لاہور سمیت پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے شہروں میں ‘‘ڈینگو یا ڈینگی ’’ بخار کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور لوگ اس کے خوف میں مبتلا ہیں۔ڈینگی بخار یا ڈینگی وائرس کیا ہے؟ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی اور اس سے بچنے کے لئے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں؟ اس حوالے سے ہم آج بات کریں گے۔اس مرض کی ابتدا کہاں سے ہوئی ؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جاسکتی لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا ایشیا،افریقہ اور شمالی امریکہ میں 75ء میں ہوئی جب ان علاقوں کے رہنے والوں میں اچانک ایک ایسی وبا پھیلی جس میں مریض کو ایک دم تیز بخار ہوجاتا اور ساتھ ہی سر اور جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا،جبکہ بعض کیسز میں مریضوں کے پیٹ میں درداور خونی الٹیاں اور خونی پیچش کی بھی شکایت ہوگئی۔ اس مرض میں مبتلا ہونے والے مریض سات سے دس دن تک اس بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد ہلاک ہونے لگے،جس سے وہاں کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلنے لگا اور بڑی تعداد میں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی شروع کردی۔ اس وقت کے طبیبوں نے جب اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔
1950ء میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاء-04 کے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بالخصوص بچے جاں بحق ہوئے۔ 1980کے دوران یہ بیماری عام ہوگئی اور 1979ء-04 میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخارDENGUE FEVERکا نام دیا گیا۔ جبکہ اسے گندی روح یعنی DIRTY SOUL بھی کہا جاتا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس بیماری کی ابتدا سے 1990ء کے آخر تک اس بیماری سے تقریباً 40لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اب تک اس بیماری سے سب سے زیادہ نقصان برازیل کو پہنچا ہے جہاں 2002ء میں جنوبی ریاست RIO DE JANEIRO میں یہ بیماری ایک خوفناک وبا کی صورت میں پھیل گئی اور اس بیماری کے ہاتھوں تقریباً 10لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ جبکہ یہ بھی دیکھا گیا ہ یہ بیماری تقریباً ہر 5سے 6سال میں پھیلتی ہے،جبکہ اس بیماری کے علاج کے بعد دوبارہ میں اس میں مبتلا ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں اور جو فرد ایک دفعہ اس بیماری کا شکار ہوا ہو وہ دوسری دفعہ بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے۔اس بیماری کی کچھ مخصوص علامات ہیں جس میں تیز بخار،متلی،سردرد ،ناک اور منہ سے خون آنا،پیٹ کے پیچھے کمر میں درد ہونا،جسم میں اینٹھن اور جسم میں سرخ دانے نکلنا وغیرہ شامل ہیں۔اگر اس بیماری کو فوراً کنٹرول نہ کیا جائے تو پھر ‘‘ڈینگو ہیمبرج فیور’’ شروع ہوجاتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔بخار کی تیزی کی وجہ سے بعض کیسز میں دماغ کی رگ پھٹنے یعنی برین ہیمبرج کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ڈاکٹرز کے مطابق ڈینگی وائرس کے شکار مریض کے خون میں سرخ خلیے (RED CELLS ) ختم ہوجاتے ہیں اس لئے اس وائرس کے شکار لوگوں کو سرخ خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈینگی بخار دراصل ملیریا کی ہی ایک اگلی سٹیج یا ترقی یافتہ شکل کہی جاسکتی ہے۔