فردوس گمشدہ اندلس کی آخری سلطنت، غرناطہ اور جنوبی علاقوں پر مشتمل تھی جو ڈھائی سو برس تک مشترکہ عیسائی یلغار کا مقابلہ کرنے کے بعد بالآخر ۱۴۹۲ء میں دم توڑ گئی۔
شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے معاہدے کے تحت مسلمانوں کے جان و مال، مساجد اور اسلامی شعائرکی حفاظت کا وعدہ کیا تھا جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ مملکتِ اسلامیہ کا آخری فرمانروا، ابوعبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ جلد ہی المغرب کے شہر فاس منتقل ہوگیا، جہاں ۱۵۳۴ء میں بنی و طاس کے دور میں اس کی وفات ہوئی۔
یہ بدیہی امرہے کہ غرناطہ سے پہلے جو علاقے عیسائی ہوس کا نشانہ بنتے گئے وہاں کے مسلمان کشاں کشاں غرناطہ آتے گئے۔ اشبیلیہ، قرطبہ، جیان، کادیز اور اندلس کے چپے چپے سے کلمہ گو غرناطہ میں آباد ہوتے گئے۔ غرناطہ کے آخری ایام میں اس مسلم سلطنت کی آبادی ساٹھ لاکھ اور صرف شہر غرناطہ کی آبادی دو لاکھ بتائی گئی ہے۔
عیسائی حکومت نے اپنے قبضے کے چند سال بعد ہی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنا شروع کردیا۔ تنگ نظر راہب اور پادری، اسلام یا مسلمانوں کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسپین کی بدنامِ زمانہ مذہبی عدالتوں inquisitionکی بنیاد انھی دنوں ڈالی گئی۔ مسلمانوں نے ازخود مراکش کی طرف ہجرت شروع کر دی۔ باقی ماندہ اشخاص کے لیے باعزت زندگی بسر کرنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ کیتھولک عیسائیت کا لبادہ اوڑھ لیں۔ اسپین میں مسلمانوں کو مُورز (Moors) کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ان جبراً عیسائی بنائے جانے والے مسلمانوں کو موریسکی (Moriscos)یا ‘‘مسلم خورد’’ کا نام دیا گیا۔
بعض متعصب پادریوں نے شاہ فرڈیننڈ اور ازابیلا کو یہ باور کرایا کہ کفار (غیر عیسائی) اگر اپنے مذہب پر قائم رہے تو واصلِ جہنم ہوں گے، اس لیے ان کی نجات کے لیے انھیں جبراً عیسائی بنالینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ شاہ کی جانب سے مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنانے کی اجازت دے دی گئی۔
چونکہ یہ لوگ گھروں میں اپنے عقائد و رسوم کی پابندی کرتے تھے، اس لیے جونہی کسی شخص کے خلاف شکایت موصول ہوتی، اسے عدالت میں پیش کردیا جاتا۔ قیدخانے میں اس غریب پر اذیت رسانی کے تمام نسخے آزمائے جاتے، لیکن پھر بھی اگر وہ اسلام کا اظہار کرتا تو ایسے ‘‘مجرم’’ کو عیسائی، ناچتے گاتے، اودھم مچاتے، جلوس کی شکل میں مقتل لے جاتے، جہاں اسے زندہ آگ میں جلا دیا جاتا۔ عیسائی رعیت کے لیے ایسا دن تہوار سے بڑھ کر تھا۔
شاہ اسپین کی طرف سے ایک فرمان بھی جاری کیا گیا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ ‘‘موریسکی’’ کن کن باتوں سے احتراز کرنا چاہیے۔ یہ فرمان مسلمانوں میں سخت بے چینی کا باعث بنا۔ البیسین (غرناطہ) کی ایک عورت کو حکم نہ ماننے کے الزام میں قیدخانے لے جایا گیا تو مسلمانوں کی رگِ حمیت پھڑک اُٹھی۔ سارے شہر میں ایک ہنگامہ ہوگیا اور غیظ و غضب میں بھرے مسلمان، اس عورت کو قید سے چھڑا لائے۔ گو وقتی طور پر حکمرانوں نے نرمی کا اظہار کیا لیکن آئندہ چند برسوں میں مسجدیں بند کرنے ، عربی کتابیں جلانے اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کی مہم شدت اختیار کرگئی۔
