سات تراجم ، نو تفاسیر

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : نورالقرآن

شمارہ : فروری 2012

قسط ۸۶

نورالقرآن

 سات تراجم ، نو تفاسیر

محمد صدیق بخاری

نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔

سورہ نسا ۲۹۔۔۳۳

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّا ٓ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ قف وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ہ۲۹ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا ط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ہ۳۰ اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْمًا ہ۳۱ وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْب‘’ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا ط وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْب‘’ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا ہ۳۲ وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ط وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَاٰ تُوْھُمْ نَصِیْبَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدًا ہ۳۳

تراجم

            ۱۔ اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق، مگر یہ کہ سودا ہو آپس کی خوشی سے۔ اور نہ خون کرو آپس میں، اللہ کو تم پر رحم ہے(۲۹) اور جو کوئی یہ کام کرے تعدی سے، اور ظلم سے، تو ہم اس کو ڈالیں گے آگ میں۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے(۳۰) اگر تم بچے رہو گے بری چیزوں سے، جو تم کو منع ہوئیں، تم ہم اتار دیں گے تم سے تقصیریں تمھاری، اور داخل کریں گے تم کو عزت کے مقام میں(۳۱) اور ہوس مت کرو، جس چیز میں بڑائی دی اللہ نے، ایک کو ایک سے۔ مردوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے۔ اور عورتوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے۔ اور مانگو اللہ سے اس کا فضل۔ اللہ کو ہر چیز معلوم ہے(۳۲) اور ہر کسی کے ہم نے ٹھہرا دئیے وارث اس مال میں، جو چھوڑ جاویں ماں باپ اور قرابت والے۔ اور جن سے اقرار باندھا تم نے، ان کو پہنچاؤ ان کا حصہ۔ اللہ کے روبرو ہے ہر چیز(۳۳) (شاہ عبدالقادرؒ)

            ۲۔ اے ایمان والو، آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کوئی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے ہو تو مضائقہ نہیں اور تم ایک دوسرے کو قتل بھی مت کرو بلاشہ اللہ تعالیٰ تم پر بڑے مہربان ہیں(۲۹) اور جو شخص ایسا فعل کرے گا اس طور پر کہ حد سے گزر جاوے اور اس طور پر کہ ظلم کرے تو ہم عنقریب اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ امر خدا تعالیٰ کو آسان ہے(۳۰) جن کاموں سے تم کو منع کیا جاتا ہے ان میں جو بھاری بھاری کام ہیں اگر تم ان سے بچتے رہو تو ہم تمھاری خفیف برائیاں تم سے دور فرما دیں گے اور ہم تم کو ایک معزز جگہ میں داخل کر دیں گے(۳۱) اور تم ایسے کسی امر کی تمنا مت کیا کرو جس میں اللہ تعالیٰ نے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور عورتوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ ثابت ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کی درخواست کیا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں(۳۲) اور ہر ایسے مال کے لیے جس کو والدین اور رشتہ دار لوگ چھوڑ جاویں ہم نے وارث مقرر کر دئیے ہیں اور جن لوگوں سے تمھارے عہد بندھے ہوئے ہیں ان کو ان کا حصہ (یعنی ایک ششم) دے دو بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر مطلع ہیں(۳۳) (مولانا تھانویؒ)

            ۳۔ اے ایمان والو، آپس میں دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمھاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے(۲۹) اور جو ظلم و زیادتی سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کو آسان ہے (۳۰)اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمھیں ممانعت ہے تو تمھارے اور گناہ ہم بخش دیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے (۳۱) اور اس کی آرزو نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پر بڑائی دی۔ مردوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی کمائی سے حصہ اور اللہ سے اس کا فضل مانگو بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے (۳۲) اور ہم نے سب کے لیے مال کے مستحق بنا دئیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت والے اور وہ جن سے تمھارا حلف بندھ چکا انھیں ان کا حصہ دو بے شک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے(۳۳) (مولانا احمد رضا خانؒ)

            ۴۔ اے ایمان والو، اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ، مگر یہ کہ تمھاری آپس کی رضا مندی سے ہو خرید و فروخت اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے(۲۹) اور جو شخص یہ (نافرمانیاں) سرکشی اور ظلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے(۳۰) اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمھارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے(۳۱) اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے۔ مردوں کا وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے ان کا وہ حصہ ہے جو انھوں نے کمایا، اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز کا جاننے والا ہے(۳۲) ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دئیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انھیں ان کا حصہ دو! حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر حاضر ہے(۳۳)( مولاناجونا گڑھیؒ)

            ۵۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے۔ اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے(۲۹) جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے(۳۰) اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جا رہا ہے تو تمھاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے(۳۱)اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے او رجو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے(۳۲)اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں۔ اب رہے وہ لوگ جن سے تمھارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انھیں دو، یقینا اللہ ہر چیز پر نگراں ہے(۳۳) (مولانا مودودیؒ)

            ۶۔ اے ایمان والو، اپنے مال آپس میں باطل ذریعے سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضامندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، اللہ تم پر بڑا مہربان ہے(۲۹) اور جو لوگ تعدی اور ظلم کی راہ سے ایسا کریں گے ہم ان کو جلد ایک سخت آگ میں جھونک دیں گے اور یہ اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے(۳۰) تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے تو ہم تم سے تمھاری چھوٹی برائیوں کو جھاڑ دیں گے اور تمھیں ایک عزت کے مقام میں داخل کریں گے (۳۱)جس چیز میں اللہ نے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ مردوں کو حصہ ملے گا اس میں سے جو انھوں نے کمایا او رعورتوں کو حصہ ملے گا اس میں سے جو انھوں نے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک اللہ ہر چیز سے باخبر ہے(۳۲) اور ہم نے والدین اور قرابت مندوں کے چھوڑے ہوئے میں سے ہر ایک کے لیے وارث ٹھہرا دیے ہیں اور جن سے تم نے کوئی پیمان باندھ رکھا ہو تو ان کو ان کا حصہ دو۔ بے شک اللہ ہر چیز سے آگا ہ ہے(۳۳) (اصلاحیؒ)

