یہ واقعہ بظاہر تعجب سے خالی نہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انتقال فرمایا تو فوراً خلافت کا نزاع پیدا ہو گیا اور اس بات کا بھی انتظار نہ کیا گیا کہ پہلے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین سے فراغت حاصل کی جائے۔ کس کے قیاس میں آ سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ انتقال فرمائیں اور جن لوگوں کو ان کے عشق و محبت کا دعویٰ ہو وہ ان کو بے گور و کفن چھوڑ کر چلے جائیں۔ اور اس بندوبست میں مصروف ہوں کہ مسند حکومت اوروں کے قبضہ میں نہ آ جائے۔
تعجب پر تعجب یہ ہے کہ یہ فعل ان لوگوں (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے سرزد ہوا جو آسمانِ اسلام کے مہروماہ تسلیم کئے جاتے ہیں،اس فعل کی ناگواری اس وقت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو آنحضرت ﷺ سے فطری تعلق تھا، یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و خاندان بنی ہاشم ان پر فطری تعلق کا پورا پورا اثر ہوا اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دردو غم اور تجہیز و تکفین کی وجہ سے ان باتوں کی طرف سے متوجہ ہونے کی فرصت نہ ملی۔
ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ کتب حدیث و سیر سے بظاہر اسی قسم کا خیال پیدا ہوتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تجہیز و تکفین چھوڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ کو چلے گئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ کر خلافت کے باب میں انصار سے معرکہ آرائی کی۔ اور اس طرح ان کوششوں میں مصروف رہے کہ گویا ان پر کوئی حادثہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اپنی خلافت کو نہ صرف انصار بلکہ بنو ہاشم اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بزور منوانا چاہا، گو بنو ہاشم نے آسانی سے ان کی خلافت تسلیم نہیں کی۔ لیکن اس بحث میں جو غور طلب باتیں ہیں وہ یہ ہیں:
(۱) کیا خلافت کا سوال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھیڑا تھا؟
(۲) کیا یہ لوگ خود اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ میں گئے تھے؟
(۳) کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بنو ہاشم خلافت کی فکر سے بالکل فارغ تھے؟
(۴) ایسی حالت میں جو کچھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے کیا، وہ کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟
پہلی دو۔۔ کی نسبت ہم نہایت مستند کتاب ابو۔۔ کی عبارت نقل کرتے ہیں جس سے واقعہ کی کیفیت بخوبی سمجھ میں آ سکتی ہے۔
بینما لحن فی منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذا رجل ینادی من وراء ال۔۔۔۔ ان اخرج الی یا ابن الخطاب فقلت الیک عنی فانا عنک مشاغیل یعنی بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقال لہ قد حدث امر فان الانصار اجمعوا فی سقیفۃ بنی ساعدہ فادر کو ھم ان یحدثوا امر یکون فیہ حرب فقلت لابی بکر انفلقَ
'' حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺکے حلقہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ دفعتاً دیوار کے پیچھے سے ایک آدمی نے آواز دی کہ ابن الخطاب ذرا باہر آؤ۔ میں نے کہا چلو ہٹو ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بندوبست میں مشغول ہیں۔ اس نے کہا کہ ایک حادثہ پیش آیا ہے۔ یعنی انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہیں اس لئے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو کہ انصار کچھ ایسی باتیں کر اٹھیں جس سے لڑائی چھڑ جائے۔ اس وقت میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ چلو۔ ''اس سے ظاہر ہو گیا کہ نہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نے خلافت کی بحث کو چھڑا تھا نہ اپنی خواہش سے سقیفہ بنی ساعدہ کو جانا چاہتے تھے۔ تیسری بحث کی کیفیت یہ ہے کہ اس وقت جماعت اسلامی تین گروہوں میں تقسیم کی جا سکتی تھی (۱) بنو ہاشم جس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے، (۲) مہاجرین کے رئیس و افسر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ تھے۔ (۳) انصار جن کے شیخ القبیلہ سعد بن عبادہ تھے۔ ان تینوں میں سے ایک گروہ بھی خلافت کے خیال سے خالی نہ تھا۔ انصار نے اپنا ارادہ ظاہر کر دیا تھا۔ بنو ہاشم کے خیالات ذیل کی روایت سے معلوم ہوں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وفات کے دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکان سے باہر نکلے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مزاج کیسا ہے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ظاہری حالت بالکل سنبھل گئی تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ خدا کے فضل و کرم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اچھے ہو گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ خدا کی قسم تم تین دن کے بعد غلامی کرو گے۔ میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عنقریب اس مرض میں وفات پائیں گے۔ کیونکہ مجھ کو اس کا تجربہ ہے کہ خاندان عبد المطلب کا چہرہ موت کے قریب کس طرح متغیر ہو جاتا ہے۔ آؤ چلو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد منصب (خلافت) کس کو حاصل ہو گا۔ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے وصیت فرما دیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے عنہ نے کہا۔ '' میں نہ پوچھوں گا کیونکہ اگر پوچھنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انکار کیا تو پھر آئندہ کوئی امید نہ رہے گی (صحیح بخاری باب مرض النبی فتح الباری)۔
اس روایت سے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تو صاف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کا اس وقت تک یقین نہ تھا اس لئے انہوں نے کوئی تحریک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے علاوہ اپنے انتخاب کئے جانے پر بھروسہ نہ تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ایک مجمع ہوا تھا جس میں تمام بنو ہاشم اور ان کے اتباع شریک تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پیشرو تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی روایت ہے (صحیح بخاری کتاب الحدود باب رحم الحبلی)
'' کان من خبرنا حین توفی اللہ لیہ ان الانصار خللونا واجتمعوا باسر ھم فی سقیفنۃ بی ساعدہ و خائف عنا علی وائریر ومن معھما واجتمع المھاجرون الی ابی بکر۔ ''
ہماری سرگزشت یہ ہے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو اٹھا لیا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور علی اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ان کے ساتھیوں نے بھی مخالفت کی۔ اور مہاجرین ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جمع ہوئے۔ ''
