قسط ۹۰
نورالقرآن
سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورۃ نساآیات ۵۸۔۷۰
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا ہ۵۸ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط ذٰلِکَ خَیْر‘’ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً ہع ۵۹ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ہ۶۰ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ہج ۶۱ فَکَیْفَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃ‘’ م بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ثُمَّ جَآءُ وْکَ یَحْلِفُوْنَ صلے ق بِاللّٰہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا ٓ اِحْسَانًا وَّتَوْفِیْقًا ہ۶۲ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ ق فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ وَعِظْھُمْ وَقُلْ لَّھُمْ فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَوْلًام بَلِیْغًا ہ۶۳ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ہ۶۴ فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ہ۶۵ وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَوِاخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ مَّا فَعَلُوْہُ اِلَّا قَلِیْل‘’ مِّنْھُمْ ط وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِیْتًا ہلا ۶۶ وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ لَّدُنَّآ اَجْرًا عَظِیْمًا ہلا ۶۷ وَّلَھَدَیْنٰہُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہ۶۸ وَمَنْ یُّّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ہط ۶۹ ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا ہع ۷۰
تراجم
۱۔ اللہ تم کو فرماتا ہے کہ پہنچاؤ امانتیں امانت والوں، اور جب چکوتی کرنے لگو لوگوں میں، تو چکوتی کرو انصاف سے۔ اللہ اچھی نصیحت کرتا ہے تم کو۔ اللہ ہے سنتا دیکھتا(۵۸) اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا، اور حکم مانو رسول کا، اور جو اختیار والے ہیں تم میں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں، تو اس کو رجوع کرو طرف اللہ کے اور رسول کے۔ اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر۔ یہ خوب ہے اور بہتر تحقیق کرنا ہے(۵۹) تو نے نہ دیکھے؟ وہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ یقین لائے ہیں جو اترا تیری طرف اور جو اترا تجھ سے پہلے، چاہتے ہیں کہ قضیہ لے جائیں شیطان کی طرف، اور حکم ہو چکا ہے ان کو کہ اس سے منکر ہو جائیں۔ اور چاہتا ہے شیطان کہ ان کو بہکا کر دور لے ڈالے(۶۰) اور جو ان کو کہیے، آؤ اللہ کے حکم کی طرف، جو اس نے اتارا، اور رسول کی طرف تو تُو دیکھے منافقوں کو بند ہو رہتے ہیں تیری طرف سے اٹک کر(۶۱) پھر وہ کیسا کہ جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کیے سے، پیچھے آویں تیری پاس، قسمیں کھاتے اللہ کی، کہ ہم کو غرض نہ تھی مگر بھلائی اور ملاپ(۶۲) یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو ان کے دل میں ہے۔ سو تو ان سے تغافل کر، اور ان کو نصیحت کر، اور ان سے کہہ ان کے حق میں بات کام کی(۶۳) اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانیے اللہ کے فرمان سے۔ اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا، آتے تیرے پاس، پھر اللہ سے بخشواتے، اور رسول ان کو بخشواتا، اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان(۶۴) سو قسم ہے تیرے رب کی، ان کو ایمان نہ ہو گا، جب تک تجھی کو منصف جانیں، جو جھگڑا اٹھے آپس میں۔ پھر نہ پاویں اپنے جی میں خفگی تیری چکوتی سے، اور قبول رکھیں مان کر(۶۵) اور اگر ہم ان پر حکم کرتے، کہ ہلاک کرو اپنی جان کو یا چھوڑ نکلو اپنے گھر، تو کوئی نہ کرتے مگر تھوڑے ان میں۔ اور اگر یہی کریں جو ان کو نصیحت ہوتی ہے، تو ان کے حق میں بہتر ہو، اور زیادہ ثابت ہوں دین میں(۶۶) اور اسی میں ہم دیں ان کو اپنے پاس سے بڑا ثواب(۶۷) اور چلاویں ان کو سیدھی راہ(۶۸) اور جو لوگ حکم میں چلتے ہیں اللہ کے، اور رسول کے، سو ان کے ساتھ ہیں جن کو اللہ نے نوازا۔ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت۔ اور خوب ان کی رفاقت(۶۹) یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے۔ اور اللہ بس ہے خبر رکھنے والا(۷۰) (شاہ عبدالقادرؒ)
۲۔ بے شک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچا دیا کرو اور یہ کہ جب لوگوں کا تصفیہ کیا کرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو بے شک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے۔ بلاشک اللہ تعالیٰ خوب سنتے ہیں، خوب دیکھتے ہیں(۵۸)اے ایمان والو، تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی۔ پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور رسول کے حوالہ کر دیا کرو اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ امور سب بہتر ہیں اور ان کا انجام خوش تر ہے(۵۹) کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی۔ اپنے مقدمے شیطان کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کو یہ حکم ہوا ہے کہ اس کو نہ مانیں اور شیطان ان کو بہکا کر بہت دور لے جانا چاہتا ہے(۶۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور رسول کی طرف تو آپ منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ سے پہلو تہی کرتے ہیں(۶۱) پھر کیسی جان کو بنتی ہے جب ان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے ان کی اس حرکت کی بدولت جو کچھ پہلے کر چکے تھے۔ پھر آپ کے پاس آتے ہیں خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے کہ ہمارا اور کچھ مقصود نہ تھا سوائے اس کے کہ کوئی بھلائی نکل آوے اور باہم موافقت ہو جاوے(۶۲) یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے۔ سو آپ ان سے تغافل کر جایا کیجیے اور ان کو نصیحت فرماتے رہیے اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کافی مضمون کہہ دیجیے(۶۳) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جاوے اور اگر جس وقت اپنا نقصان کر بیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی چاہتے تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے(۶۴) پھر قسم ہے آپ کے رب کی ، یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہوا اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرا دیں۔ پھر اس کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں(۶۵) اور ہم اگر لوگوں پر یہ بات فرض کر دیتے کہ تم خود کشی کیا کرو یا اپنے وطن سے بے وطن ہو جایا کرو تو بجز معدودے چند لوگوں کے اس حکم کو کوئی بھی نہ بجا لاتا اور اگر یہ لوگ جو کچھ ان کو نصیحت کی جاتی ہے اس پر عمل کیا کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا اور ایمان کو زیادہ پختہ کرنے والا ہوتا(۶۶) اور اس حالت میں ہم ان کو خاص اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتے(۶۷) اور ہم ان کو سیدھا رستہ بتلا دیتے(۶۸) اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں(۶۹) یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والے ہیں(۷۰) (مولانا تھانویؒ)
۳۔ بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انھیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بے شک اللہ تمھیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے۔ بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے(۵۸) اے ایمان والو، حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اسے اللہ اور رسول کے حضور رجوع کرو۔ اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا(۵۹) کیا تم نے انھیں نہ دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمھاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور ان کو تو حکم یہ تھا کہ اسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انھیں دور بہکاوے(۶۰) اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم دیکھو گے کہ منافق تم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں(۶۱) کیسی ہو گی جب ان پر کوئی افتاد پڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب تمھارے حضور حاضر ہوں اللہ کی قسم کھاتے کہ ہمارا مقصود تو بھلائی اور میل ہی تھا(۶۲) ان کے دلوں کی تو بات اللہ جانتا ہے تو تم ان سے چشم پوشی کرو اور انھیں سمجھا دو اور ان کے معاملہ میں ان سے رسا بات کہو(۶۳) اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں ظلم کریں تو اے محبوب تمھارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں(۶۴) تو اے محبوب تمھارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمھیں حکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں(۶۵) اور اگر ہم ان پر فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کر دو یا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ تو ان میں تھوڑے ہی ایسا کرتے اور اگر وہ کرتے جس بات کی انھیں نصیحت دی جاتی ہے تو اس میں ان کا بھلا تھا اور ایمان پر خوب جمنا(۶۶) اور ایسا ہوتا تو ضرور ہم انھیں اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے(۶۷) اور ضرور ان کو سیدھی راہ کی ہدایت کرتے (۶۸)اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ۔ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں(۶۹) یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کافی ہے جاننے والا(۷۰) (مولانا احمد رضا خانؒ)
