نے اس کی پروا نہ کی اور ایک دوسری جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ لی۔ نماز کے بعد جیسے ہی امام نے سلام پھیرا، ابن تومرت کھڑا ہو گیا اور بادشاہ کی طرف رخ کر کے اس نے پہلے تو ‘‘السلام علیک’’ کہا۔ پھر کہنے لگا:‘‘اے بادشاہ! رعایا پر جو مظالم ہو رہے ہیں، شاید ان کی اطلاع تجھ تک نہیں پہنچتی تو ان کی خبر لے۔ خدا کے ہاں سب جواب دہی تجھے کرنا ہو گی، وہاں تو ہر گز نہ چھوٹ سکے گا کہ مجھے خبر نہ تھی۔ غریبوں کی جان و مال کا محافظ تو ہے۔’’ بادشاہ نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس لیے کہ اس نے ابھی تک ابن تومرت کے بارے میں کچھ نہ سنا تھا۔ اس کی اس تقریر سے اس نے سمجھا کہ شاید وہ کوئی عالم تھا اور اپنی کوئی غرض رکھتا تھا۔ اس لیے مسجد سے رخصت ہوتے ہوئے وہ لوگوں سے کہتا گیا کہ اس شخص سے معلوم کرو کہ اسے کس چیز کی ضرورت ہے تاکہ اس کی حاجت روائی کی جائے۔ ابن تومرت کو یہ معلوم ہوا تو وہ بولا:‘‘بادشاہ سے کہہ دو، میری غرض دنیا نہیں ہے۔ میں صرف مسلمانوں کی بھلائی چاہتا ہوں۔’ اب اس واقعہ کے بعد بادشاہ کو ابن تومرت کے تمام حالات معلوم ہوئے کہ سلطنت کی مخالفت کرتا ہے۔ اور شاہزادی کو بھی اسی نے زخمی کیا ہے۔ تو اس نے تمام علمائے دربار سے کہا :‘‘اسے میرے سامنے بلوا کر مناظرہ کرو۔ آخر معلوم تو ہو کہ اس کی کیا غرض ہے۔’’اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ اور محمد بن تومرت دربار شاہی میں حاضر ہوا۔ بادشاہ کی طرف سے قاضی محمد بن اسود نے تقریر کی اور ابن تومرت سے پوچھا:‘‘کیا یہ صحیح ہے کہ تم بادشاہ کو برا بھلا کہتے پھرتے ہو، جو بے حد نیک نفس ، پرہیز گار ، خواہشات نفسانی کا دشمن ہے اور احکام ربانی کا پابند ہے؟’’ابن تومرت نے جواب دیا:‘‘یہ جو آپ پوچھتے ہیں کہ میں نے بادشاہ کے خلاف کلمات نکالے یا نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کہے اور بے شک کہے۔ باقی رہا یہ کہ بادشاہ متقی، پرہیزگار اور خدا ترس ہے، اس کے خلاف بس اسی قدر کافی ہے کہ اس نے تمھاری باتوں پر اعتبار کر لیا اور جو تم اسے کہہ دیتے ہو اسے سچ جان لیتا ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ سلطنت میں خرابیوں کا ذمہ دار ہے۔ خدا کے سامنے وہ یہ کہہ کر ہر گز نہ چھوٹ جائے گا کہ اسے کوئی خبر نہ تھی۔ قاضی صاحب! کیا آپ نے نہیں سنا کہ مسلمانوں کی آبادیوں میں سؤر مارے مارے پھرتے ہیں، شراب اعلانیہ بک رہی ہے اور یتیموں کے مال پر دست ظلم دراز ہے۔’’ابن تومرت کی تقریر ایسی دل پذیر اور پر اثر تھی کہ بادشاہ نے آبدیدہ ہو کر ندامت سے سر جھکا لیا اور دل میں کہا کہ بے شک یہ سچ کہتا ہے۔ تمام فقہا نے کہا:‘‘بادشاہ سلامت اس شخص کی باتوں سے بوئے بغاوت آتی ہے، اس سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔’’علامہ مالک بن وہب نے بھی جو بادشاہ کے مزاج میں سب سے زیادہ دخل رکھتے تھے، فقہا کی تائید کی اور کہا:‘‘اگر اس کا قتل خلاف مصلحت ہے تو اسے کم از کم حراست میں ضرور رکھنا چاہیے اور اس کے مصارف کے لیے ایک دینار یومیہ مقرر کر دینا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ اس ایک دینار کے عوض میں اس کا ہاتھ سارے شاہی خزانے تک نہ پہنچ جائے۔’’