            ۷۔ ایمان والو،ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الاّ یہ کہ باہمی رضامندی سے تجارت کی جائے، اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرو۔اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے(۲۹) اور (یاد رکھو کہ) جو لوگ ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کریں گے، اُن کو ہم ضرور ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیں گے ، اور یہ اللہ کے لیے بہت ہی آسان ہے(۳۰)۔ (اِن گناہوں سے بچو، اِس لیے کہ) تمھیں جن چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے، اُن کے بڑے بڑے گناہوں سے اگر تم بچتے رہے تو تمھاری چھوٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ختم کر دیں گے اور تمھیں عزت کی جگہ داخل کریں گے(۳۱)اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دی ہے، اُس کی تمنا نہ کرو، (اِس لیے کہ) مردوں نے جوکچھ کمایا ہے، اُس کا حصہ اُنھیں مل جائے گا اور عورتوں نے جو کچھ کمایا ہے، اُس کا حصہ اُنھیں بھی لازماً مل جائے گا۔ (ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی تمنا ہو تو اِس میدان میں آگے بڑھو) اور (اِس کے لیے) اللہ سے اُس کے فضل کا حصہ مانگو۔ یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے(۳۲)۔ (یہی ترجیحات وراثت کی تقسیم میں بھی ملحوظ ہیں) اور والدین اور قرابت مندوں کے چھوڑے ہوئے مال میں (اِنھی کے مطابق) ہم نے ہر ایک کے لیے وارث ٹھیرا دیے ہیں۔ (اِن میں تبدیلی کی کوشش نہ کرو)، رہے وہ لوگ جن سے تمھارے عہد و پیمان ہوں تو اُن کا حصہ اُنھیں دو۔ (اِس میں، البتہ کسی حق دار کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہونا چاہیے)اِس لیے کہ اللہ ہر چیز پر نگران ہے(۳۳) (غامدی)

تفاسیر

‘‘مذکورہ آیتوں میں عام انسانوں کے جان و مال کی حفاظت اور ان میں ہر ناجائز تصرف کرنے کی ممانعت کا بیان ہے ،خواہ وہ انسان مرد ہو ں یا عورتیں اور عزیز رشتہ دار ہوں یا غیر ،یہاں تک کہ مسلم ہوں یا وہ غیر مسلم جن سے ترک ِجنگ کا کوئی معاہدہ ہو چکا ہو ’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۷۶، ادارۃ المعارف کراچی)

یایھاالذین أمنوا لا تاکلوا اموالکم۔۔۔۔

حرمت ِ مال اور حرمت ِ جان میں نہایت گہرا رشتہ ہے

‘‘اس آیت میں باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے اور قتل نفس کو حرام ٹھہرایا ہے اور ان دونوں حرمتوں کو ایک ساتھ جمع کر دیا ہے ۔ان کو ایک ساتھ جمع کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ان دونوں میں بڑا گہرا رشتہ ہے ۔مال کی حرص اس کے حصول کے جائز و ناجائز طریقوں کی تمیز اُٹھا دیتی ہے اور پھر یہ بیماری لوگوں کو اس طرح اندھا کر دیتی ہے کہ اس کے لیے قتل و خون تک نوبت آ جاتی ہے ۔ اس باہمی رشتے کی وجہ سے ایک دوسرے کے مال اور ایک دوسرے کی جان دونوں چیزوں کی حرمت کی یکساں تاکید فرمائی ہے ۔حرمۃ مالہ کحرمتہ دمہ (مومن کا مال بھی اسی طرح محترم ہے جس طرح اس کی جان محتر م ہے )۔ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

کسی معاملت کے لیے فریقین کی حقیقی رضا مندی شرط ہے

‘‘ معاملت اور لین دین کی بنیاد جب حقیقی باہمی رضامندی پر ہو تب ہی اس سے جو منافع ہوتا ہے وہ جائز ہوتا ہے اور اگر اس میں کوئی دھوکا پایا جاتا ہے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہے تو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہو لیکن یہ ‘‘اکل اموال بالباطل ’’کے حکم میں داخل ہے ۔اسی بنا پر معاملت اور تجارت کی وہ تمام شکلیں اسلام میں ناجائز قرار پائیں جن میں ضرر یا غرر کا شائبہ ہے ۔ربوا اس کاروبار کی ایک قبیح ترین شکل ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ جس طرح باطل طریقہ سے غیر کا مال کھانا جائز نہیں ،خود اپنا مال بھی باطل طریق سے خرچ کرنا جائز نہیں مثلاًایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف ِ بے جا ہیں ،وہ بھی آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہے ۔عرف عام میں کسی کے مال میں تصرف کرنے کو اس کا کھانا ہی بولا جاتا ہے ،اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو ،لفظ ‘‘باطل ’’ جس کا ترجمہ‘ناحق ’’ سے کیا گیا ہے ۔عبداللہ بن مسعود اور جمہور صحابہ کے نزدیک تما م ان صورتوں پر حاوی ہے جو شرعاً ممنوع او رناجائز ہیں ،جس میں چوری ،ڈاکہ ،غضب ،خیانت ،رشوت اور سود و قمار تمام معاملات فاسدہ میں داخل ہیں ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۷۷، ادارۃالمعارف کراچی)

 باطل طریقہ سے مال کھانے کی تشریح

‘‘قرآن کریم نے ایک لفظ ‘‘بالباطل ’’ فرما کر تمام ناجائز طریقوں سے حاصل کئے ہوئے مال کو حرام قرار دیدیا۔لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہو جائے تو اس طرح دوسرے کا مال حاصل کرنا اور اس میں مالکانہ تصرفات کرناجائز ہے ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۷۸، ادارۃالمعارف کراچی)

