حمدِ باریِ تعالیٰ
بطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تْو ہی
صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تْو ہی
دلوں سے رنج و الم کو نکالتا ہے تْو ہی
نفَس نفَس میں مَسرّت بھی ڈالتا ہے تْو ہی
وہ جنّ و انس و مَلک ہوں کہ ہوں چرند و پرند
تمام نوعِ خلائق کو پالتا ہے تْو ہی
بغیر لغزشِ پا تو ڈبو بھی سکتا ہے
پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تْو ہی
تْو ہی تو مْردہ زمینوں کو زندہ کرتا ہے
گْلوں کے جسم میں خوشبوئیں ڈالتا ہے تْو ہی
ترے ذبیح کی نازک سی ایڑیوں کے طفیل
سلگتے صحرا سے زم زم نکالتا ہے تْو ہی
نجات دیتا ہے بندوں کو ہر مصیبت سے
شکم سے مچھلی کے زندہ نکالتا ہے تْو ہی
جو لوحِ ذہنِ مْشاہد میں بھی نہیں یارب
وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تْو ہی
مشاہد رضوی