سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : مارچ 2012

قسط ۸۷

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورۃ نساء

آیت ۳۴۔۔۳۵

 اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ ط فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰت‘’ حٰفِظٰت‘’ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ط وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ج فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلاً ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا ہ۳۴ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا ہ۳۵

تراجم

            ۱۔ مرد حاکم ہیں عورتوں پر، اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر، اور اس واسطے کہ خرچ کیے انھوں نے اپنے مال، پھر جو نیک کار ہیں، سو حکم بردار ہیں، خبرداری کرتیاں ہیں پیٹھ پیچھے، اللہ کی خبرداری سے۔ اور جن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو، تو اُن کو سمجھاؤ، اور جدا کرو سونے میں، اور مارو۔ پھر اگر تمھارے حکم میں آویں، تو مت تلاش کرو اُن پر راہ الزام کی۔ بے شک اللہ ہے سب سے اوپر بڑا(۳۴) اور اگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں، تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے، اور ایک منصف عورت والوں میں سے، اگر یہ دونوں چاہیں گے صلح، تو اللہ ملاپ دے گا ان میں۔ اللہ سب جانتا ہے خبر رکھتا(۳۵) (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ سو جو عورتیں نیک ہیں اطاعت کرتی ہیں مرد کی عدم موجودگی میں بحفاظت الٰہی نگہداشت کرتی ہیں اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بددماغی کا احتمال ہو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ا ن کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو اور ان کو مارو پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کرنا شروع کر دیں تو ان پر بہانہ مت ڈھونڈو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے رفعت اور عظمت والے ہیں(۳۴) اور اگر تم اوپر والوں کو ان دونوں میاں بیوی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو اگر ان دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہو گی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں اتفاق فرما دیں گے بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑے خبر والے ہیں(۳۵) (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمھیں اندیشہ ہو تو انھیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور انھیں مارو پھر اگر وہ تمھارے حکم میں آ جائیں تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ بلند بڑا ہے(۳۴) اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک پنچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک پنچ عورت والوں کی طرف سے یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان میں میل کر دے گا بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے(۳۵) (مولانااحمد رضا خانؒ)

            ۴۔ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضلیت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہو انھیں نصیحت کرو اور انھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انھیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے(۳۴) اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا، یقینا اللہ تعالیٰ پورے علم والا پوری خبر والا ہے(۳۵) (مولانا جونا گڑھیؒ)

            ۵۔ مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انھیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمھاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے(۳۴) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے(۳۵) (مولانا مودودیؒ)

            ۶۔ مرد عورتوں کے سرپرست ہیں، بوجہ اس کے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور بوجہ اس کے کہ انھوں نے اپنے مال خرچ کیے۔ پس جو نیک بیبیاں ہیں وہ فرمانبرداری کرنے والی، رازوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں بوجہ اس کے کہ خدا نے بھی رازوں کی حفاظت فرمائی ہے۔ اور جن سے تمھیں سرتابی کا اندیشہ ہو تو ان کو نصیحت کرو اور ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑو اور ان کو سزا دو۔ پس اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے(۳۴)اور اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ ہو تو ایک پنچ مرد کے لوگوں میں سے مقرر کرو اور ایک پنچ عورت کے لوگوں میں سے۔ اگر دونوں اصلاح کے طالب ہوئے تو اللہ ان کے درمیان سازگاری پیدا کر دے گا۔ بے شک اللہ علیم و خبیر ہے (۳۵) (مولانااصلاحیؒ)