پاکیزہ کمائی کے خاص شرائط

‘‘ حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ‘‘سب سے زیادہ پاک کمائی تاجروں کی کمائی ہے ،بشرطیکہ وہ جب بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں ،اور جب وعدہ کریں تو وعدہ خلافی نہ کریں ،اور جب ان کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں ،اور جب کوئی سامان (کسی سے )خریدیں تو (تاجروں کی عادت کے مطابق) اس سامان کو برا اور خراب نہ بتائیں ،اور جب اپنا سامان فرخت کریں تو (واقعہ کے خلاف ) اس کی تعریف نہ کریں ،اور جب ان کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو ٹلائیں نہیں ،اور جب ان کا قرض کسی کے ذمہ ہو تو اس کو تنگ نہ کریں ’’۔ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۷۹، ادارۃالمعارف کراچی)

دوسرے کا مال حلال ہونے کے لئے تجارت اور تراضی کی دو شرطیں

‘‘آیت کے اس جملہ میں تجارت کے ساتھ ‘‘عن تراض منکم ’’فر ما کر یہ بتلا دیا کہ جہاں تجارت ہی نہ ہو بلکہ تجارت کے نام پر جوا ،سٹہ ،یا ربوٰ اور سود کا معاملہ ہو یا مال ابھی موجود نہیں ،محض ذہنی قرار داد پر اس کو سودا کیا گیا ہو وہ بیع با طل اور حرام ہے ۔اسی طرح اگر تجارت یعنی مبادلہ اموال تو ہو لیکن اس میں فریقین کی رضا مندی نہ ہو وہ بھی بیع فاسد اور نا جائز ہے۔تشریح اس کی یہ ہے کہ ایک مال کا دوسرے سے تبادلہ کرنے کا نام تجارت ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک جانب مال ہو اور اس کے با لمقابل مال ہی نہ ہو تو وہ تجارت نہیں ،بلکہ فریب ہے ،سود کے معاملات کا یہی حال ہے کہ سود کی رقم ادھار کی میعاد کا معاوضہ ہوتا ہے اور یہ معیاد کوئی مال نہیں ،اسی طرح سٹہ ،جوا کہ اس میں ایک طرف تو مال متعین موجود ہے ،دوسری طرف مال کا ہونا یا نہ ہونا مشکوک ہے ۔اسی طرح وہ وعدے کے سودے جن میں مال ابھی تک وجود میں نہیں آیا ،اور اس کا سودا کر لیا گیا تو ایک طرف مال اور دوسری طرف موہوم وعدہ ہے ،اس لئے حقیقت کے اعتبار سے یہ تجارت ہی نہیں بلکہ ایک قسم کا دھوکہ فریب ہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں طرف سے مال اور تبادلہ مال تو ہو ،لیکن کسی ایک جانب سے رضا مندی نہ ہو ،یہ تجارت تو ہوئی مگر فاسد اور غلط قسم کی تجارت ہے ،اس لئے اس کو بیع فاسد کہا جاتا ہے اور ناجائز ہے ۔’’ (معارف القرآن ، ج۲ ، ۳۸۰ ، ادارۃ المعارف کر اچی)

شرط تراضی کی حقیقت، رضا مندی مجبوری سے نہ ہو

‘‘اگر طرفین سے تبادلہ مال بھی ہو اور بظاہر فریقین کی رضامندی بھی ،مگر و ہ رضا مندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہوتو یہ بھی ناجائز ہے ۔مثلا ً عام ضرورت کی چیزوں کو سب طرف سے سمیٹ کر کوئی ایک شخص یا ایک کمپنی اسٹاک کرے اور پھر اس کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ کر کے فروخت کرنے لگے ،چونکہ بازار میں دوسری جگہ ملتی نہیں ،گاہک مجبور ہے کہ مہنگی سستی جیسی بھی یہ فروخت کرے وہ اس کو خریدے ،اس صورت میں اگرچہ گاہک خود چل کر آتا ہے اور بظاہر رضامندی کے ساتھ خریدتا ہے ،لیکن اس کی یہ رضامندی درحقیقت ایک مجبوری کے تحت ہے ،اس لئے کالعدم ہے ۔اسی طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ معاشرت کی ایسی صورتیں پیدا کردے کہ وہ اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہو جائے ،تو گو معافی کے وقت وہ اپنی رضامندی کا اظہار کرتی ہے لیکن درحقیقت رضا مندی نہیں ہوتی یا کوئی آدمی جب یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دئیے نہیں ہوگا وہ رضامندی کے ساتھ رشوت دینے کے لئے آمادہ ہو تو چونکہ یہ رضامندی بھی درحقیقت رضامندی نہیں اس لئے شرعاً کا لعدم ہے ۔’’ (معارف القرآن ، ج۲ ، ۳۸۰ ، ادارۃ المعارف کر اچی)

‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ دوسروں کے مال ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ بلکہ فرمایا اپنے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ اس سے یہ حقیقت واضح کرنا مطلوب ہے کہ امت کے کسی فرد کا مال پرایا مال نہیں بلکہ اپنا ہی مال ہے۔ اس میں ناجائز تصرف کرنا دھوکا ، فریب سے اس کو ہڑپ کرنا اپنے آپ سے ہی دھوکہ کرنا ہے۔ ہاں اگر تم آپس میں تجارت کر و اور تجارت میں کسی کی سادہ لوحی یا مجبوری سے ناروا فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو بلکہ فریقین نے راضی خوشی سے لین دین کیا ہو ۔ او راس طرح تمہیں نفع حاصل ہو تو یہ نفع حلال ہے۔ عَن تَرَاض کے کلمات پر مزید غور فرمایئے۔ اسلام جس صاف ستھری تجارت کی اجازت دیتا ہے اس کے خدوخال آپ پر واضح ہو جائیں گے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۳۸، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘اِس سے مراد وہ طریقے ہیں جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہوں اور جن میں لین دین اور معاملت کی بنیاد فریقین کی حقیقی رضا مندی پر نہ ہو، بلکہ ایک کا مفاد ہر حال میں محفوظ رہے اور دوسرے کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُسے ضرر یا غرر کا ہدف بنایا جائے۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ رشوت، چوری، غصب، سود، جوا، غلط بیانی، تعاون علی الاثم، غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا، یہ سب اِسی کے تحت داخل ہیں۔ روایتوں میں بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی جن صورتوں سے منع کیا گیا ہے، وہ بھی اِسی کے تحت ہیں۔’’ (البیان، از غامدی)