۴۔ اللہ تعالیٰ تمھیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انھیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو، یقینا وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمھیں اللہ تعالیٰ کر رہا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے(۵۸) اے ایمان والو، فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی، پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمھیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے(۵۹) کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انھیں بہکا کر دور ڈال دے(۶۰) ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منہ پھیر کر رکے جاتے ہیں(۶۱) پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آ پڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا(۶۲) یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے، آپ ان سے چشم پوشی کیجیے، انھیں نصیحت کرتے رہیے اور انھیں وہ بات کہیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو(۶۳) ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتا ہے تو یقینا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے(۶۴) قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں، ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں(۶۵) اور اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ بجا لاتے، اور اگریہ وہی کریں جس کی انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقینا یہی ان کے لیے بہتر ہو، اور بہت زیادہ مضبوطی والا ہو(۶۶) اور تب تو انھیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں(۶۷) اور یقینا انھیں راہ راست دکھا دیں(۶۸) اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں(۷۰) (مولانا جونا گڑھیؒ)
۵۔ مسلمانو! اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل ِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے(۵۸)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔ اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق ِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے(۵۹)اے نبی! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں، حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ شیطان انھیں بھٹکا کر راہ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے(۶۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں(۶۱) پھر اس وقت کیا ہوتا جب ان کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آن پڑتی؟ اُس وقت یہ تمھارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم تو صرف بھلائی چاہتے تھے اور ہماری نیت تو یہ تھی کہ فریقین میں کسی طرح موافقت ہو جائے(۶۲) اللہ جانتا ہے جو کچھ ا ن کے دلوں میں ہے، ان سے تعریض مت کرو، انھیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے(۶۳) (انھیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔ اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تو تمھارے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے(۶۴) نہیں، اے محمدؐ، تمھارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں(۶۵) اگر ہم نے انھیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ حالانکہ جو نصیحت انھیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا(۶۶) اور جب یہ ایسا کرتے تو ہم انھیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے(۶۷) اور انھیں سیدھا راستہ دکھا دیتے(۶۸) جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں(۶۹) یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے او رحقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے(۷۰) (مولانا مودودیؒ)
۶۔ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ خوب بات ہے یہ جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے(۵۸)اے ایمان والوں، اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اولوا الامر کی۔ پس اگر کسی امر میں اختلاف رائے واقع ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ بہتر اور باعتبار مآل اچھا ہے (۵۹)ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو تم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے لیکن چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لیے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انھیں اس کے انکار کا حکم دیا گیا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انھیں نہایت دور کی گمراہی میں ڈال دے(۶۰) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور رسول کی طرف آؤ تو تم منافقین کو دیکھتے ہو کہ تم سے کترا جاتے ہیں(۶۱) اس وقت کیا ہو گا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو کوئی مصیبت پہنچے گی، پھر یہ تمھارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے کہ خدا کی قسم ہم نے تو صرف بہتری اور سازگاری چاہی(۶۲) ان لوگوں کے دلوں کے اندر جو کچھ ہے اللہ اس سے خوب واقف ہے تو ان سے اعراض کرو، ان کو سمجھاؤ اور ان سے خود ان کے باب میں دل میں دھنسنے والی بات کہو(۶۳)اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا تو اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور اگر وہ، جب کہ انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، تمھاری خدمت میں حاضر ہوتے اور خدا سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہتا تو وہ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے(۶۴) پس نہیں، تیرے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہیں جب تک اپنی نزاعات میں تمھی کو حکم نہ مانیں اور جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس کیے بغیر اس کے آگے سر تسلیم خم نہ کر دیں(۶۵) اور اگر ہم ان پر یہ فرض کرتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھروں کو چھوڑو تو ان میں سے بس تھوڑے ہی اس کی تعمیل کرتے اور اگر یہ لوگ وہ کرتے جس کی ہدایت کی جاتی تو ان کے لیے یہ بات بہتر اور ایمان پر قدم جمانے والی ہوتی(۶۶) اس وقت ہم انھیں اپنے پاس سے بڑا اجر دیتے(۶۷) اور انھیں صراط مستقیم کی ہدایت بخشتے(۶۸)اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہی ہیں جو انبیا، صدیقین اور شہدا و صالحین کے اس گروہ کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا اور کیا ہی اچھے یہ رفیق!(۶۹) یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے(۷۰) (اصلاحیؒ)
