سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : مئی 2012

قسط ۸۹

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نسا ۴۴۔۵۷

 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ ہط ۴۴ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ ط وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا زق وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا ہ۴۵ مِنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَیًّام بِاَ لْسِنَتِھِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ ط وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ لا وَلٰکِنْ لَّعََنَھُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلاً ہ۴۶ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓی اَدْبَارِھَآ اَوْ نَلْعَنَھُمْ کَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ ط وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا ہ۴۷ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ ج وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا ہ۴۸ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ہ۴۹ اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ط وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا ہع ۵۰ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ھٰٓؤُلَآءِ اَھْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً ہع ۵۱ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ ط وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا ہط ۵۲ اَمْ لَھُمْ نَصِیْب‘’ مِّنَ الْمُلْکِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا ہلا ۵۳ اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰئھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ج فَقَدْ اٰتَیْنَآ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاٰتَیْنٰھُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا ہ۵۴ فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ ط وَکَفٰی بِجَھَنَّمَ سَعِیْرًا ہ۵۵ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ہالرّبع ۵۶ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط لَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاج‘’ مُّطَھَّرَۃ‘’ ز وَّنُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلاً ہ۵۷

تراجم

            ۱۔ تو نے نہ دیکھے؟ جن کو ملا ہے کچھ ایک حصہ کتاب سے، خرید کرتے ہیں گمراہی، اور چاہتے ہیں کہ تم بھی بہکو راہ سے(۴۴) اور اللہ خوب جانتا ہے، تمھارے دشمنوں کو۔ اور اللہ بس ہے حمایتی۔ اور اللہ بے ہے مددگار(۴۵) وہ جو یہودی ہیں، بے ڈھب کرتے ہیں بات کو اس کے ٹھکانے سے، اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا، اور سن نہ سنایا جائیو، اور راعنا موڑ دے کر اپنی زبان کو، اور عیب دے کر دین میں۔ اور اگر وہ کہتے، ہم نے سنا اور مانا، اور سن اور نظر کرو ہم پر البتہ ہوتا ان کے حق میں اور درست، لیکن لعنت کی ان کو اللہ نے، ان کے کفر سے۔ سو ایمان نہیں لاتے مگر کم(۴۶) اے کتاب والو! ایمان لاؤ اس پر، جو ہم نے نازل کیا، سچ بتاتا تمھارے پاس والے کو، پہلے اس سے کہ ہم مٹا ڈالیں کتنے منہ ، پھر الٹ دیں ان کو پیٹھ کی طرف، یا ان کو لعنت کریں، جیسے لعنت کی ہفتے والوں کو، اور اللہ نے جو حکم کیا سو ہوا(۴۷) تحقیق اللہ نہیں بخشتا ہے یہ کہ اس کا شریک پکڑئیے اور بخشتا ہے اس سے نیچے جس کو چاہے۔ اور جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا، اس نے بڑا طوفان باندھا(۴۸) تو نے نہ دیکھے وہ، جو آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں؟ بلکہ اللہ ہی پاکیزہ کرتا ہے جس کو چاہے، اور اُن پر ظلم نہ ہو گا تاگے برابر(۴۹) دیکھ! کیسا باندھتے ہیں اللہ پر جھوٹ۔ اور یہی کفایت ہے گناہ صریح(۵۰) تو نے نہ دیکھے؟ جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کا، مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو، اور کہتے ہیں کافروں کو، یہ زیادہ پائے ہیں مسلمانوں سے راہ(۵۱) وہی ہیں جن کو لعنت کی اللہ نے، اور جس کو لعنت کرے اللہ پھر تو نہ پاوے کوئی اس کا مددگار(۵۲) یا ان کا کچھ حصہ ہے سلطنت میں؟ پھر تو یہ نہ دیں گے لوگوں کو، ایک تل برابر(۵۳) یا حسد کرتے ہیں لوگوں کا اس پر، جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے؟ سو ہم نے تو دی ہے ابراہیم کے گھر میں، کتاب اور علم، اور ان کو دی ہم نے بڑی سلطنت(۵۴) پھر ان میں کسی نے اس کو مانا، اور کوئی اس سے اٹک رہا۔ اور دوزخ بس ہے جلتی آگ(۵۵) جو لوگ منکر ہوئے ہماری آیتوں سے، ان کو ہم ڈالیں گے آگ میں۔ جس وقت پک جاوے گی کھال ان کی، بدل کر دیں گے ان کو اور کھال، کہ چکھتے رہیں عذاب۔ اللہ ہے زبردست حکمت والا(۵۶) اور جو لوگ یقین لائے اور کیں نیکیاں، ان کو ہم داخل کریں گے باغوں میں، جن کے نیچے بہتی نہریں، رہ پڑے وہاں ہمیشہ۔ ان کو وہاں عورتیں ہیں ستھری، اور ان کو ہم داخل کریں گے، گھن کی چھاؤں میں(۵۷) (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک بڑا حصہ ملا ہے وہ لوگ گمراہی کو اختیار کر رہے ہیں اور یوں چاہتے ہیں کہ تم راہ سے بے راہ ہو جاؤ(۴۴) اور اللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کو خوب جانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافی رفیق ہے اور اللہ تعالیٰ کافی حامی ہے(۴۵)یہ لوگ جو یہودیوں میں سے ہیں کلام کو اس کے مواقع سے دوسری طرف پھیر دیتے ہیں اور یہ کلمات کہتے ہیں ‘سمعنا و عصینا’ اور ‘اسمع غیر مسمع’ اور ‘راعنا’ اس طور پر کہ اپنی زبانوں کو پھیر کر اور دین میں طعنہ زنی کی نیت سے اور اگر یہ لوگ یہ کلمات کہتے ‘سمعنا واطعنا اور ‘اسمع وانظرنا’ تو یہ بات ان کے لیے بہتر ہوتی اور موقع کی بات تھی، مگر ان کو خدا تعالیٰ نے ان کے کفر کے سبب اپنی رحمت سے دور پھینک دیا اب وہ ایمان نہ لاویں گے(۴۶) ہاں مگر تھوڑے سے آدمی۔ اے وہ لوگو، جو کتاب دئیے گئے ہو تم اس کتاب پر ایمان نہ لاؤ جس کو ہم نے نازل فرمایا ہے ایسی حالت پر کہ وہ سچ بتلاتی ہے اس کتاب کو جو تمھارے پاس ہے اس سے پہلے پہلے کہ ہم چہروں کو بالکل مٹا ڈالیں اور ان کو ان کی الٹی جانب کی طرح بنا دیں یا ان پر ہم ایسی لعنت کریں، جیسی لعنت ان ہفتہ والوں پر کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے(۴۷) بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوائے اور جتنے گناہ ہیں جس کے لیے منظور ہو گا وہ گناہ بخش دیں گے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے وہ بڑے جرم کا مرتکب ہوا(۴۸) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے کو مقدس بتلاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں مقدس بنا دیں اور ان پر تاگے برابر بھی ظلم نہ ہو گا(۴۹) دیکھ تو یہ لوگ اللہ پر کیسی جھوٹی تہمت لگاتے ہیں اور یہی بات صریح مجرم ہونے کے لیے کافی ہے(۵۰) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب کا ایک حصہ ملا (پھر باوجود اس کے) وہ بت اور شیطان کو مانتے ہیں اور وہ لوگ کفار کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ لوگ بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ راہ راست پر ہیں(۵۱) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے ملعون بنا دیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ جس کو ملعون بنا دے اس کا کوئی حامی نہ پاؤ گے(۵۲) ہاں، کیا ان کے پاس کوئی حصہ ہے سلطنت کا سو ایسی حالت میں تو اور لوگوں کو ذرا سی چیز بھی نہ دیتے(۵۳) یا دوسرے آدمیوں سے ان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں۔ سو ہم نے (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو کتاب بھی دی ہے اور علم بھی دیا ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے(۵۴) سو ان میں سے بعضے تو اس پر ایمان لائے اور بعضے ایسے تھے کہ اس سے روگرداں ہی رہے اور دوزخ آتش سوزاں کافی ہے(۵۵) بلاشک جو لوگ ہماری آیات کے منکر ہوئے ہم ان کو عنقریب ایک سخت آگ میں داخل کریں گے۔ جب ایک دفعہ ان کی کھال جل چکے گی تو ہم اس پہلی کھال کی جگہ فوراً دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ عذاب ہی بھگتتے رہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست ہیں حکمت والے ہیں(۵۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم ان کو عنقریب ایسے باغ میں داخل کریں گے کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے واسطے ان میں پاک صاف بی بیاں ہوں گی اور ہم ان کو نہایت گنجان سایہ میں داخل کریں گے(۵۷) (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ کیا تم نے انھیں نہ دیکھا جن کو کتاب سے ایک حصہ ملا گمراہی مول لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بہک جاؤ(۴۴) اور اللہ خوب جانتا ہے تمھارے دشمنوں کو اور اللہ کافی ہے والی اور اللہ کافی ہے مددگار(۴۵) کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنیے آپ سنائے نہ جائیں اور ‘راعنا’ کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اور دین میں طعنہ کے لیے اور اگر وہ کہتے کہ ہم نے سنا اور مانا اور حضورہماری بات سنیں اور حضور ہم پر نظر فرمائیں تو ان کے لیے بھلائی اور راستی میں زیادہ ہوتا لیکن ان پر تو اللہ نے لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو یقین نہیں رکھتے مگر تھوڑا(۴۶) اے کتاب والو ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے اتارا تمھارے ساتھ والی کتاب کی تصدیق فرماتا قبل اس کے کہ ہم بگاڑ دیں کچھ مونہوں کو تو انھیں پھیر دیں ان کی پیٹھ کی طرف یا انھیں لعنت کریں جیسی لعنت کی ہفتہ والوں پر اور خدا کا حکم ہو کر رہے(۴۷) بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑا گناہ کا طوفان باندھا(۴۸) کیا تم نے انھیں نہ دیکھا جو خود اپنی ستھرائی بیان کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ستھرا کرے اور ان پر ظلم نہ ہو گا دانہ خرما کے ڈورے برابر(۴۹) دیکھو کیسا اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ کافی ہے صریح گناہ(۵۰)کیا تم نے وہ نہ دیکھے جنھیں کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر ہیں(۵۱) جن پر اللہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا(۵۲) کیا ملک میں ان کا کچھ حصہ ہے ایسا ہو تو لوگوں کو تل بھر نہ دیں(۵۳) یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انھیں بڑا ملک دیا(۵۴) تو ان میں کوئی اس پر ایمان لایا اور کسی نے اس سے منہ پھیرا اور دوزخ کافی ہے بھڑکتی آگ(۵۵) جنھوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا عنقریب ہم ان کو آگ میں داخل کریں گے جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انھیں بدل دیں گے کہ عذاب کا مزہ لیں۔ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے(۵۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انھیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے ان کے لیے وہا ں ستھری بی بیاں ہیں اور ہم انھیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہو گا(۵۷) (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ کیا تم نے انھیں نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا ہے وہ گمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ(۴۴) اللہ تعالیٰ تمھارے دشمنوں کو خوب جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست ہونا کافی ہے اور اللہ تعالیٰ کا مددگار ہونا بس ہے(۴۵) بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ، تو سنا جائے اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی اور آپ سنیے اور ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لیے بہت بہتر تھا اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے انھیں لعنت کی ہے۔ پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں(۴۶) اے اہل کتاب جو کچھ ہم نے نازل فرمایا ہے جو اس کی بھی تصدیق کرنے والا ہے جو تمھارے پاس ہے، اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انھیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کر دیں یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی، اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا(۴۷) یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا(۴۸) کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزہ کرتا ہے کسی پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہ کیا جائے گا(۴۹) دیکھو، یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر کس طرح جھوٹ باندھتے ہیں اور یہ حرکت صریح گناہ ہونے کے لیے کافی ہے(۵۰) کیا آپ نے انھیں نہیں دیکھا جنھیں کتاب کا کچھ حصہ ملا ہے جو بتوں کا اور باطل معبودوں کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں(۵۱) یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ لعنت کر دے تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا(۵۲) کیا ان کا کوئی حصہ سلطنت میں ہے؟ اگر ایسا ہو تو پھر یہ کسی کو ایک کھجور کے شگاف کے برابر بھی کچھ نہ دیں گے(۵۳) یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، پس ہم نے تو آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے(۵۴) پھر ان میں سے بعض نے تو اس کتاب کو مانا اور بعض اس سے رک گئے، اور جہنم کا جلانا کافی ہے(۵۵) جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انھیں ہم یقینا آگ میں ڈال دیں گے، جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے(۵۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور شائستہ اعمال کیے ہم عنقریب انھیں ان جنتوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے لیے وہاں صاف ستھری بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں گھنی چھاؤں اور پوری راحت میں لے جائیں گے(۵۷) (مولاناجونا گڑھی)