یہ تقریر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بہت بڑے مجمع میں کی تھی جس میں سینکڑوں صحابہ موجود تھے اس لیے اس بات کا گمان نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے کوئی امر خلاف واقع کہا ہو، ورنہ یہ لوگ ان کو وہیں ٹوکتے۔ امام مالک رحمۃ اللہ کی روایت میں یہ واقعہ اور صاف ہو گیا ہے۔ اس کے یہ الفاظ ہیں:
و ان علیا والزبیر و من کان معھما تخلفوا فی بیت فاطمہ بنت رسول اللہ (فتح الباری شرح حدیث مذکور)
'' اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور لوگ ان کے ساتھ تھے وہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں ہم سے الگ ہو کر جمع ہوئے۔ ''
تاریخ طبری میں ہے:
و تخلف علی والزبیر واخترط الزبیر سیفہ و قال لا اعمدہ حتی یبابع علی۔ (تاریخ طبری)۔
'' اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علیحدگی اختیار کی، اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تلوار میان سے کھینچ لی اور کہا جب تک علی کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے میں تلوار میان میں نہ ڈالوں گا۔ ''
ان تمام روایتوں سے صاف یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:
(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے ساتھ ہی خلافت کے باب میں تین گروہ ہو گئے:
(۱) انصار (۲) مہاجرین (۳) بنو ہاشم
(۲) مہاجرین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔
(۳) جس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ آنحضرت صلی اللہ کو چھوڑ کر سقیفہ کو چلے گئے تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے چلے آئے تھے، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں بنو ہاشم کا مجمع ہوا تھا۔
سقیفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہ جانا اس وجہ سے نہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غم و الم میں مصروف تھے، اور ان کو ایسے پر درد موقع پر خلافت کا خیال نہیں آ سکا تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سقیفہ میں مہاجرین اور انصار جمع تھے۔ اور ان دونوں گروہ میں سے کوئی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دعویٰ کی تائید نہ کرتا۔ کیونکہ مہاجرین حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیشوا تسلیم کرتے تھے اور انصار کے رئیس سعد بن عبادہ تھے۔
اخیر بحث یہ ہے کہ جو کچھ ہوا وہ بے جا تھا یا بجا؟ اس کو ہر شخص جو ذرا بھی اصول تمدن سے واقفیت رکھتا ہو باآسانی سمجھ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت وفات پائی، مدینہ منورہ منافقوں سے بھرا پڑا تھا جو مدت سے اس بات کے منتظر تھے کہ رسول اللہ کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کو پامال کر دیں۔ اس نازک وقت میں آیا یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع اور گریہ زاری میں مصروف رہیں یا یہ کہ فوراً خلافت کا انتظام کر لیا جائے۔ اور ایک منطم حالت قائم ہو جائے۔ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو اور نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جنگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے کہا کہ '' محمد! ہم نا جنسوں سے نہیں لڑ سکتے '' کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے تھے۔ قریش پر کیا موقوف ہے، تمام عرب کو انصار کی متابعت سے انکار ہوتا، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سقیفہ میں جو خطبہ دیا اس میں صاف اس خیال کو ظاہر کیا اور کہا '' و ان العرب لا تعرف ھذا الا مرالا لھذا الحیی من قریش'' اس کے علاوہ انصار میں خود گروہ تھے، اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضروری تھا کہ انصار کے دعویٰ خلافت کو دبا دیا جائے، اور کوئی لائق شخص فوراً انتخاب کر لیا جائے۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے ان میں سب سے با اثر بزرگ اور معمر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اور فوراً ان کا انتخاب بھی ہو جاتا۔ لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے۔ اور بحث طول پکڑ گئی۔ قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتہً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں۔ ساتھ ہی حضرت عثمان، ابو عبیدہ بن جراح، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی ہاتھ بڑھا دیئے (ابن المادردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ اول صرف پانچ شخصوں نے بیعت کی تھی)۔ اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی۔ اس کارروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا۔ اور لوگ مطمئن ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادعا پر رکے رہے، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں وقتاً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی۔ لیکن بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے '' مصنف '' میں اور علامہ طبری نے '' تاریخ کبیر '' میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا '' یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ تاہم اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔ '' اگرچہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ اس روایت کے رواۃ کا حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم درایت کے اعتبار سے اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کارروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہی خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم الفاروق میں
نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیں۔ اور اس شخص کا حصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح عمری لکھنے کا شرف حاصل ہو۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بار گراں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا '' ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا
انہوں نے کہا کہ '' میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کو جواب نہیں۔ '' جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ '' آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجیئے کہ خدا کو کیا جواب دیجیئے گا۔ '' حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا '' میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔ '' یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور '' کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے۔ '' عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں
سنائے پھر خود بالا خانے پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضی للہ تعالیٰ عنہ کو نہایت مؤثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔
بشکریہ : ’ انتخاب’ مشتاق احمد