۷۔ (ایمان والو، اللہ نے تمھیں ایک عظیم بادشاہی عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے( ۵۸)ایمان والو، (یہ خدا کی بادشاہی ہے، اِس میں) اللہ کی اطاعت کرو اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی بھی جو تم میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے جائیں۔ پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف راے ہو تو (فیصلے کے لیے) اُسے اللہ اور (اُس کے) رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے(۵۹)تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُس پر بھی ایمان لائے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا اور اُس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیاگیا تھا، مگر چاہتے ہیں کہ (اللہ و رسول کو چھوڑ کر) اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے اُسی سرکش کی طرف رجوع کریں جو بدی کا سرغنہ ہے، دراں حالیکہ اُنھیں ہدایت کی گئی تھی کہ اُس کا انکار کر دیں۔ (یہ شیطان کے پیرو ہیں) اور شیطان چاہتا ہے کہ اِنھیں دور کی گمراہی میں ڈال دے(۶۰) جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور اُس کے رسول کی طرف آؤ تو اِن منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ وہ تم سے صاف کترا جاتے ہیں(۶۱) مگر اُس وقت کیا ہوگا جب اِن کے ہاتھوں کی لائی ہوئی کوئی مصیبت اِن پر آپڑے گی، پھر یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے تمھارے پاس آئیں گے کہ ہم نے تو صرف بہتری چاہی تھی اور ہم تو یہی چاہتے تھے کہ کچھ موافقت پیدا ہو جائے(۶۲) یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ اِن کے دلوں میں ہے۔ سو اِن سے اعراض کرو اور اِنھیں نصیحت کرو اور اِن کے بارے میں اِن کے ساتھ اِس انداز سے بات کرو کہ دلوں میں اتر جائے(۶۳)۔ (اِنھیں بتاؤ کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اِسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اُس کی اطاعت کی جائے۔ (اِنھیں بتاؤ کہ رسول کی عدالت کو چھوڑ کر اِنھوں نے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے)۔ اگر یہ اُس وقت تمھاری خدمت میں حاضر ہو جاتے، جب اِنھوں نے اپنی جان پر یہ ظلم ڈھایا تھا اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی اِن کے لیے معافی کی درخواست کرتا تو یقینا اللہ کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان پاتے(۶۴) لیکن نہیں (اے پیغمبر)، تمھارے پروردگار کی قسم،یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اُس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس کیے بغیر اُس کے آگے سرتسلیم خم نہ کر دیں(۶۵)۔ (یہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں) اور (حقیقت یہ ہے کہ) اگر ہم اِ ن پر فرض کر دیتے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل آؤ، (جس طرح ہم نے موسیٰ کے زمانے میں کیا تھا)، تو اِن میں سے کم ہی اِس حکم کی تعمیل کرتے۔ اِس وقت جو نصیحت اِنھیں کی جارہی ہے، یہ اگر اُس پر عمل کرتے تو اِن کے حق میں بہتر ہوتا اور (اِس کے نتیجے میں) یہ (دین پر) زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہتے(۶۶) یہ ایسا کرتے تو اِنھیں ہم اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرتے(۶۷) اور اِنھیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش دیتے(۶۸)۔ (اِنھیں بتاؤ کہ) جو اللہ اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ کیاہی اچھے ہیں یہ رفیق!(۶۹) یہ اللہ کی عنایت ہے اور (اِس کے لیے) اللہ کا علم کافی ہے(۷۰) (محترم جاوید احمد غامدی)
تفاسیر
نظم کلام
‘‘ان آیات میں مسلمانوں کوخطاب کرکے پہلے ان کویہ نصیحت کی گئی ہے کہ شریعت الہٰی کی یہ امانت یہودسے چھین کراب تمہارے حوالہ جوکی جارہی ہے توتم یہودکی طرح قومی اورگروہی تعصب کی بیماری میں مبتلا نہ ہوجانابلکہ ہمیشہ حق وانصاف کونگاہ میں رکھنا۔اس کے بعدوہ طریقہ بتایا ہے جس کواختیارکرکے مسلمان بحیثیت امت مسلمہ کے منظم ومستحکم،حق وعدل پراستواراوراختلاف ونزاع سے ابھرنے والی آفتوں سے اپنے آپ کومحفوظ رکھ سکتے ہیں۔یہ گویا ان اساسات کی تفصیل ہے جن پراسلامی نظامِ حکومت بنی ہے۔اس کے بعدان لوگوں کی طرف توجہ فرمائی ہے جومسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے لیکن ان کی وفاداری ابھی تقسیم تھی،وہ پوری طرح اﷲ ورسول اورامت کے اولوالامرکی اطاعت پرابھی مطمئن نہیں ہوئے تھے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
ان اﷲ یامرکم ان تودواالامنت۔۔۔۔
امانت کالفظ اپنے وسیع مفہوم میں
‘‘امانت کالفظ یہاں وسیع مفہوم میں استعمال ہواہے۔تمام حقوق وفرائض ،خواہ حقوق اﷲ سے تعلق رکھتے ہوں یاحقوق العباد سے ، انفرادی نوعیت کی ہوں یا اجتماعی نوعیت کے ،اپنوں سے متعلق ہوں یابے گانوں سے،مالی معاملات کی قسم سے ہوں یاسیاسی معاہدات کی قسم کے ،صلح وامن کے دورکے ہوں یاجنگ کے۔غرض جس نوعیت اورجس درجے کے حقوق وفرائض کے ذمہ داربنائے جارہے ہوان کوٹھیک ٹھیک اداکرنا۔’ ’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یعنی تم اُن برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بُنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نا اہل ، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بارِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دُوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ و ہ انصاف کی رُوح سے خالی ہو گئے تھے۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دُوسری طرف وہ لوگ تھے جو بُتوں کو پُوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ نہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دُوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دُوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہر حال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔’’(تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۳۶۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)
امانت کاحق
‘‘اگراس سورہ کے پچھلے مطالب ذہن میں محفوظ ہیں تویہ بات سمجھنے میں کوئی زحمت نہیں ہوسکتی کہ اس ہدایت کے اندریہ تلمیح بھی مضمرہے کہ یہ امانت جن سے چھین کرتمہیں دی جارہی ہے اُنہوں نے اس کاحق ادانہیں کیا۔اس وجہ سے تمہاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اس عظیم امانت کی صورت میں جن حقوق وفرائض کے اب تم حامل بنائے جارہے ہوان کوٹھیک ٹھیک اداکرنا۔حقوق وفرائض کے لیے امانت کالفظ ایک تویہ تصورپیداکرتاہے کہ یہ سب خداکی سپردکردہ امانتیں ہیں اس لیے کہ ان کاعائدکرنے ولاخداہی ہے۔دوسرایہ کہ ان ساری امانتوں سے متعلق ایک دن لازماً امانت سونپنے والے کی طرف سے پرسش ہونی ہے۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘قرآن کریم نے لفظ امانت بصیغہ جمع لا کر اس کی طرف اشارہ کر دیا کہ امانت صرف اسی کا نام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو ، بلکہ امانت کی بہت سی قسمیں ہیں ، جن میں حکومت کے عہدے بھی داخل ہیں۔وہ حکام اور افسر جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے ۔ بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لیے اپنے دائرۂ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔ پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کیے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل ، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ۔ اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اَلْمَجَالِسُ بِالْاَ مَانَۃِ:‘‘ یعنی مجلسیں امانتداری کے ساتھ ہونی چاہئیں۔’’مطلب یہ ہے مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اسی مجلس کی امانت ہے ، ان کی اجازت کے بغیر اس کو دوسروں سے نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے : اَلْمُسْتَشَارُمُؤْ تَمن‘’ ‘‘ یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہے ۔’’ اس پر لازم ہے کہ مشورہ وہی دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں مفید اور بہتر ہو ، اگر جانتے ہوئے خلاف مشورہ دے دیا تو امانت میں خیانت کا مرتکب ہو گیا ۔ اسی طرح کسی نے آپ سے اپنا راز کہا تو وہ اس کی امانت ہے ، بغیر اس کی اجازت کے کسی سے کہہ دینا خیانت ہے ۔ آیت مذکورہ میں ان سب امانتوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۴۴۶، ادارۃ المعارف کراچی)
علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حکومت کے مناصب سپرد کرنا اصولی غلطی ہے
‘‘ قرآن حکیم کے اس جملہ نے اس عام غلطی کو بھی دور کر دیا جو اکثر ممالک کے دستوروں میں چل رہی ہے کہ حکومت کے عہدوں کو باشندگان ملک کے حق قرار دے دیا ہے، اور اس اصولی غلطی کی بناء پر یہ قانون بنانا پڑا کہ حکومت کے عہدے تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیے جائیں، ہر صوبہ ملک کے لیے کوٹے مقرر ہیں۔ ایک صوبہ کے کوٹہ میں دوسرے صوبہ کا آدمی نہیں رکھا جا سکتا ، خواہ وہ کتنا ہی قابل اور امین کیوں نہ ہو، اور اس صوبہ کا آدمی کتنا ہی غلط کار نااہل ہو ۔ قرآن حکیم نے صاف اعلان فرما دیا کہ یہ عہدے کسی کا حق نہیں بلکہ امانتیں ہیں جو صرف اہل امانت ہی کو دی جا سکتی ہیں، خواہ وہ کسی صوبہ اور کسی خطہ کے رہنے والے ہوں، البتہ کسی خاص علاقہ اور صوبہ پر حکومت کے لیے اسی علاقہ کے آدمی کو ترجیح دی جا سکتی ہے کہ اس میں بہت سی مصالح ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ کام کی صلاحیت اور امانت میں اس پر پورا اطمینان ہو۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۴۴۹، ادارۃ المعارف کراچی)