            ۵۔ تم نے اُن لوگوں کو بھی دیکھا جنھیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے؟ وہ خود ضلالت کے خریدار بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ گم کر دو(۴۴) اللہ تمھارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور تمھاری حمایت و مددگاری کے لیے اللہ ہی کافی ہے(۴۵) جو لوگ یہودی بن گئے اُن میں کچھ لوگ ہیں جو الفاظ کو ان کے محل سے پھیر دیتے ہیں، اور دین ِ حق کے خلاف نیش زنی کرنے کے لیے اپنی زبانوں کو توڑ موڑ کر کہتے ہیں ‘سمعنا وعصینا’ اور ‘اسمع غیر مسمع’ اور ‘راعنا’۔ حالانکہ اگر وہ کہتے ‘سمعنا واطعنا’ اور ‘اسمع’ اور ‘انظرنا’ تو یہ انھی کے لیے بہتر تھا اور زیادہ راستبازی کا طریقہ تھا۔ مگر ان پر تو ان کی باطل پرستی کی بدولت اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں(۴۶)اے و ہ لوگو جنھیں کتاب دی گئی تھی! مان لو اُس کتاب کو جو ہم نے اب نازل کی ہے اور جو اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتی ہے جو تمھارے پاس پہلے سے موجود تھی۔ اس پر ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں یا ان کو اسی طرح لعنت زدہ کر دیں جس طرح سبت والوں کے ساتھ ہم نے کیا تھا، اور یاد رکھو کہ اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے(۴۷) اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ما سوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی(۴۸)تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جو بہت اپنی پاکیزگی ِ نفس کا دم بھرتے ہیں؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اور (انھیں جو پاکیزگی نہیں ملتی تو درحقیقت) اُن پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جاتا(۴۹) دیکھو تو سہی، یہ اللہ پر بھی جھوٹے افترا گھڑنے سے نہیں چوکتے اور ان کے صریحاً گناہ گار ہونے کے لیے یہی ایک گناہ کافی ہے(۵۰)کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور اُن کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں(۵۱) ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے(۵۲) کیا حکومت میں اُن کا کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے(۵۳) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انھیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب او رحکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا(۵۴) مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا، اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو بس جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے(۵۵) جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے انھیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے اور جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں، اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے(۵۶) اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا او رنیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انھیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے(۵۷)(مولانامودودیؒ)

