کتے کا 911 کو فون، مالک کی جان بچ گئی
امریکہ میں ایک پالتو کتیا نے اپنے بیمار مالک کی جان بچانے کے لیے ٹیلی فون نمبر ڈائل کیا جس سے ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے والا ادارہ حرکت میں آگیا اور اس نے بروقت کارروائی کرکے بیمار شخص کو بچا لیا۔اس حیران کن خدمت کے عوض کتیا کو ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔بیلے نے ایمبیولینس کے عملے کو اپنے مالک کے موبائل فون سے ڈائل کیا اور وہ ایسے کہ اس نے موبائل فون پر اپنے دانت گاڑھ کے نمبر ملایا۔اس کتیا کو یہ تربیت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مالک مسٹر ویور کی ناک سونگھ کر یہ جان لیتی ہے کہ آیا مالک کے خون میں شوگر کی مقدار بہت زیادہ تو متاثر نہیں ہوگئی۔کتیا نے موبائل فون سے ایمرجنسی کا نمبر اس وقت ملایا جب مسٹر ویور شوگر کی مقدار میں زبردست تبدیلی کی وجہ سے بے ہوش ہو کر فرش پر گر گئے تھے۔کتیا نے اپنے دانتوں سے نو کا نمبر ملایا۔ سپیڈ ڈائلنگ پر ہونے کی وجہ سے یہ نمبر امریکہ کی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے والے ادارے نائن ون ون سے مل گیا اور بے ہوش شخص کو فوری طور پر طبی امداد مہیا کر دی گئی۔جب فون ملا تو ایمبیولینس کے عملے نے سنا کہ ڈائل کرنے والے کی کوئی آواز نہیں آ رہی البتہ دوسری طرف کتے کے بھونکنے کی آواز ہے۔ یہ عملہ فوری طور پر فلوریڈا میں واقع اس مکان کی طرف روانہ ہوگیا جس کا پتہ موبائل فون کے ذیل میں درج تھا۔بعد میں مالک مسٹر ویور نے کہا: ‘مجھے پورا یقین ہے اگر بیلے اس صبح جب میں بے ہوش ہوگیا تھا، میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں آج زندہ نہ ہوتا۔’ انہوں نے کہا: ‘بیلے صرف زندگی بچانے والا جانور ہی نہیں میری بہترین دوست بھی ہے۔’
بلی نے مالکوں کو آگ سے بچا لیا
‘ بلی شاید دھویں کا بہترین آلارم سسٹم ہے’
آسٹریلوی حکام کے مطابق ایک پالتو بلی نے اپنے گھر کو اس وقت بچا لیا جب وہاں آگ لگ گئی تھی۔ بلی نے گھر کے مالک کے چہرے پر پنجے مار کر اسے نیند سے جگایا۔بلی کے اس فوری ایکشن کے نتیجے میں چار افراد پر مشتمل خاندان گھر میں آگ پھیلنے سے پہلے وہاں سے باہر نکل گیا۔یہ واقعہ آسٹرلیا کے شہر کائرین میں پیش آیا۔فائر سروس کے ترجمان رابرٹ وائیٹ میکفرلین کا کہنا ہے ‘ یہ بلی شاید دھویں کا بہترین آلارم تھی’۔اس آگ سے گھر کو معمولی سا نقصان پہنچا ہے۔ آگ اس وقت پھیلنا شروع ہوئی جب سگریٹ سے میٹریس نے آگ پکڑ لی۔ لیکن اس سے قبل کہ آگ گھر میں پھیلتی بلی نے فوری ایکشن کرتے ہوئے پورے گھر کو جگا دیا۔رابرٹ وائیٹ میکفرلین نے آسٹریلوی ریڈیو کو بتایا ‘بلی نے گھر کے مالک کے چہرے پر پنجے مار کر اسے جگایا اور خطرے سے آگاہ کیا۔اس کے بعد مالک نے گھر کے باقی افراد کو جگایا جو فوری طور پر گھر سے باہر نکل گئے اور آگ کے بارے میں فائر برگیڈ کو مطلع کیا۔رابرٹ وائیٹ میکفرلین نے مزید بتایا کہ اگرچہ پورے گھر میں آلارم موجود تھے لیکن دھواں ان تک نہیں پہنچ سکا تھا۔
ڈولفن کا جذبہ دوستی
ڈولفن مچھلیوں نے کئی مقامات پر انسانوں کی مدد کی ہے ۔نیوزی لینڈ کے ساحل کے نزدیک ایک ڈولفن مچھلی نے کچھ تیراکوں کی ایک سفید شارک مچھلی کے حملے سے بچنے میں مدد کی۔ لائف گارڈ وان گیری کے ساحل کے نزدیک تربیتی مشقوں میں مصروف تھے کہ ان پر ایک تین میٹر لمبی سفید شارک نے حملہ کر دیا۔اس موقعہ پر ڈولفن مچھلیاں ان کی مدد کو آئیں اور چالیس منٹ تک ان کی حفاظت کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ محفوظ مقام پر پہنچ گئے۔