طبقاتی معاشرہ
برسوں پرانی بات ہے کہ ایک دن سٹاف روم میں ایک معزز استاد ایک آفس بوائے سے ایک ایسی بات پہ الجھ پڑے کہ جس میں آفس بوائے کاکوئی قصور نہ تھا۔ اُس نے عرض کرنے کی کوشش کی کہ اس سلسلے میں اس کا کوئی لینا دینا نہیں مگر استاد مکرم نے ایک نہ سنی اور نہ صرف اس کی حسب توفیق بے عزتی کر ڈالی بلکہ ہیڈ ماسٹر سے شکایت بھی کر دی۔ ہیڈ ماسٹر نے آفس بوائے کو بلایا او ر وضاحت طلب کی ۔اس نے بتایا کہ زیادتی تو اصل میں استادصاحب نے کی ہے ۔ ہیڈ ماسٹر نے پوچھا کہ اس موقع کا کوئی گواہ ہے ۔ آفس بوائے نے کہا کہ صرف صدیق صاحب اس وقت سٹاف روم میں موجود تھے ان سے پوچھ لیجیے۔ ہیڈ ماسٹر نے مجھے دونوں پارٹیوں کے سامنے بلا کر پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے ؟ میں نے بتایا کہ اصل میں زیادتی استاد صاحب کی ہے ۔ آفس بوائے کا اس میں کوئی قصور نہیں۔ میں یہ گواہی دے کر چلا آیا۔ مگر اس واقعے کے بعد نہ صرف متعلقہ استاد صاحب مجھ سے خفا ہو گئے بلکہ ہیڈ ماسٹر نے بھی مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کو اپنے طبقے کا ساتھ دینا چاہیے تھا جس پر میں نے ان سے عر ض کیا کہ معاف کیجیے گا ’بحثیت مسلمان مجھے انصاف کا ساتھ دینا چاہیے تھااور وہ میں نے دیا۔
یہ روزمرہ زندگی کی ایک بہت چھوٹی سی مثال ہے ورنہ تو اصل میں ہمارا پورا معاشرہ ہی طبقاتی معاشر ہ ہے اورالمیہ یہ ہے کہ ہرہر طبقہ حق ،سچ اور انصاف کے بجائے اپنے اپنے طبقے کا ساتھ دینے کی روش پر گامزن ہے ۔اس میں پڑھے لکھے اور جاہل کی بھی کوئی تمیز نہیں ۔ اوراس ضمن میں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جونہی ایک شخص کا طبقہ تبدیل ہو تا ہے توساتھ ہی اس کے خیالات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔کل تک وہ جس بات کی وکالت کر رہا تھا آج محض طبقہ بدلنے کی وجہ سے اس کی مخالفت کر رہا ہوتا ہے ۔ہم نے دیکھا کہ کل تک ایک شخص ٹیچر تھا تو ہر وقت وہ ٹیچرز کے مفادات کی بات کیا کرتا تھا اور ان کے مسائل سمجھتا بھی تھا لیکن جوں ہی وہ ٹیچرز سے نکل کر کوار ڈی نیٹر یاہیڈ ماسٹر بنا تو ساتھ ہی پچھلی ساری باتیں بھول کر انتظامیہ کے مفادات کی بات کرنے لگ گیا کیونکہ اب اس کا اپنا مفاد اُ س طبقے سے وابستہ ہو گیا ہوتا ہے۔کوئی زیادہ متقی بننے کی کوشش کرے تو وہ بھی حق کا ساتھ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتا ہے تا کہ اپنے طبقے کو یہ باور کر ا سکے کہ میں نے کون سا ان کا ساتھ دیا ہے ۔ اصل میں باطل کے مقابلے میں حق کا ساتھ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لینا بھی باطل ہے اور ناراض ہوکریا مفادات کی خاطر حق کا ساتھ چھوڑ دینا بھی باطل ہے
طبقات کی یہ تقسیم خاندان سے لے کر عالمی سطح تک کار فرما ہے ۔ مذہبی ،معاشی ، سیاسی ، عسکری،اور معاشرتی ہرہر میدان میں ہم اپنے اپنے طبقے کے ساتھ تعصبات کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر مرد ماں یا بیوی کا ساتھ دینے کے بجائے انصاف کا ساتھ دینا شروع کر دے تو بہت سارے جھگڑ ے خود ہی ختم ہو جائیں اسی طرح ملکی سطح پر اگر ہم اپنی مذہبی یا سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر حق اور سچ کہنے اور کرنے والے کی غیر مشروط حمایت کا عز م کرلیں تو یقین جانیے کہ اصلاح او ربہتری کا عمل شروع ہونے میں دیر نہ لگے اور عالمی سطح پر اگر ہم اپنے ملکی مفادات سے بالا تر ہو کر ظلم کے خلاف کھڑ ے ہو جائیں اور عدل کا ساتھ دینا شروع کر دیں تو امن عالم کی منزل بہت نزدیک ہو جائے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جس امتحان میں ڈالا ہے اس میں یہ بھی ایک بڑا امتحان ہے کہ انسان طبقاتی مفاد سے بالا تر ہو کر حق سچ اور انصاف کی بات کرتاہے کہ نہیں ۔ہم سب کو خود احتسابی کے اس عمل سے بھی لازماً گزرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا بھی یہی تقاضا ہے اور اللہ رب العزت کا بھی یہی فرمان ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْر‘’ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ
ایمان والو اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤیہ تقوی سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اس لیے کہ اللہ تمہارے ہر عمل سے با خبر ہے۔