            ۶۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ کھو بیٹھو!(۴۴) اللہ تمھارے دشمنوں سے خوب واقف ہے اور اللہ کافی ہے حمایت کے لیے اور کافی ہے مدد کے لیے (۴۵)یہود میں سے ایک گروہ زبان کو توڑ مروڑ کر اور دین پر طعن کرتے ہوئے الفاظ کو ان کے موقع و محل سے ہٹا دیتا ہے اور ‘سمعنا وعصینا’‘اسمع غیر مسمع’ اور ‘راعنا’ کہتا ہے اور اگر وہ ‘سمعنا واطعنا’ ‘اسمع’ اور ‘انظرنا’ کہتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا اور بات برمحل ہوتی لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر دی ہے اس وجہ سے وہ شاذ ہی ایمان لائیں گے(۴۶)اے وہ لوگو جن کو کتاب دی گئی اس چیز پر ایمان لاؤ جو ہم نے اتاری ہے، مصداق اُن پیشین گوئیوں کی جو خود تمھارے پاس موجود ہیں، قبل اس کے کہ ہم چہروں کو بگاڑ دیں اور ان کو ان کے پیچھے کی جانب الٹ دیں یا ان پر بھی اسی طرح لعنت کر دیں جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت کر دی اور خدا کی بات شدنی ہے(۴۷)اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے اس کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا او رجو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے(۴۸) ذرا ان کو تو دیکھو جو اپنے آپ کو بڑا پاکیزہ ٹھہراتے ہیں، بلکہ اللہ ہی ہے جو پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا(۴۹) یہ اللہ پر کیسا جھوٹ باندھ رہے ہیں اور صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے(۵۰)ذرا ان کو دیکھو جنھیں کتاب الٰہی کا ایک حصہ ملا۔ یہ جبت اور طاغوت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں(۵۱) یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کر دی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے تو تم ان کا کوئی مددگار نہیں پا سکتے(۵۲) کیا خدا کے اقتدار میں کچھ اُن کا بھی دخل ہے کہ یہ لوگوں کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں؟(۵۳) کیا یہ لوگوں پر حسد کر رہے ہیں، اس فضل پر جو اللہ نے اُن کو بخشا؟ تو ہم نے تو بخش دی آل ِ ابراہیمؑ کو کتاب و حکمت اور ہم نے ان کو ایک عظیم سلطنت بھی بخشی(۵۴)پس ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اس پر ایمان لائے اور ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس سے منہ موڑا۔ ایسوں کے لیے جہنم کی بھڑکتی آگ ہی کافی ہے۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہم ان کو ایک سخت آگ میں جھونک دیں گے(۵۵) جب جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کو دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ یہ عذاب کا مزا خوب چکھیں۔ بے شک اللہ عزیز و حکیم ہے(۵۶) اور جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے ہم ان کو ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اس میں ہمیشہ رہیں گے، اس میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور ہم ان کو گھنی چھاؤں میں رکھیں گے(۵۷) (اصلاحیؒ)

            ۷۔ تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو خدا کی کتاب سے بہرہ یاب ہوئے؟ (اُن کے سامنے یہ اُسی پروردگار کی شریعت پیش کی جاتی ہے تو اِس کے مقابلے میں) وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر دو(۴۴) تمھارے اِن دشمنوں سے اللہ خوب واقف ہے۔ (تم اِن کی پروا نہ کرو) اور (مطمئن رہو کہ) تمھاری حمایت کے لیے اور تمھاری مدد کے لیے اللہ کافی ہے(۴۵)(پھر اِن میں سے بالخصوص) یہود کا ایک گروہ زبان کو توڑ موڑ کر اوردین پر طعن کرتے ہوئے لفظوں کو اُن کے موقع ومحل سے ہٹا دیتا ہے اور ‘سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا’، ‘اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ’ اور ‘رَاعِنَا’ کہتا ہے۔ دراں حالیکہ اگر وہ ‘سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا’، ‘اِسْمَعْ’ اور ‘اُنْظُرْنَا’ کہتے تو اُن کے لیے بہتر ہوتا اور موقع و محل کے مطابق بھی۔ لیکن اُن کے منکر ہو جانے کے باعث اللہ نے اُن پر لعنت کر دی ہے، اِس لیے وہ کم ہی ایمان لائیں گے(۴۶)اے وہ لوگو، جنھیں کتاب دی گئی، اُس چیز کو مان لوجو ہم نے اُن چیزوں کی تصدیق میں اتاری ہے جو خود تمھارے پاس موجود ہیں۔ (مان لو)، اِس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور اُن کو پیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں یا اُن پر بھی (جن کے یہ چہرے ہیں) اُسی طرح لعنت کر دیں، جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت کر دی تھی اور (یاد رکھو کہ) خدا کی بات ہو کر رہتی ہے(۴۷)(اِن کا خیال ہے کہ اِن کے عقائد واعمال خواہ کچھ ہوں، یہ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کا شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے(۴۸) تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو (شرک جیسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اِس کے باوجود ) اپنے آپ کو پاکیزہ ٹھیراتے ہیں۔ (ہرگز نہیں)، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ (یہ اپنے کرتوتوں کی سزا لازماً بھگتیں گے) اور اِن پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا(۴۹) اِنھیں دیکھو، (اپنے اِن دعووں سے) یہ کیسا افترا باندھ رہے ہیں اور (حقیقت یہ ہے کہ) صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے(۵۰)تم نے دیکھا نہیں اِن لوگوں کو جو خدا کی کتاب سے بہرہ یاب ہوئے۔ یہ جبت اور طاغوت پر عقیدہ رکھتے ہیں اور منکروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں(۵۱) یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کر دی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے، پھر تم اُن کا کوئی مددگار نہیں پا سکتے(۵۲) کیا خدا کی بادشاہی میں اِن کا بھی کوئی حصہ ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو پھوٹی کوڑی بھی دینے کے لیے تیار نہ ہوتے(۵۳) کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اُس عنایت پر حسد کر رہے جو اُس نے اُن پر کی ہے؟ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ) کو اپنی شریعت اور اپنی حکمت بخش دی اور اُنھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے(۵۴)(یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں پہچانی)۔ سو اُن میں ایسے بھی ہیں جو اِس(حکمت اور اِس شریعت) پر ایمان لائے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اِس سے منہ موڑ گئے ہیں۔ اِس طرح کے لوگوں کے لیے دوزخ کی بھڑکتی آگ ہی کافی ہے(۵۵) جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، اُنھیں ہم عنقریب ایک بڑی آگ میں جھونک دیں گے۔ اُن کی کھالیں جب پک جائیں گی، ہم اُن کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ بے شک، اللہ عزیزوحکیم ہے(۵۶) اور جو لوگ (ہماری آیتوں پر) ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُس میں اُن کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اُنھیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے(۵۷) (غامدی)

تفاسیر

نظم کلام

‘‘آیت۴۳ پر،جیساکہ ہم اوپراشارہ کرچکے ہیں،اصلاحِ معاشرہ سے متعلق احکام کاباب ختم ہوگیا۔آگے اس ردّ عمل کابیان آرہاہے جوان اصلاحات کے مخالفین کی طرف سے ظاہرہوااورساتھ ہی مسلمانوں کوایک عظیم مملکت کی بشارت سنائی جارہی ہے جومعاشرہ کے بلوغ اورکمال کاقدرتی نتیجہ ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۰۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

الم ترالی الذین اوتوانصیبا ۔۔۔۔

قرآن اوردوسرے آسمانی صحیفوں میں نسبت جزواورکل کی ہے

‘‘الم ترکاخطاب عموماً جمع اوراظہارتعجب وافسوس کے لیے آتاہے۔یہاں خطاب مسلمانوں سے ہے اوراوتوانصیبا من الکتب سے مرادیہودہیں۔ پچھلے آسمانی صحیفوں اورقرآن عظیم میں نسبت جزاورکل کی ہے۔قرآن مجیداﷲ تعالیٰ کی کامل کتاب ہے،دوسرے آسمانی صحیفے اس کے اجزاوحصص کی حیثیت رکھتے ہیں،اس وجہ سے جولوگ اس کتاب کامل کے اجزاء وحصص کے حامل بنائے گئے تھے ان سے سب سے زیادہ توقع اس بات کی ہوسکتی تھی کہ جب یہ کتاب کامل ان کے پاس آئے گی تووہ اس کاآگے بڑھ کرخیرمقدم کریں گے لیکن ان کے عجیب حال ہے کہ وہ اس ہدایت پرگمراہی کوترجیح دیتے ہیں اوراس کوقبول کرناتوالگ رہا،دل وجان سے ان کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اس پائی ہوئی صراط مستقیم کوکھوبیٹھو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۰۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

کتاب کا کچھ حصہ سے مراد

‘‘ اہلِ کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوّل تو انہوں نے کتابِ الہٰی کا ایک حصّہ گم کر دیا تھا۔ پھر جو کچھ کتاب ِ الہٰی میں سے اُن کے پاس موجود تھا اس کی رُوح اور اس کے مقصد و مدّعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۳۵۶، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

واﷲ اعلم باعدائکم ۔۔۔

‘‘ یہ مسلمانوں کے لیے تسکین وتسلی کاجملہ ہے۔مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے ان دشمنوں سے بے خبرنہیں ہے۔ان سے اوران کی چالوں اورشراتوں سے خوب واقف ہے۔وہ ان کی ہرشرارت کوناکام بنادے گا۔جس کاحامی وناصراﷲ ہواس کے لیے اﷲ کی حمایت ونصرت کافی ہے۔پس اپنی راہ پرآگے بڑھے چلواوراﷲ کی کارسازی اورمددپربھروسہ رکھو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۰۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