سمندری حیاتیات پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ڈولفن مچھلیوں کا یہ جذبہ دوستی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔لائف گارڈ راب ہوز نیجو اپنے دو ساتھیوں اور اپنی بیٹی کے ہمراہ سمندر میں موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ سمندر میں شارک کو اتنے نزدیک دیکھنا ایک خوفناک تجربہ تھا۔انہوں نے بتایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے نصف درجن کے قریب ڈولفن مچھلیوں نے ہمارے گرد گھیرا ڈال لیا اور شارک کے حملے سے بچانے کے لیے ایک حصار قائم کردیا۔تیراکوں نے بتایا کہ ڈولفن مچھلیوں نے اپنی دم پانی میں بار بار مار کر شارک کو خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کی۔یہ واقعہ تین ہفتے قبل پیش آیا تھا لیکن تیراکوں نے پہلی بار اب اس کا انکشاف کیا ہے۔تیراکوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ دن کبھی نہیں بھولیں گے اور یہ دن خاص طور پر اس تیراک کے لیے بہت یادگار ہے جو کہ اس دن رضاکارانہ طور پر پہلی بار اس تربیت میں شریک تھا۔تیراکوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈولفن مچھلیوں کا یہ عمل ارادتاً ان کی جان بچانے کے لیے تھا۔تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ وہ حیرت زدہ نہیں ہیں۔سمندری حیاتیات کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ڈولفن جو کہ ذہین ترین ممالیہ میں سے ایک ہیں مشکل میں گرفتار انسانوں کی مدد کرنا پسند کرتی ہیں۔
پانی کے نیچے ہزاروں طرح کی حیات
دنیا بھر کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے سال آبی حیات کی تیرہ ہزار نئی قسمیں دریافت کی ہیں۔ان میں تقریباً ایک سو نئی مچھلیاں شامل ہیں۔لگ بھگ ستر ممالک کے سائنس دانوں کے تعاون کے ادارے سنسس آف میرین لائف نے ٹونا اور شارک جیسی مچھلیوں کے بارے میں نئی معلومات بھی حاصل کی ہیں۔ان نئی قسموں میں سے زیادہ تر گہرے پانی میں دریافت کی گئیں اور ان میں سے تقریباً نصف مائکروبز ہیں۔بی بی سی کے ماحولیاتی نامہ نگار کے مطابق اس دریافت سے ایسا لگتا ہے کہ ابھی اور بھی بہت ساری قسموں کی دریافت ہونے والی ہے۔آبی حیات کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک محقق ڈاکٹر ران ڈار کہتے ہیں ‘ہمیں معلوم ہے کہ آبی حیات کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ پانیوں کی تہوں میں کس طرح کی حیات ہے۔’‘ہماری تحقیق اور تجزیہ کے مطابق اگر آپ دو ہزار میٹر گہرے پانی میں مچھلی پکڑ لیں تو اس بات کا امکان پچاس فیصد بڑھ جاتا ہے کہ ہمیں سمندری حیات کی اس قسم کا پتہ پہلے نہیں تھا۔’
ایک اور تحقیق کار ڈاکٹر کرس جرمن کہتے ہیں کہ ‘ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گہرے پانیوں کے نیچے حیات کس طرح کی ہے اور سمندر میں کاربن کو کس طرح روک لیتی ہے کہ یہ کاربن واپس ہماری جانب نہیں آتا۔’
وہیل کا سانحہ، اوپر سے جرمانہ بھی
گاڑیوں پر میرین ایمبولینس کے الفاظ درج ہونے کے باوجود جرمانہ عائد کیا گیا۔ لندن کے دریائے ٹیمز میں پھنسنے والی وہیل کی جان بچانے کی کوششیں کرنے والے ریسکیو کارکنان کو غلط پارکنگ کرنے پر تین سو پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو وہیل کی جان بچانے کا مشن ناکام رہا اوروہ گہرے پانیوں تک پہنچائے جانے سے پہلے ہی دم توڑ گئی اور دوسری طرف ریسکیو ورکرز کو اب تین سو پاؤنڈ سے زیادہ جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ برطانیہ کی ایک چیریٹی برٹش میرین ڈائیورز نے اس ریسکیو آپریشن کی ذمہ داری لی تھی۔ تنظیم کے چیئر مین ایلین نائٹ کا کہنا ہے کہ ان کارکنوں نے اپنی گاڑیاں لندن کے واکس ہال برج پر پارک کردی تھیں جہاں سامنے ہی پارکنگ میٹرز نصب تھے۔ چیئر مین کا کہنا تھا کہ وہیل کی جان بچانے کی جلدی میں یہ لوگ پارکنگ ٹکٹ لیے بغیر ہی دریا میں کود گئے اور اگلے روز تک واپس نہ آسکے۔انیس فٹ لمبی یہ وہیل لندن کے دریائے ٹیمز میں جمعہ کی صبح دیکھی گئی تھی جس کے بعد یہ وہیل دیکھنے کے لیے لندن کے شہری بڑی تعداد میں دریا کے کنارے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔تاہم ٹیمز کے آلودہ پانی میں وہیل کی حالت جلد ہی خراب ہونے لگی اور اسے بحفاظت گہرے پانی تک پہنچانے کے لیے یہ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ ایلین نائٹ کا کہنا ہے کہ ‘میرے لیے یہ تھوڑی سی پریشانی کی بات ہے کہ ہمیں تین سو پاؤنڈ جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ہماری گاڑیوں کی سائیڈوں پر اگرچہ مرین میڈکس اور میرین ایمبولینس کے الفاظ درج ہیں پھر بھی ہم پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ میرے خیال میں انہیں ہمیں شک کا فائدہ دینا چاہیے تھا۔’انکا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک چھوٹا سا چیریٹی ادارہ ہے جس کے پاس فنڈز بھی محدود ہیں۔ ‘ہمیں ریسکیو آپریشن کے لیے پہلے ہی پانچ ہزار پاؤنڈ کا بل ادا کرنا ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ عوام ہماری حمایت کریں گے اور ہم شاید چندہ جمع کرکے یہ رقوم ادا کرسکیں‘۔دریں اثناء کینٹ میں اس وہیل کا پوسٹ مارٹم کیا جاچکا ہے جس کی تفصیلات بدھ کو جاری کی جائیں گی۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ مردہ وہیل کا کیا جائے گا۔ ایک میرین ماہر کا کہنا ہے کہ اسے یاتو زمین میں دبا دینا چاہیے یا پھر جلا دینا چاہیے کیونکہ وہیل کے بارے میں ایک ایسی بیماری پائے جانے کے امکانات ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔لندن کی میری ٹائم کوسٹ گارڈ ایجنسی نے یہ کہہ کر اس وہیل کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا ہے کہ اس نے زمین پر دم نہیں توڑا بلکہ اس وقت وہ ایک کشتی پر رکھی گئی تھی۔
بلی چھوڑ چوہا آیا
ایک گھر میں اوسطاً 200 چوہوں کا بسیرا ہے
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق میکسیکو کی ایک ریاست میں محکمہ صحت کے اہلکار چوہوں سے پھیلنے والی وبا پر قابو پانے کے لیے سینکڑوں بلیوں سے مدد لے رہے ہیں۔حکام نے مقامی اشتہارات کے ذریعے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بلیاں اور دیگر پالتو جانور فراہم کریں۔حکام تقریباً سات سو بلیاں جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان بلیوں کو پہلے حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں گے اور پھر اٹیسکاڈیروس نامی شہر بھیج دیا جائے گا جہاں لاکھوں چوہوں نے لوگوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔اس گاؤں میں چوہوں کی تعداد اس قدر زیادہ اس وجہ سے ہو گئی ہے کہ حکام نے چوہوں سے پھیلنے والی وبا پر قابو پانے کے لیے جو زہر اور دیگر طریقے استعمال کیے ان کے باعث چوہوں پر قابو تو نہ پایا جا سکا بلکہ وہ تمام جانور ہلاک ہو گئے جو چوہے کھاتے تھے۔محکمہ صحت کے ایک افسر رابرٹ گیلیگوس نے اے پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس علاقے میں کوئی بلی نہیں بچی اور چوہوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔’
اطلاعات کے مطابق اٹیسکاڈیروس میں تقریباً آٹھ سو گھر چوہوں سے بری طرح متاثر ہیں اور ہر گھر میں اوسطاً دو سو چوہے موجود ہیں۔