ولا تقتلوا انفسکم

‘‘ ولا تقتلوا انفسکم ۔لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو ۔اس میں بالاتفاق مفسرین خود کشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرے ۔آیت کے پہلے جملے میں عام انسانوں کے مالی حقوق اور ان کی حفاظت کا بیان تھا ،اس جملہ میں ان کے جانی حقوق کی حفاظت کا بیان آگیا۔’’ (معارف القرآن ، ج۲ ، ۳۸۰ ، ادارۃ المعارف کر اچی)

لا تقتلو انفسکم کا مفہوم

‘‘ولا تقتلو انفسکم ‘بالکل’ لا تا کلوا اموالکم بینکم با لباطل’ کا ہم وزن ٹکڑا ہے یعنی نہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرو نہ ایک دوسرے کو قتل کرو ۔‘انفسکم ’ کا لفظ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ جو شخص معاشرہ کے اندر کسی قتل کا مرتکب ہوتا ہے وہ اپنوں ہی کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے اس لیے کہ معاشرہ کے تمام افراد اپنے ہی بھائی بند ہیں ۔‘المسلم اخوا لمسلم اور المسلمون کلھم اخوۃ’کے اصول پر ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے ۔اسی وجہ سے قرآن نے ایک کے قاتل کو سب کا قاتل قرار دیا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۵، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اصل الفاظ ہیں: ‘وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ’۔اِن میں ‘اَنْفُسَکُمْ’ کا لفظ بالکل اُسی طرح آیا ہے، جس طرح اوپر ‘اَمْوَالَکُمْ’ کا لفظ ہے، اِس لیے جن لوگوں نے اِس سے خودکشی کے معنی لیے ہیں، اُن کی راے عربیت کے خلاف ہے۔ اِس کے لیے اسلوب دوسرا ہونا چاہیے۔’’ (البیان ،از غامدی)

‘‘مسند ابوداؤد اور مسنداحمد، دونوں میں صحابی عمرو بن العاص سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حالتِ سفر میں سردی کی ایک شب میں انھیں غسل کی ضرورت لاحق ہوگئی، لیکن سردی کے مارے بجائے غسل کے انھوں نے صرف تیمم سے کام لیا اور اسی سے اپنے ساتھیوں کونماز پڑھا دی، اس کے بعد جب حضوؐر کا سامنا ہوا اور آپؐ نے امامتِ نماز بلاغسل پر جواب طلب فرمایا تو اسی شدید سردی کا عذر پیش کر کے یہی آیت (ولا تقتلو ا انفسکم )پڑھ دی۔ اس پر حضوؐر نے تبسم فرما کر سکوت اختیار کیا۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۲۶، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو)

خدا کی صفتِ رحمت کے تقاضے

‘‘ان اللہ کان بکم رحیما’ درحقیقت علت بیان ہوئی ہے ان ممانعتوں کی جن کاذکر اوپر ہوا یعنی جب تمھارا رب تمھارے اوپر مہربان اور رحیم ہے تو وہ کس طرح یہ پسند کر سکتا ہے کہ تم ایک دوسرے کے مال ہڑپ کرو اور ایک دوسرے کو قتل کرو ۔رؤف و رحیم رب تو یہی چاہے گا کہ تم آپس میں ‘رحما ء بینھم’ بن کر رہو ۔پھر یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ اگر اس کے برخلاف لوگ آپس میں ظلم و عدوان کے مرتکب ہوں تو یہ عین اس کی رافت ورحمت ہی کا تقاضا ہے کہ وہ عدل وانصاف کا ایک ایسا دن لائے جس ان لوگوں کو کیفر کردار کو پہنچائے جو اس کے مرتکب ہوئے ہوں ۔چنا نچہ آگے والی آیت اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص۲۸۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

 ‘عدوان ’ اور ‘ظلم ’ کا خاص مفہوم

‘‘عدوان ’اور ‘ظلم’ کے الفاظ جب ایک ساتھ آئیں تو جیسا کہ ہم دوسرے مقام پر لکھ چکے ہیں ،یہ گناہ کی دو الگ الگ صورتوں پر دلا لت کرتے ہیں ۔ایک صورت تو یہ ہے کہ کوئی شخص زور و زبردستی سے دوسرے کی جان یا مال پر دست درازی کرے ،دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی شخص دھاندلی سے کسی کا حق واجب ادا نہ کرے بلکہ اسکو دبا بیٹھے ۔پہلی صورت عدوان کی ہے دوسری ظلم کی ۔اگر یہ الگ الگ آئیں تو ایک دوسرے کے مضمون پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ناراً کا نکر ہ استعمال

‘‘ناراً ’ کا لفظ نکردہ تفخیم کے لیے استعمال ہوا ہے یعنی ایسے لوگوں کو ایک سخت بھڑ کتی ہوئی آگ میں ہم ڈالیں گے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

ایک لطیف نکتہ

‘‘وکان ذٰلک علی اللہ یسیرا’ (یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے ) ایک مخفی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔وہ یہ کہ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں لیکن خدا کی صفات عدل ور حم کا صیح تصور نہیں رکھتے وہ اپنے آپ کو الاؤنس دینے میں بڑے فیاض ہوتے ہیں ۔وہ بڑے بڑے جرائم کرتے چلے جاتے ہیں لیکن یہود کی طرح توقع یہی رکھتے ہیں کہ خدا ان پر بڑ ا مہربان ہے اس لیے سب بخش دے گا ۔قرآن نے یہود کا قول( سیغفرُ لنا ) جو نقل کیا ہے وہ اسی ذہنیت کی غمازی کررہا ہے ۔در حقیقت اس قماش کے لوگ شہ تو حاصل کرتے ہیں اس ڈھیل اور مہلت سے جو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق عطا فرماتا ہے لیکن ان کی حیلہ جو طبیعت آڑ ڈھونڈتی ہے خدا کی رحمت کی ۔حالانکہ خدا رحیم ہے تو آخر وہ ظالموں پر کیوں رحم فرمائے گا ۔اس کی رحمت کے اصلی مستحق تو وہ مظلوم ہیں جو ان کے ہاتھوں زندگی بھر ستائے گئے اور آہ بھی نہ کر سکے ۔اللہ تعالیٰ نے ایسی ہی ذہنیت رکھنے والوں کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ جو لوگ ظلم و عدوان کی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کو جہنم میں جھونک دینا خدائے رحیم پر ذرا بھی شاق نہیں گزرے گا اس لیے کہ وہ جس طرح رحیم ہے اسی طرح عادل بھی ہے اور یہ عدل بھی اس کی رحمت ہی کا تقاضا ہے ۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ، ص ۲۸۶، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘ظالموں کو آگ میں ڈال دینا خدا تعالیٰ کو دشوار نہیں بالکل سہل اور آسان ہے تو اب کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہم تو مسلمان ہیں دوزخ میں کیسے جاسکتے ہیں اللہ تعالیٰ مالک و مختار ہے اس کو عدل و انصاف سے کونسی چیز روک سکتی ہے’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۰۹ ، پاک کمپنی لاہور)