من الذین ھادوایحرفون۔۔۔۔

یہودکی ایک شرارت

‘‘یہ ان شرارتوں کی طرف اجمالاً اشارہ ہے جویہودی اشرارنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کولوگوں کی نگاہوں سے گرانے اوراسلام کوبے وزن اورحقیربنانے کے لیے کرتے تھے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۰۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یہ نہیں فرمایا کہ یہُودی ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ یہُودی بن گئے ہیں۔ کیونکہ ابتداء ً تو وہ بھی مسلمان ہی تھے، جس طرح ہر نبی کی اُمّت اصل میں مسلمان ہوتی ہے، مگر بعد میں وہ صرف یہودی بن کر رہ گئے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۳۵۷، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

یحرفو ن الکلم

‘‘اس کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ کتاب اللہ کے الفاظ میں ردّو بدل کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اپنی تاویلات سے آیات کتاب کے معنی کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے پیرووں کی صحبت میں آکر ان کی باتیں سُنتے ہیں اور واپس جا کر لوگوں کے سامنے غلط طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔ ’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۷، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

اچھے مجلسی الفاظ کااستعمال طنزکے طورپر

‘‘سمعنا واطعنا،اسمع غیرمسمع،اورراعنا وغیرہ الفاظ ،عرب کے مجلسی الفا ظ میں سے تھے جومتکلم کی تحسین وقدرافزائی،سامع کے اظہارذوق وشوق اورمخاطب کے اعتراف وقبول پردلیل ہوتھے۔جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں،بجاارشادہے،سرتسلیم خم ہے،سنیے ،کیاخوب بات فرمائی ہے، نادرنکتہ ہے،مکررارشادہو،پھرفرمائیے۔اسی طرح عرب میں بھی مذکورہ الفاظ وکلمات رائج تھے۔ یہ الفاظ اصلاً تواظہارتحسین یااعتراف وقبول کے لیے ہیں لیکن اگرکوئی گروہ شرارت اوربدتمیزی کرناچاہیے توذرازبان کوتوڑمروڑکر،تلفظ کوبگاڑکر،یالب لہجہ میں ذرامصنوعی اندازپیداکرکے بڑی آسانی سے تحسین کوتقبیح اوراعتراف واقرارکوطنزواستہزابناسکتا ہے۔اس سے متکلم کے وقارکوکوئی نقصان پہنچے یانہ پہنچے لیکن شرارت پسنداشخاص اسی طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔اب ان الفاظ کوکسی قدروضاحت کے ساتھ سمجھ لیجئے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۰۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

سمعنا واطعنا کا مفہوم

سمعنا واطعنا

‘‘سمعنا واطعنا کے لفظی معنی ہیں،ہم نے سُنا اوراطاعت کی،اہل عرب یہ اس موقع پربولتے تھے جب اپنے کسی بڑے،کسی سردار،کسی بادشاہ کے حکم وارشادپراپنی طرف سے امتثال امر کے لیے آمادگی اورمستعدی کااظہارکرناچاہتے۔عربی میں اس کے لیے طاعۃ کالفظ بھی ہے جوقرآن میں بھی استعمال ہواہے۔یہودی اشرارآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجالس میں جاتے تواپنی سعادت مندی اوروفاداری کی نمائش کے لیے سمعنا واطعنا توبات پرکہتے لیکن لب ولہجہ کے تصرف سے اس کوادااس طرح کرتے کہ اطعنا کوعصینا بنالیتے۔چونکہ دونوں کے حروف ہم آہنگ اورقریب المخرج ہیں اس وجہ سے اس تحریف میں ان کوکامیابی ہوجاتی۔اس طرح وہ تسلیم واطاعت کے جملہ کوکونافرمانی وسرکشی کے قالب میں ڈھال دیتے۔اورسمجھے والے ان کی اس شرارت پرکوئی گرفت بھی نہ کرسکتے اس لیے وہ بڑی آسانی سے یہ بہانہ بنا سکتے تھے کہ ہم نے سمعنا واطعناکہا ہے۔ظاہرہے کہ ایسی صورت میں شریف اورخوددارآدمی بات کوسن اورسمجھ کربھی خاموشی سے ٹال دینے ہی کوبہترخیال کرتاہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

اسمع غیرمسمع کامفہوم

‘‘اسمع غیرمسمع کے لفظی معنی ہیں،سنووہ بات جوپہلے سنائی نہیں گئی۔اس فقرے کااچھا محل یہ ہے کہ مجلس میں متکلم یاخطیب کی کئی حکیمانہ بات سن کرایک سامع دوسرے سامع کومتوجہ کرے کہ یہ دانشمندانہ اورحکیمانہ بات سنیے،یہ بات پہلی بارہمارے کانوں نے سنی ہے،اس سے پہلے یہ بات کبھی ہم نے نہیں سنی،ظاہرہے کہ یہ بات نہ صرف متکلم اورخطیب کی قدردانی کی دلیل ہے بلکہ دوسروں کواس کی قدردانی کے لیے تشویق وترغیب بھی ہے لیکن کوئی شخص ہوٹنگ(Hooting)کے اندازمیں باندازتمسخریہی بات کہے تواس کایہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ذرااس کی ناشنیدنی سنو’یہ کیسی بے پرکی اُڑارہاہے،ایسی بات کاہے کو کبھی کسی نے سنی ہوگی!ظاہرہے کہ محض اندازاورلب ولہجہ کی تبدیلی نے اس نہایت اعلیٰ فقرے کوطعن وطنزکاایک زہرآلودنشتربنادیالیکن اس پربھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی اس لیے کہ گرفت ہوتوکہنے والاصفائی پیش کرسکتا ہے کہ میں نے طنزکے طورپرنہیں بلکہ تحسین کے طورپرکہاہے۔چونکہ اس فقرے میں طنزکاپہلوغیرمسمع کے الفاظ سے پیداہوتاتھا اس لیے قرآن نے اس کی یہ نوک توڑدی اورہدایت کی کہ صرف اسمع کہاجائے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یعنی اور جب یہود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں سن نہ سنایا جائیو تو یعنی ایسے کلام بولتے جس کے دو معنے ہوں ایک معنی کے اعتبار سے دعاء یا تعظیم ہو تو دوسرے معنی کی رو سے بد دعاء اور تحقیر ہو سکے۔ چنانچہ یہ کلام بظاہر دعائے خیر ہے۔ مطلب یہ کہ تو ہمیشہ غالب اور معزز رہے کوئی تجھ کو برُی اور خلاف بات نہ سنا سکے اور دل میں نیت یہ رکھے کہ تو بہرا ہو جائیو۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص۱۱۳، پاک کمپنی لاہور)

‘‘یعنی دَورانِ گفتگو میں جب وہ کوئی بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں اِسْمَعْ (سُنیے)اور پھر ساتھ ہی غَیْرَ مُسْمَعٍ بھی کہتے ہیں جو ذو معنی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ ایسے محترم ہیں کہ آپ کو کوئی بات خلاف مرضی نہیں سُنائی جاسکتی۔ دُوسرا مطلب یہ ہے کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں کوئی سُنائے۔ ایک اور مطلب یہ ہے کہ خدا کرے تم بہرے ہو جا ِؤ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۳۵۷، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

راعنا کا مفہوم

‘‘راعنا کے لفظی معنی ہیں،ذراہماری رعایت فرمائیے۔اس لفظ کااچھامحل استعمال یہ ہے کہ اگرمخاطب نے متکلم کی بات اچھی طرح سنی یاسمجھی نہ ہویابات ایسی لطیف اورحکیمانہ ہوکہ خودمتکلم کی زبان سے اس کومکررسنناچاہے تواس کودوبارہ متوجہ کرنے کے لیے جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں پھرارشادہو،پھرفرمائیے،اسی طرح عربی میں راعنا کہتے ہیں۔یہ لفظ سامع کے ذوق وشوق اوراس کی رغبت علم کی دلیل ہے۔لیکن یہودی اشرار‘لی لسان’یعنی زبان کے توڑمروڑکے ذریعہ سے اس کوبھی طنزکے قالب میں ڈال لیتے تھے۔اس کی شکل یہ ہوتی کہ راعنا میں‘ع’کے کسرہ کوذرادبادیجئے تویہ لفظ راعینابن جائے گا اوراس کے معنی ہوں گے ہماراچرواہا۔قرآن نے یہودکی اس شرارت کی وجہ سے اس لفظ کوسرے سے مسلمانوں کے مجلسی الفاظ ہی سے خارج کردیااوراس کی جگہ انظرناکے استعمال کی ہدایت فرمائی جس کے معنی میں ذراہمیں مہلت عنایت ہو،ذراپھرتوجہ فرمائیے۔یعنی مفہوم کے لحاظ سے یہ ٹھیک ٹھیک راعنا کے قائم مقام ہے اوراس لہجہ کے بگاڑسے کسی بگاڑکے پیداکیے جانے کاکوئی موقع نہیں ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۰، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

