مولانا تقی عثمانی صاحب نے ''اصلاحی خطبات'' میں کسی جگہ ایک حکایت نقل کی ہے کہ ایک بار شیطان اپنے سر پر مختلف گٹھڑیاں اٹھا کر جا رہا تھا۔ ایک بزرگ نے پوچھا تو اس نے ہر گٹھڑی کی تفصیل بتائی کہ یہ فلاں معصیت کی ہے اور انسانیت کے فلاں طبقے کو دینے جا رہا ہوں۔ایک گٹھڑی کے بارے میں بتایا کہ یہ حسد کی گٹھڑی ہے اور اہلِ علم کو دینی ہے۔
ویسے تو دنیا کا کوئی بھی فضل وکمال (مال، دولت، شہرت، حسن، عہدہ وغیرہ) انسان کے دل میں حسد کا سبب بنتا ہے،لیکن علم کی بنیاد پر حسد وہ چیز ہے جس کا شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے انسانیت کو پیامِ انسانیت دینا ہوتا ہے۔اپنے معاصرین کے حق میں دل کا صاف ہونا انسان کے اخلاص کے امتحان کا حقیقی میدان ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی قلمی صلاحیت، ذہانت، علم، مطالعہ وغیرہ جیسی چیزوں میں آپ کے برابر یا آپ سے فائق ہے، یا وہ آپ سے چھوٹا ہے لیکن آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ ستارہ مستقبل میں چمک کر آفتاب بننے والا ہے جس کی ضیا پاشی میرے برابر بھی پہنچ سکتی ہے تو اپنے دل کا محاسبہ کیجیے کہ اس کو تسلیم کرنے میں کہیں جلن کا احساس تو نہیں ہو رہا، ایسا تو نہیں کہ آپ اس کی کوئی خامی تلاش کرنے میں لگے ہیں تاکہ اپنی انا کو تسکین دی جا سکے وغیرہ۔ اگر ایسی علامات ہیں تو اللہ سے سچے دل سے رجوع کیجیے کہ یہ معاصرانہ حسد کی علامات ہیں اور بڑھتے بڑھتے نہ صرف انسان کا سکون چھین لیتی ہیں بلکہ دوسروں کو محبت اور احترام دینے کا مزاج بھی انسان سے مٹا دیتی ہیں۔اس سے انسان کا مزاج ایک دکان دار کا سا بن جاتا ہے جس کی خوش اخلاقی سے گاہک تو بہت متاثر ہوتا ہے، اس کی تواضع کی تعریف کرتا ہے، لیکن یہی دکان دار دوسرے دکان دار سے جلن میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی دکان پر گاہکوں کا ہجوم کیوں ہے۔اس مرض کے علاج کے لیے ایک تو اللہ سے کثرت سے مناجات اور دعا ہے، کہ جو دل غم سے ٹوٹتا ہے اس کو صفائے باطنی ملنا یقینی ہے۔ٹوٹے دل کی وسعت میں کائناتیں سمو جانے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس لیے وہ کسی پر تنگ نہیں ہوتا۔دوسرے انسان اپنے اندر کوئی
کمال پیدا کرنے کی کوشش کرے، علمی اور اخلاقی لحاظ سے اپنے اوپر اتنی توجہ دے اورخود کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرے کہ اس میں سیرچشمی پیدا ہو جائے۔یہ خوبی انسان کے خاتمہ بالخیر کا نسخہ بھی ہے۔
ایک صحابی اپنی موت کے وقت بہت خوش تھے۔ کسی نے پوچھا آپ کا زندگی میں کیا معمول رہا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ایک تو میں فضول اور لایعنی امور کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا اور دوسرے یہ کہ میرا دل مسلمانوں کے لیے ہمیشہ صاف رہا ہے۔