بادشاہ کے ایک وزیر نے کہا:‘‘یہ لوگ تو روٹیوں کے محتاج ہو رہے ہیں، سلطنت کو کیا ضرر پہنچائیں گے۔ ان کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ خارج الاسلام کر دیے جائیں۔’’بادشاہ نے کہا:‘‘میں ایسے صاحب علم ناصحوں پر ایسا ظلم نہیں کر سکتا، ان لوگوں کو صرف مراکش سے نکال دیا جانا بہتر ہے۔’’چنانچہ محمد بن تومرت کو مع اپنے ساتھیوں کے مراکش سے نکال دیا گیا۔ شہر مراکش سے نکل کر یہ لوگ مراکو کے ایک چھوٹے شہر اغمات پہنچے۔ وہاں عبد الحق بن ابراہیم جو اس شہر کا ایک بااثر عالم تھا، ابن تومرت کے لیے ایک نہایت کار آمد مشیر اور دوست ثابت ہوا۔ اس نے ابن تومرت سے کہا: ‘‘اگر بادشاہ کے ملک میں رہ کر تم آزادی سے اس کی مخالفت کرنا چاہو تو اس کے لیے اس شہر اغمات میں نہ رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ شہر تمھاری حفاظت نہ کر سکے گا۔ ایسی کارروائیوں کے لیے سب سے موزوں اور مناسب مقام ایک پہاڑی قصبہ ہے، جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور یہاں سے ایک دن کی مسافت پر ہے۔ اس قصبے کا نام تین مل ہے۔’’ تین مل کا نام سنتے ہی تومرت خوشی سے اچھل پڑا۔ یہی وہ نام تھا جو اسے علم جفر کے ذریعے معلوم ہوا تھا۔ اب اسے اپنی کامیابیوں کا مکمل یقین ہو گیا۔ وہ فوراً ہی عبد الحق سے رخصت ہو کر اس قصبے کی سمت ہو لیا۔ اہل تین مل نے ابن تومرت اور اس کے ساتھیوں کو علما و طلبا کے لباس میں دیکھ کر ان کی بڑی عزت و تکریم کی اور ان کے رہنے کو اپنے اچھے اچھے مکان خالی کر دیے۔ ابن تومرت نے وہاں چند روز بعد بادشاہ کے خلاف تقاریر و مواعظ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کوہستان کے لوگ جوق در جوق اس کی زیارت کو آنے لگے۔ ہر آنے والے سے ابن تومرت بادشاہ کی مخالفت کا کلمہ پڑھواتا اور جو لوگ اس کے پکے معتقد بن جاتے انھیں وہ اپنے خاص مریدوں میں شامل کر لیتا۔ ایک یہ بھی اصول تھا کہ توانا اور تندرست نوجوانوں اور مالداروں کو زیادہ عزیز رکھتا۔ کوہستان کے ذی شعور اور صاحب علم لوگ اگرچہ اس کے مخالف تھے، مگر عوام کی اکثریت اس کی پیرو کار بن چکی تھی۔
اسی اثنا میں محمد بن تومرت کو اپنے اغراض کا ایک نہایت عمدہ موقع مل گیا۔ وہ یہ کہ وہ دیکھتا تھا اہل کوہستان خود تو سانولے رنگ کے لوگ تھے مگر ان کے اکثر لڑکے لڑکیاں گورے یا بھورے رنگ کے تھے۔ ایک دن اس نے لوگوں سے اس کا سبب پوچھا تو پہلے پہل تو انھوں نے ٹال مٹول کی، پھر اسے بتایا کہ ہر سال بادشاہ کی طرف سے جو غلام ان سے خراج وصول کرنے آیا کرتے تھے، وہ عموماً یونانی، رومی اور فرنگی ہوا کرتے تھے۔ وہ آتے ہی انھیں اپنے گھروں سے نکال دیتے تھے اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کر ڈالتے تھے۔ ان کی اولادیں زیادہ تر انھی غلاموں کی تھیں۔