امانت کاسب سے اہم پہلو
‘‘واذحکمتم بین الناس۔۔۔یہ امانت کے سب سے اہم پہلو کی تفصیل بھی ہے اوراقتدارکے ساتھ جوذمہ داری وابستہ ہے اس کی وضاحت بھی۔جن کوبھی اﷲ تعالیٰ اس زمین میں اقتداربخشتا ہے،اسی عدل کے لیے بخشتا ہے۔اس وجہ سے سب سے بڑی ذمہ داری اسی چیزکے لیے ہے۔خداکے ہاں عادِل حکمران کااجربھی بہت بڑا ہے اورغیرعادل کی سزابھی بہت سخت ہے۔آخرمیں اپنی صفات سمیع وبصیرکاحوالہ دیاہے کہ یادرکھوکہ خداسب کچھ سنتا اوردیکھتا ہے،کوئی مخفی سے مخفی ناانصافی بھی اس سے مخفی رہنے والی نہیں ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘اس آیت کا خطاب حکام و امراء کو ہے جو خصومات و مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ، اور اسی کے قرینہ سے بعض حضرات نے پہلے جملہ کا مخاطب بھی حکام و امراء کو قرار دیا ہے، اگرچہ پہلے جملہ کی طرح اس میں بھی گنجائش اس کی موجود ہے ، کہ حکام و عوام دونوں اس خطاب میں شامل ہوں، کیونکہ عوام میں اکثر فریقین کسی کو ثالث بنا کر فیصلہ کر دیا کرتے ہیں، اسی طرح جھگڑوں کا فیصلہ کرنا عوام میں بھی پایا جا سکتا ہے ، مگر اس میں شبہ نہیں کہ اول نظر میں ان دونوں جملوں کے مخاطب حکام و امراء ہی معلوم ہوتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے مخاطب اول حکام و امراء ہیں اور ثانیاً یہ خطاب ہر اس شخص کے لیے بھی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں اور جس کو کسی مقدمہ کا ثالث بنا دیا جا ئے۔ اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا بین المسلمین یا بین المؤمنین نہیں فرمایا، اس میں اشارہ فرما دیا کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم ، اور دوست ہوں یا دشمن، اپنے ہموطن ، ہم رنگ ، ہم زبان ہوں یا غیر ، فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر جو بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۴۸، ادارۃ المعارف کراچی)
دستور مملکت کے چند زریں اصول
‘‘ اس مختصر آیت میں دستور مملکت کے چند بنیادی اصول آ گئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱۔اول یہ کہ آیت کے پہلے جملہ کو ان اللہ یا مرکم سے شروع فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اصل امر اور حکم اللہ تعالیٰ کا ہے ، سلا طین دنیا سب اس کے مامور ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے ۔۲۔دوسرے یہ کہ حکومت کے عہدے باشند گان ملک کے حقوق نہیں جن کو تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف ان کے اہل اور لائق لوگوں کو دیئے جا سکتے ہیں۔ ۳۔تیسرے یہ کہ زمین پر انسان کی حکمرانی صرف ایک نائب و امین کی حیثیت سے ہو سکتی ہے وہ ملک کی قانون سازی میں ان اصول کا پابند رہے گا جو حاکم مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلا دیئے گئے ہیں۔ ۴۔چوتھے یہ کہ حکام و امراء کا فرض ہے کہ جب کوئی مقدمہ ان کے پاس آئے تو نسل و وطن اور رنگ و زبان یہاں تک کہ مذہب و مسلک کا امتیاز کیے بغیر عدل و انصاف کا فیصلہ کریں۔’’(معارف القرآن ، ج۲ ، ص ۴۴۹، ادارۃ المعارف کراچی)
یایھا الذین امنو اطیعو ا اﷲ۔۔۔۔
اولوالامرسے مراد، ارباب اقتدار یا ارباب علم وبصیرت
‘‘اولوالامرسے مراداسلامی معاشریکے ارباب حل وعقد،ذمہ داراورسربراہ کارہیں۔معاشرے کے حالات کے لحاظ سے اس کے مصداق ارباب علم وبصیرت بھی ہوسکتے ہیں اورارباب اقتداروسیاست بھی۔جولوگ بھی اس پوزیشن میں ہوں کہ عوام کی سربراہی کرسکیں وہ اس لفظ کے مصداق ہیں۔اگرامام وخلیفہ موجود ہوتووہ اوراس کے حکام اولوالامرہیں اوراگریہ موجودنہ ہوں توجماعت کے اندرجومعاملہ فہم اورصاحب بصیرت ہوں وہ اس سے مرادہوں گے ۔’ ’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
اولوالامرکی امتیازی خصوصیت
‘‘جس زمانہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس زمانے میں ظاہرہے کہ نہ ابھی خلافت کاوجودتھا نہ باضابطہ امراء وحکام تھے۔اس وجہ سے اولوالامرسے مرادصحابہؓ میں سے وہ لوگ ہوں گے جودینی واجتماعی معاملات کی گہری سوجھ بوجھ رکھنے والے اورلوگوں کے مرجع اعتمادتھے۔یہاں استنباط کالفظ اولوالامرکی امتیازی خصوصیت کوظاہرکرتاہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اسلام میں مذہبی وسیاسی قیادت کامنصب اصلاً انہیں لوگوں کے لیے ہے۔جوبصیرت واجتہادکی صلاحیت کے مالک ہیں طبقے ،برادری،خاندان اورجائدادوغیرہ کواس میں کوئی دخل نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
اولی الامر کون لوگ ہیں؟
‘‘اولی الا مر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام و انتظام ہو ، اسی لیے حضرت ابن عباس ، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ رضی اللہ عنہم ، مفسرین قرآن نے اولی الامر کے مصداق علماء و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں اور نظام دین ان کے ہاتھ میں ہے ۔ اور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، فرمایا کہ اولی الامر سے مراد حکام اور امراء ہیں جن کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے ۔ اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی ، کیونکہ نظام امرانہی دونوں سے وابستہ ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۵۰، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۔اسی حدیث میں حضورفرماتے ہیں جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اس آیت سے ثابت ہوا کہ مُسلِم اُمراء و حکام کی اطاعت واجب ہے جب تک وہ حق کے موافق رہیں اور اگر حق کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت نہیں۔’’(خزائن العرفان، ص۱۵۷، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
حکم اوراطاعت کی عملی صورتیں
‘‘اس آیت میں ظاہرا ًتین کی اطاعتوں کا حکم ہے ، اللہ ، رسول ، اولی الامر ، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم واطاعت دراصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے ، ان الحکم الا للہ ، مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے۔ ۱۔ایک وہ جس چیز کا حکم صراحۃً خود حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرمادیا ، اور اس میں کسی تفصیل و تشریح کی حاجت نہیں، جیسے شرک و کفر کا انتہائی جرم ہونا، ایک اللہ وحدہ کی عبادت کرنا، اور آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری برحق رسول ماننا، نماز ، روزہ ، حج، زکوٰۃ کو فرض سمجھنا ، یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں، ان کی تعمیل بلا واسطہ حق تعالیٰ کی اطاعت ہے۔۲۔دوسرا حصہ احکام کا وہ ہے جس میں تفصیلات و تشریحات کی ضرورت ہے ، ان میں قرآن کریم اکثر ایک مجمل حکم دیتا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کی جاتی ہے ، پھر وہ تفصیل و تشریح جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی احادیث کے ذریعہ فرماتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے ، اگر اس تفصیل و تشریح میں اجتہادی طور پر کوئی کمی یا کو تاہی رہ جاتی ہے تو بذریعہ وحی اس کی اصلاح فرما دی جاتی ہے ، اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل جو آخر میں ہوتا ہے وہ حکم الٰہی کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس قسم کے احکام کی اطاعت بھی اگرچہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن ظاہری اعتبار سے چونکہ یہ احکام صریح طور پر قرآن نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے امت کو پہنچے ہیں، اس لیے ان کی اطاعت ظاہری اعتبار سے اطاعت رسول ؐ ہی کہلاتی ہے جو حقیقت میں اطاعت الٰہی کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود ظاہری اعتبار سے ایک جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے، اس لیے پورے قرآ ن میں اللہ تعالیٰ کی ا طاعت کا حکم دینے کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلاً مذکور ہے۔ ۳۔تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحۃً مذکور ہیں نہ حدیث میں ، یا ذخیرہ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں، ایسے احکام میں علماء مجتہدین ، قرآن و سنت کے منصو صات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور و فکر کر کے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں۔ ان احکام کی اطاعت بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن و سنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خدا وندی ہی کی ایک فرع ہیں، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں ، اور علماء کی طرف منسوب ہیں۔۴۔اسی تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں، بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں، جن کو اصطلاح میں مبا حات کہا جاتا ہے ، ایسے احکام میں عملی انتظام حکام و امراء کے سپرد ہے ، کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں، مثلاً شہر کراچی میں ڈاک خانے پچاس ہوں یا سو ، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں ، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آبادکاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے ، یہ سب مباحات ہیں۔ ان کی کوئی جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے ، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا ۔ اس لیے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے ۔آیت مذکور ہ میں او لو الامر کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے ، اس لیے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام و امراء کی اطاعت واجب ہو گی ۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۴۵۲، ادارۃ المعارف کراچی)
‘‘یہ آیت اسلام کے پُورے مذہبی، تمدّنی اور سیاسی نظام کی بُنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:(۱) اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ دُوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدِّ مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔(۲) اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ اطاعتِ خدا کی عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ (۳)مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ اُن اولی الامر کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔اولی الامر کے مفہُوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا مُلکی انتظام کرنے والے حُکّام، یا عدلاتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدّنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلّوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار ہوں۔لیکن اولو الامر کی اطاعت اس وقت تک ہے جب تک وہ معصیت کاحکم نہ دے ۔السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یومر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم)مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند ، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بری و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔(مسلم)حضورﷺ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا و گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپﷺ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت ِ خدا و رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔اس حدیث میں اُوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اُوپر کی حدیث سے گمان ہو سکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابندِ نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند( Final authority )کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کر دیں گے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص۳۶۳، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)
تاویل کامفہوم
‘‘تاویل کے لفظ پرسورۃ آل عمران کی آیت کے تحت بخث گزرچکی ہے۔آل یؤل،اولاًومآلاًکے معنی ہیں کسی چیزکی طرف لوٹنا،رجوع کرنا۔اسی مفہوم سے یہ خواب کی تعبیر،کسی بات کی حقیقت اورکسی کلام کی تفسیروتوضیح کے لیے استعمال ہونے لگاا س لیے کہ ان صورتوں میں بھی بات اپنے اصل مأل اورمدعاکی طرف لوٹائی جاتی ہے۔آیت زیربحث میں احسن تاویلا کامطلب یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں اﷲ ورسول کی بات کی طرف رجوع کرناحقیقت رسی اورمآل کاردونوں اعتبارسے بہترہے۔خداہی کاعلم تمام علم وحقیقت کامرجع بھی ہے اوراسی کی ذات سب کاملجا ومادیٰ بھی،اوراسی کوحقیقی حاکمیت بھی حاصل ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
اسلام میں امروطاعت کے تین مرکز
‘‘ہراجتماعی وسیاسی نظام کی تشکیل امراورطاعت سے ہوتی ہے۔اسلام میں امروطاعت کے مرکز تین ہیں۔اﷲ،رسول،اولوالامر۔ان میں سے دوسابق الذکرمستقل اوربالذات مرکزاطاعت ہیں۔اس وجہ سے ان کے ساتھ اطیعواکافعل مستقلًا استعمال ہوا۔اولوالامرکی اطاعت اﷲورسول کی اطاعت کے تحت ہے ۔اس وجہ سے ان کے لیے اطیعوا کافعل الگ نہیں استعمال ہوابلکہ اس کوصرف سابق پرعطف کردیاہے۔یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اولوالامرصرف اﷲ ورسول کے احکام کی تنفیذ کاذریعہ ہیں اس وجہ سے ان کی اطاعت خدااوررسول کے احکام کے خلاف جائزنہیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘مسلمان اپنی ریاست میں کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے جو اللہ و رسول کے احکام کے خلاف ہو یا جس میں اُن کی ہدایت کو نظرانداز کر دیا گیا ہو۔آیت کے سیاق سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم اِس میں بیان ہوا ہے، وہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے۔ اُن لوگوں سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کھلے کفر کے مرتکب ہوں، اللہ و رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کریں یا خدا کے دین کو چھوڑ کر عملاً اپنے لیے کوئی اور دین پسند کر لیں۔ اِس طرح کے لوگ قرآن کی یہ آیت سنا کر مسلمانوں سے اپنے لیے اطاعت کا مطالبہ نہیں کرسکتے ۔’’ (البیان ، از غامدی)
اختلاف رائے کی صورت میں کتاب اﷲ اورسنت کی مراجعت کی ہدایت
‘‘موقع دلیل ہے کہ یہاں اس سے مرادوہ اختلاف رائے ہے جوکسی معاملے میں حکم شریعت معین کرنے کے باب میں ہوسکتا ہے۔مثلاً کسی نص شرعی کی تعبیروتاویل میں اختلاف رائے ہوجائے۔یاکسی امراجتہادی میں اختلاف پیداہوجائے۔یہ اختلاف قرآن کی کسی آیت یارسول کی کسی سنت کی تاویل میں بھی ہوسکتا ہے اورغیرمنصوص معاملات میں کتاب وسنت سے اوفق کے تعین میں بھی علی ہذالقیاس یہ اولوالامراورعوام کے درمیان بھی ہوسکتا ہے۔اورخوداولوالامرکے اندرآپس میں بھی ہوسکتا ہے۔اس طرح کاجب کوئی اختلاف واقع ہو تواس کے حل کے لیے امت کویہ ہدایت ہوئی کہ اس معاملے کواﷲ ورسول کی طرف لوٹاؤ۔اﷲاوررسول کی طرف لوٹاؤکامطلب یہ ہے کہ اگرکتاب وسنت کے نصوص میں اس معاملے کے لیے کوئی قطعی رہنمائی موجودنہیں ہے توان کے اشارات ،مقتضیات ،فحوی اورامثال ونظائرکوپیش نظررکھ کراس میں اوفق بالکتب والسنہ کاتعین کرواوراس کواختیارکرلو۔فرمایا کہ یہ طریقہ تاویل کے پہلو سے سب سے زیادہ بہتراوراعلیٰ ہے۔اس لیے کہ ظن غالب یہی ہے کہ یہ بات اﷲ ورسول کی بات کے موافق ہوگی اوراختلاف کافیصلہ اس قانون کے مطابق ہوگا جواسلام میں اصل قانون اورتمام فقہ واجتہادکامرکزومرجع ہے اوریہی طریقہ ہے نظام اجتماعی وسیاسی میں حاکمیت الہٰی کے پوری مضبوطی کے ساتھ پکڑنے اوراعتصام بحبل اﷲکااوریہی حقیقی توحیدہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
اجماع رفع اختلاف کامنصوص طریقہ ہے
‘‘ یہ ہدایت امت کوبحیثیت امت دی گئی ہے۔اس طرح کی ہدایات میں خطاب اگرچہ عام ہوتاہے لیکن ان کی عملی تنفیذکی ذمہ داری امت کے ارباب حل وعقدیاقرآن کے الفاظ میں اولوالامرہی پرعایدہوتی ہے۔ارباب حل وعقدیاان کی اکثریت کاصاحبِ امریعنی خلیفہ اورامام کی رہنمائی میں،کسی امرکے اوفق بالشریعت ہونے پراتفاق کرلینا شریعت میں اجماع کہلاتا ہے جورفع اختلاف کے لیے ایک منصوص طریقہ ہے اوراس کی مخالفت کسی کے لیے جائزنہیں ہے۔
ردالی اﷲ والرسول کاطریقہ یہ ہے کہ جب کسی امرمیں شریعت کاحکم معلوم کرناہوتوپہلے کتاب اﷲ کی طرف رجوع کرے۔اگراس میں نہ ملے تونبی کی سنت کی طرف رجوع کرے۔اگراس میں بھی نہ ملے توپھراس کے معلوم کرنے کاراستہ اجتہادہے۔اجتہادکے آداب وشرائط جونبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم اورصحابہؓ کے تعامل سے معلوم ہوئے ہیں۔وہ اصول فقہ کی کتابوں میں موجودہیں اورایسے فطری اورعقلی ہیں کہ کسی معقول آدمی کے لیے اس انکارکی گنجائش نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
