سنگترہ اور کینو

مصنف : حکیم مسعود احمد خان درانی

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : جنوری 2011

            سردیاں عروج پر تھیں۔ ہماری ایک کزن سیر کرنے مری گئیں۔ تین ہفتے بعد واپس آئیں تو ان کے چہرے پر موٹے موٹے دانے نکلے ہوئے تھے۔ جسم پر سرخ رنگ کے دھپڑ تھے۔ معلوم ہوا کہ مری اور سوات میں خوب انڈے اور بھنا ہوا مرغ کھایا۔ جس سے جسم میں حدت پیدا ہو گئی اور چہرے پر دانے نکل آئے۔ تیزابیت کی وجہ سے ان کا برا حال تھا ۔ ڈاکٹر کی دوا سے وقتی طور پر آرام آتا اور پھر الرجی ہو جاتی ۔ ان کا حال ایک پڑوسن کو معلوم ہواتو وہ بولیں کہ میری بیٹی کا بھی مری سے واپسی پر یہی حال تھا تیزابیت بڑھ گئی تھی ۔ میں نے اس کا علاج سنگترے اور کینو سے کیا۔ صبح ناشتے میں اسے ا یک گلاس کینو کا رس پلاتی اور دن میں تین بار کینو ، سنگترہ ، مسمی ، مالٹا جو بھی ملتا اسے کھانے کو دیتی۔ اس میں پانچ کالی مرچیں پیس کر ملا دیتی۔ چند روز میں الرجی ٹھیک ہو گئی ۔ چہرے کے دانے بھی ختم ہو گئے اور دانوں کے نشان رہ گئے ۔ کینو کا چھلکا پیس کر تھوڑی سی پسی ہوئی ہلدی ملا کر کینو کے چھلکے کا یہ ابٹن صبح و شام چہرے پر ملنے سے داغ دھبے بھی دور ہو گئے اور جلد بھی صاف ہوگئی۔ ڈاکٹر کی دوا سے تو اس کا معدہ بھی خراب ہو گیا تھا جبکہ سنگترہ او رکینو کھانے سے ہاضمہ بھی ٹھیک ہو گیا او ربھوک بھی کھل گئی۔

            پڑوسن کی بات دل کو لگی۔ ہم نے بھی کینو اور سنگترے منگوائے اور اپنی کزن کو ان کا رس پلایا۔ دو روز میں ہی اس کی طبیعت سنبھل گئی اور جسم کی حدت بھی کم ہوئی۔ ڈیڑھ دو ہفتے میں وہ بالکل ٹھیک ہو گئی۔

            سنگترہ جسے فارسی میں رنگترہ، ہندی میں نارنگی اور انگریزی میں اورنج کے نام سے پکارا جاتا ہے ایک مشہور پھل ہے ۔ اس کا رنگ سرخ زردی مائل اور ذائقہ چاشنی دار شیریں ہوتا ہے۔ یہ قاطع صفرا ، مفرح اور مسکن تشنگی ہے۔ حرارت جسمانی کو فرو کرتا ہے۔ دل کو تقویت بخشتا ہے۔ ہوا کی سمیت کو دور کرتا ہے۔ اس کا چھلکا جالی ہونے کے باعث ابٹنوں میں شامل کرتے ہیں۔ چہرے کے داغ و سیاہی کو دور کرتا ہے او رر نگ نکھارتا ہے۔ صفراوی مریضوں کے لیے ایک نعمت ہے۔

            ترش پھلوں میں سنگترہ، مالٹا ، مسمی ، لیموں اور گریپ فروٹ وغیرہ شامل ہیں۔ جن میں سٹرک ایسڈ او روٹامن سی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو جسم کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ایک بالغ کے لیے بیس گرام حیاتین سی روزانہ خوراک میں شامل ہونا چاہیے تاکہ کاربوہائیڈریٹ والی غذاؤں کو ہضم ہونے میں مدد ملے۔

