قدیم ترین یو نیورسٹی

مصنف : بی بی سی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مئی 2018

تاریخ
قدیم ترین یونیورسٹی ایک مسلم خاتون کی دین
بی بی سی

کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کہاں ہے؟ آپ کا جواب اوکسفرڈ یا کیمبرج ہو سکتا ہے یا پھر اگر تاریخ سے دلچسپی ہے تو شاید آپ ٹیکسلا یا نالندہ کہیں۔ٹیکسلا اور نالندہ میں بیشک قدیم یونیورسٹیاں قائم تھیں لیکن یہ وقت کی یلغار سہہ نہیں سکیں اور آج ان کے صرف کھنڈر ہی باقی بچے ہیں۔تو پھر دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کون سی ہے جو آج بھی کام کر رہی ہے؟
آج ہم آپ کو ایک تاریخی شہر کے سفر پر لے چلتے ہیں۔ اس شہر کا نام فاس ہے جو مراکش کا قدیم ترین اور دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ فاس کی سب سے بڑی خوبی یہاں کی یونیورسٹی ہے۔
فاس یا فاس مدینہ شہر نویں صدی میں بسا تھا اور آج تک آباد ہے۔ اس شہر کو تیرھویں اور چودھویں صدی میں تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ یہ وہ دور تھا جب مراکش میں المرینیون سلطنت قائم تھی۔ عرب ممالک کے تمام تر تاریخی شہروں میں فاس آج بھی بہتر حالت میں ہے۔
آج یہاں لوگوں کی زندگی میں نئی طرز زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن شہر کا طرز، اس کا انداز آپ کو ماضی کی یاد بھی دلاتا ہے۔ فاس کے شہر کی گلیاں ایک دوسرے سے ایسے خلط ملط ہیں جیسے بھول بھلیاں ہوں اور آپ کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتی ہیں۔ شہر کے مرکز میں فوارے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بازار یومیہ کی بنیاد پر لگتے ہیں۔اس کی طرز تعمیر اپنے انداز کی ہے اور عہد وسطی کی یاد دلاتی ہے۔اس شہر کی بہت سی پرانی عمارتیں رفتہ رفتہ کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ تاہم مراکش حکومت اس شہر کے تاریخی مقامات کے رکھ رکھاؤ پر بہت پیسے خرچ کر رہی ہے۔ اس شہر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے قدیم کار فری علاقہ ہے۔ نقل و حمل کے لیے آج بھی یہاں پرانے طرز کی یکہ گاڑی، بگھی اور تانگے کا استعمال ہوتا ہے۔اگر آپ فاس کی خوبصورتی دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ وہاں پیدل سفر کریں۔ ہر اہم عمارت پر قران کی آیتیں کندہ نظر آئیں گی۔ آپ وہاں کی نصف دیواروں پر سیرامک ٹائلز کے خوبصورت ڈیزائن دیکھ سکتے ہیں۔
فاس شہر کی خوبصورتی اور اس کی تاریخی اہمیت آپ کو از خود اپنی جانب کھینچتی ہے۔
اس شہر میں سیاحوں کی دلچسپی کا سب سے بڑا مرکز ایک عمارت ہے اور یہ عمارت دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو ابھی تک کام کر رہی ہے۔فاس شہر کے وسط میں جامعہ القرویین قائم ہے جو کہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ یونیسکو اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں آج بھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے۔بہت سے ریکارڈز کے مطابق یہ دنیا کی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں سند یا ڈگری دینے کا رواج عام ہوا۔ اس سے قبل ہندوستان میں ٹیکسلا اور نالندہ جیسے تعلیمی ادارے تھے لیکن وقت کے ساتھ یہ ادارے اجڑ گئے اور ان میں درس و تدریس کا سلسلہ بند ہو گیا۔جبکہ جامعہ القرویین میں گذشتہ 1200 سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل درس و تدریس جاری ہے۔ عرب ممالک میں یہ تعلیم و تعلم کا قدیم ترین مرکز ہے۔اس یونیورسٹی کی عمارت فن تعمیر کی خوبصورتی کی نئی عبارت کہی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے قیام کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ نویں صدی کے وسط میں جس وقت فاس کو ادریس سلطنت کے دارالحکومت کے طور پر بسانے کا کام جاری تھا اسی دوران قرویین شہر سے فاطمہ نامی ایک رئیس زادی اپنے والد اور بہن مریم کے ساتھ یہاں آکر بس گئیں۔ قرویین شہر آج تیونس میں آباد ہے۔فاطمہ نے فاس مدینہ میں ہی شادی کی اور جب فاطمہ کے والد فوت ہو گئے تو دونوں بہنوں نے طے کیا کہ جس معاشرے نے انھیں پناہ دی ہے وہ ان پر قرض ہے اور انھیں یہ قرض ادا کرنا چاہیے۔ لہٰذا فاطمہ نے جامعہ القرویین کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ یہاں نہ صرف لوگوں کی تعلیم کے لیے بلکہ ان کی رہائش کے لیے ایک بڑی عمارت تیار کی گئی۔جبکہ ان کی بہن مریم نے اپنے حصے کی دولت سے اندلسین نامی مسجد بنانے پر صرف کی۔ یہ مسجد اتنی وسیع تھی کہ وہاں تقریباً 20 ہزار لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے تھے۔مسجد کی سجاوٹ اعلیٰ معیار کی ہے۔ مریم نے اپنی ساری دولت مسجد کی تعمیر میں خرچ کی جبکہ فاطمہ نے اپنے حصے کی وراثت سے یونیورسٹی تعمیر کی تاکہ یہاں لوگ تعلیم حاصل کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ فاطمہ نے یونیورسٹی کے مکمل ہونے تک زیادہ تر مسلسل روزے رکھے۔ جامعہ القرویین 18 سال میں تیار ہوئی۔