ان تجتنبوا ۔۔۔

اجتناب کا مفہوم

‘‘کسی ایسے کام کو جس کے دواعی اور اسباب موجود ہوں اسے اپنے ارادہ اور مرضی سے نہ کرنے کو اجتناب کہا جاتا ہے۔’’ (ضیا القرآن ،ج۱ ،ص ۳۳۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘کبائر ’اور ‘صغائر ’ سے مراد

‘‘ ہر وہ فعل جس کے لیے شارع نے کوئی حد مقرر کی ہو یا اس پر عذاب کی دھمکی دی ہو وہ گناہ کبیرہ ہے۔’’ (ضیا القرآن ، ج۱ ، ص ۳۳۹، ضیا ا لقرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘ نیکیوں اور بدیوں دونوں کی بڑائی چھٹائی کے ناپنے کے لیے پیمانہ ان کے اثرات و نتائج ہیں

‘‘سیاٰت ’کا لفظ چونکہ یہاں ‘کبائر ’ کے مقابل میں آیا ہے اس وجہ سے اس سے مراد صغایر یعنی چھوٹے گناہ ہیں جس طرح نیکیاں ،جن کا حکم دیا گیا ہے ،بڑی بھی ہیں اور چھوٹی بھی ،اسی طرح بدیاں ،جن سے روکا گیا ہے ،چھوٹی بھی ہیں بھی یہ چھوٹا اور بڑا ہونا اگرچہ حالات اور نسبتوں کے بدلنے سے تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے اس وجہ سے ان کی منطقی حد بندی ذرا مشکل ہے تاہم یہ ایسی چیز نہیں جس کا سمجھنا دشوار ہو ۔جس طرح ہجرت اور جہاد بھی نیکی ہے اور راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا بھی نیکی ہے لیکن دونوں میں بڑا فرق ہے اور اس فرق کو ہر شخص سمجھتا ہے ،اسی طرح کسی کا گھر لوٹ لینا بھی برائی ہے اور راستے میں کوئی گندی چیز پھینک دینا اور کسی غلط جگہ تھوک دینا بھی برائی ہے لیکن دونوں برائیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اس فرق کو بھی ہر شخص سمجھتا ہے ۔درحقیقت نیکیوں اور بدیوں دونوں کی بڑائی چھٹائی کے ناپنے کے لیے پیمانہ ان کے اثرات و نتائج ہیں ۔اگر ہماری نگاہ دوررس ہو اور ہم خواہشات نفس کی جانبداری سے بالاتر ہو کر حقائق پر غور کریں تو اس کے سمجھنے میں کوئی التباس پیش نہیں آسکتا ۔لیکن بسا اوقات ہوتا یہ ہے کہ عقل پر خواہشات ِ نفس کا ایسا غلبہ ہو جاتا ہے کہ پربت رائی بن جاتا ہے اور رائی پربت۔شریعت نے اس التباس سے بچنے کے لیے حرام بھی واضح کردئیے اور حلال بھی ۔لیکن ان کے درمیان کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں التباس پیش آسکتا ہے ۔ایسی چیزوں کے باب میں تقویٰ کا تقاضا تو یہی ہے کہ آدمی احتیاط کے پہلو کو اختیار کرے لیکن اگر بشر ی کمزوری سے کوئی غلطی صادر ہوگئی تو حدود حرام و حلال کے ملحوظ رکھنے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ اس کا میل جمنے نہیں دیتا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۷، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘بڑے گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جو قرآن کے اُن احکام عشرہ کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں جو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیات ۲۲-۳۹ میں مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت ہے کہ اِن سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کا صلہ اُس نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اِس کے بعد آدمی کے چھوٹے گناہوں کو وہ اپنی بے پایاں رحمت سے معاف کر دیتا ہے’’ (البیان، از غامدی)

‘‘گناہ کبیرہ کی تعریف قرآن شریف و حدیث اور اقوال سلف کی تشریحات کے ماتحت یہ ہے کہ جس گناہ پر قرآن میں کوئی شرعی حد یعنی سزا دنیا میں مقرر کی گئی ہے یا جس پر لعنت کے الفاظ وارد ہوئے ہیں یا جس پر جہنم وغیرہ کی وعید آئی ہے وہ سب گناہ کبیرہ ہیں ۔اسی طرح ہر وہ گناہ بھی کبیرہ میں داخل ہو گا جس کے مفاسد اور نتائج بد کسی کبیرہ گناہ کے برابر یا اس سے زائد ہوں ۔اسی طرح جو گناہ صغیرہ جرات و بیباکی کے ساتھ کیا جائے یا جس پر مداومت کی جائے تو وہ بھی کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے ۔رسول کریم ﷺ نے مختلف مقامات میں بہت سے گناہوں کا کبیرہ ہونا بیان فرمایا اور حالات کی مناسبت کے کہیں تین ،کہیں چھ ،کہیں سات اور کہیں اس سے بھی زیادہ بیان فرمائے ہیں ۔اسی سے علمائے امت نے یہ سمجھا کہ کسی عدد میں انحصار کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مواقع اور حالات کے مناسب جتنا سمجھا گیا اتنا بیان کر دیا گیا ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص ۳۸۳، ادارۃ المعارف کراچی)