            ۷۔ (میاں اور بیوی کے تعلق میں بھی اِسی اصول کے مطابق) مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ اور (اِسی اصول پر تم کو حق دیا گیا ہے کہ) جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، اُنھیں نصیحت کرو اور اُن کے بستروں پر اُنھیں تنہا چھوڑ دو اور (اِس پر بھی نہ مانیں تو) اُنھیں سزا دو۔ پھر اگر وہ اطاعت کا رویہ اختیار کریں تو اُن پر الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک، اللہ بہت بلند ہے، وہ بہت بڑا ہے( ۳۴)اور اگر (اِس کے بعد بھی صورت حال بہتر نہ ہو اور) تم میاں اور بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ محسوس کرو تو ایک حکم مرد کے لوگوں میں سے اور ایک عورت کے لوگوں میں سے مقرر کر دو۔ (اِس سے توقع ہے کہ) اگر (میاں اور بیوی)، دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک، اللہ علیم و خبیر ہے(۳۵) (جاوید احمدغامدی)

تفاسیر

الرجال قوامون علی النساء۔۔

‘قام علیٰ’ کا مفہوم

‘‘عربی میں قام کے بعد علی آتا ہے تو اس کے اندر نگرانی ،محافظت ،کفالت اور تولیت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے ۔‘قوٰ مون علی النساء ’ میں بالاتری کا مفہوم بھی ہے اور کفالت و تولیت کا بھی اور یہ دونوں باتیں کچھ لازم و ملزوم سی ہیں ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۹۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 گھر کی ریاست کا سر براہ مرد ہے اور اس کے دلائل

‘‘گھر کی چھوٹی سی وحدت بھی ،جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ،ایک چھوٹی سی ریاست ہے ۔جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقاء کے لیے ایک سر براہ کی محتا ج ہوتی ہے اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربرا ہ کی محتاج ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس ریاست میں سر براہی کا مقام مرد کو حاصل ہو یا عورت کو ؟قرآن نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے اور اس کے حق میں دو دلیلیں دی ہیں ۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے ۔مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے جن کی بنا پر وہی سزاوار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے ۔مثلا ً محافظت و مدافعت کی جو قو ت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤ ں مارنے کی جو استعداد و ہمت اس کے اندر ہے ،وہ عورت کی نہیں ہے ۔یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے ۔بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے ۔مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے ۔لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راحج ہے ۔دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے ۔یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھائی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یاتبرعاً نہیں اٹھائی ہے بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے ۔وہی اسکی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اسکا حق ادا کر سکتا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘قوّام ،قےّام ،قےّم،عربی زبان میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو ۔اسی لئے اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموما ًحاکم کیا گیا ہے ،یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں ،مراد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لئے عقلاً اور عر فاً یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سربراہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے وقت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے عورتوں اور بچوں کے مقابلہ میں اس کام کے لئے حق تعالیٰ نے مردوں کو منتخب فرمایا کہ ان کی علمی اور عملی قوتیں بہ نسبت عورتوں ،بچوں کے زیادہ ہیں ،اور یہ ایسا ہی معاملہ ہے کہ کو ئی سمجھدار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔سورۃبقرہ کی آیت میں وللرجال علیھن درجۃ۔فرماکر اور سورۂ نساء کی آیت مذکورہ میں الرجال قوامون علی النساء۔فر ماکر یہ بتلا دیا گیا کہ اگرچہ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم و واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ہیں ،اور دونوں کے حقوق باہم مماثل ہیں ،لیکن ایک چیز میں مردوں کو امتیاز حاصل ہے کہ وہ حاکم ہیں’’ (معارف القرآ ن ، ج۲ ، ص ۳۹۵،ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے ،جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا ۔بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کیں ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت ) کو نہیں دیں یا اس سے کم ہیں ۔اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرۃً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۲ ،ص ۳۴۹، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