محمد بن تومرت یہ قصہ سنتے ہی آگ بگولا ہو گیا، اس نے اس ظلم کو ختم کرنے کی ٹھانی اور اہل قصبہ سے کہا کہ اب کی بار وہ غلام آئیں تو تم اپنی بیویوں سے کہنا کہ وہ انھیں خوب شراب پلائیں۔ چنانچہ جب بادشاہ کی طرف سے غلام خراج لینے پہنچے تو اہل قصبہ نے ان کا خوب پرجوش استقبال کیا اور انھیں اپنی بیویوں کے پاس چھوڑ کر گھروں سے نکل گئے۔ ان عورتوں نے حسب ہدایت ان غلاموں کو خوب شراب پلائی، یہاں تک کہ وہ مدہوش اور غافل ہو گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابن تومرت کو خبر کی جس نے فوراً ہی ان غلاموں کے قتل عام کا حکم دے دیا۔ چنانچہ فوراً ہی ان غلاموں کے سر کٹ کٹ کر گرنے لگے۔ اور ان کا قصہ پاک ہو گیا۔چند دنوں بعد اس قصبے کے کسی شخص کے ذریعے غلاموں کے اس قتل عام کی خبر دارالحکومت پہنچ گئی۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ بادشاہ کو جو ان حالات کا علم ہوا تو وہ پچھتانے لگا کہ اس نے آخر مشیروں کے مشورے پر ابن تومرت کو قتل ہی کیوں نہ کروا دیا۔ چنانچہ اس خونریزی کا انتقام لینے کے لیے دس ہزار سوار کوہستان روانہ کر دیے گئے۔ ابن تومرت جانتا تھا کہ غلاموں کے قتل کا بدلہ لینے بادشاہ ضرور وہاں اپنی فوج بھیج دے گا، چنانچہ ا س نے اہل تین مل کو پہاڑوں کی گھاٹیوں کے اوپر بٹھا دیا کہ جونہی بادشاہ کی فوج نیچے سے گزرنے لگے تو اوپر سے پتھر اس پر لڑھکانا شروع کر دینا۔ یہ حکمت عملی نہایت کار آمد ثابت ہوئی۔ بادشاہ کی فوج دن بھر کی کوہستانی منزل میں پتھروں کے نیچے کچل کچل کر اور چوٹیں کھا کھا کر تباہ و برباد ہو گئی۔ دس ہزار میں سے صرف چند سوار ہی رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر وہاں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو سکے۔ بادشاہ کو جب اپنے لشکر کی تباہی کی اطلاع ملی تو اسے بے حد رنج ہوا ۔ لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ اب اہل تین مل کے خلاف کوئی فوج نہ بھیجی جائے۔ آخر وہ کب تک بغاوت کرتے رہیں گے۔
اب ابن تومرت کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنی جماعت کو قوی کر لے۔ کیونکہ اپنی حفاظت تو وہ بہت اچھی طرح کر چکا تھا۔ اور اب وقت آ گیا تھا کہ وہ پہاڑوں سے نکل کر بادشاہ کے شہروں پر حملہ آور ہو۔ یہ ضرورت یوں پوری ہوئی کہ ایک صبح فجر کی نماز کے بعد جب لوگ ابھی مسجد ہی میں موجود تھے کہ اچانک ہی شرابشی نے کہا:‘‘میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔’’ابن تومرت نے اہل قصبہ کے سامنے چونکنے کی زبردست اداکاری کی اور بولا:‘‘عجیب بات ہے ایک گونگا اچانک بول پڑا۔’’پھر اس نے فوراً ہی تمام لوگوں کو بلوا بھیجا۔ جب سب مسجد میں آ گئے تو ابن تومرت کی اجازت سے شرابشی ممبر پر جا کر کھڑا ہو گیا اور سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا:‘‘یا معشر المسلمین! میں آج تک گونگا تھا، لیکن الحمد للہ کہ آج خدا نے مجھے تمام جسمانی و روحانی نقصانات و نقائص سے پاک کر دیا ۔ رات کو ایک فرشتہ آسمان سے اتر کر میرے پاس آیا۔ اس نے میرا سینہ چاک کر کے ساری برائیاں اور سارے نقائص باہر نکال دیے اور مجھے بالکل فرشتوں کی طرح معصوم بنا کر میرے دل میں ایمان و علم بھر دیا۔ یہی سبب ہے کہ میں جو کل تک گونگا اور جاہل تھا، آج ایک زبردست عالم اور حافظ قرآن و موطائے امام مالک ہوں اور اس فصاحت کے ساتھ تقریر کر رہا ہوں۔’’اس معجزے نے سب کے دلوں میں بہت بڑا جوش پیدا کر دیا۔ ہر شخص صدق دل سے اس پر ایمان لانے لگا۔ ابن تومرت نے اٹھ کر اس سے کہا:‘‘الحمد للہ! کہ خدا نے آپ کو ہمارے لیے معیار بنا دیا۔ آپ کے ذریعے ہمیں کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم میں کون کیسا ہے؟ اور ہم لوگ کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟’’شرابشی نے کہا:‘‘تم مہدی قائم بامر اللہ ہو، جو کوئی تمھاری پیروی کرے وہ جنتی ہے اور جو تمھاری مخالفت کرے وہ دوزخی ۔’’یہ سننا ہی تھا کہ سارے قصبے کے لوگ آ کر جوق در جوق ابن تومرت کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے ۔ جنھوں نے ایسا نہ کیا، انھیں بلا تامل قتل کر دیا گیا۔ اور تین مل ابن تومرت کے مخالفوں سے بالکل خالی ہو گیا۔اب ابن تومرت کی قوت بڑھی، اس نے کثیر فوج منظم کی اور اس کی سربراہی عبدالمومن اور شرابشی کو سونپ کر دار الحکومت مراکش پر حملے کے لیے روانہ کیا۔ اس لڑائی کا ایسا الٹا نتیجہ ہوا کہ بنا بنایا کھیل بگڑ گیا ہوتا، مگر مہدی (ابن تومرت) کی ہوشیاری اپنا کام کر گئی۔ لڑائی میں اس کی فوج کو شکست فاش ہوئی۔ شرابشی مارا گیا۔ عبد المومن بچے کھچے سپاہیوں کے ساتھ مایوس و ناامید واپس تین مل چلا آیا۔ مگر اس وقت تک ابن تومرت کا انتقال ہو چکا تھا۔ اسے مرتے وقت اپنی فوج کی شکست کا علم ہو چکا تھا۔ اس نے لوگوں سے کہا: ‘‘میں تو تم سے رخصت ہوتاہوں، مگر میرا یہ پیغام عبد المومن کو پہنچا دینا۔ میرے بعد دین کی تقویت کے لیے خدا نے اسے میرا جانشین بنایا ہے۔ میری طرح اب اس کی اطاعت سب پر فرض ہے۔ لڑائی میں شکست پر کوئی مضائقہ نہیں۔ معرکہ ہائے جنگ میں شکست و فتح ہوا ہی کرتی ہے۔ عبد المومن کو بالآخر ہر جگہ کامیابی ہی حاصل ہو گی۔ اس لیے کہ خدا کی یہی مرضی ہے۔ جو کام شروع ہوا ہے عبد المومن کو تاکید کر دینا کہ اس کے لیے برابر پاک بازی سے کوشش کرتا رہے۔’’عبد المومن نے ابن تومرت کی موت کا بڑا غم کیا۔ مگر اس کی وصیت پوری کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اس نے ایسی جد و جہد کی اور بہادری و جرأتمندی اور استقلال و ہمت کے ایسے بے مثال کارنامے رقم کیے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ حال ہو گیا کہ اس سے بڑا اور ذی شان حکمران سارے مغرب میں کوئی نہیں تھا۔ اگر انصاف سے پوچھیے تو یہ ابن تومرت تھا جو عبد المومن کے لیے یہ سب سامان تیار کر گیا تھا۔ وہ یہ حسرت اپنے دل ہی میں لے گیا کہ جس سلطنت کی اس نے بنیاد ڈالی تھی، وہ خود اس سے کوئی نفع نہ اٹھا سکا۔