اللہ کا ولی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : دسمبر 2012

 

    مولانا مودودیؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے ولی دیکھا ہے (پوچھنے والا کتنا سادہ تھا کہ وہ ولی سے ہی یہ سوال پوچھ رہا تھا) مولانا نے فرمایا کہ ہاں دیکھا ہے ۔ پوچھنے والے نے کہا کہ کہاں دیکھا ہے ؟ مولانا نے کہا کہ راولپنڈی کے سٹیشن پر۔اس نے کہا کہ وہ کیسے ؟ مولانانے کہا کہ میں لاہور سے بذریعہ ٹرین راولپنڈی پہنچا۔ ٹرین رکی تو سٹیشن پر موجود تمام قلی گاڑی کی طرف بھاگے ۔ میرے پاس بھی سامان تھا اور مجھے بھی قلی کی ضرورت تھی۔ اسی اثنا میں ،میں نے دیکھا کہ ایک قلی نے گاڑی کی طرف بھاگنے کے بجائے سب سے الگ کھڑا ہو کر نماز کی نیت باند ھ لی۔میں یہ منظر دلچسپی سے دیکھنے لگا اور سامان کسی اور کو دینے کے بجائے اس کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔ پلیٹ فارم مسافروں سے خالی ہو گیا مگر میں اسے نماز پڑھتے دیکھتا رہا ۔ اس نے سکون سے نمازادا کی اور اس کے بعد ارد گرد دیکھا ۔ مجھے دیکھ کر وہ میری طرف آیا اور پوچھا ، سامان اٹھوانا ہے؟ ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو وہ خاموشی سے میرا سامان اٹھاکر باہر کی طرف چل دیا۔ سٹیشن سے باہر جاکر اس نے میرا سامان رکھاتو میں نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر اسے دیا ( اس کی جیب پر لکھا تھا ، اجر ت بارہ آنے ) اس نے جیب سے چار آنے نکال کر مجھے دے دیے ۔ تو میں نے کہا کہ رکھ لو میں تمہیں خوشی سے دے رہاہوں تو اس نے کہا کہ نہیں جی، ہماری اجرت حکومت کی طرف سے بارہ آنے مقرر ہے ،میرے لیے بارہ آنے ہی جائز ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ جب گاڑی سٹیشن پر رکی تو تم باقی قلیوں کی طرح گاڑی کی طرف کیوں نہیں بھاگے تو اس نے کہا کہ جناب اس وقت اذان ہو گئی تھی، میرے اللہ کا بلاوا آ گیا تھا، اس وقت میرے لیے جائز نہ تھا کہ میں اپنے رب کی پکار سن کر کسی اور طرف چل پڑوں ۔ جو رزق میرے مقد ر میں تھا وہ مجھے مل کر ر ہا ،اللہ نے آپ کو میرے لیے کھڑا رکھا۔میں نے پوچھا ، اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے چار آنے کیوں نہ رکھے جبکہ میں اپنی خوشی سے دے رہا تھا۔ تو اس نے کہا جناب میرا بارہ آنے ہی میں گزارہ ہو جاتا ہے ، مجھے زیادہ لینے کی حاجت نہیں۔ 
    اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ قدرت اللہ شہاب نے بیان کیا ہے کہ جب وہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر تھے تو ایک بزرگ ان کے دفتر میں آئے او رانہوں نے کہا کہ وہ ایک پرائمری سکول ٹیچر ہیں۔ تنخواہ تھوڑی ہے جبکہ بچیاں جوان ہیں ، ان کی شادی بھی کرنی ہے او رحج بھی کرنا ہے، بس یہ ہی دو خواہشیں ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو جوسرکاری زمین الا ٹ کرنے کی اجازت ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے کچھ زمین الاٹ کردیں تا کہ میں اپنی یہ خواہشات پوری کر سکوں۔شہاب کہتے ہیں کہ میں نے تحقیق کروائی تو معلوم ہوا کہ وہ بزرگ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ وہ واقعتا ایک محنتی، دیانتدار استاد اور نیک انسان تھے اور حالات بھی ان کے کمزور تھے چنانچہ میں نے انہیں ۲۵ ،ایکڑ زمین لیز پر دے دی ۔ او روہ مجھے دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔ شہاب کہتے ہیں کہ کئی برس بعد جبکہ میں ایوب خان کا سیکرٹری تھا اور صدارتی محل میں تعینات تھا تو مجھے دفتر میں بیٹھے ہوئے ایک رجسٹرڈ خط ملا۔ میں نے لفافہ کھولا تو اس میں چند کاغذات کے ساتھ ایک خط بھی تھا ۔ لکھا تھا ، جناب آپ مجھے بھول گئے ہوں گے ،میں وہی سکول ماسٹر ہوں جسے آپ نے جھنگ میں زمین الاٹ کی تھی ۔ میں نے اپنی بیوی اور بچیوں کے ساتھ مل کر اس کو آباد کیا ۔ خوب فصل ہوئی، اللہ نے برکت دی میں نے بچیوں کی شادی بھی کردی اور ہم میا ں بیوی نے حج بھی کر لیا ۔میری ساری خواہشات پوری ہو گئیں ۔اب مجھے اس زمین کی حاجت نہیں ۔ میں زمین کے کاغذات شکریے کے ساتھ واپس کر رہاہوں آپ کسی اور ضرورت مند کو دے دیں ۔قدرت اللہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ ولی تھا۔
    اسی طرح اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ میں نے کبھی ولی دیکھا ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں۔ وہ پوچھے کہ کہا ں ،تو میں کہوں گا کہ لاہور کے ڈی پی سکول میں۔اور میں بتاؤں گا کہ اس ولی سے ملنا بھی کو ئی مشکل نہیں ۔کوئی بھی چاہے تو وہ ڈی پی سکول کے ایڈمن بلاک میں چلاجائے او روہا ں کے اکاونٹس سیکشن میں دا خل ہوجائے ۔ اسے وہاں سر پہ ٹوپی اوڑھے ، سفید کپڑے پہنے ، لمبی گھنی داڑھی اور پُر سکو ن چہرے والا ایک شخص نظر آئے گا، وہ بس اس سے دعائیں لے لے کہ یہی اللہ کا ولی ہے۔ یہاں نہ مل سکے تووہ سکول کی کالونی کے گیٹ پر کھڑا ہوجائے ۔ نمازوں کے اوقات میں اس حلیے کا جو آدمی نظریں جھکائے مسجد کی طرف تیز تیز چلتا ہوا ملے، اس سے مل لے، یہی اللہ کا ولی ہے اور کوئی مجھ سے پوچھے کہ اس طرح کی شکل والے تو بے شمار لوگ ملتے ہیں یہ اللہ کا ولی کیسے ہو گیا؟تو میں اسے بتاؤں گا کہ اس نیک آدمی کے والدین نے اس کی شادی اس کے استاد کی بیٹی سے کردی جبکہ استاد اس وقت تبلیغی سفر پر تھے۔ واپس آئے تو اس سے محض اس لیے ناراض ہو گئے کہ تیری ذات اور ہے اور میری ذات اور ۔استاد کئی برس ناراض رہے مگر یہ اللہ کا ولی استاد سے ناراض نہ ہوا ،اور برابر ان کی منت سماجت میں لگا رہا کہ آپ راضی ہو جائیے کہ یہ شادی عین ہمارے دین کے مطابق ہے مگر استا د کا یہ کہنا تھا کہ دین بے شک بڑی چیز ہے مگر ذات پات بھی توکوئی کم نہیں ۔