مرد مشورہ کا پابند ہے

‘‘ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ حکومت جو مردوں کی عورتوں پر ہے محض آمریت اور استبداد کی حکومت نہیں ،بلکہ حاکم یعنی مرد بھی قانون شرع اور مشورہ کا پابند ہے ۔محض اپنی طبیعت کے تقاضے سے کوئی کام نہیں کر سکتا ۔اس کو حکم دیا گیا ہے کہ عاشروھن بالمعروف۔،یعنی عورتوں کے ساتھ معروف طریقہ پر اچھا سلوک کرو ۔اسی طرح دوسری آیت میں عن تراض منھماو تشاور۔ کی تعلیم ہے جس میں اس کی ہدایت کی گئی ہے کہ امور خانہ داری میں بیوی کے مشورے سے کام کریں ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۹۶ ، ادارۃ المعارف کراچی)

قوامیت کی وجہ

‘‘پہلی وجہ(وہبی فضیلت) یہ ارشاد فرمائی بمافضل اللہ بہ بعضھم علی بعض ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں خاص حکمت و مصلحت کے تحت ایک کو ایک پر بڑا ئی دی ہے ۔کسی کو افضل کسی کو مفضول بنایا ہے ۔جیسے ایک خاص گھر کو اللہ تعالیٰ نے اپنا بیت اللہ اور قبلہ قرار دیدیا ۔بیت المقدس کو خاص فضیلت دیدی ۔اسی طرح مردوں کی حاکمیت بھی ایک خداد اد فضیلت ہے ۔جس میں مردوں کی سعی و عمل یا عورتوں کی کوتاہی و بے عملی کا کوئی دخل نہیں ۔دوسری وجہ کسی اور اختیاری ہے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں ۔مہر ادا کرتے ہیں اور ان کی تمام ضروریات کی ذمہ داری اٹھا تے ہیں ۔ان دو وجہ سے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا گیا ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۳۹۷، ادارۃ المعارف کراچی)

حاکمیت کا استحقاق

‘‘آیت میں حاکمیت رجال کی دو وجہوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ کسی کو ولایت و حکومت کا استحقاق محض زور وتغلب سے قائم نہیں ہوتا ،بلکہ کام کی صلاحیت و اہلیت ہی اس کو حکومت کا مستحق بنا سکتی ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۳۹۷، ادارۃ المعارف کراچی)

عورت کی سربراہی؟

‘‘عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نصِ قطعی بالکل واضح ہے۔ جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے ، جس میں نبیﷺ نے فرمایا ہے ‘‘وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہو گی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیے ۔’’ (احسن البیان ،ص۱۰۸، دارالسلام لاہور)

مردوں کی فضیلت ،وجوہات

‘‘یعنی مردوں کو عورتوں پر عقل ودانائی اور جہاد اور نبوت و خلافت و امامت واذان و خطبہ و جماعت و جمعہ و تکبیر و تشریق اور حدود و قصاص کی شہادت کے اور ورثہ میں دونے حصے اور تعصیب اور نکاح و طلاق کے مالک ہونے اور نسبوں کے ان کی طرف نسبت کیے جانے اور نماز و روزہ کے کامل طور پر قبول ہونے کے ساتھ کہ ان کے لیے کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے کہ نماز و روزہ کے قابل نہ ہوں او رداڑھیوں اور عماموں کے ساتھ فضیلت دی۔ ’’ (خزائن العرفان ،ص ۱۵۰، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

مردوں کی افضلیت کے بیان کے لئے قرآن حکیم کا عجیب اسلوب

‘‘مختصر طریقہ یہ تھا کہ رجال اور نساء کی طرف ضمیریں عائد کر کے ‘‘فضلھم علیھن ’’ فرما دیا جاتا مگر قرآن کریم نے عنوان بدل کر ‘‘بعضھم علی بعض ’’کے الفاظ اختیار کئے ۔اس میں یہ حکمت ہے کہ عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا بعض اور جز قرار دے کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اگر کسی چیز میں مردوں کی فوقیت اور فضیلت ثابت بھی ہو جائے تو اس کی ایسی مثال ہے جیسے انسان کا سراس کے ہاتھ سے افضل ،یا انسان کا دل اس کے معدہ سے افضل ہے ۔تو جس طرح سر کا ہاتھ سے افضل ہونا ہاتھ کے مقام اور اہمیت کو کم نہیں کرتا ۔اسی طرح مرد کا حاکم ہونا عورت کے درجہ کو نہیں گھٹاتا ۔کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مثل اعضاء واجزا کے ہیں ۔مرد سر ہے تو عورت بدن ۔اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس عنوان سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ یہ افضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے ۔جہاں تک افراد کا تعلق ہے توبہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی و عملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اور صفت حاکمیت میں بھی مرد سے فائق ہو جائے ۔’’  (معارف القرآ ن ،ج۲ ، ص۳۹۷، ادارۃ المعارف کراچی)        