کتاب اﷲ کی طرح سنت کی حیثیت بھی دائمی ہے
‘‘اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قانون اسلامی کے مرجع کی حیثیت سے کتاب اﷲ کی طرح سنت رسول کی حیثیت بھی مستقل اوردائمی ہے۔اس لیے کہ فرمایا ہے کہ فردوہ الی اﷲ والرسول(پس اس کواﷲ ورسول کی طرف لوٹاؤ حضورؐ کی وفات کے بعدآپؐ کی سنت ہی ہے جوآپ کے قائم مقام ہوسکتی ہے۔یہ تسلیم کرنے کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وقت کے اولوالامرنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قائم مقام ہوسکتے ہیں اس لیے کہ یہاں اولوالامرکوحذف کردیاہے جواس امرکاواضح ثبوت ہے کہ اولوالامرقانون کے مرجع کی حیثیت سے دین میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔مستقل حیثیت صرف اﷲ اورسول کی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول
‘‘ان تنازعتم، ضمیر جمع مخاطب سے مراد اُولوالامر اور عام افراد اُمت ہیں، اس تصریح نے یہ حقیقت اور کھول دی کہ حکام و علماء سے عوام تک کا اختلاف بالکل جائز ہے، آخری اپیل کتاب و سنت ہی کی عدالت میں ہونی چاہیے اور وہی ساری شریعت کا ماخذ ہے، یہیں سے اس فرقہ کا بھی رد نکل آئے گا جو رسولِ معصوم کے علاوہ مستقل ائمۂ معصوم کا بھی وجود تسلیم کیے ہوئے ہے، ہرامامِ وقت اپنی ساری بزرگیوں کے باوجود بہرحال غیرمعصوم ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۵۲، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
الم ترالی الذین یزعمون ۔۔۔۔۔
تحاکم الی الطاغوت ایمان کے منافی ہے
‘‘ تعا لو ا لی ما ا نز ل ا للہ و ا لی الر سو ل سے یہ با ت نکلتی ہے کہ یہا ں طاغو ت ،کتا ب اللہ اور رسو ل کی ضد کے مفہو م میں استعما ل ہو ا ہے ۔یہ با ندا ز تعجب منا فقین کا ذکر ہو رہا ہے(اور قر ا ٓن سے صا ف معلو م ہو رہا ہے کہ یہ منا فقین ا ہل کتا ب میں سے آ ئے ہو ئے لو گ تھے )جو دعو یٰ تو یہ کر تے تھے کہ وہ قر آ ن پر بھی ایما ن ر کھتے ہیں اور پچھلے صحیفو ں پر بھی ایما ن ر کھتے ہیں لیکن اپنے معا ملا ت میں اللہ اور رسو ل کی طرف رجو ع کر نے کے بجا ئے یہو د کے سر دا روں اور ان کی عدالتو ں کی طرف رجوع کر تے تھے۔ ’’ ( تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۶، فاران
فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یہاں طاغوت سے مراد وہ حاکم اور عدالت ہے جو احکامِ الٰہی کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کیا کرے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ، ص ۳۵۷ ، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
چند اہم مسائل
‘‘اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہو۔دوسرا مسئلہ اس آیت سے یہ نکلا کہ لفظ فیما شجر صرف معاملات اور حقوق کے ساتھ متعلق نہیں ، عقائد اور نظریات اور دوسرے نظری مسائل کو بھی حاوی ہے ۔ اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو باہم جھگڑتے رہنے کی بجائے دونوں فریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور آپ ؐ کے بعد آپؐ کی شریعت کی طرف رجوع کر کے مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ ہروہ کام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً یا عملًا ثابت ہو ، اس کے کرنے سے دل میں تنگی محسوس کرنا بھی ضعف ایمان کی علامت ہے ۔ مثلاً جہاں شریعت نے تیمم کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دی وہاں تیمم کرنے پر جس شخص کا دل راضی نہ ہو ،وہ اس کو تقویٰ نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کا روگ سمجھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی اور خود بیٹھ کر ادا فرمائی ، اگر کسی شخص کا دل اس پر راضی نہ ہو اور نا قابل برداشت محنت و مشقت اٹھا کر کھڑے ہی ہو کر نماز ادا کرے ، تو وہ سمجھ لے کہ اس کے دل میں روگ ہے ، ہاں معمولی ضرورت یا تکلیف کے وقت اگر رخصت کو چھوڑ کر عزیمت پر عمل کرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعلیم کے مطابق درست ہے ، مگر مطلقاً شرعی رخصتوں سے تنگدلی محسوس کرنا کوئی تقوی نہیں ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۱ ، ادارۃ المعارف کراچی)
منافقین کا طرز عمل
‘‘فکیف اذا اصابتہم مصیبۃ۔۔۔جس مصیبت کے پیش آ نے کا ذکر ہے وہ بعد میں اس طرح پیش آ ئی کہ جب اسلام نے طا قت پکٹرلی اور یہو د کی سیا سی طا قت با لکل کمزور ہو گئی تو مسلما نو ں کو یہ ہد ا یت کر دی گئی کہ اب منافقین کے معا ملے میں چشم پو شی اور ا غما ض کی روش بد ل دیں ۔ چنا نچہ مسلما نو ں نے اپنی روش بدل لی اور قدم قدم پر منا فقین کا احتساب شروع کر دیا ۔ منا فقین اس صو رت حا ل سے بہت پر یشا ن ہُو ئے ۔نہ یہو د میں اتنا دم خم با قی رہا تھا کہ ان کی سر پر ستی کر سکیں ، نہ مسلما ن اب ان کے چکموں میں آ نے کے لیے تیا ر تھے ۔نہ جا ئے ماندن نہ پا ئے ر فتن نتیجہ یہ ہو ا کہ منافقین بھا گ بھا گ کر آ نحضر ت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ تے اور قسمیں کھا کھاکے آپ کویقین دلانے کی کوشش کرتے کہ وہ یہودسے جوربط ضبط اب تک رکھتے اورکبھی کبھی اپنے معاملات میں ان کی بالاتری تسلیم کرتے رہے ہیں اس میں کسی فسادنیت کودخل نہیں تھا بلکہ ان کی خواہش صرف یہ رہی ہے کہ اس سے مسلمانوں کوفائدہ پہنچے گا اورجوخلیج اختلاف وعنادیہوداورمسلمانوں کے درمیان حائل ہوگئی ہے وہ زیادہ وسیع نہ ہونے پائے گی۔اس طرح وہ اپنی منافقت کومصالحت کے پردے میں چھپانے کوکوشش کرتے اوراس کواحسان اورتوفیق کے خوب صورت الفاظ سے تعبیرکرتے لیکن واقعات کے تشت ازبام ہوجانے کے بعداس سخن سازی کاموقع بالکل نکل چکاتھا چنانچہ آگے اس سورہ میں بھی اورپھرتفصیل کے ساتھ سورہ برأت میں منافقین کے چہرے کی یہ نقاب نوچ کرپھینک دی گئی اوران کے لیے منہ چھپانا ناممکن ہوگیا۔’’ ( تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
عہد رسالت کے منافقین اور موجودہ دور کے منافقین
‘‘ منافقین کی یہ عادت تھی کہ جس مقدمہ کے متعلق انھیں یہ یقین ہوتا کہ فیصلہ اُن کے حق میں ہوگا اس کے تصفیہ کے لیے تو بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے اور جس کے متعلق یہ خیال ہوتا کہ ہم جھوٹے ہیں اس کے لیے ایسے حاکم کے پاس جاتے جہاں اُنھیں معلوم ہوتا کہ ہم اپنے اثرورسوخ یا رشوت سے اپنے حق میں فیصلہ کرلیں گے۔ آج بھی بعض لوگ ایسے امور ہیں تو شریعت کے مطابق فیصلہ کرانے پر بڑے مصر ہوتے ہیں جہاں انھیں فائدہ کی توقع ہو اور جہاں یہ خیال ہو کہ شریعت کا قانون ان کے خلاف ہے تو اس وقت دوسرے قوانین اور رسم و رواج وغیرہ کی آڑ لیتے ہیں اور شریعت کے قرب بھی نہیں پھٹکتے۔ آپ خود سوچیں کہ اُن کے درمیان اور عہدرسالت کے منافقین کے درمیان پھرکیا فرق ہوا۔ ’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ، ص۳۵۸، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
ایک سیاسی نکتہ
‘‘ حریف طاقتوں کے ساتھ اختلاف یا رواداری کی پالیسی بنانا امت کے ارباب حل وعقد اور اس کے سربراہوں کا کام ہے نہ کہ عوام کی کسی ٹولی کا ۔ اگر ارباب حل وعقد کسی حریف طاقت سے برسر جنگ ہیں اور عوام کے اندر کے کچھ افراد ان کی طرف محبت و اعتماد کی پینگیں بڑھائیں اور اس کو امت کی خیر خواہی اور باہمی ساز گاری کی کوشش کا نام دیں تو یہ صریح بدخواہی اور کھلی ہوئی منافقت ہے ۔’’ ( تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۲۷ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
وما ارسلنا من رسول الا لیطاع۔۔۔
رسول کا اصلی مرتبہ
‘‘رسول صرف مان لینے یاعقیدت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے ۔اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کو واجب الاطاعت ہادی مانا جائے ۔یہاں باذن اللہ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ اصل حاکمیت اللہ ہی کی ہے اور رسول خدا کی قانونی و تشریعی حاکمیت کا مظہر ہوتا ہے ۔’’ ( تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘یہ رسول کا صحیح مرتبہ واضح فرمایا ہے کہ رسول صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اِس لیے نہیں آتا کہ لوگ اُسے نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اُس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اُس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اُس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اُس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اُس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ پھریہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اور انتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔ انسان کو خدا کی محبت اِسی اطاعت اور اِسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔’’ (البیان، از غامدی)