 جنت کی راہ، کبائر سے اجتناب

‘‘اس آیت میں یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ خدائی گرفت سے بچنے اور اس کی جنت میں داخل ہونے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو بڑی فراخ دلی سے الاؤنس دیتے چلے جاؤ بلکہ اس کا راستہ یہ ہے کہ جن چیزوں سے اس نے روکا ہے ان کے کبائر سے پرہیز رکھو ۔اگر کبائر سے پرہیز رکھو گے تو صغائر کو وہ اپنے فضل و رحمت سے خود دور فرمادے گا ورنہ کبائر و صغائر سب تمھارے اعمال نامے میں درج ہوں گے اور سب کا تمھیں حساب دینا ہوگا ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

صغائر سے بچنے کی راہ بھی کبائر سے اجتناب ہے

‘‘یہاں یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ صغائر سے بچنے کی راہ بھی یہی ہے کہ آدمی کبائر سے اجتناب کرے جو آدمی اپنے ہزاروں کے قرضے چکاتا رہتا ہے وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ کسی کے پانچ روپے دبا کر نا دہندہ کہلانے کی ذلت گوارا کرے ،برعکس اس کے جو لوگ کبائر کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا بڑا اہتمام کرتے ہیں ان کا حال زندگی بھر یہ رہتا ہے کہ مچھر کو چھانتے رہتے ہیں اور اونٹ نگلتے رہتے ہیں ۔دوسروں کو تو یہ زیرے اور سونف تک کی زکوٰۃ کا حساب سمجھاتے ہیں لیکن خود یتیموں کے مال اور اوقاف کی آمدنیوں سے اپنی کوٹھیاں بنواتے اور ان کو سجاتے ہیں ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘جہاں تک میں نے قرآن وسنت میں غور کیا ہے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے (وا للہ اعلم با لصواب ) کہ تین چیزیں ہیں جو کسی فعل کو بڑا گناہ بناتی ہیں :(۱) کسی کی حق تلفی ،خواہ وہ خدا ہو جس کا حق تلف کیا گیا ہے ،یا والدین ہوں ،یادوسرے انسان ،یا خود اپنا نفس ۔پھر جس کا حق جتنا زیادہ ہے اسی قدر اس کے حق کو تلف کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے ۔اسی بنا پر گناہ کو ‘‘ظلم ’’ بھی کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر شرک کو قرآن میں ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔(۲) اللہ سے بے خوفی اور اس کے مقابلہ میں استکبار ،جس کی بنا پر آدمی اللہ کے امرو نہی کی پرواہ نہ کرے اور نافرمانی کے ارادے سے قصدًاوہ کام کرے جس سے اللہ نے منع کیا ہے ،اور عمدًا ان کوموں کو نہ کرے جن کا اس نے حکم دیا ہے ۔یہ نافرمانی جس قدر زیادہ ڈھٹائی اور جسارت اور ناخداترسی کی کیفیت اپنے اندر لیے ہوئے ہوگی اسی قدر گناہ بھی شدید ہوگا ۔اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ‘‘فسق ’’اور ‘‘معصیت’’ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔(۳) ان روابط کو توڑنا اور ان تعلقات کو بگاڑنا جن کے وصل و استحکام اور درستی پر انسانی زندگی کا امن منحصر ہے ،خواہ یہ روابط بندے اور خدا کے درمیان ہوں یا بندے اور بندے کے درمیان ۔پھر جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے ،اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے ۔مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجئے ۔یہ فعل فی نفسہٖ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ،مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے گناہ میں شدید تر ہیں ۔شادی شدہ آدمی کا زنا کرنا بن بیا ہے کی نسبت زیادہ سخت گناہ ہے ۔منکوحہ عورت سے زنا کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے ۔ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے ۔محرمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے ۔مسجد میں زنا کر نا کسی اور جگہ کرنے سے اشد ہے ۔ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انہی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں ۔جہاں مامونیت کی توقع جس قدر زیادہ ہے ،جہاں انسانی رابطہ جتنا زیادہ مستحق احترام ہے ،اور جہاں اس رابطہ کو قطع کرنا جس قدر زیادہ موجب فساد ہے ،وہاں زنا کا ارتکاب اسی قدر زیادہ شدید گناہ ہے ۔اسی معنی کے لحاظ سے گناہ کے لیے ‘‘فجور ’’ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ’’ (تفہیم القرآن،ج ۱ ، ص ۳۴۶ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

‘‘مفسر تھانویؒ نے فرمایا ہے کہ کبیرہ پر عتاب کے ساتھ ساتھ فضل کا احتمال اور صغیرہ پر عفو کے ساتھ ساتھ عتاب کا احتمال خاص اہلِ سنت کا مذہب ہے، بہ خلاف معتزلہ کے جن کے نزدیک صغائر واجب المغفرۃ ہیں اور کبائر غیرمغفور ہیں۔’’ (تفسیر ماجدی ،ج۱ ،ص ۷۲۸، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنو)