بعض ذرائع نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بلیاں اٹیسکاڈیروس کے پہاڑوں میں سخت موسمی حالات کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔
بِل دو یا کْتا
پالتو جانوروں کے مالکان سیخ پا ہیں۔ اگر آپ کا تعلق روس سے ہے اور آپ بجلی کا بِل وقت پر ادا نہیں کرتے تو آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے پالتو جانوروں کو فراموش کر دیں۔روس میں بجلی کی ایک مقامی کمپنی نے خبردار کیا ہے کہ اپنے صارفین کو بِل ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے وہ ان کے پالتو جانوروں کو یرغمال بنا سکتی ہے۔ روس اور ہمسایہ ممالک میں پانی اور بجلی کی کمپنیوں کے علاوہ دیگر ایسی خدمات مہیا کرنے والی کمپنیاں نادہندگان سے پیسے نکلوانے کے لئے غیر معمولی ہتھکنڈے استعمال کر چکی ہیں۔ کچھ نے بِل نہ ادا کرنے والوں کے نام جاری کئے، کسی نے انہیں شرمسار کیا، اور بعض اوقات تو پوری پوری عمارت کی بجلی بھی بند کر دی گئی لیکن یہ تراکیب کارگر ثابت نہ ہوئیں۔متعدد کمپنیوں کے مینیجر حضرات کے مطابق روسی عوام بجلی اور پانی کے بلوں کی ادائیگی غیر اہم تصور کرتے ہوئے انہیں ترجیح نہیں دیتے۔کمپنی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ‘ہم لوگوں سے ان کے عزیز ترین اور قریبی ترین پالتو جانور چھین لیں گے اور پھر والدین اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ ان کے پالتو جانور کیوں چھین لیے گئے’۔ کمپنی کو ایک کروڑ ڈالر کی ادائیگی اب بھی لوگوں کے ذمہ ہے۔کمپنی ان پالتو جانوروں کو اس وقت تک اپنی تحویل میں رکھے گی جب تک مالکان اپنا بِل ادا نہیں کرتے۔ بلوں کی ادائیگی کی ناکامی کی صورت میں ان پالتوں جانوروں کو سب سے زیادہ رقم دینے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جائے گا۔اس صورت حال پر بہت سے مقامی باشندوں نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایک روسی خاتون نے گدھے کو پیار سے سہلاتے ہوئے کہا: ‘یہ پالتو جانور ہمیں اپنے بچوں کی طرح عزیز ہیں۔ ہم سے ہمارے بچے کوئی کیسے چھین سکتا ہے؟’تاہم مقامی حکام کے مطابق پالتو جانوروں کا تحویل میں لیا جانا قطعی طور پر غیر قانونی اقدام نہیں ہو گا۔ علاقے کے چیف بیلِف کا کہنا ہے کہ چونکہ کتوں یا بلیوں کی خرید و فروخت ممکن ہے اس لیے یہ جانور املاک کے زمرے میں آتے ہیں اور اس اعتبار سے ان پر قانونی قبضہ ممکن ہے۔
برطانیہ کے چھ کروڑ صحت مند چوہے
گذشتہ صدیوں میں پھیلنے والے طاعون کے باعث، چوہے آج بھی خوف اور دہشت کی علامت ہیں۔مکھیاں اور مچھر شاید تیسری دنیا کا مقدر ہیں لیکن بڑھتی ہوئی گندگی کے باعث برطانیہ میں بھی ایک مسئلہ بڑا گھمبیر ہوتا جا رہا ہے، یعنی چْوہوں کی تعداد بے تحاشا بڑھ رہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت برطانیہ میں کوئی چھ کروڑ چوہے موجود ہیں یعنی چوہوں کی آبادی اب انسانی آبادی کا مقابلہ کر رہی ہے۔ تیرہویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک یورپ میں طاعون کی بیماری کئی بار پھیلی اور ابتدائی حملوں میں تو یورپ کی آدھی آبادی اس موذی وبا کی نذر ہوگئی تھی۔ یورپ میں طاعون پر اگرچہ انیسویں صدی کے شروع میں پوری طرح قابو پا لیا گیا تھا لیکن سینہ بہ سینہ چلنے والی طاعون کی دہشتناک کہانیوں نے یورپی لوگوں کے اجتماعی لا شعور میں ایک خوف پیدا کر رکھا ہے اور چوہوں سے عمومی نفرت اور خوف کے پس منظر میں بھی یہ امر کارفرما ہے کہ طاعون کی وبا سنمدری جہازوں میں موجود چوہوں کے باعث یورپی ساحلوں تک پہنچی تھی اور پھر چوہوں ہی کے ذریعے اندرون یورپ اس بیماری نے اپنے پر پْرزے پھیلائے تھے۔ آج یورپ میں طاعون کا قلع قمع ہو چکا ہے لیکن تمام تر سائنسی ترقی اور مہلک ترین ہتھیاروں کی تیاری میں مہارت پیدا کر لینے کے باوجود یورپ میں، اور خاص طور پہ برطانیہ میں، چوہوں سے نجات کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران برطانیہ میں چوہوں کی آبادی دْگنی ہوگئی ہے جسکا بڑا سبب سڑکوں پہ پڑے کوڑے کے وہ ڈھیر ہیں جن میں کھانے پینے کی بچی کھچی اشیاء بڑی مقدار میں ہوتی ہیں۔برطانیہ کے بڑے بڑے شہروں کی سڑکوں پر شام کے وقت ایسے مناظر عام دکھائی دیتے ہیں ۔چند برس پہلے تک برطانیہ میں رات گئے تک شراب خانے اور ریستوران کْھلے رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور لوگ سرِشام ہی کھانے پینے کے مشاغل سے فارغ ہوجاتے تھے۔ آجکل چونکہ خورونوش کے بہت سے مراکز ساری رات کھلے رہتے ہیں اور لوگ رات بھر سڑکوں پر تفریحی مقاصد سے گھومتے رہتے ہیں اس لیئے سڑکوں کے کناے پڑے کوڑے دان جلد ہی بھر جاتے ہیں اور جس فاضِل کْوڑے کو اِن ڈبوں کا تنگ دامن سہار نہیں سکتا وہ فٹ پاتھ یا سڑک پر گرتا رہتا ہے۔ ایک اندزے کے مطابق برطانوی سڑکوں پر پائے جانے والے کْوڑے کی مقدار سن دو ہزار کے مقابلے میں اب چار گنا ہوچکی ہے۔عالمی ادارہ خوراک نے توجہ دلائی ہے کہ اگر یہ سینڈوچ، برگر، فِش اور چپس کوڑے دانوں کی بجائے کسی طرح ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بھوکے بچّوں تک پہنچ جائیں تو ہر برس دو کروڑ معصوم انسانی جانیں موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتی ہیں۔اس کْوڑے میں تلے ہوئے چکن کی ادھ کھائی بوٹیاں، آلو کے چپس، فرائیڈ مچھلی کی کھال، سینڈوچ اور برگر کے ٹْکڑے اور فاسٹ فْوڈ کی ایسی ہی دیگر باقیات ہوتی ہیں جوکہ چوہوں کی مرغوب غذا ہیں۔ چنانچہ آپ اگر سنیچر کی رات کو دیرگئے مرکزی لندن کے پْر رونق علاقوں میں گھوم رہے ہوں تو کْوڑے دانوں سے اْمڈ کر سڑکوں پہ بکھری اِن اشیائے خوردنی پر آپکو موٹے موٹے چوہے گشت کرتے نظر آئیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں بھْورے چوہے کا سائز اب ایک فْٹ کے قریب جا پہنچا ہے اور وزن بھی آدھے کِلو سے زیادہ ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ چوہوں کی اس خوشحالی کا سبب ٹنوں کے حساب سے کوڑے میں پھینک دی جانے والی خوراک ہے جو بالآخر چوہوں کی لذّتِ کام و دہن کا ذریعہ بنتی ہے۔ لذّتِ دہن کے نتیجے میں تو چوہوں کا سائز بڑھ رھا ہے اور لذتِ کام کا مظہر چوہوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو کہ اب برطانیہ کی اِنسانی آبادی کے برابر ہوچکی ہے۔ شہری انتظامیہ نے چوہے پکڑنے کیلیئے جو چوہے دان اور کڑکّیاں لگائی تھیں وہ صحت مند اور توانا چوہوں کی نئی نسل کے سامنے بیکار ہوچکی ہیں چنانچہ چوہے پکڑنے کیلیئے اب‘ کمپیوٹری جال’ استعمال کیا جا رہا ہے جو چوہے کو گرفتار کرتے ہی ایک ٹیکسٹ میسج بھی حکام کو روانہ کر دیتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر لوگ بچی کھچی خوراک کو بے احتیاطی سے سڑکوں پہ نہ پھینکیں تو اس سے چوہوں کی تعداد میں خاصی کمی آسکتی ہے اورعالمی ادارہء خوراک نے توجہ دلائی ہے کہ اگر یہ سینڈوچ، برگر، فِش اور چپس کوڑے دانوں کی بجائے کسی طرح ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بھوکے بچّوں تک پہنچ جائیں تو ہر برس دو کروڑ معصوم انسانی جانیں موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتی ہیں۔
٭٭٭