غرناطہ کے بعد ‘‘البشارات’’ کے کوہستانی اور ناقابلِ شکست علاقے کے غیور مسلمانوں نے تلوار اُٹھائی اور علَمِ جہاد بلند کیا۔ ابتداء میں کچھ کامیابی ہوئی لیکن بالآخر فرڈیننڈ کے فوجی دستوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ ایک مسیحی کمانڈر نے ایک ایسی مسجد بارود سے اُڑا دی جس میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی ایک کثیرتعداد پناہ لے چکی تھی۔
دو سال بعد یہ قانون نافذ کیا گیا کہ مسلمان اپنا باوقار لباس چھوڑ کر عیسائیوں کا رنگ اور بے ڈھنگا لباس پہنیں، عربی زبان کے بجائے قشتالی زبان میں ہم کلام ہوں، عیسائیوں کے رسم و رواج اپنائیں اور انھی جیسے نام رکھیں۔ اس ظالمانہ قانون پر چارلس پنجم کے عہد میں پوری طرح پابندی نہ کرائی جاسکی۔ متمول مسلمان خصوصی ٹیکس دے کر ان احکامات کی پابندی سے بچ جاتے تھے، لیکن اس کے ناخلف وارث فلپ دوم (۱۵۵۵ء- ۱۵۹۸ء) نے اس قانون پر سختی سے عمل کرایا۔ مسلمانوں کو شرعی اندازِ طہارت سے منع کردیا گیا۔ الحمراء کے اچھوتے حمام مسمار کردیے گئے اور مسلمانوں کو عیسائیوں کی طرح غلاظت کے عادی بننے پر مجبور کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عربی کتب اور قرآن کے نسخے نذرِ آتش کیے گئے۔ سلطنتِ غرناطہ کے تمام حمام یکے بعد دیگرے گرا دیئے گئے۔ ۱۵۶۸ء کے اواخر میں فرنانڈونام کے ایک موریسکی نے اپنے اسلاف کا اسلامی نام محمد بن اُمیہ اختیار کرکے البشرات کے علاقے میں دوبارہ علَمِ جہاد بلند کیا اور یہاں کے عیسائیوں اور پادریوں سے مسلمانوں نے چُن چُن کر بدلے لیے۔
یہ تحریک تقریباً دو سو سال جاری رہی، جس کے اثرات غرناطہ میں بھی محسوس کیے گئے جہاں موریسکیوں سے انتقام لیا گیا۔ البیسین کے جیل خانے میں ڈیڑھ سوقیدیوں کو عیسائیوں نے ذبح کرڈالا۔ غرناطہ کے ایک موریسکی لیڈر اور اس کی بیوی کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ اس بیچارے کی کھال زندہ حالت میں جسم سے کھنچوا کر اسے انتہائی وحشت کے ساتھ قتل کیا گیا۔
محمد بن اُمیہ خود اپنے فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا اور فوج کی کمان ابن عبدیا مولائی عبداللہ محمد کے ہاتھ میں آئی جس نے دس ہزار کا لشکر تیار کرکے غرناطہ کے نواح میں اُورجیہ پر قبضہ کرلیا۔ مولائی عبداللہ کے مقابلے میں بادشاہ کے سوتیلے بھائی ڈان جان آف اشتویہ نے یکے بعد دیگرے کئی معرکے بپا کیے اور شکست بھی کھائی، لیکن بالآخر عیّاری سے مولائی محمد کو قتل کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ مقتول کا سر، غرناطہ کے ایک دروازے پر لٹکا دیا گیا۔
البشرات کی پہلی تحریک میں تیس ہزار اور دوسری میں اندازاً پچاس ہزارموریسکی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان لوگوں میں ایسے غیور بھی تھے جو درپردہ اسلامی تعلیمات پر کاربند رہتے تھے۔ اپنے بچوں کو گرجے میں بپتسمہ دلوانے کے بعد گھر آکر ان کا منہ دھلوا دیتے تاکہ بپتسمہ کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور اس طرح گرجے میں شادی ہونے کے بعد پوشیدہ طور پر اسلامی طریقے سے نکاح بھی کرواتے، لیکن ایسی کسی حرکت کا اگر عیسائی عدالتوں کو پتہ چل جاتا تو ملزم کی جان عذاب میں آجاتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہتیرے بچوں کے ذریعے سے ماں باپ کے خلاف جاسوسی کی گئی۔