نبی پرطعن خود،دین پرطعن ہے

‘‘اس آیت میں ایک اورنکتہ بھی قابل توجہ ہے۔وہ یہ کہ یہودکی یہ تمام شرارتیں تھیں تونبی صلی اﷲ علیہ وسلم پرطنز کی نوعیت کی لیکن قرآن نے ان کو طعنافی الدین کے الفاظ سے تعبیرفرمایا ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصودہے کہ نبی درحقیقت مجسمہ دین اورمظہرشریعت ہوتاہے اس وجہ سے اس پرطعن خوددین پرطعن ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۳۱۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

یایھاالذین اوتوالکتب۔۔۔۔

چہروں کومسخ کردینے کی علت

‘‘طمس الشی کے معنی ہیں کسی شے کے آثاروعلامات کومٹادینا۔چہروں کومٹادینے کے یہ معنی ہیں کہ یہ جوآنکھ،کان،ناک اورمنہ کے نشانات ہیں یہ سب ہٹاکربرابرکردیے جائیں اس لیے کہ اﷲ نے یہ قوتیں نہایت اعلیٰ مقصد سے بخشی تھیں لیکن جب اُن سے وہ کام نہیں لیاگیا جس کے لیے یہ عطاہوئی تھیں بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ سب چیزیں ٹھوکرکھانے کے گڑھے بن کررہ گئی ہیں توآخریہ گڑھے کیوں باقی رکھے جائیں یہ بھرکیوں نہ دیے جائیں؟یہ ملحوظ رہے کہ سورۃ بقرہ میں ان لوگوں کوصم،بکم عمی کہاگیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب سب کچھ رکھتے ہوئے یہ گونگے ،بہرے اوراندھے بن چکے ہیں تویہ اسی کے سزاوارہیں کہ یہ نشانات بھی مٹا ہی دیے جائیں۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

من قبل ان نطمس

‘‘اُردو ہی کے محاورہ میں ہم برابر کہتے رہتے ہیں کہ قبل اس کے دوزخ میں پڑو گناہوں سے توبہ کرلو۔ اسی طرح آیت کا خلاصۂ مفہوم صرف اس قدر ہے کہ طمس ومسخ کی سزاؤں سے بچنے کے لیے قرآن اور صاحب ِ قرآن کی تصدیق کرلو۔’’ (تفسیرماجدی ،ج۱ ،ص ۷۴۴، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

‘‘ اہلِ زبان صلاحیتوں کے مسخ ہوجانے کے لیے بھی طمس کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ بیضاوی، قرطبی اور دوسرے جلیل القدر مفسرین نے اس کا یہ مفہوم بھی بیان کیا ہے یعنی یہود جن پر اسلام اور پیغمبرؐاسلام کی صداقت روزِ روشن کی طرح عیاں تھی اور پھر بھی وہ انکار پر مُصر تھے اُنھیں تنبیہ کی جارہی ہے کہ باز آجاؤ۔ یہ ضد اچھی نہیں۔ اور اگر تم حق کے سامنے جھک نہ گئے تو یاد رکھو حق پذیری کی صلاحیت سے ہی محروم کر دیئے جاؤ گے ۔ تمہاری آنکھیں دیکھ تو رہی ہوں گی لیکن حق کو پہچان نہیں سکیں گی۔ تمہارے کان سن تو رہے ہوں گے لیکن حق بات کو نہیں سنیں گے۔ ’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص۳۵۱، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

وجوھاً کے نکرہ لانے کی بلاغت

‘‘وجوھاکی تنکیرمیں بھی بڑی بلاغت ہے۔یہ تنکیرنفرت وکراہت کے اظہارکے لیے ہے اوپروالی آیت میں ان پرلعنت کاذکرہوچکاہے۔اس تنکیرسے اس امرکااظہارمقصودہے کہ یہ ملعون چہرے اس درجہ قابل نفرت ہیں کہ متکلم تعین کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرنابھی پسندنہیں کرتا۔چنانچہ وجوھھم نہیں کہابلکہ ان سے منہ پھیرکروجوھا کہا۔اس قسم کی تنکیرافلایتدبرون القران ام علی قلوب اقفالھا(۴۲محمد)میں لفظ قلوب میں بھی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

فنردھا علی ادبارھا کامفہوم

‘‘فنردھا علی ادبارھا اسی اوپروالی بات کی تفصیل ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب ان کے چہرے اورگدی میں کوئی فرق ہی نہیں،جس طرح پیچھے کاحصہ سپاٹ ہے اسی طرح عملاً آگے کاحصہ بھی سپاٹ ہی ہے تویہ آگے کاحصہ بھی پیچھے ہی کی طرف کیوں نہ موڑدیاجائے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘بعض علماء نے وجوہ کا معنی چہروں کی بجائے رؤساء کیا ہے یعنی ہم تمہارے سرداروں کے چہرے بگاڑ دیں گے یعنی اب اُن کے چہروں پر جو رونق اور تروتازگی ہے وہ چھین لی جائے گی۔ ان کے چہرے بے نور اور بے رونق ہوکر رہ جائیں گے جس پر نامرادی اور ناکامی کی گرد پڑ رہی ہوگی۔ اور نردھا کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اُنھیں مدینہ طیبہ سے جلاوطن کرکے پھر سینا کے لیے بے آب و گیاہ صحرا میں لوٹا دیا جائے گا۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۱، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

 ان نطمس وجوہا فنردہا علی ادبارہا

‘‘ف ہمیشہ تعقیب ہی کے لیے نہیں آتی کبھی تفصیلِ اجمال کے لیے بھی آتی ہے، چنانچہ یہاں اسی غرض سے ہے اور یہ دوسرا فقرہ پہلے فقرہ کی تفصیل و توضیح کر رہا ہے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۴۴، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

یہودکو آخری دھمکی

‘‘یہ آیت یہودکے لیے دعوت کی نہیں بلکہ تہدیدووعیدکی آیت ہے۔دعوت کاذکراس میں محض اتمام حجت کے طورپرہواہے۔مطلب یہ ہے کہ اب یہ آخری موقع ہے کہ تم سنبھلنا چاہوتوسنبھل جاؤ۔یہ موقع نکل گیا توپھریہ کبھی میسرنہ آئے گابہترہے کہ اس کتاب پرایمان لاؤجوتمہاری اپنی کتاب کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتی ہوئی اتری ہے۔ورنہ یادرکھوکہ اب تمہارے لیے وہ وقت آپہنچا ہے کہ تمہارے چہرے بگاڑدیے جائیں یاتمہارے اوپربھی اسی طرح کی لعنت کردی جائے جس طرح کی لعنت سبت والوں پرکردی گئی کہ وہ ذلیل بندرہوکررہ گئے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وہ لعنت جس کے یہودمستحق تھے

‘‘رحمت کی طرح لعنت اورنقمت کے بھی مختلف مدارج ہوتے ہیں۔یہاں ان کوجس درجے کی لعنت کی دھمکی دی گئی ہے یہ وہ لعنت ہے جس کے وہ فی الواقع اپنی شرارتوں کی وجہ سے مستحق بن چکے تھے ۔اگر اللہ تعالی نے اس سے کم درجے کی لعنت ان پرکی تویہ ان کوگویاتھوڑی سی مہلت دی گئی اورہرمہلت جوکسی قوم کوملتی ہے اگروہ اس کی قدرنہیں کرتی تویہ اس کے اخروی عذاب میں زیادتی کاباعث ہوتی ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