‘‘ ارشاد ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم جو کہ یہاں مذکور ہے اور ارشاد (اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰیِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ۔ النجم 32 ) (میں موجود ہے ان ہر دو ارشاد کا مدعی ایک ہے صرف لفظوں میں تھوڑا سا فرق ہے تو اب جو مطلب ایک آیت کا ہوگا وہی دوسری آیت کا لیا جائے گا سو سورہ نجم کی آیت کی نسبت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ارشاد بخاری وغیرہ کتب حدیث میں صاف موجود ہے عن ابن عباس قال مارایت شیأ اشبہ باللمم مما قال ابو ہریرہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان اللّٰہ کتب علٰی ابن ادٰم حظہ من الزنٰی ادرک ذٰلک لا محالۃ فزنی العین النظر وزنی اللسان المنطق والنفس تمنی و تشتھی والفرج یصدق ذلک و یکذبہ انتہٰی۔ بشرط فہم اس حدیث سے ہر دو آیات سابقہ کے واقعی اور تحقیقی مطلب کا پورا سراغ لگ گیا اور حضرت ابن عباس حبرالامت اور لسان القرآن کے فرمانے سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ لمم اور علیٰ ہذا القیاس سیاٰت کے معنی اس سے بہتر نہیں ملے تو اب اس مطلب کے مقابلہ میں کوئی دوسری تقریر مضمون آیت کے متعلق کیونکر قابل ترجیح اور لائق پسند ہوسکتی ہے بالخصوص معتزلہ کی ہرزہ گوئی کیسے قابل التفات اور لائق جواب سمجھی جاسکتی ہے اور واقعی حدیث مذکور کامطلب اور حضرت ابن عباس نے جو اس سے بات نکالی ایسی عجیب اور قابل قبول تحقیق ہے کہ جس سے مضمون ہر دو آیت خوب محقق ہوگیا اور معتزلہ کے خرافات کی گنجائش اور اہل حق کو اس کی تردید کی ضرورت بھی نہ رہی اور ذیلی اور ضمنی اقوال واختلافات بھی بہت خوبی سے طے ہوگئے چنانچہ اہل فہم ادنیٰ تامل سے سمجھ سکتے ہیں بغرض توضیح ہم بھی حدیث مذکور کا خلاصہ عرض کئے دیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آیت سورہ نجم میں جو لفظ لمم فرمایا گیا ہے جس کی کہ معافی کا وعدہ کیا ہے اس کی تعیین اور تحقیق کے متعلق حدیث ابو ہریرہ سے بہتر ہم کو کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ اللہ نے ابن آدم کے ذمہ پر جو زنا کا حصہ مقرر فرما دیا ہے وہ ضرور اس کو مل کر رہے گا۔ سو فعل زنا میں آنکھ کا حصہ تو دیکھنا ہے اور زبان کا حصہ یہ ہے کہ اس سے وہ باتیں کی جائیں جو فعل زنا کے لئے مقدمات اور اسباب ہوں اور نفس کا حصہ یہ ہے کہ زنا کی تمنا اور اس کی خواہش کرے لیکن فعل زنا کا تحقق اور اس کا بطلان دراصل فرج یعنی شرمگاہ پر موقوف ہے یعنی اگر فرج سے زنا کا صدور ہوگیا تو آنکھ زبان دل سب کا زانی ہونا محقق ہوگیا اور اگر باوجود تحصیل جملہ اسباب وذرائع صرف فعل فرج کا تحقق نہ ہوا بلکہ زنا سے توبہ اور اجتناب نصیب ہوگیا تو اب تمام وسائل زنا جو کہ فی نفسہ مباح تھے فقط زنا کی تبعیت کے باعث گناہ قرار دیے گئے تھے وہ سب کے سب لائق مغفرت ہوگئے یعنی ان کا زنا ہونا باطل ہوگیا اور گویا ان کا قلب ماہیت ہو کر بجائے زنا عبادت بن گئی کیونکہ فی نفسہ تو وہ افعال نہ معصیت تھے نہ عبادت بلکہ مباح تھے صرف اس وجہ سے کہ وہ زنا کے لئے وسیلہ بنتے تھے معصیت میں داخل ہوگئے تھے جب زنا کے لئے وسیلہ نہ رہے بلکہ زنا ہی بوجہ اجتناب معدوم ہو چکا تو اب ان وسائل کا زنا کے ذیل میں شمار ہونا اور ان کو معصیت قرار دینا انصاف کے صریح مخالف ہے مثلاً ایک شخص مسجد میں پہنچا چوری کے خیال سے مگر وہاں جا کر عین موقع پر تنبہ پیش آیا اور چوری سے توبہ کی اور رات بھر اللہ کے واسطے نماز پڑھتا رہا تو ظاہر ہے کہ جو رفتار سرقہ کا ذریعہ نظر آتا تھا وہ اب توبہ اور نماز کا ذریعہ ہوگیا تو اس حدیث ابو ہریرہ کو سن کر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ سمجھ گئے کہ لمم وہ باتیں ہیں جو دراصل گناہ نہیں مگر گناہ کا سبب ہو کر گناہ بن جاتی ہیں۔ تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ لوگ بڑے گناہ اور کھلے گناہ سے تو بچتے ہیں ہاں صدور لمم کی نوبت آجاتی ہے مگر بڑے اور اصلی گناہ کے صدور سے پہلے ہی وہ اپنے قصور سے تائب اور مجتنب ہو جاتے ہیں تو اب ابن عباس رضی اللہ نے جیسے حدیث ابو ہریرہ سے آیت سورہ نجم کا مطلب سمجھ لیا ہم کو چاہیے کہ وہی معنی حسب ارشاد ابن عباس رضی اللہ ہم آیت سورہ نساء کے بیتکلف سمجھ لیں۔ جس کے بعد بحمد اللہ نہ ہم کو اس کی ضرورت ہوگی کہ اس آیت کی توضیح میں گناہ صغیرہ اور کبیرہ کی مختلف تفسیریں نقل کریں اور نہ معتزلہ کے استدلال کے جواب کا فکر ہوگا اور تکفیر سیآت کی وجہ اور دخول جنت کا سبب بھی بسہولت مطابق قواعد معلوم ہو جائے گا اور اجتناب کے معنی بھی ظاہر ہوجائیں گے اور چھوٹی چھوٹی باتیں انشاء اللہ بشرط تدبر طے ہوجائیں گی خلاصہ ہر دو آیت مذکور کا حسب ارشاد حدیث و بیان ابن عباس رضی اللہ یہ ہوا کہ جو لوگ ان گناہوں سے رکیں گے اور ان کے ارتکاب سے اپنے نفس کو ہٹاتے رہیں گے جو گناہ کہ گناہوں کے سلسلہ میں مقصود اور بڑے سمجھے جاتے ہیں تو اس اجتناب اور رک جانے کی وجہ سے ان کے وہ برے کام جو انہوں نے کسی بڑے گناہ کے حصول کی طمع میں کئے ہیں معاف کر دیے جائیں گے اور حسب ارشاد (وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔ النازعات 40) (وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ مطلب نہیں کہ سلسلہ زنا کے صغائر کسی دوسرے سلسلہ کے بڑے گناہ مثلاً شراب خوری نہ کرنے سے فروگذاشت ہوجائیں گے یا شراب خواری کی وجہ سے ان کا مواخذہ لازم اور واجب ہو جائے گا۔ واللہ اعلم۔’’ (تفسیر عثمانی، ص۱۰۹، پاک کمپنی لاہور)