فلا وربک ۔۔۔
ایمان کی بنیادی شرط رسول کی اطاعت
‘‘ رسول کی اطاعت خود خدا کی اطاعت کے ہم معنی ہے اس وجہ سے اس کا حق صرف ظاہری اطاعت سے ادا نہیں ھوتا بلکہ اس کے لیے دل کی اطاعت بھی شرط ہے ۔یہاں فلاوربک کی قسم کاموقع ومحل بھی ملحوظ رہے۔اس سے صرف رسول کی ظاہری وباطنی اطاعت کی تاکیدہی مقصودنہیں ہے بلکہ یہ منافقین کی جھوٹی قسم کی جوآیت۶۲میں مذکورہے،سچی قسم کے ساتھ تردیدبھی ہے۔پھروربک کے خطاب میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے التفاتِ خاص کی جودل نوازی ہے اس کی بلاغتوں کااندازہ توصرف اہل ذوق ہی کرسکتے ہیں،قلم ان کی تعبیرسے قاصرہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۲۹، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
‘‘رسول کریمؐ کی غیرمشروط اطاعت و اِتباع کو پھر نہایت واضح، مؤکد اور مؤثر پیرایہ میں بیان فرمایا جا رہا ہے۔ واؤقسم کے لیے ہے، نفی ایمان پر دلالت کرنے کے لیے لانفی کو دو بار ذکر کیا ہے۔ ایک بار قسم سے پہلے اور دوسری مرتبہ قسم کے بعد۔ یعنی تیرے ربِ جلیل کی قسم وہ ہرگز ہرگز ایماندار نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک لا نفی پر اکتفا کیا جاتا تو عبارت لغوی لحاظ سے تو درست ہوتی لیکن یہ زورِ بیان مفقود ہوتا۔اس جملہ نے تو یہاں تک تصریح کر دی کہ ظاہری انقیاد و تسلیم کافی نہیں بلکہ مومن وہ ہوگا جو دل کی گہرائیوں میں بھی فرمانِ رسولؐ کے خلاف کوئی گرانی اور گھٹن محسوس نہ کرے۔ ’’(ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۶۰، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘اس آیت کی شان نزول میں ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بار گاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر ؓ سے فیصلہ کروانے گیا، جس پر حضرت عمر ؓ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا، لین سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی ہے ۔ صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے ، اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے نالے (کھال) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا، معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، آپ نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر ؓ کے حق میں تھا جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری ، تفسیر سورۃ النساء ) آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کس بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا ، دل میں نباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے ۔ ’’( احسن البیان ،ص ۱۱۳، دارالسلام لاہور)
‘‘رسولﷺ کے یوں مطاعِ مطلق ہونے کا تعلق صرف احکامِ دینی سے ہے، باقی دُنیوی معاملات میں آپؐ نے خود ہی آزادیِ رائے دے رکھی تھی، چنانچہ اس قسم کی حدیثیں متعدد موجود ہیں:انما انا بشر اذا امرتکم بشئ من دینکم فخذوا بہ واذا امرتکم بشئ من رائی فانّما انا بشر (مسلم، نسائی، عن رافع بن خدیج)
‘‘میں بھی ایک بشر ہی ہوں، تو جب میں کوئی دینی حکم دوں تو تم اُسے قبول کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں، تو میں بھی ایک بشر ہی ہوں’’۔ اور اسی تعلیم کا یہ اثر تھا کہ صحابہؓ بار بار استفسار کر لیا کرتے تھے کہ فلاں ارشاد جو ہوا ہے، وہ وحی الٰہی سے ہے یا ذاتی رائے سے۔’’(تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۵۶، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)
رسول کااستغفاربمنزلہ شفاعت ہے
‘‘فاستغفروااﷲ واستغفرلھم الرسول میں ان کے لیے رسول کے استغارکی جوشرط لگائی گئی ہے اس میں دوپہلوہیں۔ایک تویہ کہ رسول کایہ استغفاران کے لیے اس دنیامیں بمنزلہ شفاعت ہے ہے جس سے ان کے اس گناہ عظیم کے بخشے جانے کی توقع ہے ،دوسرایہ کہ رسول کی عدالت کے ہوتے ان کاتحاکم الی الطاغوت،رسول کی صریح توہین ہے اس وجہ سے یہ ضروری ہواکہ وہ رسول کی رضااوران کی دعابھی حاصل کریں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۳۰، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
ردضہ رسول کا بھی وہی حکم جو آپ کا تھا
‘‘اس سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ الہٰی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اور آپ کی شفاعت کار بر آری کا ذریعہ ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات شریف کے بعد ایک اعرابی روضہء اقدس پر حاضر ہوا اور روضہ شریفہ کی خاک پاک اپنے سر پر ڈالی اور عرض کرنے لگا یارسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہم نے سُنا اور جو آپ پر نازل ہوا اس میں یہ آیت بھی ہے وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا میں نے بیشک اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آپ کے حضور میں اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہنے حاضر ہوا تو میرے رب سے میرے گناہ کی بخشش کرائیے اس پر قبر شریف سے ندا آئی کہ تیری بخشش کی گئی اس سے چند مسائل معلوم ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے لئے اس کے مقبولوں کو وسیلہ بنانا ذریعہ کامیابی ہے۔ مسئلہ قبر پر حاجت کے لئے جانا بھی '' جَآء ُ وْکَ '' میں داخل اور خیر القرون کا معمول ہے مسئلہ: بعد وفات مقبُولان ِحق کو( یا ) کے ساتھ ندا کرنا جائز ہے مسئلہ:مقبُولانِ حق مدد فرماتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجت روائی ہوتی ہے۔’’ (خزائن العرفان ،ص۱۵۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘مغفرت کے لیے بار گاہ الٰہی میں ہی توبہ و استغفار ضروری اور کافی ہے ۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا کہ اے پیغمبر وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا ۔ یہ اس لیے کہ چونکہ انہوں نے فصل خصومات کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کر کے آپ کا استخفاف کیا تھا۔ اس لیے اس کے ازالے کے لیے آپ کے پاس آنے کی تاکید کی ۔ ظاہر بات ہے کہ اپنے پس منظر کے لحاظ سے بھی اور الفاظ کے اعتبار سے بھی اس ہدایت کا تعلق صرف آپ ؐ کی زندگی سے تھا ۔ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ آج بھی روضۂ نبوی پر استغفار کے لیے حاضری ایسی ہی ہے جیسے آپ کی زندگی میں تھی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ، تف ہے ایسے فہم قرآن پر اور ہزار بار توبہ ہے ایسی تفسیر قرآن سے ۔’’ (احسن البیان ،ص۱۱۳، ۔دارالسلام لاہور)
ولواناکتبنا علیھم ان۔۔۔۔
منافقین کی بنیادی کمزوری
‘‘ یہ منافقین کے اصل سبب نفاق سے پردہ اٹھایا ہے کہ یہ ابھی تک خاندان ،برادری،قبیلہ اورقوم کی زنجیروں اوروطن اورسرزمین کی وابستگیوں سے آزاد نہیں ہوئے ۔ اس وجہ سے آگے بڑھنے کی بجائے باربارپیچھے مڑمڑکردیکھ رہے ہیں حالانکہ اسلام کااول مطالبہ یہی ہے کہ آدمی ہرزنجیرکوتوڑکرصرف اﷲ کے لیے اُٹھ کھڑاہوجس طرح مہاجرین اولین اُٹھ کھڑے ہوئے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۳۰، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
ان قتلوا انفسکم۔۔۔۔
حق کی دوستی کااصل تقاضا
‘‘ منافقین زیادہ تریہوداوراطراف مدینہ کے قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔یہ اسلام کی اُبھرتی ہوئی طاقت کودیکھ کراسلام کے اظہارپرتومجبورہوگئے تھے لیکن یہ اپنے روابطہ یہوداوراپنے قبائلی سرداروں کے ساتھ بھی رکھنا چاہتے تھے اوراسی غرض کے لیے اپنے معاملات ومقدمات میں بھی ان سے رجوع کرتے تھے۔قرآن نے یہ ان کی اسی کمزوری سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کواپنوں سے لڑنے اوراپنے گھربارچھوڑکرمسلمانوں کے ساتھ آملنے کاحکم دیاجائے تواس جہاداورہجرت کے لیے ان میں سے بہت تھوڑے آمادہ ہوں گے۔ اسلام حق کے مقابل میں خون اورنسب کوکوئی اہمیت نہیں دیتا۔اس وجہ سے خداکی وفاداری کاامتحان پاس کرنے کے لیے اہل ایمان کوا س مرحلے سے بھی گزرناپڑتاہے۔چنانچہ اسلام کی تاریخ شاہدہے کہ بدرکے موقع پرماموں کی تلواربھانجے کے اوربھتیجے کی تلوارچچاکے مقابل میں بے نیام ہوئی اورعصبیت جاہلیت کے تمام روابطہ حق کے آگے بالکل بے حقیقت ہوکے رہ گئے۔اسلام کی اسی حقیقت کی طرف یہاں ان منافقین کوبھی توجہ دلائی جارہی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۳۰، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