عمل اورسزامیں مشابہت

‘‘یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے مجھے بارباریہ خیال ہوتاہے کہ چہروں کوبگاڑدینے کی دھمکی جوان کودی گئی اس میں عمل اورسزاکی مشابہت پائی جاتی ہے۔اوپروالی آیت میں ان کی یہ حرکت جوبیان ہوتی ہے کہ بنانے اورالفاظ کے بگاڑنے کوانہوں نے ہنرسمجھ رکھاہے اس کی بنا پروہ مستحق ہوئے کہ واقعی ان کے چہرے مسخ ہی کردیے جائیں ۔علی ہذاالقیاس جنہوں نے حق سے من موڑنے ہی کوشیوہ بنالیاہے توو ہ سزاوارہیں کہ ان کے چہرے پیچھے ہی کی طرف الٹ دیے جائیں۔وکان امراﷲ مفعولا میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ آدمیوں کے چہروں کوگدیوں کی طرح سپاٹ کردینا،ان کواُلٹ دینایاان کومسخ کرکے بندروں کی شکل کاکردیناخداکے لیے کوئی مشکل کام ہے۔اس کے کسی حکم اوراس کے وقوع میں کوئی فاصلہ نہیں ادھرحکم ہواادھراس کانتیجہ موجود۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

طمس و مسخ کب ہوا

‘‘یہ طمس و مسخ کب ہوا؟ بعض نے کہا کہ یہ عذاب قیامت سے قبل یہود پر ہو گا بعض نے کہا یہ عذاب اس لیے واقع نہیں ہوا کہ ان میں سے بعض لوگ ایمان لے آئے تھے حضر ت تھانوی نے کہا کہ سرے سے یہ سوال ہی واقع نہیں ہوتا کیونکہ قرآن میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے معلوم ہو کہ اگر ایمان نہ لاؤ گے تو طمس ومسخ کا عذاب ضرور واقع ہو گا بلکہ احتمال ہے یعنی اگر ان کے جرم کو دیکھا جائے تو وہ اس سزا کے مستحق ہیں اوراگر عذاب نہ دین تو یہ ان کی رحمت ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۲۸، ادارۃ المعارف کراچی)

ان اﷲ لایغفران یشرک۔۔۔۔

توحید

‘‘دین کی نبیادتوحیدپرہے۔یہ صرف عقیدوںؒ میں سے ایک عقیدہ ہی نہیں ہے بلکہ سارے دین کے قیام وبقاکاانحصاراسی پرہے۔ جولوگ توحیدمیں رخنہ پیداکردیتے ہیں وہ اصلی دین کوہدم کردیتے ہیں۔چنانچہ ان کے دوسرے کام بھی ،جوبظاہردینداری کے ہوں،بالکل بے سودہوکررہ جاتے ہیں۔اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ شرک کومعاف نہیں فرمائے گالیکن دوسرے گناہوں کوجن کے لیے چاہے گا معاف فرمادے گا۔جن کے لیے چاہے گا،کی قیداس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے گناہوں کے معاملے میں بھی کسی کودلیرنہیں ہوناچاہیے اس لیے کہ ان کی معافی بھی اﷲ ہی مشیت پرمنحصرہے۔اس کی مشیت میں نہ توکسی دوسرے کوکوئی دخل ہے،نہ اس کی کوئی مشیت حکمت سے خالی ہے،علاوہ ازیں گناہوں کے معاملے میں دیدہ دلیری اورڈھٹائی بجائے خودبھی شرک کی ایک قسم ہے۔’’(تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۳۱۳، فاران فاونڈیشن لاہور)

 شرک کواﷲ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا

‘‘یہ تمہیداس حقیقت کوواضح کرنے کے لیے بیان ہوئی ہے کہ یہودجولعنت کے مستحق قرارپائے ہیں تواس کی وجہ یہ ہے کہ حامل کتاب ہوتے ہوئے انہوں نے دین کی جوبنیادہے وہی اکھاڑدی اوراس کی جگہ انہوں نے شرک کواختیارکرلیاہے۔شرک،اﷲ پرایک افترائے عظیم ہے جس کواﷲ تعالیٰ کبھی معاف فرمانے والانہیں ہے۔شرک کوافتراکہنے کی وجہ ہم دوسری جگہ واضح کرچکے ہیں کہ شرک کرنے والے اپنی تمام مشرکانہ حرکات کودین کی سنددینے کے لیے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان باتوں کاحکم ان کواﷲ تعالیٰ نے دیاہے۔ظاہرہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ پرصریح تہمت ہے اوراگرکوئی گروہ جواﷲ کے دین کی گواہی دینے پرمامورہو،وہ خداپرتہمت باندھنے کاپیشہ اختیارکرلے تووہ لعنت کے سوااورکس چیزکامستحق ہوسکتاہے!’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۳، فاران فاونڈیشن لاہور)

یہود کے تین قسم کے شرک

یہودکے مشرکانہ اعمال وعقائد

‘‘ایک یہ کہ یہ اپنے آپ کوایک برتراوربرگزیدہ گروہ سمجھتے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ یہ اﷲ کے محبوبوں کی اولاد اورخودخداکے محبوب اورچہیتے ہیں اس وجہ سے ان کے لیے خداکے ہاں کوئی بازپُرس یاسزانہیں ہے۔ان کے اعمال واخلاق خواہ کچھ ہوں،اوّل تویہ دوزخ میں ڈالے ہی نہیں جائیں گے،اگرڈالے بھی گئے تومحض تھوڑی مدت کے لیے۔اس گھمنڈ نے ان کو عمل اوراطاعت کی ذمہ داریوں سے بالکل فارغ کردیاہے اورانہوں نے اپنے آپ کوبندگی کے دائرے سے نکال کرالوہیت کے زمرے میں داخل کرلیاہے حالانکہ کہیں بھی اﷲ نے ان کوبرگزیدگی کی یہ سندعطانہیں فرمائی ہے ۔اپنی برتری کایہ عقیدہ جوانہوں نے گھڑاہے۔یہ ان کااپنا طبع زادہے۔اس کوخداسے جووہ منسوب کرتے ہیں تویہ خداپرجھوٹاافتراہے اوران کے مجرم ہونے کے لیے ،دوسرے جرائم سے قطع نظریہی جرم کافی ہے۔دوسرایہ کہ حامل کتاب ہوتے ہوئے یہ جبت اورطاغوت پرعقیدہ رکھتے اوراعمال سفلیہ کے قائل اوران پرعامل ہیں۔اعمال سفلیہ کا تعلق شیطانی قوتوں اور ارواح خبیثہ سے ہوتا ہے ۔انہی کویہاں طاغوت کہاگیاہے۔جولوگ ان اعمال کے درپے ہوتے ہیں اول تووہ ارواح خبیثہ کوبالذات موثرمانتے ہیں پھران سے تعلق پیداکرنے اوران کواپنے مقاصدمیں استعمال کرنے کے لیے ان کونہ صرف خلاف شرع بلکہ صریح مشرکانہ اعمال کاارتکاب کرناپڑتا ہے جس سے عقیدہ اورعمل دونوں یک قلم تباہ ہوکے رہ جاتے ہیں۔تیسرایہ کہ یہ لوگ اہل ایمان کے مقابل میں کفارومشرکین کی حمایت کرتے اوران کومسلمانوں سے زیادہ حق وہدایت پرسمجھتے ہیں۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کے بارے میں جو عقائد ہیں اس طرح کا کوئی عقیدہ کسی مخلوق کے لیے رکھنا یہ شرک ہے ۔اس کی کچھ تفصیل یہ ہے ۔ علم میں شریک ٹھہرانایعنی کسی بزرگ یا پیر کے ساتھ یہ اعتقاد رکھنا کہ ہمارے سب حال کی اس کو ہر وقت خبر ہے نجومی پنڈت سے غیب کی خبریں دریافت کرنا یا کسی بزرگ کے کلام میں فال دیکھ کر اس کو یقینی سمجھنا یا کسی کو دور سے پکارنا کہ اس کو خبر ہو گئی یا کسی کے نام کا روزہ رکھنا۔ اشراک فی التصرف یعنی کسی کو نفع یا نقصان کا مختار سمجھنا کسی سے مرادیں مانگنا روزی اور اولاد ومانگنا وغیرہ ۔ عبادت میں شریک ٹھہرانا یعنی کسی کو سجدہ کرنا ، کسی کے نام کا جانور چھوڑنا ، چڑھاوا چڑھانا ، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کی قبر یا مکان کاطواف کرنا ، خدا کے حکم کے مقابلے میں کسی دوسرے کے قول یا رسم کو ترجیح دینا، کسی کے روبرو رکوع کی طرح جھکنا، کسی کے نام پر جانور ذبح کرنا ، دنیا کے کاروبار کو ستاروں کی تاثیر سمجھنا اور کسی مہینہ کو منحوس سمجھنا وغیرہ۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۰ ، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘شرک کے تین مرتبے ہیں اور تینوں حرام ہیں:یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی انسان، جِنّ، شجروحجر کو اِلٰہ یقین کرنا یہی شرکِ اعظم ہے اور عہدِ جاہلیت کے مشرکین یہی شرک کیا کرتے تھے۔ شرک کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ کسی کے متعلق یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ مستقل طور پر اور بالذات اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی کام کرسکتا ہے اگرچہ اس شخص کو اِلٰہ نہ مانتا ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی کو عبادت میں شریک کرنا اور یہ ریا ہے اور یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔’’ ( ضیاالقرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۲، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘ دوسرے گناہوں کے معاملے میں بھی کسی کو دلیر نہیں ہونا چاہیے، اِس لیے کہ یہ بھی اُسی وقت معاف ہوں گے، جب خدا چاہے گا اور خدا کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے، اپنی حکمت اور اپنے قانون کے مطابق چاہتا ہے۔ اُس کی کوئی مشیت بھی الل ٹپ نہیں ہوتی۔ وہ علیم وحکیم ہے اور اُس کی یہ صفات اُس کی ہر مشیت کے ساتھ شامل رہتی ہیں۔’’ ( البیان ،از غامدی)

