گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں ڈینگی بخار کے بہت سے کیسز سامنے آرہے ہیں اور 2012ء کے لیے ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 1/4 آبادی اس کا شکار ہوگی اگرچہ یہ بیماری بظاہر جان لیوا نہیں ہے لیکن بیماری کا خوف’ بروقت اور مناسب علاج نہ ہونا اور بیماری سے پیدا ہونے والے مسائل ہمیں اس بات کی طرف اشارہ دیتے ہیں کہ اس سے حفاظت اور بچاؤ کیلئے ناصرف حکومتی سطح پر بلکہ ہر پاکستانی شہری کواپنے تئیں بھی بہت سے اقدامات کرنے ہونگے۔ بیماری کی علامات’ علاج اور حفاظتی اقدامات کے متعلق بہت سی معلومات آپ نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سنی ہونگی اس تحریر میں آپ کو اس کے علاج کے متعلق آگہی دینا ہے۔
قارئین! نظام قدرت کچھ یوں ہے کہ خاک میں بھی شفا کے عناصر مضمر ہیں اسی لیے حکم جستجو کاہے تاکہ ان پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکے۔ قدرت کا ایک ایسا ہی راز شفا پپیتے کے درخت کے پتوں میں پنہاں ہے۔ پپیتے کا درخت ایک عجیب احساس تفاخر لیے بنا کسی خم کے آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے تو اس کے پتے بھی نشوونما کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ خوبصورت کٹاؤ والے یہ پتے اپنے اندر عجیب شفائی خصوصیات رکھتے ہیں ۔ شکیل صاحب ایک مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں گزشتہ برس انہیں بھی ڈینگی بخار نے آلیا’ وہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان تھے میں نے اپنے استاد محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر عابد علی صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے انتہائی شفقت سے فرمایا کہ انہیں پپیتے کے پتے پلائیں۔ پروفیسرصاحب سے اگرچہ تفصیل سے گفتگو نہ ہوسکی لیکن میں نے اپنے خاوند کو بتا دیا کہ انہیں پپیتے کے پتے کا قہوہ پلایا جائے اس سے ان کے Platelets زیادہ ہوجائیں گے۔ کچھ دن کے استعمال کے بعد ان کے Plateletsزیادہ ہونے لگے تو انہوں نے بتایا کہ ایک سال پہلے ان کے خاندان میں بہت سے افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوگئے تھے اور Platelets کی کمی کی وجہ سے زیادہ خون بہنے سے دو لوگ تو اللہ کو پیارے ہوگئے تھے لیکن خداکا شکر کہ قدرت کے اس تحفے نے انہیں ایک نئی زندگی عطا فرمائی (الحمدللہ)۔اس کے چند دن کے بعد میرے خاوند بھی ڈینگی بخار میں مبتلا ہوگئے کیونکہ وہ خود بھی ڈاکٹر ہیں پہلے ہی دن (تیز بخار اور جسم کی شدید دردوں کی وجہ سے) خون کا نمونہ ٹیسٹ کروانے کیلئے بھیج دیا۔ رپورٹ میں Platelets اور خون کے سفید ذرات دونوں کم ہوچکے تھے۔ اسی دن پپیتے کے پتے منگوا کر ان کو قہوہ شروع کروایا۔ پیراسیٹامول اور معدے کی سوزش کی حفاظتی دوا کے ساتھ چھ دن کے اندر نہ صرف بخار اتر گیا بلکہ خون کے تمام ذرات بھی نارمل ہوگئے۔ اکتوبر کے مہینے میں میرے بیٹے کو تیز بخار ہوگیا۔ جسم کی شدید دردوں اور دوسری علامات نے ڈینگی بخار کا اشارہ دیا۔ پہلے ہی دن خون کے نمونے میں پلیٹ لٹس ایک لاکھ تک گرگئے۔ (ایک صحت مند انسان کے خون میں پلیٹ لٹس کی تعداد ڈیڑھ سے چار لاکھ تک ہوتی ہے۔) اور سفید ذرات بھی 2000/cmm تک ہوگئے جبکہ نارمل تعداد چار ہزار سے گیارہ ہزار تک ہوتی ہے۔ پلیٹ لٹس جسم سے چوٹ’ زخم و آپریشن وغیرہ کی صورت میں خون کے زیادہ بہاؤ کو روکتے ہیں اور اگر ایک خاص حد تک کمی واقع ہوجائے تو معمولی زخم بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خون کے سفید ذرات جنہیں خون کی رپورٹ میں W.B.C3یا TLC کے ساتھ لکھا جاتا ہے کی کمی بھی مختلف قسم کے انفیکشنز کو جنم دیتی ہے۔اسی دن پپیتے کے پتے استعمال کروانے شروع کیے۔ اس مرتبہ تجربے کی روشنی میں پپیتے کے پتے کا قہوہ بنانے کی بجائے کچھ پتے اچھی طرح دھو کر تھوڑے سے پانی میں Blend کرکے اس کا خالص عرق نکالا اور بیٹے کو دیا۔ ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ دینے سے نتیجہ انتہائی حیرت انگیز اور خوشگوار ہوا اور چوتھے ہی دن بیٹے کانہ صرف بخار اتر گیا بلکہ پلیٹ لٹس بھی 175,000/cmm ہوگئے اور الحمدللہ پانچویں دن امتحان دینے کے بھی قابل ہوگیا۔ (اللہ شافی) قہوہ بھی پلاسکتے ہیں ہر 2 گھنٹے کے بعد ایک کپ۔اب اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتی ہوں۔ بیٹے کے بخار کے چند دن بعد مجھے بھی تیز بخار ہوگیا۔ دس گھنٹے کی شدید دردوں کے ساتھ ہونے والے 103o F نے پہلے ہی دن ڈینگی بخار کا پتہ دے دیا چوبیس گھنٹوں کے اندر خون کے سفید ذرات آدھے سے کم رہ گئے اور پلیٹ لٹس 102,000/Cmm تک کم ہوگئے ہر چھ گھنٹے کے بعد دو پیرا سیٹامول کھانے سے بخار 104,103 سے 100 تک کم ہوجاتا تھا۔ (یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بخار کم کرنے کی کوئی بھی دوا 102 سے زیادہ بخار کی صورت میں بے اثر ہوتی ہے۔ 102 سے زیادہ بخار کیلئے ضروری ہے کہ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرکے بخار 102 یا اس سے کم پرلایا جائے اور پھر کوئی دوا استعمال کی جائے) کیونکہ میں الحمدللہ دوا کا استعمال بہت کم کرتی ہوں۔ پیراسیٹامول نے اگلے ہی دن معدے میں اتنی سوزش کردی کہ پانی یا کوئی دوا اندر نہیں ٹھہرتی تھی اور قے ہوجاتی تھی۔ اس لیے پپیتے کے پتے کا عرق بہت کم لیا گیا۔ نتیجتاً میرے پلیٹ لٹس چوتھے دن صرف 12000/Cmm رہ گئے اور بخار کے پانچویں دن پلیٹ لٹس کی کمی کی وجہ سے ناک سے بلیڈنگ شروع ہوگئی۔ ہسپتال سے پتہ چلا کہ پلیٹ لٹس کیلئے بیگز وغیرہ کہیں دستیاب نہیں ہیں اور خون سے پلیٹ لٹس الگ کرنے کی مشین بھی خراب ہے۔پرائیوٹ لیبز میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی وہاں تو حالات یہ تھے کہ مریضوں کے ناموں کی لٹس آویزاں تھیں اور باری آنے پر بھی پلیٹ لٹس کیلئے ٹائم دیا جارہا تھا۔پریشانی تو ہوئی لیکن قے روکنے کی دوائیوں اور معدے کی سوزش کیلئے مختلف ٹیکے لگانے کے بعد پپیتے کے پتے کا عرق جیسے ہی معدے میں ٹھہرنے لگا تو 2 دن کے بعد پلیٹ لٹس بڑھنا شروع ہوگئے۔ قدرت کے اس انمول تحفے پر احساس ہوا کہ اللہ کی اس دنیا میں کوئی بھی شے بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔
انہی دنوں میرے ایک مریض جو گزشتہ2 سالوں سے ایک قسم کے کینسر (Multiple Myeleria) میں مبتلا تھے جہلم کے ہسپتال میں خون کی الٹیوں اور کالے پاخانوں کے ساتھ داخل ہوئے بہت تشخیص کے باوجود وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ ان کی ہیموگلوبن 5.0 gm تک گرگئی۔ خون کی سات بوتلیں لگانے کے باوجود Hb-7.0 gm سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔جب جہلم ہسپتال کی میڈیکل وارڈ کی نرس نے فون پر میرے استفسار پر بتایا کہ مریض کے پلیٹ لٹس 40,000/cmm تک کم ہوگئے اور سفید ذرات بھی 2000/Cmm ہیں تو میں نے انہیں پپیتے کے پتوں کا مشورہ دیا اگرچہ ان کا ڈینگی بخار کا ٹیسٹ بھی نیگٹو آیا تھا۔ چند دن انہوں نے اس مشورے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ شاید ایک وجہ وہاں سے پپیتے کے پتے نہ ملنا بھی تھی۔ اب حالت زیادہ خراب ہونے پر وہ مریض کو لاہور لے آئے اور الحمدللہ پپیتے کے پتوں کا عرق پلانے سے صرف چار دن کے اندر پلیٹ لٹس 75000/Cmm تک بڑھ گئے اور وہ تندرست ہونے لگا اور مزید خون لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب قدرت کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور ایک دوسرے تک ان کے فوائد پہنچائیں تاکہ اللہ کی زیادہ سے زیادہ مخلوق اس سے فیضیاب ہوسکے۔طریقہ استعمال:پپیتے کے چند پتے لے کر اچھی طرح دھو لیں۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے Blenderکے جگ میں ڈالیں تھوڑا سا پانی شامل کرکے ململ کے باریک کپڑے یا باریک سوراخ والی چھلنی سے چھان لیں ہر چھ گھنٹے کے بعد دو بڑے چمچ استعمال کریں۔ کوشش کریں کہ صبح وشام تازہ عرق نکالیں۔ (تھوڑی کڑواہٹ کی وجہ سے قے آنے کی صورت بن سکتی ہے۔)نوٹ: سیب کے تازہ جوس میں لیمو ں کا رس ملا کر پینے سے بھی پلیٹ لٹس بہتر ہوجاتے ہیں۔ایک صاحب اکمل سلطان نے ابوظہبی سے بتایا کہ بھٹہ کھانے سے آپ مچھر کے کاٹنے سے بچ جاتے ہیں۔
(بشکریہ ماہنامہ عبقری جنوری ۲۰۱۱)