جواب : الحمد للہ: رمضان المبارک شروع ہونے کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو رمضان المبارک آنے کی خوشخبری دیتے اور انہیں اس کا خیال رکھنے پر ابھارتے تھے.ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے پاس بابرکت مہینہ آیا ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور سرکش قسم کے شیاطین پابندسلاسل کر دیے جاتے ہیں، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی اور خیر سے محروم کر دیا گیا تو وہ محروم ہے"۔
(شیخ محمد صالح المنجد)
جواب :صحابہ کرام سے وارد ہے کہ وہ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیا کرتے اور کہتے: تقبل اللہ منا و منکم. اللہ تعالی ہم اور تم سے قبول فرمائے. مبارک باد ، مصافحہ اور معانقہ میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے دین کا حصہ نہ سمجھا جائے اور ایک معاشرتی رواج کے طور پر کیا جائے ۔
(شیخ محمد صالح المنجد)
جواب :میں نے یہ مسئلہ اپنے استاداورشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی سے پوچھاتوان کاجواب تھا :اسی کی امیدہے کہ اسے یہ اجرملے گا یعنی دونوں روزوں کا کیونکہ اللہ تعالی کافضل بہت وسیع ہے۔
(شیخ محمد صالح المنجد)
رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہیں ، اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے۔ شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ بھی شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے۔ اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا۔
(شیخ محمد صالح المنجد)