نیک بیبیاں وہ ہیں جو قوام کی اطاعت گزار اور راز دار ہیں

‘‘مرد کو قوامیت کے منصب پر سر فراز کر نے کے بعد نیک بیبیوں کا رویہ بتایا کہ وہ نہایت فرمانبر دار ی کے ساتھ اپنے قوام کی اطاعت کرتی ،اسکے رازوں اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرتی ہیں۔اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں ،اس کے بالکل برعکس آج اس بات کے لیے زور لگا رہی ہیں کہ وہ عورت بن کر نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مرد بن کر رہیں گی ۔وہ صالحات نہیں بلکہ فاسقات ہیں اور انھوں نے اس نظام کو بالکل تلپٹ کر دینا چاہا ہے جس پر عائلی زندگی کی تمام برکتوں اور خوشحالیوں کا انحصار ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘حٰفظٰت للغیب ’ کا مطلب

‘‘حٰفظٰت للغیب کا مطلب میں نے یہ لیا ہے کہ وہ رازوں کی حفاظت والی ہیں ۔ یہ معنی لینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ‘غیب ’ کا لفظ راز کے مفہوم کے لیے مشہور ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ترکیب کلام ایسی ہے کہ ‘‘پیٹھ پیچھے ’’ کے معنی لینے کی گنجائش نہیں ،تیسری یہ کہ عورت اور مرد کے درمیان رازوں کی امانت داری کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مسئلہ ہے ۔یہ دونوں ایک دوسرے کے قدرتی امین ہیں ۔بالخصوص عورت کا مرتبہ تو یہ ہے کہ وہ مرد کے محاسن و معائب ،اس کے گھردر ،اس کے اموال واملاک اور اس کی عزت وناموس ہر چیز کی ایسی رازدان ہے کہ اگر وہ اس کا پردہ چاک کرنے پہ آجائے تو مرد بالکل ہی ننگا ہو کر رہ جائے ۔اسی وجہ سے قرآن نے اس صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ۔اس کے ساتھ ‘بما حفظ اللہ ’کا جو اضافہ ہے اس سے اس صفت کی عالی نسبی کا اظہار مقصود ہے کہ ان کی اس صفت پر خدا کی صفت کا ایک پر تو ہے اس لیے خدا نے بھی اپنے بندوں اور بندیوں کے رازوں کی حفاظت فرمائی ہے ورنہ وہ لوگوں کا پردہ چاک کرنے پر آجاتا تو کون ہے جو کہیےں منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 ‘نشوز’ کی حقیقت

‘‘نشوز’ کے معنی سر اٹھانے کے ہیں لیکن اس لفظ کا غالب استعمال اس سرتابی و سرکشی کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو ۔اگر کسی عورت کے رویے سے ظاہر ہو کہ وہ سر کشی کی راہ پر چل پڑ ی ہے تو مرد چونکہ قوام ہے اس وجہ سے اس کو عورت کی تادیب کے لیے بعض تادیبی اختیارات دیے گئے ہیں ۔لیکن یہ ملحوظ رہے کہ قرآن نے یہ اختیارات صرف اس صورت کے لیے دیے ہیں جب ‘نشوز کا اندیشہ ہو ’ نشوز جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ،عورت کی ہر کوتاہی غفلت یا بے پروائی یا اپنی شخصیت اور اپنی رائے اور ذوق کے اظہار کی قدرتی خواہش کو نہیں کہتے ۔نشوز یہ ہے کہ عورت کوئی ایسا قدم اٹھاتی نظر آئے جو مرد کی قوامیت کو چیلنج کرنے والا اور جس سے گھر کی مملکت میں بدامنی و اختلال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ۔اگر ایسی صورت پیدا ہوتی نظر آئے تو مرد تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے اور قرآن کا انداز بیان دلیل ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘عورت کے نشوز کے اصل معنی یہ ہیں کہ شوہر کی نافرمانی پر کمربستہ ہوجائے۔گویا پُرمسرت ازدواجی زندگی کے بجائے گھر میں تصادم و بغاوت شروع ہوجائے’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص۷۳۲، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

