جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی سے تباہی کے مناظر میں اس وقت (۱۱۔۳۔۲۰۱۱) بی بی سی کے ذریعے لائیو دیکھ رہا ہوں۔ دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح بحری جہاز ،گاڑیاں ، بسیں، دیو ہیکل ٹرک اور فلک بوس عمارتیں خس و خاشاک کی طرح بہتی چلی جا رہی ہیں۔ پانی کی ایک دیوار ہے جس نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ ایک پوری کی پوری ٹرین غائب ہے ۔ زلزلے سے زمین یوں ہل رہی ہے کہ جیسے انسا ن کسی کھلونے سے کھیل رہا ہو۔ زمین پر اکڑ اکڑ کر چلنے والا انسان آج زمین کے سامنے کتنا بے بس نظر آتا ہے ۔ اپنے وسائل و ٹیکنالوجی پہ نازاں ، اپنی تدابیر پہ خوش اور اپنی دانائی و حکمت پہ مغرور آج کیڑے مکوڑوں کی طرح پنا ہ کی تلاش میں بھاگا پھر رہا ہے ۔ تنی گردنوں والے آج چھپتے پھر رہے ہیں اور‘ ‘بستیوں والے’ ’آج بے خانماں ہو چکے ہیں۔
قیامت جتنی بدیہی حقیقت ہے انسان اتنا ہی اس سے بے خبر ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے پیغمبروں ، آسمانی کتابوں تک ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وقفے وقفے سے کرہ ارض پر ایک محدود پیمانے پر قیامت برپا کر کے بھی دکھانے کا انتظام کر رکھا ہے تا کہ اپنی نظر پہ یقین رکھنے والا انسان اپنی نظر سے بھی دیکھ لے اور یوں نہ کہہ سکے کہ میں نے تو اس کو دیکھا نہ تھا۔اب دیکھنے کے بعد بھی وہ اگر اپنے پلان اور لائحہ عمل اس کے مطابق نہ بنائے تو قصور کس کا ہو گا؟اور پھر اللہ تو کہے گا ‘‘الیس اللہ باحکم الحاکمین’’ اور انسان بلی یا رب العالمین کہنے پر مجبو رہو گالیکن اس وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔
ان حوادث کی جو نظر ہو جاتے ہیں ، ان کی تو مہلت اختتام کو پہنچ جاتی ہے لیکن جو پیچھے بچ جاتے ہیں، ان کے لیے ابھی وقت باقی ہوتا ہے کہ وہ سمجھ جائیں اور اپنے رخ اور پلان تبدیل کر لیں اورقرآن مجید میں درج حقائق پہ یقین کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سائنس کی ترقی نے جہاں دنیوی طور پر انسان کو مالامال کیا ہے وہیں اس لحاظ سے بھی فائدہ پہنچایا ہے کہ قیامت سی حقیقت کو سمجھنا آسان کر دیا ہے ۔آج کرہ ارض کے کسی ایک حصے پہ برپا ہونے والا قیامت کا منظر سب کے لیے یاد دہانی کا کام دیتا ہے کہ سیٹلائٹ سب کو اسی طرح دکھا تا ہے کہ گویاوہ وہاں کھڑے اس کا حصہ ہوں۔پرانے زمانے میں تو جہاں زلزلہ یا طوفان آتا تھا وہی لوگ اس سے آگاہ ہوتے تھے اور باقی دنیا کو عرصے تک معلوم بھی نہ ہو سکتاتھا لیکن اب تو لمحوں میں نہ صرف خبر ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتی ہے بلکہ وہ تمام مناظر بھی اس طرح سامنے کر دیے جاتے ہیں جیسے ہم وہاں موجود ان کو دیکھ رہے ہوں۔ سمجھ نہیں آتی ،اس کے بعد بھی وہ کیا چیزہے جو انسان کو قیامت کے بارے میں بے یقینی پر مجبور کرتی ہے ۔ فبای حدیث بعدہ یومنون ‘‘ تو اس کے بعد وہ کیا بات ہے جسے یہ مانیں گے ؟’’
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جہاں قیامت کی گواہی ہے وہیں اس بات کی بھی گواہی ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد بھی وہ کون ہے جو درج ذیل آیتوں کو جھٹلائے ؟
اذا زلزلت الارض زلزالھا۔۔۔۔ ‘‘(یہ اس دن کو یاد رکھیں ) جب زمین ہلا دی جائے گی جس طرح کہ اسے ہلانا ہے اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گااس کو کیا ہوا؟ ’’ القارعۃ ماالقارعۃ۔۔۔۔ ‘‘وہ کھٹکھٹانے والی ،کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ کھٹکھٹانے والی اس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے ۔’’ اذا الشمس کورت واذالنجوم انکدرت۔۔۔۔‘‘ اس وقت ( اے لوگو) جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور جب تارے ماند پڑ جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔۔۔۔اور جب سمند ر ابل پڑیں گے۔ ۔۔۔اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا۔’’ اذا لسماء انفطر ت واذا الکواکب انتثرت واذا لبحار فجرت۔۔۔۔ ‘‘اس وقت ( اے لوگو) جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب تارے بکھر جائیں گے اور جب سمندر پھوٹ بہیں گے اور جب قبریں کھول دی جائیں گی اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے آگے کیابھیجا اور کیاپیچھے چھوڑا ۔اے انسان (تو اس حقیقت کو نہیں مانتاتعجب ہے ) تجھے کس چیز نے تیرے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ہے ۔۔۔۔’’