            خدا تعالی نے سنگترے ، کینو ، مالٹے اور مسمی میں غذائی او ردوائی اثرات سمو دیے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے ، بیماری کے دوران اور بیماری کے بعد توانائی کی بحالی کے لیے ان کارس بہترین ہے۔ یہ رس پیٹ کو بوجھل نہیں کرتا اور بازاری مشروبات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ نارنگی کو وٹامن سی کا خزانہ کہا جاتا ہے۔ خون کی صفائی اور گیس کا اپھارہ دور کرنے کے لیے کینو ، مالٹے ، سنگترے کھاتے رہنا چاہیے او ر ان کا رس پیتے رہنا چاہیے۔ ان کے پھل پھول چھلکے سب جادوئی اثر رکھتے ہیں کینو کی پھانکوں کا سفید چھلکا پھینکنے کی بجائے کھا لینا چاہیے تاکہ ریشے کی وجہ سے قبض نہ ہو۔ سفید زیرہ ، کالا زیرہ ، سونٹھ ، کالا نمک اور کالی مرچیں پیس کر رکھ دیں اور کینو سنگترے کے ساتھ لگا کر کھائیں۔ اس سے ہاضمہ درست ہو گا۔ منہ میں پانی بھر آنے ، گیس کی تکلیف اور بھوک نہ لگنے کی شکایت میں بھی اس کا استعمال مفید رہتا ہے۔ جن کو بلڈ پریشر کا عارضہ ہو وہ نمک استعمال نہ کریں۔

            نارنگی کا بیرونی چھلکا بڑے کام کی چیز ہے۔ اس کے چھلکے میں پودینہ خشک 6 ماشہ ایک پیالی پانی میں جوش دے کر چینی ملا کر پینے سے بدہضمی اور پیٹ کا درد دور ہوجاتا ہے۔ ایک تولہ چھلکا سنگترہ ڈیڑھ گلاس پانی میں نمک یا چینی ملا کر پینے سے ناک او رمنہ کی بدبو دور ہوجاتی تھی۔ جن لوگوں کی ناک بند رہتی ہو ۔ وہ اس کی بھاپ لیں اور چند روز میں ہی یہ تکلیف دور ہو جائے گی۔ (انشا اللہ) وہ لوگ جن کا جگر خراب ہو ، تھوڑا سا کام کرنے سے سانس پھول جاتا ہو۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے برا حال ہوتا ہو۔ ا نہیں چاہیے کہ کینو کا رس روزانہ غذا میں شامل کریں تاکہ جگر کی خرابی کا تدارک ہو سکے ۔ اس طرح بعض دفعہ پیشاب رک رک کر پیلا زرد آتا ہے۔ کینو اور نارنگی کے مسلسل استعمال سے یہ شکایت باقی نہیں رہے گی۔

             ماہرین کے مطابق کینو ، مالٹے ، نارنگی وغیرہ کا اصل وطن جنوب مشرقی ایشیا ہے۔ اب اسپین ، امریکہ ، برازیل اور جنوبی امریکہ میں بھی کینو کے وسیع باغات ہیں۔ پاکستان میں سرگودھا ، فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ ، اوکاڑہ ، ساہیوال، خانیوال او رٹوبہ ٹیک سنگھ میں کینو یا اس کے رشتہ دار ترش پھلوں کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ ترشاوہ پھلوں میں مسمی بھی شامل ہے جس میں ترشی کم ہوتی ہے۔

            ترشاوہ پھلوں کے پودے بلندی پر نہیں اگتے۔ کیونکہ سردی انہیں مارڈالتی ہے ۔ اس جنس کے درخت رسیلے پھلوں کی وجہ سے گرم علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ ہندستان میں ناگ پور کے علاقے میں اور جنوبی چین میں بھی ان کے وسیع باغات پائے جاتے ہیں۔ کینو کا درخت 35 فٹ تک ہو سکتا ہے۔

            ایک شیریں کینو کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کا رس معدے میں جا کر جذب ہو جاتا ہے۔ معدے پر کوئی بار نہیں پڑتا ، گویا رس ہضم شدہ غذا ہے۔ جسے بس منہ کے ذریعے معدہ میں ڈالنا کافی ہوتا ہے۔

            بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کینو میں ایسی غذائیت نہیں ہوتی جیسی روٹی میں ہوتی ہے۔ اس لیے کینو کے استعمال سے جسم میں توانائی پیدا نہیں ہوتی ۔ یہ خیال محض ناواقفیت کی بنا پر ہے یا شاید اس لیے کہ کینو کے رس کا بار ہمارے معدے پر محسوس نہیں ہوتا ۔

            ماہرین غذا کی تحقیق ہے کہ ایک بڑے شیریں کینو کا رس ہمارے جسم کو اتنی ہی قوت بخشتا ہے جتنی کہ ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا۔ فرق صرف یہ ہے کہ روٹی کئی گھنٹے میں ہضم ہو کر جسم کو قوت دیتی ہے جبکہ کینو کا رس معدے میں پہنچتے ہی جسم کے کام آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے مریضوں کی غذا میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ کینو جتنا شیریں ہو گا اتنا ہی زیادہ اس میں غذائی قوت ہوگی۔

