ایک وقت تھا کہ سیاست قا ئد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خاں ،عبد الرب نشتر، مرتضی احمد خان میکش ، محمد علی جوہر ، چودھری افضل حق ، عنایت اللہ مشرقی ، ماسٹر تاج الدین انصاری ،عطا ء اللہ شاہ بخاری، علامہ اقبال ، مولانا ظفر علی خان ، ابو الکلام آزاد ،اور حسین احمد مدنی جیسے لوگوں کے نام سے پہچانی جاتی تھی ۔ یہ لوگ سچ کے علمبردار اور اصولوں کے پرستار تھے۔ ان کا نام محض نام نہیں بلکہ ایک اعتبار اور معیار تھا ۔ جسے وہ حق سمجھتے اور جانتے تھے اس کے لیے وہ سب کچھ قربان کرنے والے تھے ۔ یہ لوگ نہ بکتے تھے ، نہ جھکتے تھے ۔ یہ لوگ تاریخ کے دھارے کے ساتھ بہنے والے نہ تھے بلکہ ان دھاروں کا رخ موڑنے والے تھے اور بقول ابوالکلام آزاد کے، یہ لوگ کہتے تھے کہ‘‘ وقت ساتھ نہیں دیتا تو ہم اس کو ساتھ لے لیں گے ، اگر سروسامان نہیں تو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر لیں گے ۔ اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہیے ۔ اگر آدمی نہیں ملتے تو فرشتوں کو ساتھ دینا چاہیے ، اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہو گئی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہیے ۔ اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ ، درختوں کو دوڑنا چاہیے ۔ اگر رکاوٹیں اور مشکلیں بہت ہیں تو پہاڑوں او رطوفانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ راہ صاف نہیں کرتے ۔ یہ لوگ زمانے کی مخلوق نہیں تھے کہ زمانہ ان سے چاکری کرائے ، یہ وقت کے خالق اور عہد کے پالنے والے تھے ۔زمانہ کے حکموں پر نہیں چلتے تھے بلکہ زمانہ ان کی جنبش لب کا انتظار کیا کرتا تھا ۔ یہ لوگ دنیا پر اس لیے نظر نہیں ڈالتے تھے کہ کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لیں ۔ وہ تو یہ دیکھتے تھے کہ کیا کیا نہیں ہے جس کو پورا کر دیں ۔’’ یہ لوگ سیاست کے علاوہ بھی کسی نہ کسی شعبے میں ممتازہواکرتے تھے ۔ کوئی صحافت میں تو کوئی قانون میں ، کوئی شعر و شاعری میں تو کوئی ادب و فلسفہ میں ، کوئی تحریر میں تو کوئی تقریر میں ، کوئی دینی علوم میں تو کوئی ریاضی و فنانس میں ۔
اورایک وقت اب ہے کہ جسے باقی سب شعبے مسترد کر دیتے ہیں وہ میدان سیاست میں آٹپکتا ہے ۔ ہر شعبہ مطلوبہ تعلیم و قابلیت والے افراد کو قبول کرتا ہے مگر آج کا سیاسی شعبہ ہر تعلیم و قابلیت سے عاری افراد کی آماجگاہ ہے اور ابو الکلام مرحوم نے تو ایک ہی جملے میں ان کی مکمل تعریف کر دی ہے کہ وہ لوگ تو اپنا سب کچھ دے کر وطن بنانے والے تھے اور یہ سب کچھ لے کر اپنا دامن بھرنے والے ہیں ۔ ان کی نگاہیں ہر وقت اس بات کی متلاشی رہتی ہیں کہ کہاں کہاں سے ،کیا کیا ،مل سکتا ہے اور کیسے مل سکتا ہے ۔ وہ تن من دھن دے کر پاکستان بنانے والے اور یہ پاکستان سے چھین کر اپنی ذات بنانے والے ۔ ایثار ، قربانی ، وفا ، سچ ، دیانت ، امانت ، محنت ، حق گوئی و بے باکی ، جرأت ، شجاعت جیسی صفات ان کے لیے بالکل اجنبی بن کے رہ گئی ہیں ۔ ایک قلیل استثنا کے سواباقی سب شکم ، کنبہ اور اقربا پروری ، طمع ، لالچ ، حرص ، تکبر ، انتقام ، عناد ، تعصب ، تنگ نظری ، کرپشن ، رشوت ، ذاتی مفادات اور‘‘ فی سبیل اللہ ’’فسادات سے خوب آشنا ہیں ۔ ان لوگوں کے ہاتھوں وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کی امید بھی ان بہت سے خوابوں میں سے ایک خواب بن گیا ہے جو تشنہ تعبیر رہا کرتے ہیں۔دراصل وطن عزیز کے ساتھ یہ عجیب حادثہ گزرا ہے کہ قیام پاکستان کے عین آخری وقت پہ انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے اور ان کے کتے نہلا کے جاگیریں بنانے والے اس جماعت میں شامل ہو گئے جہاں سے انہیں فائدہ نظر آر ہا تھااور پھر کچھ ان دیکھے ہاتھوں نے قائد کے بعد زمام اقتدار بھی انہی کے سپرد کر دی ۔ ان کے دلوں میں پاکستان یا اسلام کے لیے وہ درد کہاں ہو سکتا تھا جو کہ ان لوگوں کے دلوں میں تھا جنہوں نے لا الہ الا اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ اس پہ نثار کر ڈالا تھا ۔ ان لوگوں کے لیے اسلام کا نام بس اقتدار کی سیڑھی اور استحصال کا زینہ تھا ۔ اس پہ عمل یا اس کا نفاذ ان کے مفادات کے لیے بالکل موزوں نہ تھا ان جیسے لوگوں نے روز اول ہی سے ا سلام اور قرآن کے مقدس ناموں کو جس طرح exploit کیا ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال قدرت اللہ شہاب سے سنیے ۔
