مسلمانوں کے دین میں واکنگ تھراپی یا پیدل چلنے کی بڑی اہمیت ہے ۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی طرف آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ مسجد کی طرف چل کر آنے کے اس عمل کو صحت میں بہتری کی طرف پیش قدمی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حج و عمرے میں طواف اور صفا مروہ کی سعی بھی ہمارے لیے جسمانی و روحانی راحت و سکون کا سامان کرتی ہے۔ اسلام کے فطری و فلاحی مذہب ہونے کا یہ ایک کھلا ثبوت ہے۔ ادا کی جانے والی نمازوں پر بھی غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ قیام’ رکوع و سجود میں جسم کے تمام جوڑ متحرک رہتے ہیں۔ اعتدال سے پاکیزہ غذائیں کھانے اور توجہ سے نماز ادا کرنے والے’ جوڑوں کی تکلیف سے محفوظ رہتے ہیں ۔جس دباؤ اور اعصابی کشیدگی کا آج پوری مہذب دنیا رونا رو رہی ہے’ اس کا علاج یہی ہے کہ انسان چلے اور خوب چلے۔
ذہن و قلب کی راحت و صحت کیلئے چلنے کی افادیت کے بارے میں ثبوت اور شہادتوں کا ڈھیر لگ گیا ہے۔ چلنے کے عمل کی افادیت سے آج کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود بہت کم معالجین اپنے مریضوں کیلئے صدیوں کا آزمودہ یہ طریق علاج تجویز کرتے ہیں۔ وہ یا تو ان شہادتوں کو نظرانداز کرنے کا عہد کیے ہوئے ہیں یا پھر دانستہ اسے اپنے مریضوں کیلئے تجویز کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہر دیانتدار معالج جانتا ہے کہ پیدل چل کر بے شمار افراد کئی جسمانی اور ذہنی امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ جو بیمار ہیں وہ بھی اپنے معالج کے مشورے اور رہنمائی سے پیدل چل کر اپنے امراض سے نجات پاسکتے ہیں۔ باشعور اور بامقصد انداز میں چلنے والے سکون کیلئے کھائی جانے والی دواؤں سے بھی چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
علم وتحقیق کرنے والوں کی طرف آئیے تو ایک دو نہیں کئی ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ وہ خود یہ ورزش 15-20 سال سے کررہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک بہترین علاج ہے جسے وہ واکنگ تھراپی کا نام دیتے ہیں اور طریق علاج سے حسب ذیل ذہنی اور دماغی فوائد حاصل ہوتے ہیں:
ان ماہرین کا اصرار ہے کہ کہنے کو چلنا محض ایک سیدھی سادھی ورزش ہے لیکن ذہن و جسم کو اس سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں کہ جو اسے اختیار کرتے ہیں۔ انسانی مزاج و کیفیات پر اس کے بڑے اہم اور حیرت انگیز مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے پروفیسر تیس سالہ ایک ایسی خاتون کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جو بہت موٹی تھی اور ذہنی پستی اور دباؤ نے اسے چرمرا کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ ہر معالج کی دہلیز چھو آئی تھی لیکن نجات کسی کے علاج سے نہ مل سکی تھی یہاں تک کہ ایک معالج نے اسے سمجھایا کہ دواؤں سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ اسے صحت صرف اس صورت میں مل سکتی ہے کہ اس کا وزن کم ہو جس کا علاج صرف پیدل چلنا اور اعتدال کے ساتھ وزن برداری ہے۔ سخت مایوسی کی شکار اس خاتون نے اس مشورے پر عمل کرکے اپنے وزن میں سو پونڈ کمی کرلی جس سے اس کا ذہنی دباؤ اوربوجھ بھی رخصت ہوگیا اور زندگی اس کیلئے ایک بار پھر خوشگوار ہوگئی۔ایک اور ماہر کا دعویٰ ہے کہ ان کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ ورزش اور خاص طور پر باقاعدہ چلنے سے پستی (ڈیپریشن) کے شکار صحت مند افراد بھی اس تکلیف سے نجات پاکر اپنی زندگی میں ایک نیاحوصلہ اور رنگ بھر لیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ورزش تیز دواؤں سے زیادہ موثر اور شفا بخش ثابت ہوتی ہے۔ پروفیسر رابرٹ کے مطابق تیراکی’ دوڑنے اور چلنے کی ورزشوں میں شفابخشی کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر ورزش جسم و ذہن کی منتشر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بحال کرنے کی طاقت و تاثیر رکھتی ہے۔ اس سے بڑے اہم مجموعی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ورزش سے جسم کی تمام صلاحیتیں چمک اٹھتی ہیں۔ استحالہ (میٹابولزم) بڑھ جاتا ہے۔ قلب کی سستی دور ہوکر اس کی رفتار مستحکم اور توانا ہوجاتی ہے’ سانس میں اضافہ ہوتا ہے’ آکسیجن خوب جذب ہوتی ہے جس سے دماغ روشن ہوجاتا ہے۔ عضلات کی کشیدگی دور ہوجاتی ہے۔ جسم میں اہم ہارمونی رطوبتوں کی تیاری پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دماغ اور اعصاب میں توانائی اور چونچالی کی لہریں دوڑنے لگتی ہیں۔ سوچ اور طرزعمل میں بہتر اور خوش گوار تبدیلی آجاتی ہے اور یوں انسان ایک مرتبہ پھر توانا’ صحت مند اور آسودہ ہوجاتا ہے۔
پروفیسر تھیئر کا تعلق کیلے فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ہر مخلص معالج کا یہ فرض ہے کہ وہ ڈیپریشن کے شکار افراد کیلئے سب سے پہلے ورزش کا پروگرام تجویز کرے۔ ورزش ہر صحت مند انسان کیلئے بھی بہترین اور مفید ہوتی ہے اور پیدل چلنا سب سے آسان’ سستی اور بہترین ورزش ہے۔ایک معالج آسٹن گون تانگ انکشاف کرتے ہیں کہ اپنی بیس سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں انہوں نے ڈیپریشن کے بیسیوں مریضوں کو اپنی صبح کی واک میں شامل کرکے صحت یاب کردیا ہے۔ وہ ایسے مریضوں کے قدم سے قدم ملا کر چلتے بھی ہیں اور انہیں آمادہ گفتگو کرکے احساس دلائے بغیر ان کے ذہن سے منفی اور لاحاصل خیالات بھی دھوتے جاتے ہیں۔اکثر مریض ذہنی طور پر ماضی میں رہتے ہیں یا پھر انہیں مستقبل کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ ان کا صحیح اور درست علاج یہ ہے کہ وہ ماضی کی یاد اور مستقبل کی فکر سے ہٹ کر حال سے تعلق جوڑ لیں اور ماضی و مستقبل کی لاحاصل فکر سے کٹ کر حال سے اپنا رشتہ جوڑنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ باقاعدگی سے پیدل چلنے کی ورزش کی جائے۔ اس ورزش میں انسان کا اپنے اطراف کے ماحول سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے اور وہ حقائق کی دنیا میں لوٹ آتا ہے۔ حاصل گفتگو یہ کہ چلئے اور امراض سے بچئے۔ باقاعدگی سے دس منٹ کی چہل قدمی (واک) بھی اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے اور جو آپ روزانہ آدھا گھنٹہ چلیں تو پھر فائدہ ہی فائدہ ہے۔