سولہویں صدی کے وسط سے انتہائے صدی تک مشہور ترک جہازران خیرالدین باربروسہ اور اس کے بعد طرغود ترکی نے ہزاروں موریسکیوں کو اپنے جہازوں میں لاد لاد کر مراکش، الجزائر اور تونس کی بندرگاہوں تک پہنچایا، بلکہ بعض دفعہ تو انھوں نے تعاقب کرنے والے اسپینی جہازوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور عیسائی ملّاح قیدی بنا لیے گئے۔ ۱۵۲۸ء سے ۱۵۸۴ ء تک اسپین کی بندرگاہوں پر کم و بیش ۳۳ حملوں کا ذکر ملتاہے جن میں موریسکیوں کو آزاد کرایا گیا۔ ایسے ہی ایک حملے میں ‘‘کالوسکا’’ کی ساری موریسکی آبادی بحفاظت افریقہ منتقل کردی گئی۔ سترھویں صدی کے آغاز میں تونس کے حاکم عثمان دامیی کی کوششوں سے بھی موریسکیوں کی ایک کثیر تعداد کو آزادکرایا گیا۔
سقوطِ غرطانیہ ۱۴۹۲ء کے بعد ایک صدی کے عرصے میں موریسکی ، عیسائیت کے قالب میں پوری طرح ڈھل چکے تھے، وہ گرجوں میں جانے پر مجبور تھے بلکہ اپنی عادات اور خصائل، اپنی زبان اور اپنی اداؤں سے بھی صلیبیّت کو نمایاں کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود اسپین کے سیاسی و مذہبی ناخدا، انھیں اپنے لیے خطرہ تصور کرتے تھے۔ بار بار کلیسا اور حکومت کی سطح پر مجالس منعقد ہوئیں جن میں سر جوڑ کر مشور ے کیے جاتے رہے کہ موریسکیوں کو کیسے ختم کیا جائے۔
۱۶۰۹ء میں بالآخر یہ تجویز اپنی آخری شکل میں منظور کرلی گئی۔ ۲۲ستمبر ۱۶۰۹ء کو ایک شاہی فرمان صادر ہوا جس کے بموجب تمام موریسکی خائن اور غدار قرار دیئے گئے۔ تین دن کے اندر اندر انھیں حکومت کی طرف سے تجویز کردہ بندرگاہوں تک پہنچنا تھا، جہاں انھیں اپنے ضروری مال و متاع کے ساتھ سرکاری خرچ پر بحری جہازوں کے ذریعے سے بلادِ بربر یعنی مراکش روانہ ہوتا تھا۔ ہر سَو میں سے چھ کو اسپین میں رہنے کی اجازت دے گئی۔
یہ فرمان موریسکیوں کے لیے صاعقۂ آسمانی سے کم نہ تھا۔ جو ملک صدیوں سے ان کے آباؤاجداد کا وطن چلا آرہا تھا، وہاں سے انھیں بیک بینی و دوگوش نکالا جا رہا تھا۔ ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ مخالفت کرسکیں، نہ اتنی تاب کہ اختلاف کرسکیں۔ بلنسیہ میں موریسکیوں کے لیڈر جمع ہوئے اور فیصلہ کیا کہ جلاوطنی کے بغیر چارہ نہیں۔ جانا ہوگا تو سبھی کو جانا ہوگا۔ سَو میں سے جن چھ کو چھوٹ دی گئی ہے وہ بھی جانے والوں کا ساتھ دیں گے۔
بعض پہاڑی علاقوں کے باشندوں کو حکومت کی نیت پر اطمینان نہ تھا، انھوں نے مقابلے کی ٹھانی۔ وادئ اجوار کے پندرہ ہزار نفوس نے اپنی حد تک خوب مقابلہ کیا لیکن ہزاروں کی تعداد میں کھیت رہے۔ بہت سے بھوک اور سردی کی تاب نہ لاکر راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ اکثر غلام بنا کر فروخت کیے گئے اور معدودے چند ہجرت کرسکے۔ اسی طرح ‘‘مولادی کورٹس’’ کے نو ہزار افراد میں سے کٹ کٹا کر صرف تین ہزار، جہازوں پر سوار ہوسکے۔
قشتالہ کی سرزمین سے چار ہزار خاندان حدودِ فرانس کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ دس ہزارافراد قرطاجنہ ہوتے ہوئے مختلف ممالک، بالخصوص مراکش پہنچ سکے۔ قشتالہ، اراگون سے چالیس ہزار کے قریب لوگ فرانسیسی علاقہ ‘‘ناوار’’ میں داخل ہوئے جہاں شاہِ فرانس ہنری چہارم کے حکم سے انھیں اس شرط پر رہنے کی اجازت دی گئی کہ وہ کیتھولک مذہب کے پابند رہیں گے، ہاں! اگر وہ مراکش جانا چاہیں توا ن کے لیے جہازوں کا بندوبست کر دیا جائے گا۔