‘‘دو وزیروں کادورہ خاص طور پر میرے دل پر نقش ہے ۔ ان کی آمد پر دو میل کے پار کئی سو افراد ان کے والہانہ استقبال کے لیے پل کے قریب جمع ہو گئے ۔ دونوں وزیر کار سے نیچے اتر کر کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے ، تو ایک چھوٹے موٹے جلسے عام کی سی صورت پیدا ہو گئی ۔ مسلم کانفرنس کے چند لوگوں نے بڑی جوشیلی استقبالی تقریریں کیں ۔ سامعین میں سے ایک بزرگ صورت شخص نے اٹھ کر رقت بھری آواز میں کہا: ‘‘جناب پاکستان ایک عظیم ملک ہے ۔ آزاد کشمیر تھوڑا سا علاقہ ہے ۔ آپ اس علاقے کو لیبارٹری اور ہم کو تجرباتی چوہوں کی طرح استعمال میں لائیں ۔ اسلامی احکامات اور قوانین کو پہلے یہاں آزمائیں اور پھر اس تجربہ کی روشنی میں انہیں پاکستان میں نافذکرنے کا سوچیں ۔ ’’ اس بوڑھے کی یہ بات سن کر سارا مجمع سناٹے میں آگیا ۔ پھر اچانک دونوں میں سے ایک وزیر باتدبیر جوش و خروش سے اٹھ کر فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے لگے ۔ جوش خطابت میں انہوں نے کوٹ کی جیب سے ایک لاکٹ نما سی چیز نکال کر مجمع کے سامنے لہرائی اور بولے : ‘‘ بھائیو، آپ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں کہ اللہ کے قانون کو آزما آزما کر تجربہ کریں ۔ یہ دیکھو یہ اللہ کا قانون ہے جو چودہ سو برس پہلے نافذ ہو چکا ہے اور جس پر عمل کرنا ہم سب کا دینی ، اخلاقی اور ایمانی فرض ہے ……’’ وزیر صاحب کی تقریر میں اسلامی جذبات ایسی شدت سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے کہ سامعین میں سے چند رقیق القلب لوگ بے اختیار رو پڑے ۔ واپسی میں احتراماً میں ان دونوں وزیر صاحبان کو کوہالہ کے پل تک چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا ۔ ایک وزیر نے دوسرے وزیر کی شاندار تقریر پر تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسانے کے بعد پوچھا : ‘‘ بھائی صاحب! آپ کے پاس قرآن شریف کا لاکٹ بڑا خوبصورت ہے ، یہ تاج کمپنی کا بناہوا ہے یا کسی اور کا ؟’’ دوسرے وزیر صاحب کھلکھلا کر ہنسے اور لاکٹ جیب سے نکال کر بولے : ‘‘ارے کہاں بھائی صاحب یہ تو محض سگریٹ لائٹر ہے ۔ وزیروں کی یہ جوڑی ملک غلام محمد اور نواب مشتاق احمد گورمانی پر مشتمل تھی۔’’ ( شہاب نامہ ، ص 423 ) انہیں میں سے ایک صاحب پاکستان کے گورنر جنرل بھی قرار پائے ۔ ان سے نفاذ اسلام کی توقع واقعی ایک حماقت سے کم نہ تھی ۔ لوگ کہیں گے کہ یہ بات تو پرانی ہو گئی ، ہاں صاحب ، ہم بھی اس بات کو ہر گز نہ دہراتے ،اگر صورت حال کچھ تبدیل ہو گئی ہوتی مگر المیہ تو یہ ہے کہ آج تک یہ سب کچھ جاری ہے اور ہمارے خیال میں اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ عوام کی آنکھیں نہیں کھلتیں ۔ اور آنکھیں کھلنے کے آثار ابھی دور دور تک بھی نظر نہیں آرہے ۔ اور اگر یہ سلسلہ کچھ دیر اور یوں ہی جاری رہا تو پھر تاریخ مجبور ہو گی کہ ایک سابق وزیر دفاع ( میر علی احمد تالپور) کی بات کو سچ قرار دے دے (اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو) جنہوں نے کہا تھا کہ ‘‘میں اس سے اتفاق نہیں کروں گا کہ پاکستان نظریہ اسلام کے تحت وجود میں آیا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو غلام محمد ، سکندر مرزا ، ایوب خان ، یحیی خان جیسے لوگ ہر گز برسر اقتدار نہ آتے ۔’’ (نوائے وقت ، 3 ستمبر 1986 ) ۔
میں یہ کلمات لکھ ہی رہا تھا کہ ایک دوست تشریف لائے ، انہوں نے آخری جملے پڑھ کر مجھ سے سوال کیا کہ اگر علی احمد تالپور نے آج کے اخبار میں یہی بات کہی ہوتی تو یحیی خان کے بعد وہ کن کن ناموں کااضافہ کرتے؟ میں نے کہا ، اس کا جواب تو شاید تم جانتے ہو، نہیں جانتے تو سوئے حرم کے قارئین سے پوچھ لینا۔