الم تر الی الذین یزکون انفسہم۔۔۔

‘‘ یہ آیت یہود و نصارٰی کے حق میں نازل ہوئی جو اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا اور اس کا پیارا بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہود و نصارٰی کے سوا کوئی جنت میں نہ داخل ہوگا اس آیت میں بتایا گیا کہ انسان کا دین داری اور صلاح و تقوٰی اور قرب و مقبولیت کا مدعِی ہونا اور اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا کام نہیں آتا۔’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۵۵، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

جبت اورطاغوت کامفہوم

‘‘جبت سے مراداعمال سفلیہ،مثلا سحر،شعبدہ،ٹونے ٹوٹکے،رمل جفر،فال گیری،نجوم،آگ پرچلنا اوراس قسم کی دوسری خرافات ہیں ہاتھ کی لکیروں کاعلم بھی اسی میں شامل ہے۔ یہوداپنے دورزوال میں کتاب الہٰی کوپس ِ پشت ڈال کربس انہی چیزوں کے ہوکررہ گئے تھے۔ان کے انبیاء نے نہایت دردانگیز الفاظ میں ان کی اس حالت پرنوحہ کیاہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۳۱۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘جبت اصل میں بت کا نام تھا لیکن بعد میں استعمال اللہ کے سوا دوسری عبادت کی جانے والی چیزوں پر بھی ہونے لگا۔حضرت عمر ؓفرماتے ہیں کہ جبت سے مراد سحر ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے مالک بن انس سے منقول ہے کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کی جاتی ہے ان سب کو طاغوت کہا جاتا ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۲، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘جِبْت کے اصل معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیزکے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت(جوتش)، فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہُورت اور تمام دُوسری وہمی و خیالی باتوں کو جبت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے النیاقۃ و الطرق والطیر من الجبت۔ یعنی جانوروں کی آوازوں سے فال لینا ، زمین پر جانوروں کے نشاناتِ قدم سے شگون نکالنا اور فال گیری کے دُوسرے طریقے سب جِبت کا مفہُوم وہی ہے جسے ہم اُردو زبان میں اوہام کہتے ہیں اور جس کے لیے انگریزی میں (Superstitions) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص۳۵۹، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘جبت لغت میں ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بیکار محض ہو۔ الذی لاخیر فیہ۔ اس کا اطلاق جادو، جادوگر، جوتش، رمل اور فال گری وغیرہ خرافات پر ہوتا ہے۔ حضور کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ارشاد ہے: الطرق والطیرۃ والعیافۃ من الجبت، (قرطبی، عن ابوداؤد)کنکریاں پھینک کر فال پکڑنے کو طرق کہتے ہیں اور الطیرۃ کا معنی بدشگونی ہے اور العیافۃ پرندوں کے ناموں، آوازوں اور ان کے گزرنے سے فال پکڑنے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ سب اَوہام پرستی کی اقسام ہیں۔ صاحب المنار لکھتے ہیں: فالمعنی الجامع للجبت ھو الدجل والاوھام والخرافات، یعنی مکروفریب، وہم پرستی اور خرافات کو جبت کہا جاتا ہے اور طاغوت کی تعریف ادب و لُغت کے امام جوہری نے یہ کی ہے: والطاغوت الکاھن والشیطان وکل راس فی الضلال، یعنی طاغوت کا اطلاق کاہن اور شیطان پر بھی ہوتا ہے اور اس شخص کو بھی طاغوت کہتے ہیں جو کسی گمراہی کا سرغنہ ہو۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۳، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

اہل ایمان کے بالمقابل مشرکین کی حمایت

‘‘یہوداسلام کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ کھلم کھلامشرکین مکہ کومسلمانوں پرترجیح دیتے تھے اوراپنی اس مخالفت کے لیے آڑاسلام کی ان تعلیمات اوررخصتوں کوبناتے تھے جوان کی بدعات یاان کی شریعت کے تشددات کے خلاف تھیں۔مثلاً حدث اورجنابت کی حالت میں،اسلام نے پانی میسرنہ آنے کی صورت میں ،تیمم کی اجازت دی تواس کوبھی انہوں نے فتنہ انگیزی کاذریعہ بنالیااوریہ کہناشروع کردیا کہ بھلاجومذہب جنابت کی حالت میں زمین پرہاتھ مارکرنمازتک پڑھ لینے کی اجازت دیتاہووہ بھی کوئی خدائی مذہب ہوسکتا ہے،ان سے زیادہ اچھا مذہب توان بت پرستوں کاہے۔یادرکھنا چاہیے کہ طہارت کے باب میں یہودکے فقہاء نے اتنے تشددات پیداکرلیے تھے کہ آدمی حالتِ جنابت میں بالکل ہی اچھوت بن کررہ جاتا تھا۔سیدنامسیح ؑ نے ان کی اسی طرح کی خردہ گیریوں پران کوسفیدی پھری ہوئی قبروں سے تشبیہ دی تھی کہ جس طرح قبروں کے اوپرسفیدی پھری ہوئی ہوتی ہے لیکن اندرسٹری گلی ہوئی ہڈیاں ہوتی ہیں اسی طرح یہ لوگ اوپرسے توبڑے اُجلے اورصاف معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کے اندرلوٹ کامال بھراہواہے۔یہودکی یہی ذہنیت مسلمانوں کے خلاف نمایاں ہوئی۔وہ مشرکین تک کوگواراکرنے کے لیے تیارتھے۔نہیں تیارتھے تومسلمانوں کوگواراکرنے کے لیے !ظاہرہے کہ جس طرح حق کی حمایت حق پرستی ہے اسی طرح شرک کی حمایت شرک پرستی ہے۔اس کے بعدفرمایا کہ یہ لوگ ہیں جن پراﷲ لعنت کردے ان کاکوئی مددگاران کے کچھ کام نہیں آسکتا۔جس پرخداکی لعنت ہوجائے خداکے ہاں سے اس کی جڑکٹ جاتی ہے۔اورجس درخت کی جڑکٹ جائے اسے کوئی لاکھ پانی دے اس کاہراہوناممکن نہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

و من یلعن اللہ فلن تجد لہ نصیرا

‘‘لعنت سے مراد اللہ کی رحمت سے دور ہونے کے ہیں شرعاً کفار کے حق میں اس کے معنی اللہ کر رحمت سے بعید ہونے کے ہیں اور مومنین کے حق میں ابرار و صلحا کے درجہ سے نیچے گرنے کے ہیں۔ کسی معین شخص کے لیے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے اس پر لعنت جائز نہیں اگر چہ وہ فاسق ہی ہو لیکن جن کی موت کفر پر ہونے کا تعین ہو مثلا ابو جہل وغیر ہ ان پر لعنت جائز ہے البتہ کسی کا نام لیے بغیر اس طرح لعنت کرنا کہ جھوٹوں پر لعنت یا ظالموں پر لعنت یہ جائز ہے ۔’’ (معارف القرآن ، ج۲ ، ص ۴۳۷، ادارۃ المعارف کراچی )

ام لھم نصیب من الملک ۔۔۔۔۔۔نقیرا

‘‘ملک سے مرادیہاں پرخدائی اقتدارواختیارہے اورالناس سے مرادیہاں مسلمان ہیں۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘نقیر، کھجور کی گٹھلی پر باریک سا جو نقطہ ہوتا ہے اس کو نقیر کہتے ہیں مراد ہے حقیر ترین چیز۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۵۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