غرناطہ اور نواحی علاقوں میں جلاوطنی کا حکم ۱۲؍جنوری ۱۶۱۰ء کو نافذ کیا گیا۔ ایک ماہ کی مہلت دی گئی جس میں منقولہ املاک فروخت کرنے کی اجازت تھی۔ جنوبی اندلس کے موریسکیوں نے برضاو رغبت کوچ کا ارادہ کیا اور ایک لاکھ کے قریب لوگ سرکاری یا غیرسرکاری جہازوں پر مراکش روانہ ہوگئے۔
جلاوطنی کایہ حکم قطلونہ اور اراگون میں ۱۶۱۰ء سے ۱۶۱۲ء تک مختلف علاقوں میں نافذ کیا جاتا رہا ۔ مرسیہ کی بندرگاہ سے پندرہ ہزار افراد نے آخری بلّے میں کوچ کیا۔ بعض قافلے اٹلی اور فرانس کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے مصر، شام اور قسطنطنیہ پہنچے جن میں یہودیوں کا ایک فرقہ ‘‘حدیم’’ نمایاں ہے، جو ابھی تک قسطنطنیہ اور مصر میں آباد چلا آرہا ہے۔ مہاجرین کے یہ قافلے اسپین میں تو لوٹ مار کا شکار ہوئے ہی، لیکن کچھ بدنصیب ایسے بھی تھے جو اپنے قیمتی سامان کی بنا پر سرزمینِ مراکش و الجزائر میں بدوی لٹیروں کے ہتھے چڑھ گئے، ان کا مال و اسباب ہی نہیں لٹا، بلکہ عورتیں تک لونڈیاں بنا لی گئیں۔ چند خاندانوں نے ‘‘اوران’’ کے اسپینی مقبوضہ علاقے میں ٹھہرنے کو ترجیح دی۔ کئی ایسے بھی تھے جو واپس اسپین چلے گئے اور استدعا کی کہ انھیں غلام بنا کر رہنے کی اجازت دی جائے۔ گو حکومت کی طرف سے انھیں دوبارہ داخلے کی اجازت نہ تھی، لیکن پھر بھی بلنسیہ اور نواحی بندرگاہوں میں کئی بے خانماں، چوری چھپے داخل ہوئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔
جلاوطن کیے جانے والے موریسکیوں کی تعداد کے بارے میں مؤرخین اختلاف کرتے ہیں۔ چار لاکھ سے تیس لاکھ تک کی تعداد ذکر کی گئی ہے۔ سولھویں صدی کے اواخر میں چونکہ ان کی تعداد چھ لاکھ سے متجاوز نہیں تھی اس لیے قرین قیاس یہ ہے کہ پانچ لاکھ ہجرت کرسکے اور ایک لاکھ کے قریب یا تو ہلاک کر دیئے گئے یا غلام اور لونڈی بنا لیے گئے۔
یوں سرزمینِ اندلس سے ایک بہادر اور غیور قوم کی نسل کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔
اسپینی حکومت کی تمام تر کوششوں کے بعد خال خال موریسکی پھر بھی اسپین میں باقی رہ گئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو اپنی جلاوطنی کے بعدافریقہ سے چوری چھپے واپس آگئے تھے، یا وہ مراکشی مسلمان تھے جو عیسائیوں اور مسلمانوں کی باہمی آویزشوں میں غلام بنا کر اسپین کی منڈیوں میں فروخت کیے جاتے رہے اور پھر جبراً عیسائی بنالیے گئے ، لیکن وہ اپنی عادات و اطوار کی بنا پر متمیز رہے، چنانچہ ایک صدی بعد ۱۷۱۲ء میں ایک مرتبہ پھر حکومت حرکت میں آئی اور ان بچے کھچے افراد کو واپس افریقہ بھیجنے کی مہم چل نکلی۔
بعد کے برسوں میں وقتاً فوقتاً ایسے لوگوں کی نشان دہی ہوتی رہی جن پر موریسکی ہونے کا شبہ تھا۔ ۱۷۶۹ء میں ساحلِ اسپین پر قرطاجنہ میں ایک چھوٹی سی مسجد کا انکشاف ہوا جس سے موریسکیوں کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے بعد اسپینی دستاویزات ان کے ذکرسے خالی ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان دو صدیوں میں بچے کھچے موریسکی باشندے عیسائیت کے رنگ میں بُری طرح رنگے گئے ہوں گے اور سوائے چند موہوم یادوں کے انھیں اپنے آباء کے مذہب سے کوئی تعلق نہ رہا ہوگا۔
٭٭٭