            کینو کے رس میں بہت سے معدنی نمکیات پائے جاتے ہیں خصوصاً چونا وغیرہ۔ جس کے استعمال سے تیزابیت رفع ہوتی ہے تیزابیت کی شکایت عموماً ان لوگوں کو ہوتی ہے جو غذا میں گوشت زیادہ کھاتے ہیں اور بیٹھے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے کینو کا استعمال نہایت درجہ مفید ہے کیونکہ یہ تیزابیت کو دور کرتا ہے ۔

            کینو کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ آنتوں میں ناقص غذا سے جو سستی پیدا ہوتی ہے اسے رفع کرتا ہے ۔ چنانچہ دائمی قبض کے مریضوں کے لیے رات سوتے وقت اور صبح اٹھتے ہی ایک یا دو کینو کھانا نہایت مفید ہے ۔ سہ پہر کے وقت بھی کینو کا زیادہ استعمال قبض کو ختم کردیتا ہے۔

            کینو کا رس بخار کے مریضوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ نظام ہضم پر کسی قسم کا دباؤ ڈالے بغیر یہ مریض کے جسم کی پرورش کرتا ہے او ران عناصر کو خارج کرتا ہے جو بخار کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو دن میں پانی بھی زیادہ پلانا ضروری ہے تاکہ جلد اور گردوں کے ذریعے فاسد مادوں کا اخراج ہو سکے۔ پانی کی مطلوبہ مقدار پلانے کے لیے شیریں کینو کا رس بہترین شے ہے ۔ مغرب کے ماہرین طب کے مطابق بخار کے مریضوں کے لیے کوئی غذا کینو کے رس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ رس نہ صرف پیاس کی شدت کو رفع کرتا ہے بلکہ جسم سے زہریلے مواد کو بھی خارج کرتا ہے۔ یہ زہریلے مادے خون او رگوشت جلاتے ہیں۔ لہذا عام پانی کی بجائے بخار کے مریض کو کینو کا رس استعمال کرایا جائے ۔

            بخار کے زہر کے سبب مریض کی زبان پر میل جم جاتی ہے اور اسے غذا او رپانی کی رغبت نہیں رہتی ۔ اس دوران کینو کا خوشگوار ذائقہ اور خوشبو غالب آتی ہے اور کینو کا رس پانی، دوا اور غذائیت سب کا کام سرانجام دیتا ہے ۔

            کینو کا رس شدت بخار کی وجہ سے پیدا شدہ لعاب دہن کی کمی کو بھی دور کرتا ہے۔ میعادی بخار کے مریضوں کے لیے بھی نہایت مفید ہے ۔

            جن بچوں کو ابتدا ہی سے ماں کا دودھ میسر نہ ہو اور وہ ڈبے کے دودھ پر پلیں ، انہیں کینو کا رس دینا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ یوں بچوں کو سوکھے کی بیماری نہیں ہوتی انہیں روزانہ حسب عمر دو سے چار چمچ کینو یا ٹماٹر کا عرق پلانا کافی ہو گا۔

            عموماً ترشی کھانسی کے لیے مضر ہے لیکن کینو کی ترشی کھانسی کے لیے اکسیرہے۔ ایک شخص نے مجھے بتایا کہ جب مجھے کھانسی یا نزلے کی شکایت ہوتی ہیے تو میں کینو استعمال کرتا ہوں۔ اس کا مزاج صفرادی تھا۔ عمدہ اور سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کھانسی کے دوران آب کینو میں مصری ڈال کر پئیں ۔

            خارش کی بیماری بچوں میں بہت ہوتی ہے۔ عموماً خون او رمسوڑھوں کی خرابی ا ور ترکاری میں ترشی نہ ہونے کی وجہ سے پیدا

 ہوتی ہے۔ بچوں کے جوڑوں میں سخت درد ہوتا ہے ۔ وہ درد کی شدت سے بہت چلاتے ہیں ، اس کا واحد علاج کینو ہے ۔ ہر دو گھنٹہ بعد ایک کینو کا رس پلائیں ، دو سے تین دن میں بچہ اچھا بھلا ہو کر کھیلنے لگے گا۔

            لہذا کینو قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے اور آجکل چونکہ کینو ہی کا موسم ہے لہذا ہمیں قدرت کے اس تحفے کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

٭٭٭