‘‘اصل میں ‘نُشُوْزَ’ کا لفظ آیا ہے۔ اِس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں، مگر اِس کا زیادہ استعمال اُس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت سے اُس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بے پروائی یا اپنے ذوق او رراے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا، بلکہ اُس رویے کے لیے بولا جاتا ہے، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کر دینے پر آمادہ نظر آتی ہے’’ (البیان، از غامدی)

والتی تخافون نشوزہن

‘‘تخافُون۔خوف یہاں علم کے معنی میں ہے ، یعنی جب ان کی بغاوت و نافرمانی تجربہ میں آجائے، یہ نہیں کہ محض بدگمانیاں یا دُور کے احتمالات کو اس کے لیے کافی سمجھ لیا جائے۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۳۲، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

نشوز کی صورت میں مرد کے تادیبی اختیارات

‘‘پہلا مرحلہ یہ ہے کہ نصیحت و ملامت کرے ۔قرآن میں ‘وعظ’ کا لفظ ہے جس کے اندرفی الجملہ زجر و تو بیخ کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔اگر اس سے کام چلتا نظر نہ آئے تو دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ان سے بے تکلفانہ قسم کاخلا ملا ترک کردے تاکہ انھیں اندازہ ہوجائے کہ انھوں نے اپنی روش نہ بدلی تو اس کے نتائج دور رس ہو سکتے ہیں ۔اگر معاملہ اس سے بھی بنتا نظر نہ آئے تو آخری درجے میں مرد کو جسمانی سزا دینے کا بھی اختیار ہے ۔لیکن یہ صرف اس حد تک ہونی چاہیے جس حد تک ایک معلم و مودب اپنے کسی زیر تربیت شاگرد کو دے سکتا ہے ۔آنحضرتﷺ نے ‘غیر مبرح ’ کے الفاظ سے اس کی حد واضح فرمادی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سزا ایسی نہ ہو کہ وہ کوئی پائدار اثر چھوڑ جائے۔ ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۲، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ حضرت ابن عباسؓ سے تو یہ تصریح مروی ہے کہ اگر مارنے کی نوبت آئے تو مسواک یا اس قسم کی ہلکی پھلی چیز سے مارے۔ آج کل جہلا اپنی بیویوں کو بھینسوں کی طرح پیٹتے ہیں ۔ اس کی اجازت قطعاً اسلام نے نہیں دی۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ، ص۳۴۳، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

اصلاح کے بعد پچھلی کدوتیں بھلا دی جائیں

‘‘مرد کے تادبیی اختیارا ت کی یہ آخری حد ہے ۔اگر اس کا نتیجہ مفید مطلب برآمد ہو ،عورت بغاوت کے بجائے اطاعت کی راہ پر آجائے ،تو پچھلی کدورتیں بھلا دینی چاہئیں ۔اس سے انتقا م لینے کے بہانے نہیں ڈھونڈ نے چاہئیں ۔مرد کو اپنی قوامیت کے زعم میں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا خدا ہے ۔جب وہ قیم السٰموٰت و الارض ہو کر ہم سب کے نشوز سے درگزر فرماتا اور توبہ و اصلاح کے بعد سب کی نافرمانیوں کو معاف کر دیتا ہے تو بندے اپنی قوامیت کی لے حد سے آگے کیوں بڑھائیں ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۱، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