یہود بنی اسمعیل کے حاسد تھے

‘‘یہود کا مسلمانوں کے خلاف ساراطوفان اس حسدکانتیجہ تھا جووہ مسلمانوں سے رکھتے تھے۔ان کویہ غم وغصہ تھا کہ نبوت توان کے خاندان کاحصہ تھی،یہ ان کے خاندان سے نکل کربنی اسمعیل ؑکے اندرکس طرح چلی گئی؟انہیں خبرنہیں ہے کہ نبوت اورشریعت اﷲ کافضل ہے،اﷲ جس کاچاہے اپنافضل بخشے۔اﷲ کے بخشے ہوئے فضل پرحسدکرنااوراس حسدکے بحران میں مخالفت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوناخوداﷲ سے لڑنے کے مرادف ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ دوسرے آدمی کی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا حسد کہلاتا ہے ۔ حسد خواہ دنیوی کما ل پر ہو یا دینی کمال پر دونوں حرام ہیں۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۳۹ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

زبان کاایک اسلوب

‘‘فقداتینا ال ابراہیم ۔۔۔۔شرطیہ اورانشائیہ جملوں میں جب اس طرح فقدآتاہے تواس سے پہلے کلام میں کچھ حذف ہوتاہے جس کی تفصیل بعدکے جملہ سے ہوتی ہے۔یہاں مدعایہ ہے کہ اگربنی اسمیعل پرحسدکی وجہ سے یہ لوگ اس نبی کی مخالفت کررہے ہیں توجتنا حسدکرنا ہے کرلیں،ہم نے توآل ابراہیم کوکتاب وحکمت بھی بخش دی اورایک عظیم بادشاہی بھی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص 5۳۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

آل ابراہیم سے مرادبنی اسمعیل ہیں

‘‘آل ابراہیم اگرچہ عام ہے لیکن یہاں مرادبنی اسمعیل ہیں۔قرینہ اس پردلیل ہے۔اس لیے کہ یہ بات بنی اسرائیل کوبطورسرزنش کہی جارہی ہے۔اس وجہ سے وہ اس میں شامل نہیں ہوسکتے اورجب وہ شامل نہیں ہوسکتے تواس کے واحدمصداق صرف بنی اسمعیل رہ جاتے ہیں۔ اسلوب بیان سے ایک تویہ بات ظاہرہوتی ہے کہ بنی اسرائیل یہ نہ خیال کریں کہ آل ابراہیم ؑ ہونے کاشرف انھی کوحاصل ہے۔یہ شرف بنی اسمعیل کوبھی حاصل ہے۔دوسری یہ کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اس وعدے کی طرف اشارہ ہے جواس نے حضرت ابراہیم ؑ سے فرمایا تھااورجوصریحاً حضرت اسمعٰیل،اوران کی اولادہی سے متعلق تھا۔تورات میں یہ وعدہ یوں مذکورہ ہے۔‘‘اورخداوندکے فرشتے نے آسمان سے دوبارہ ابراہام کوپکارااورکہاکہ خداوندفرماتا ہے کہ چونکہ تونے یہ کام کیاکہ اپنے بیٹے کوبھی جوتیرااکلوتا ہے دریغ نہ رکھااس لیے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی کہ میں تجھے برکت پربرکت دوں گا اورتیری نسل کوبڑھاتے آسمان کے تاروں اورسمندرکے کنارے کی ریت کے مانندکردوں گا اورتیری اولاددشمنوں کے پھاٹک کی مالک ہوگی اورتیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کہ تونے میرے بات مانی’’(کتاب پیدائش باب۲۲)تورات کے اس بیان سے صاف واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ وعدۂ برکت حضرت ابراہیم ؑ سے اس وقت فرمایا ہے جب انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعٰیل کی قربانی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس وجہ سے لازماً یہ وعدہ حضرت اسمعٰیل اورانہی کی نسل سے متعلق ہوسکتاہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

بنی اسمعٰیل کے لیے اﷲ تعالیٰ کے تین وعدے

‘‘اس وعدے میں تین باتوں کاذکرہے۔ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ ان کوایک عظیم امت بنائے گا۔دوسری یہ کہ ان کوعظیم فتوحات حاصل ہوں گی اوردشمنوں کے پھاٹکوں پران کاقبضہ ہوگا۔تیسری یہ کہ اس نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔یہ تینوں وعدے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پورے ہوئے۔آپؐ کی بعثت سے ایک عظیم امت ظہورمیں آئی،یہ امت دشمنوں کے پھاٹکوں کی مالک بنی ،اورآپ کی دعوت سے تمام عالم انسانی کودین وشریعت کی برکت نصیب ہوئی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وعدے کا ذکر بشکل واقعہ

‘‘ اسی وعدے کاعملی ظہورہے جس کی طرف آیت زیربحث میں اشارہ ہے۔اگرچہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہے اس وقت تک یہ وعدہ مکمل طورپرظاہرنہیں ہواتھالیکن اس کے پورے ہونے کے لیے فیصلہ الہٰی صادرہوچکاتھا اس وجہ سے اس کوتعبیراس طرح فرمایا ہے کہ گویایہ عملاً پوراہوچکا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

حکومت کتاب وحکمت کے ثمرات میں سے ہے

‘‘اس آیت سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی واضح ہوتاہے کہ سلطنت وخلافت کتاب وحکمت کے ثمرات ونتائج میں سے ہے۔جب اﷲتعالیٰ کسی قوم کوکتاب وحکمت کی نعمت عطافرماتاہے اوروہ قوم سچی شکرگزاری کے ساتھ اس کوقبول بھی کرلیتی ہے تواس کے معنی یہ ہیں کہ اس کوامامت وخلافت کامنصب بھی سونپ دیاگیا۔یہودکاساراحسدتواسی وجہ سے تھاکہ وہ جانتے تھے کہ اس قرآن کے ساتھ زمین کی بادشاہی بھی بندھی ہوئی ہے چنانچہ ان کے اسی حسدپرکاری ضرب لگانے کے لیے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف کتاب وحکمت ان کودی بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک عظیم سلطنت بھی ان کودی۔تمہارے حسدکے علی الرغم!’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ملکِ عظیم سے مراد دنیا کی امامت و رہنمائی اور اقوامِ عالم پر قائدانہ اقتدار ہے جو کتاب اللہ کا علم پانے اور اس علم و حکمت کے مطابق عمل کرنے سے لازماً حاصل ہوتا ہے۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ، ص ۳۶۱ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

فمنھم من امن بہ ومنھم من صدعنہ۔۔۔۔

بنی اسمٰعیل کوتنبیہ

‘‘یہ آیات بنی اسمٰعیل سے متعلق ہیں۔قرآن نے جہاں کہیں بنی اسمٰعیل پراپنے اس احسان عظیم(نبوت وامامت) کاذکرفرمایا ہے وہاں اس امرکی وضاحت ضرورفرمادی ہے کہ اس احسان کاتعلق ایمان واسلام سے ہے۔مجردخاندان ونسب سے نہیں ہے۔بنی اسمٰعیل میں سے بھی وہی لوگ اس انعام الہٰی میں حصہ دارہیں جواس قرآن اوراس نبی پرایمان لائے ہیں،جوایمان نہیں لائے وہ سب دوزخ میں جائیں گے،اسرائیلی ہوں یااسمعٰیلی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۳۱۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

کلما نضجت جلودہم بدلنھم۔۔۔

‘‘حضرت معاذ ؓ کلما نضجت جلو د ھم بدلنھمکی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ان کی کھال جل چکے گی تو اس کو تبدیل کیا جائے گا ، اور یہ کام اتنی سرعت سے ہو گا کہ ایک ساعت میں سو 100 مرتبہ کھال تبدیل کی جائے گی ۔ اور حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں ‘‘آگ ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ ان کو کھائے گی ، جب ان کو کھا چکے گی تو ان لوگوں کو کہا جائے گا کہ تم پھر پہلی حالت میں لوٹ جاؤ ، پس وہ لوٹ جائیں گے۔’’ ‘‘ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اہل جہنم میں سب سے کم عذاب کے اعتبار سے وہ آدمی ہو گا جس کے تلووں میں آگ کی دو چنگاریاں ہوں گی جن کی وجہ سے اس کا دماغ ہانڈی کی طرح کھولتا ہو گا۔ ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۴۴۱ ادارۃ المعارف کراچی)