اور پھر میں یہ بھی بتاؤں گا کہ اس اللہ کے ولی نے بڑے پیا ر ومحبت سے اپنی بیٹی کی تعلیم و تربیت کی ، جوان ہوئی تو اپنے ایک قریبی عزیز سے اس کی منگنی کر دی ۔ ایک مشرقی لڑکی کی طرح و ہ بیٹی بھی اپنے منگیتر کو پہلی اور آخری دفعہ دل دے بیٹھی ۔ سال بھر تو معاملہ ٹھیک چلا مگر اگلے برس لڑکے والوں نے یہ منگنی توڑ ڈالی جس سے سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو گیا۔ اس اللہ کے ولی نے اپنی بیٹی کی شادی کسی غیر فیملی میں کر دی ۔ بچی والدین کی رضا کو اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے چپکے سے پیا گھر سدھار گئی ۔ مگر پہلی منگنی ٹوٹنے کا غم نہ بھلا سکی ۔ ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجائے یہ بچی اندر ہی اندر روتی رہی اور یہ رونا اور غم اس وقت باہر آیا کہ جب معلوم ہوا کہ ٹی بی اس کی ہڈیوں کو گھلا چکی ہے اور پھر یہ چھ ہی ماہ میں پیا گھر سے اللہ کے گھر جا پہنچی ۔ اتنے بڑے صدمے کے بعد بھی یہ اللہ کا ولی اپنے اس قریبی عزیز سے نہ ناراض ہوااور نہ منہ موڑا، بلکہ آج بھی اسے نہ صرف گلے لگاتا ہے بلکہ اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے اس کی بہتری اور ترقی کے لیے دعا گو او ر کوشاں بھی ہے ۔ اپنے رب کی رضا پہ راضی رہنے کی اس سے بڑی مثال اس زمانے میں کوئی اور بھی ہے ؟اور میں تسلیم و رضا اور اخلاص و محبت کے اس پیکر کوپھر بھی اللہ کا ولی نہ کہوں تو کیا کہوں؟
    صرف یہی ایک نہیں بلکہ میں نے تو بہت سے زندہ ولیوں کو دیکھا ہے جن میں سے بہت سے اب بھی زندہ ہیں ۔ خدا، ان کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ جنوبی پنجاب کا رہنے والا اگر لاہور کا سفر نہ کرسکے تو وہ بہاولپور کے سرکاری ہسپتال میں چلا جائے وہا ں اسے جلد ی امرا ض کے شعبے میں ایک سفید داڑھی اور لمبے قد والا آدمی ملے گا جسے لوگ پروفیسرخالد کہتے ہیں جو بیسویں گریڈ میں کام کرتا ہے لیکن جس کا اصرار ہے کہ ڈیوٹی پوری دینی ہے ،حلال کھانا ہے مریضوں کے کام آنا ہے اور انسانیت کا بھلا کرنا ہے مگر لوگ اس سے ناراض ہیں کہ یہ اس دور میں ایسی باتیں کیوں کرتا ہے ؟ اور میں کہتا ہوں کہ اس دور میں ایسی باتیں کرنے والااور اس پھر عمل کرنے والا اللہ کا ولی نہیں تو اور کیا ہے ؟اسی علاقے کا رہنے والا اگر بھکر اور لیہ کی طرف چلا جائے تو اسے کروڑ لعل عیسن میں قوم کا افتخار نظر آئے گاجو انجنیرنگ کی ڈگری دین کے قدموں پر تج کرمدرسہ میں قال قال رسول اللہﷺ کی آوازیں لگا رہا ہے اور مجھ جیسا دنیا کا کتا کتنی حسرت کو اس کو دیکھتا رہ جاتا ہے کہ کاش ہمارے مقد ر میں بھی ہوتا کہ ہم بھی دن رات قال قال رسول اللہﷺ کی صدا لگا رہے ہوتے مگر یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے اور بڑے نصیب کی بات ہے ۔ شمالی پنجا ب والے کسی ولی اللہ کو ملنا چاہیں تو اسلام آباد چلے جائیں وہا ں بھی انہیں اپنے بڑے قد کی طرح بڑے دل والا آدمی ملے گا جس کے ماں باپ نے اس کا نا م عارف رکھا مگر معلوم نہیں کہ وہ دنیا کا عارف ہے کہ نہیں مگر دین کا عارف ضرور ہے ۔ جس کی ساری زندگی اسی جہد میں گزر رہی ہے کہ کس طرح قرآن کا پیغام عام لوگو ں کی طرح پہنچ جائے اور قرآن وہ کتا ب بن جائے جسے لوگ نہ صرف پڑھ رہے ہوں بلکہ سمجھ بھی رہے ہوں۔ جس کی صبحیں ، جس کی شامیں، جس کے دن ، جس کی راتیں اللہ کے کلا م کی خدمت میں گزرتی ہوں تو وہ ولی نہیں تو اور کیا ہے ؟ اسی طرح نہ جانے ‘‘ڈنگہ ’’ کب سے ‘‘ڈنگہ’’ تھا مگر جب سے اللہ کے ولی نے وہاں کلینک بنا یا ہے مجھے تو وہ سیدھا سیدھا سا لگتا ہے ۔ دور سے دیکھنے پر عاربی نام کا یہ ولی ایک دیہاتی کسان لگتا ہے مگر ہے پورا مہان ۔اس کے پاس بیٹھنے والے کہتے ہیں کہ بلا شبہ انہیں نروان حاصل ہوتا ہے یقین نہ آئے تو مل کر دیکھیے۔پچاس برس کی عمر میں عربی گرامر کی کتابیں اٹھائے یہ ڈاکٹر کتنا عجیب لگتا ہے مگر قرآن کو سمجھنے کے لیے اس کی کوشش دیکھ کر یقینا فرشتے شرمندہ شرمندہ آپس میں کہتے ہوں گے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم نے آدمی کی پیدایش پرنہ پوچھا ہوتاکہ اس کو کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیا ہم کافی نہیں؟ لاہور سے سرگودھا کیطرف چلیں تو راستے میں بھیر ہ سے صوفیوں کی خوشبو آئے گی جس میں خانوادہ بگویہ یقینا ممتاز حیثیت کا حامل ہے اسی خانوادے کا ایک ولی اللہ لاہور میں بھی رہتا ہے لوگ اسے ڈاکٹر اور بیوروکریٹ کی حیثیت سے جانتے ہیں جبکہ میں اسے ولی کی حیثیت سے جانتا ہوں ۔یہ ولی اللہ ایسے ہی مختلف روپ میں چھپے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں پہچان نہیں پاتے ۔اس سے ملنا ہو تو ویلنشیا جانا پڑے گا لیکن اس کے دل کی طرح اس کے دروازے بھی ہر ایک کے لیے کھلے رہتے ہیں۔اور یہ ولیوں کی پہچان نہیں تو اور کیا ہے؟ لاہور کے رہنے والوں کو تو شکایت کرنا ہی نہیں چاہیے کہ یہاں تو کونے کونے میں ولی اللہ موجود ہیں کہ انہیں کی برکت ہے کہ لاہور اپنی تمام تر برائیوں کے باوجود امن وامان کا گہوارہ ہے وہ لاہور جہاں مولوی حسن ، مولوی محب النبی، سجاد الہی، سجاد خالد اور احمد جاوید جیسی شخصیات موجود ہوں اس کے باسیوں کو کس چیز کی کمی ہے؟ یہ ناچیز مولوی حسن کو اس وقت سے جانتا ہے جب چوبرجی کی مسجد چھوٹی تھی اور مدرسہ کچا تھااور مولوی حسن راقم کی بحثیت طالب علم آمد پر اتنے خوش ہوئے تھے کہ اس کی جوتیاں اٹھا کر آگے آگے چل پڑے تھے ۔ اب جب کہ مسجد بڑی ،مدرسہ پکا اور طالب علم ہزاروں ہیں ان کی سادگی اور بے غرضی اب بھی اسی طرح ہے جیسے پہلے تھی۔ اتنے مریدو ں اور شاگردوں کے باوجود ایک پیر خود کو بندہ ہی سمجھے تو یہ ولی نہیں تو اور کیا ہے؟ احمد جاوید اردو، فارسی ادب کا بحر بے کراں ، تصوف کا امام ،قرآں کا شناور ، سنت کا عاشق ،جس کے علم کی طرف دیکھیں تو یقینا ہم جیسوں کی ٹوپیاں گر پڑتی ہیں مگر وہ پھر بھی ہم کوتاہ قد اور علم سے کورے انسانوں کواپنے پاس بٹھا لیتے ہیں یہ ان کے ولی اللہ ہونے کی علامت نہیں تو اور کیا ہے؟ اور اگر کسی نے پتلون والا اور سٹائلش داڑھی والا ولی دیکھنا ہو تو لاہور کے ڈیفنس میں شہزاد سلیم کو دیکھ لے ، علم کے بہت سے چشموں سے سیراب اس ولی کی خوبی لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرنا،اور دوسروں کے کام آنا ہے ۔ آج وہ جو لوگوں کو معاف کرتا ہے کیا اللہ اسے نہ معاف کرے گا؟ اور اسی ڈیفنس میں ولیوں کا ولی بھی رہتا ہے جو ہندستان سے سندھ پہنچا وہاں سے سعودی عرب اور پھر براستہ کراچی لاہور جا پہنچا اور اب اہل لاہور کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے تا حیات لاہور ہی میں رہنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ جس کا جسم ڈیفنس میں اور دل کچی آبادیو ں میں رہتا ہے اور جو ہر آن فلاحی کاموں اور تنظیموں کی سر پرستی کرنے پر تیار رہتا ہے ۔ جس کی صحت اسے کہتی ہے کہ تو بوڑھا ہے مگر اس کا دل کہتا ہے کہ تو جوان ہے اور وہ جوانوں ہی کی طرح دن رات ایک کیے ہوئے ہے ۔ روح کے سکون اور پریشانیوں سے نجات اور رزق میں برکت حاصل کرنے کے لیے اس عبدالرزاق سے ملنا از حد ضرور ی ہے۔ یوکے کی طرف نکل جائیں تو وہاں حنا نامی اللہ کی ولی آپ کو ملے گی ۔سعودیہ چلے جائیں تو مبشر نذیر نامی ولی ملے گا اور ادھر یواے ای آ جائیں تومیں آپ کو بتاؤں گا کہ میں نے ڈاکٹر شمس نامی ولی کو دیکھا ہے جس نے ساری عمر مال نہیں اعمال بنائے ، مخلوق کی طرف نہیں خالق کی طرف دیکھا او ردنیا نہیں آخر ت پر نظر رکھی ۔ و ہ اگرچہ اب فوت ہو چکے لیکن ان کا فیض جار ی ہے ۔ وہ چشمہ جو انہوں نے زندگی بھر کی محنت اور کمائی کے نتیجے میں دریافت کیا تھا اب اس سے ہزاروں بچے سیراب ہو رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کے درجات کتنے بلند ہو ں گے یہ اللہ ہی جانتا ہے او راللہ ہی کو جاننا چاہیے کہ انہوں نے اللہ ہی کی لیے یہ کام کیا تھا۔اور جسکو یہ حسرت ہو کہ اس نے امام اعظم ابو حنیفہ کو نہ دیکھا تو وہ ملایشیا کی طرف چلا جائے ان کی ذہانت، فطانت اور تفقہ فی الدین کا عکس اور امام بخاری کے حافظے کا عکس وہا ں آپ کو وہاں مل جائے گا اور امام کے عکس کو اگر جوانی میں دیکھنا ہو تو گوجرانوالہ چلا جائے اوروہاں لوگوں سے عمار ناصر کا پتہ پوچھ لے ۔ لاہور کراچی گوجرانوالہ اسلام آباد اور بہاول پور کے ذکر سے یہ نہ سمجھیے کہ ولی صرف بڑے شہروں میں ہی ملتے ہیں اللہ کریم نے چھوٹے شہروں پر بھی کرم فرمار کھا ہے ان میں دو شہروں کو میں بھی جانتا ہوں ایک ہے اوکاڑ ہ اور دوسرا پیرمحل۔ اوکاڑہ میں وہ ولی اللہ فالج سے بیمار بستر پر پڑا ہے جس نے ساری عمر تصوف کی وادیو ں اور مریدوں کے جھرمٹ میں گزاری لیکن نہ تو ان کو کوئی خلاف شریعت حرکت کرنے دی اور نہ ہی انہیں اپنی ذات کا پیرو بنایا بلکہ پیرو بنایا تو صرف اور صرف رسول اللہﷺ کا ۔ جس نے ساری عمر خود رزق حلال کما کر کھایا اور مریدوں کے مال کی طرف نگا ہ تک نہ کی اور جس کی پاکیزگی کردار آج بھی اس کے چہرے کے نور سے عیاں ہے اگرچہ کہ فالج سے اعضا کی رعنائی ماند پڑ گئی مگر ذہنی رعنائی اور چہرے کی رونق باقی ہے اور جس کی باتیں ہیں آج بھی خوشبو خوشبو۔ انصاف کا ساتھ دینا اور مسلکی تعصبات سے بالا تر ہو کر سب علما کی قدر کرنا کسی بھی پیر کے لیے موجودہ زمانے میں ایک نایاب چیز ہے مگر پیرمحل والا پیر خلیل واقعی خلیل اللہ کا پیروکار ہے کہ اسے حق کہنے سے کوئی عار نہیں۔اس کا تعلق ایک خاص مسلک سے ہے مگر حق بات کہیں بھی ہو وہ بلا تکلف قبول کرتا ہے اور اپنے مسلک کے علما بھی اگر نا حق کہیں تو وہ ان کے خلاف بھی بولنے کی ہمت رکھتا ہے۔ والد کی خدمت کی انوکھی مثال دیکھنی ہو تو یہ شخص ابھی زندہ ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے اسے اپنے والد کی بلغم ہاتھوں پرلیتے دیکھا اور اس کی خدمت کے لیے دن رات ایک کرتے دیکھا ہے ۔ غنیمت ہے کہ کوئی اگر اس سے مل کر نیاز حاصل کرلے ۔
    جی تو چاہتا ہے کہ اور بھی بہت سے زندہ ولیوں کاتعارف کروا دوں مگر ہمارے مردہ پرست معاشرے کو اس سے الجھن ہونا شروع ہو جائے گی۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہی ہے کہ کسی کو ولی ماننے کے لیے یا تو ہم اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اور یا پھر ہم لوگ ولیوں کوجنگلوں ، ویرانوں ، عجیب و غریب شکلوں اور حرکتوں میں ڈھونڈ تے رہتے ہیں جبکہ یہ لوگ ہماری ہی گلیوں بازاروں ، ہمارے ہی دفتروں ، ہمارے ہی گھروں اور ہمارے ہی درمیان گھلے ملے ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو پہچان نہیں پاتے ۔ اگرچہ ان کی پہچان مشکل ضرور ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ جتنی ہم سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارا علم صحیح ہو ،تصور درست ہو ،نیت صادق ہو ، طلب سچی ہو،تلاش میں اخلاص ہو اور ہم اپنی آنکھیں کھلی اور دل و دماغ حاضر رکھنے والے ہوں تو ہمیں اپنے ارد گرد کتنے ہی زندہ ولی مل جائیں گے اور اگر ہم حسب دستور زندوں کی قدر نہ کرسکے تو ولی تو شاید پھر بھی ہمیں مل ہی جائیں مگر یقینا مرنے کے بعد ،، کس کے مرنے کے بعد، ،، ظاہر ہے یاولیوں کے مرنے کے بعد اور یاپھر ہمارے مرنے کے بعد۔۔۔۔۔!