وان خفتم شقاق بینھما ۔۔۔

‘‘شقاق، یعنی ایسی کشمکش جسے وہ باہم نہ سلجھا سکیں’’ (تفسیر ماجدی ، ج۱ ،ص ۷۳۴، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

اصلا ح احوال کی ایک اور تدبیر

‘‘اگر مرد سارے جتن ،جوا وپر والی آیت میں مذکور ہوئے ،کرنے کے بعد بھی عورت کے ‘نشوز ’ پر قابو نہ پا سکا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خلیج اختلاف بہت وسیع ہے اور تعلقات ٹوٹنے کی حد پر پہنچے ہوئے ہیں ۔لیکن اس حد پر پہنچ جانے کے بعد بھی شریعت نے مرد کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ بیوی کو طلاق دے کر اس سے پیچھا چھڑالے ۔اسلام،میاں بیوی کے رشتے کو معاشرے کے استحکام کی بنیاد قرار دیتا ہے ۔اس وجہ سے اس کے ٹوٹنے کو صرف اسی صورت میں گوارا کرتا ہے جب اصلاح کی تما م ممکن تدابیریں اختیار کر چکنے کے بعد بھی یہ ثابت ہوجائے کہ اب اس کا جڑا رہنا ناممکن ہے یا مزید فساد کا باعث ہے ۔چنانچہ شوہر کی کوششوں کی ناکامی کے بعد اصلاح احوال کے لیے ایک دوسری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ۔یہ ہدایت میاں بیوی کے قبیلۂ برادری اور ان کے رشتہ داروں اور خیر خواہوں کو دی گئی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے اثرات سے کام لے کر اس بگاڑ کی اصلا ح کی کوشش کریں ۔اس کی عملی شکل یہ بتائی کہ ایک پنچ میاں کے رشتہ داروں میں سے منتخب کیاجائے ،دوسرابیوی کے خاندان میں سے یہ دونوں مل کر اصلاح کی کوشش کریں ۔بسا اوقات فریقین جس جھگڑے کو خود طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے دوسرے خیر خواہوں کی مداخلت سے وہ طے ہو جاتے ہیں ۔فریقین کو ان کی غیر جانبداری اور خیر خواہی کا احترام بھی کرنا پڑتا ہے اور بے جا ضد پر دوسروں کی ملامت کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ۔اس وجہ سے یہ شکل زیادہ موثر اور نتیجہ خیز ہوتی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۳، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ان یرید اصلاحا یوفق اللہ بینھما

میاں اور بیوی کو ترغیب مصالحت

‘‘ان یرید آاصلاحا یوفق اللہ بینھما میں مراد اگرچہ حکمین بھی ہوسکتے ہیں لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ اس سے مراد میاں بیوی ہی ہیں یعنی اگر یہ دونوں اپنی ضد چھوڑ کر اصلاح احوال کے طالب ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں ساز گاری پیدا کر دے گا ۔یہ در حقیقت نہایت بلیغ اسلوب سے میاں بیوی کو تشویق و ترغیب ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور افتراق کے بجائے خدائے کریم کا رساز کی طرف سے سازگاری کے طالب بنیں ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۹۴، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘دونوں سے مراد ثالث بھی ہیں اور زوجین بھی ۔ہر جھگڑے میں صلح ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ فریقین بھی صلح پسند ہوں اور بیچ والے بھی چاہتے ہوں کہ فریقین میں کسی طرح صفائی ہو جائے ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۲ ،ص۳۵۰، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