ہجرت اورجہادکی برکات
‘‘اس کے بعدان کی حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا کہ یہ نہ خیال کریں کہ یہ کوئی تباہی وخودکشی کاراستہ ہے۔اگروہ اﷲ کے لیے اپنے گھردرچھوڑدیں گے تواﷲ ان کوخاص اپنے پاس سے اجرعظیم دے گااوران کوصراط مستقیم کی ہدایت نصیب کرے گا۔جولوگ سب سے کٹ کراﷲ اوراس کے رسول کی اطاعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کو اﷲکے انعام یافتہ بندوں۔انبیاء،صدیقین،شہدااورصالحین کی معیت ورفاقت حاصل ہوتی ہے جولوگ اس فضل کے حاصل کرنے کے لیے ہجرت اورجہادکی بازیاں کھیلیں گے وہ مطمئن رہیں کہ اﷲ ان کی جاں بازیوں سے اچھی طرح باخبرہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۳۱، فارا ن فاؤنڈیشن لاہور)
جنت کے درجات اعمال کے اعتبار سے ہوں گے
‘‘جو لوگ ان تمام چیزوں پر عمل کریں جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ، ان تمام چیزوں سے پرہیز کریں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔۔۔۔ تو عمل کے اعتبار سے ان کے مختلف درجات ہوں گے ، اول درجہ کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ انبیاء علہیم السلام کے ساتھ جنت کے مقامات عالیہ میں جگہ عطا فرمائیں گے ، اور دوسرے درجہ کے لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ جگہ عطاء فرمائیں گے جو انبیاء کے بعد ہیں، جن کو صدیقین کہا جاتا ہے ، یعنی وہ اجلہ صحابہ جنہوں نے بغیر کسی جھجک اور مخالفت کے اول ہی ایمان قبول کر لیا، جیسے حضرت ابو بکر صدیقؓ ، پھر تیسرے درجہ کے حضرات شہداء کے ساتھ ہوں گے شہداء وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال قربان کر دیا، پھر چوتھے درجہ کے حضرات صلحاء کے ساتھ ہوں گے اور صلحاء وہ لوگ ہیں جو اپنے ظاہر و باطن میں اعمال صالحہ کے پابند ہیں۔’’(معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۶۶، ادارۃ المعارف کراچی)
شان نزول
‘‘یہ آیت ایک خاص واقعہ کی بناء پر نازل ہوئی ہے جس کو امام تفسیر حافظ ابن کثیر نے متعدد اسانید سے نقل کیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں آپ ؐ کی محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہے ، اپنی بیوی سے بھی ، اپنی اولاد سے بھی ، بعض اوقات میں اپنے گھر میں بے چین رہتا ہوں یہاں تک کہ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ؐ کی زیاارت کر لوں تب سکون ہوتا ہے ، اب مجھے فکر ہے کہ جب اس دنیا سے آپ ؐ کی وفات ہو جائے اور مجھے بھی موت آ جائے گی تو میں جانتا ہوں کہ آپ ؐ جنت میں انبیاء علیہم السلام کے ساتھ درجات عالیہ میں ہوں گے اور مجھے اول تو یہ معلوم نہیں کہ میں جنت میں پہنچوں گا بھی یا نہیں ، اگر پہنچ بھی گیا تو میرا درجہ آپ سے بہت نیچے ہو گا، میں وہاں آپ کی زیارت نہ کر سکوں گا تو مجھے کیسے صبر آئے گا؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کلام سن کر کچھ جواب نہ دیا ، یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ نازل ہو گئی ۔ و من یطع اللہ و الرسول فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین و الصدیقین و الشھدآ ء و الصلحین o اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت سنا دی کہ اطاعت گزاروں کو جنت میں انبیاء علیہم السلام اور صدیقین اور شہداء اور صالحین کے ساتھ ملاقات کا موقع ملتا رہے گا ، یعنی درجات جنت میں تفاضل اور اعلیٰ ادنیٰ ۔۔۔ ہونے کے باوجود باہم ملاقات و مجالست کے مواقع ملیں گے۔’’ (معارف القرآن ،ج ۲، ص۴۶۷، ادارۃ المعارف کراچی)
جنت میں ملاقات کی چند صورتیں
‘‘جس کی ایک صورت یہ بھی ہو گی کہ اپنی اپنی جگہ سے ایک دوسرے کو دیکھیں گے جیسا کہ مؤ طا ء امام مالک ؒ میں بروایت ابو سعید خدری ؓ منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اہل جنت اپنی کھڑکیوں میں اپنے سے اوپر کے طبقات والوں کو دیکھیں گے جیسے دنیا میں تم ستاروں کو دیکھتے ہو۔ اور یہ بھی صورت ہو گی کہ درجات میں ملاقات کے لیے آیا کریں گے جیسا کہ ابن جریر نے بروایت ربیع نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا کہ اونچے درجات والے نیچے درجات کی طرف اتر کر آیا کریں گے اور ان کے ساتھ ملاقات اور مجالست ہوا کرے گی ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ نیچے کے درجات والوں کو ملاقات کے لیے اعلیٰ درجات میں جانے کی اجازت ہو ، اس آیت کی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو جنت میں اپنے ساتھ رہنے کی بشارت دی ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں اس بات کی شہادت دے چکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اور یہ کہ آپؐ اللہ کے سچے رسول ہیں اور میں پانچ وقت کی نماز کا بھی پابند ہوں ، اور زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہوں، اور رمضان کے روزے بھی رکھتا ہوں ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے وہ انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا ، بشرطیکہ اپنے ماں باپ کی نا فرمانی نہ کرے۔اسی طرح ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :‘‘یعنی وہ بیو پاری جو سچا اور امانتدار ہو وہ انبیاء اور صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۶۸، ادارۃ المعارف کراچی)
قرب کی شرط محبت ہے
‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت آپ ؐ کے ساتھ محبت کرنے سے حاصل ہو گی ، چنانچہ صحیح بخاری میں طرق متواترہ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ کی ایک بڑی جماعت سے منقول ہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا جو کسی جماعت سے محبت اور تعلق رکھتا ہے مگر عمل میں ان کے درجہ کو نہیں پہنچا، آپ ؐ نے فرمایا: المرأ مع من احب ‘‘ یعنی محشر میں ہر شخص اس کے ساتھ ہو گا جس سے اس کو محبت ہے ۔’’حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کو دنیا میں کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس حدیث سے ، کیونکہ اس حدیث نے ان کو یہ بشارت دے دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے والے محشر اور جنت میں بھی حضورﷺ کے ساتھ ہوں گے۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۹ ، ادارۃ المعارف کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کسی رنگ و نسل پر موقوف نہیں
‘‘طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص حبشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے حسن صورت اور حسین رنگ میں بھی ممتاز ہیں ، اور نبوت و رسالت میں بھی ، اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آؤں جس پر آپﷺ ایمان رکھتے ہیں ، اور وہی عمل کروں جو آپؐ کرتے ہیں، تو کیا میں بھی جنت میں آپؐ کے ساتھ ہو سکتا ہوں؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ضرور (تم اپنی حبشیانہ بد صورتی سے نہ گھبراؤ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت میں کالے رنگ کے حبشی سفید اور حسین ہو جائیں گے ، اور ایک ہزار سال کی مسافت سے چمکیں گے ، اور جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کی فلاح و نجات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو جاتی ہے ، اور جو شخص سبحان اللہ و بحمدہٖ پڑہتا ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔یہ سن کر مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا ، یا رسول اللہﷺ جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں حسنات کی اتنی سخاوت ہے تو ہم پھر کیسے ہلاک ہو سکتے یا عذاب میں کیسے گرفتار ہو سکتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا (یہ بات نہیں) حقیقت یہ ہے کہ قیامت میں بعض آدمی اتنا عمل اور حسنات لے کر آئیں گے کہ اگر ان کو پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو پہار بھی ان کے بوجھ کا تحمل نہ کر سکے ، لیکن اس کے مقابلہ میں جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں آتی ہیں اور ان سے موازنہ کیا جا تا ہے تو انسان کا عمل ان کے مقابلہ میں ختم ہو جاتا ہے ، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو اپنی رحمت سے نوازیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص ۴۶۹، ادارۃ المعارف کراچی)
مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ ،۳۔ خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہریؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی۔