لوگ مسجد کی خوبصورتی اندر باہر سے دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد اور یونیورسٹی میں چاروں جانب دروازے ہیں۔ چھت پر ہاتھ سے مصوری کی گئی ہے۔ جس میں قدرتی رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ اندر سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ عمارت کتنی بڑی ہے لیکن باہر سے اس کی عظمت بخوبی عیاں ہو جاتی ہے۔جامعہ القرویین کی چھت سبز ٹائلوں سے تیار کی گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دور تک ہریالی پھیلی ہوئی ہے۔ فرش پر مختلف رنگوں کی ٹائلیں ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فرش پر رنگ بکھیر دیے گئے ہیں۔
مراکش کا یہ شہر فاس بحراوقیانوس اور بحیرہ روم کے کنارے آباد ہے۔
فاطمہ کے بعد مراکش میں بہت سی سلطنتیں آئیں اور سب نے اپنے مطابق ان عمارتوں میں تبدیلی کی۔ مثلاً بارھویں صدی میں یہاں المورد سلطنت کی حکومت تھی۔ انھوں نے مسجد کے صحن کو وسیع کیا اور دیواروں پر اپنے دور کی تصاویر بنوائیں۔
اس کے بعد الموحدون کی سلطنت قائم ہوئی جس نے لمبے عرصے تک حکومت کی اور جنوبی سپین تک اپنی سلطنت پھیلائی۔ ان کے دور میں جو تبدیلیاں کی گئیں ان میں ہسپانوی طرز تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔
القرویین یونیورسٹی کی ابتدا ایک مدرسے کے طور پر ہوئی تھی لیکن آج دنیا بھر کے لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ آج اسے بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل ہے۔ یہاں دینی علوم کے علاوہ زبان و ادب، گرامر، موسیقی، قانون، تصوف، میڈیکل سائنس، جغرافیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس یونیورسٹی سے بڑے دانشور وابستہ رہے ہیں جن میں ابن رشد، ابن خلدون، محمد الادریسی، ابن میمون، محمد تقی الدین الہلالی، امام البنانی، احمداللہ الغماری، عبدالکریم الخطابی، محمد الوزان الفاسی یا لیو افریکانس وغیرہ شامل ہیں۔
سنہ 1359 میں المرینیون خاندان نے یونیورسٹی کی لائبریری کو مستحکم کرنے کا کام کیا۔ اسی دور میں قرون وسطیٰ کی کتابیں دنیا بھر سے تلاش کر کے یہاں لائی گئیں۔ یہاں تقریباً چار ہزار ایسے دستاویزات اور مخطوطے ہیں جو دنیا میں کہیں اور نہیں ہیں۔
در حقیقت یہ عرب ممالک کا وہ علاقہ ہے جہاں سے جدید تمدن کی ابتدا ہوئی ہے۔ یہاں پرانے زمانے کو سمجھنے کا خزانہ ہے۔ عرب ممالک کی لائبریریوں میں مسلمانوں اور اسلام کو سمجھنے کے لیے بہترین دستاویز موجود ہیں لیکن افسوس کہ کچھ لوگوں کی ناسمجھی کے سبب یہ قیمتی خزانے ضائع ہو رہے ہیں۔ جیسے عراق کے موصل میں واقع لائبریری مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔البتہ جو ان دستاویزات کی قدر سمجھتے ہیں وہ ان کو ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ محفوظ کیے جا سکیں۔
اس یونیورسٹی کا ایک حصہ سنہ 2016 میں لوگوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کویت کے عرب بینک نے مراکش کی ثقافتی وزارت کو بہت بڑی امداد فراہم کی ہے تاکہ اسلامی تہذیب کے اس پرانے مرکز کو بچایا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی کا قیام ایک خاتون نے کیا تھا لیکن سماجی وجوہات کے سبب اس میں انھیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔بہر حال اب یہ پابندی نہیں ہے اور آج مختلف مذاہب کے مرد و زن اس یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے آ رہے ہیں۔(بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام ۲۶مارچ ۲۰۱۸)***

فرمودات احمد جاوید صاحبی
*چھوٹا ذہن بڑے اخلاق پیدا نہں کر سکتا
*یہ مشاہد ہے کہ جس میں شاعری کا ذوق نہ ہو تو چاہے اس کو تاریخ ، فلسفہ ، سائنس سب آتا ہولیکن اس کے اندر ایک غیر انسانی کھردرا پن ہوتا ہے نہ وہ خو د اپنے ساتھ نہ دوسرے اس کے ساتھ رہ پاتے ہیں۔
*وجود کی اصل اپنی نوعیت میں اخلاقی جبکہ شعور کی نوعیت اپنی اصل میں علمی ہوتی ہے ۔
*استاد خود طالب علم نہ ہوتو تعلیم کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