دوسرے نزاعات میں بھی حکم کے ذریعہ مصالحت کرائی جائے

‘‘حضرات فقہاء نے فرمایا ہے کہ باہم صلح کرانے کے لیے دو حکموں کے بھیجنے کی یہ تجویز صرف میاں بیوی کے جھگڑوں میں محدود نہیں ،بلکہ دوسرے نزاعات میں بھی اس سے کام لیا جا سکتا ہے او ر لینا چاہیے خصوصاً جب کہ جھگڑنے والے آپس میں عزیز رشتہ دار ہوں ۔کیونکہ عدالتی فیصلوں سے وقتی جھگڑا تو ختم ہو جاتا ہے مگر وہ فیصلے دلوں میں کدورت و عداوت کے جراثیم چھوڑ جاتے ہیں جو بعد میں نہایت ناگوار شکلوں میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔حضرت فاروق اعظم ؓ نے اپنے قاضیوں کے لیے یہ فرمان جا ری فرما دیا تھا کہ :ردوا القضاء بین ذوی الارحام حتیٰ یصطلحوا فان فصل القضاء یورث الضغائن ۔(معین الحکام ،ص ۲۱۴)ترجمہ؛‘‘رشتہ داروں کے مقدمات کو انہی میں واپس کر دو تاکہ وہ خود برادری کی امدادسے آپس میں صلح کی صورت نکال لیں ،کیونکہ قاضی کا فیصلہ دلوں میں کینہ و عداوت پیدا ہونے کا سبب ہو تا ہے ’’۔غرض ان دو آیتوں میں انسان کی خانگی اور عائلی زندگی کا ایک ایسا جامع اور مکمل نظام ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر اس پر پورا عمل ہو جائے تو دنیا کے اکثر جھگڑے اور جنگ و جدال مٹ جائیں ۔آخر میں پھر اس عجیب و غریب قرآنی نظام محکم پر ایک اجمالی نظر ڈالئیے ۔جو اس نے گھریلو جھگڑوں کے ختم کرنے کے لیے دنیا کو دیا ہے ۔(۱) گھر کا جھگڑا گھر ہی میں تدریجی تدبیروں کے ساتھ چکا دیا جائے ۔(۲) یہ صورت ممکن نہ رہے تو حکام یا برادری کے لوگ دو حکموں کے ذریعہ ان میں مصالحت کرا دیں تاکہ گھر میں نہیں تو خاندان ہی کے اندر محدود رہ کر جھگڑا ختم ہو سکے ۔(۳) جب یہ بھی ممکن نہ رہے تو آخر میں معاملہ عدالت تک پہنچاؤ ۔وہ دونوں کے حالات و معاملات کی تحقیق کرکے عادلانہ فیصلہ کرے ۔آخر آیت میں ان اللہ کان علیما خبیرا ۔فرماکر دونوں حکموں کو بھی متنبہ فر مادیا کہ تم کوئی بے انصافی یا کج روی کرو گے تو تم کو بھی ایک علیم و خبیر سے سابقہ پڑنا ہے ۔اس کو سامنے رکھو ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ،ص۴۰۵، ادارۃ المعارف کراچی)

ثالثوں کے اختیارات

‘‘اس امر میں اختلاف ہے کہ ثالثوں کے اختیارا ت کیا ہیں فقہاء میں ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ،البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہواس کے لیے سفارش کر سکتے ہیں ،ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے ۔ہاں اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کر دینے کے لیے اپنا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لیے واجب ہوگا ۔یہ حنفی اور شافعی علما کا مسلک ہے ۔دوسرے گروہ کے نزدیک دونوں پنچوں کو موافقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ،مگر علیحدگی کا فیصلہ وہ نہیں کر سکتے ۔یہ حسن بصری اور قتادہ اور بعض دوسرے فقہا کا قول ہے ۔ایک اور گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کر دینے کے پورے اختیارا ت ہیں ۔حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی جو نظیریں ہم تک پہنچی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ پنچ بطور خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے ۔البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت انہیں اختیارات دیدے تو پھر ان کا فیصلہ ایک عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہو گا ۔’’ (تفہیم القرآن ،ج۲ ،ص ۳۵۱، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ،۵۔ سید ابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی۔

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیاء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہریؒ ،۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی۔