لیکن یہ عام مچھر کے بجائے ایک خاص قسم کے ‘‘ایڈیز ’’ نامی مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس مچھر کی ٹانگیں اور جسامت عام مچھر سے قدرے بڑی ہوتی ہے اور یہ ایک رنگین قسم کا مچھر ہوتا ہے جس کے جسم پر زیبرا کی طرح دھاریاں ہوتی ہیں۔ ڈینگی وائرس پھیلانے والا مچھر رات کے بجائے شام کو یا علی الصباح اپنے شکار کی تلاش میں نکلتا ہے،جبکہ یہ مچھر گندگی کے بجائے گھروں میں اور گندے پانی یا کیچڑ وغیرہ کے بجائے صاف پانی میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگی وائرس پھیلانے والے مچھر کی 38 اقسام ہیں اور پاکستان میں ان میں سے صرف ایک قسم پائی جاتی ہے۔دنیا کی 40فیصد آبادی اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہے اور دنیا بھر میں سالانہ پانچ کروڑ کیسز اس بیماری کے سامنے آتے ہیں جبکہ پوری دنیا میں اس مرض سے ہونے والی ہلاکتیں سالانہ 15ہزار سے زائد ہیں۔گھروں اور محلوں میں اس وبا سے نجات کا حل یہی ہے کہ گلی کوچوں میں جراثیم کْش ادویات کا مسلسل اسپرے کیا جائے تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہوجائیں،گھروں میں صاف پانی کو اچھی طرح ڈھانک کر رکھا جائے اور سوتے وقت جسم پر مچھر بھاگنے والی ادویات ملی جائیں یا پھر مچھر دانی کا استعمال کیا جائے۔
پاکستان میں ڈینگی وائرس کا پہلا کیس 1995ء میں ریکارڈ کیا گیا۔جنوبی بلوچستان اور کراچی میں پہلی بار اس بیماری سے 145 افراد متاثر ہوئے ،جبکہ ایک فرد جاں بحق ہوا۔2003ء میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے ہری پور میں اس بیماری کے 300کیسز جبکہ پنجاب کے ضلع چکوال میں اس کے 700کیسز ریکارڈ ہوئے۔ گذشتہ سال اس وائرس کے حملے میں تقریباً 3 ہزار کنفرم کیسز سامنے آئے جبکہ 450 مشتبہ کیسز ریکارڈ کئے گئے۔جبکہ 2درجن سے زائد افراد اس موذی مرض کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔سالِ رواں میں اس موذی مرض کا حملہ گذشتہ سال کی نسبت کئی گنا زیادہ شدید ہے۔ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اس مرض سے بہت سے افراد جاں بحق ہوچکے ہیں،پنجاب میں لاہور کے علاوہ فیصل آباد اور دیگر شہربھی اس وبا سے متاثر ہیں۔فیصل آباد سے ڈینگی کے 28کیس سامنے آئے ہیں ،جبکہ کراچی سے اب تک کی اطلاعات کے مطابق 12افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
ڈینگی بخار قابل علاج مرض ہے لیکن ڈاکٹرز کے مطابق یہ علاج گھر پر نہیں کیا جاسکتا ،ہمارے ملک میں عمومی طور پر خودتشخیصی کی عادت پائی جاتی ہے یا پھر لوگ باگ کسی بھی کیمسٹ،میڈیکل اسٹور والے سے مشورہ کرکے دوائیں استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی غلط طریقہ ہے۔اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مہنگے علاج کے باعث بھی لوگ مقامی ڈاکٹروں یا عطائی سے دوائی لینے کو ترجیح دیتے ہیں،یہ عطائی اور ناتجربہ کار ڈاکٹرز مرض کی درست تشخیص نہیں کرپاتے ۔ناتجربہ کار ڈاکٹرز ڈینگی بخار میں مبتلا مریضوں کو فوری طور پر ملیریا کے مرض کی دوا استعمال کراتے ہیں جو کہ اس مرض میں انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق اس سے مرض بگڑ جاتا ہے اور جب مرض کی شدت حد سے بڑھ جاتی ہے اور منہ سے خون آنا شروع ہوجاتا ہے اس وقت مریض کے رشتہ دار مریض کو ہسپتال لیکر آتے ہیں۔ایک اہم بات یہ کہ اس مرض کے بارے میں لوگوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اس میں مبتلا مریض جانبر نہیں ہوسکتے ،جبکہ ایسا نہیں ہے ڈینگی بخار میں شرح اموات 4فیصد ہے،اور یہ ایک قابل علاج مرض ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی بروقت تشخیص اور درست علاج کیا جائے۔تجربات کے مطابق پپیتہ بھی اس مرض میں کارآمد ہے ۔