ولا تتمنوا مافضل اللہ بہ بعضکم۔۔۔

تنافس کا اصلی میدان اکتسابی صفات کا میدان ہے

‘‘معاشرے میں بے شمار کشمکشیں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ کون سامیدان قسمت آزمائی اور جدوجہد کا ہے اور کو ن سا نہیں ہے ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غلط ارمان اور ایک اندھا بہرا حوصلہ لوگوں کو ایسے میدانوں میں ڈال دیتا ہے جن میں آدمی کی ساری جدوجہد اور اسکی تمام قابلیت و صلاحیت ایک لاحاصل تصادم اور بے فائدہ تنازع کی نذر ہوجاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو ان کی خلقی صفات کے لحاظ بعض لوگوں پر ترجیح دی ہے ان میں مقابلے اور تنافس کی لاگ ڈاٹ تلخی اور ناگواری کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ آج دنیا میں جو ابتری و انتشار ،جو تصادم و تنافس اور جو قتل و نہب ہے زیادہ تر اسی غلط اندیشی اور حد نا شناسی کا نتیجہ ہے ۔قرآن نے اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ تنافس کا میدان خلقی صفات یا فطری تر جیحات کا نہیں بلکہ اکتسابی صفات کا میدان ہے ۔یہ میدان نیکی ،تقویٰ ،عبادت ،ریاضت ،توبہ ،انابت یا جامع الفاظ میں ایمان و عمل صالح کا میدا ن ہے ۔اس میں بڑھنے کے لیے کسی پر کوئی روک نہیں ہے ۔مرد بڑھے وہ اپنی جدوجہد کا پورا پورا ثمرہ پائے گا ۔عورت بڑھے وہ اپنی سعی کا پھل پائے گی ۔ اگر کسی میں کچھ فطری اور خلقی رکاوٹیں ہیں تو اس کے کسر کا جبر بھی یہاں موجود ہے ۔غلط میدان میں اپنی محنت بر باد کرنے سے کیا حاصل ہے جس کو قسمت آزمائی کرنی ہو اس میدان میں کرے ۔و فی ذٰلک فلیتنا فس المتنا فسون ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۸، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ انسان کے لیے جدوجہد اور مسابقت کا اصلی میدان اُس کی خلقی صفات نہیں ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ خلقی صفات کے لحاظ سے بعض کو بعض پر فی الواقع ترجیح حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذہنی، کسی کو جسمانی، کسی کو معاشی اور کسی کو معاشرتی برتری کے ساتھ پیدا کیا اور دوسروں کو اُس کے مقابلے میں کم تر رکھا ہے۔ مرد و عورت کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اِس میں زوجین کا تعلق ایک کو فاعل اور دوسرے کو منفعل بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ فعلیت جس طرح غلبہ، شدت اور تحکم چاہتی ہے، انفعالیت اُسی طرح نرمی، نزاکت اور اثر پذیری کا تقاضا کرتی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو اِن میں سے ہر ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ اِن میں اگر مسابقت اور تنافس کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو یہ فطرت کے خلاف جنگ ہو گی جس کا نتیجہ اِس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ بالآخر دونوں اپنی بربادی کا ماتم کرنے کے لیے باقی رہ جائیں۔’’ (البیان از غامدی)

‘‘اس آیت نے ایک حکیمانہ اور عادلانہ ضابطہ بتلا دیا کہ جو کمالات و فضائل غیر اختیاری ہیں اور ان میں انسان کا کسب و عمل مو ثر نہیں ۔جیسے کسی عالی نسب یا حسین و خوب صورت پیدا ہونا ،وغیرہ ایسے فضائل کو تو حوالہ تقدیر کر کے جس حالت میں کوئی ہے اسی پر اس کو راضی رہنا اور اللہ تعالیٰ کو شکر ادا کرنا چاہیے ۔اس سے زائد کی تمنا بھی لغو ،فضول اور نقد رنج و غم ہے ۔اور جو فضائل و کمالات اختیاری ہیں جو کسب و عمل سے حاصل ہوسکتے ہیں ان کی تمنا مفید ہے ۔بشرطیکہ تمنا کیساتھ کسب وعمل اور جدو جہد بھی ہو اور اس میں اس آیت نے یہ بھی وعدہ کیا کہ سعی و عمل کرنے والے کی محنت ضائع نہ کی جائے گی بلکہ ہر ایک کو بقدر محنت حصہ ملے گا مرد ہو یا عورت ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ص۳۹۱، ادارۃ المعارف کراچی)

‘‘ شان نزول ، جب آیت میراث میں لِلذَکَرِ مِثلُ حَظِ الاُنثَیَینِ نازل ہوا ا ور میت کے ترکہ میں مرد کا حصہ عورت سے دونا مقرر کیا گیا تو مردوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آخرت میں نیکیوں کا ثواب بھی ہمیں عورتوں سے دونا ملے گا اور عورتو ں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ گناہ کا عذاب ہمیں مردوں سے آدھا ہو گا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں بتایا گیا کہ اللہ تعالی نے جس کو جو فضل دیاد وہ عین حکمت ہے ، بندے کو چاہیے کہ وہ اس کی قضا پر راضی رہے ۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کی جزا۔ شان نزول ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ نے فرمایا کہ ہم ابھی اگر مرد ہوتے تو جہاد کرتے اور مردوں کی طرح جان فدا کرنے کا ثواب عظیم پاتے ، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور انہیں تسکین دی گئی کہ مرد جہاد سے ثواب حاصل کر سکتے ہیں تو عورتیں شوہروں کی اطاعت اور پاکدامنی سے ثواب حاصل کر سکتی ہیں۔ (خزائن العرفان ،ص ۱۴۹، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)

‘‘یہ ایک دوسرے میدان کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ اکتسابی صفات، یعنی نیکی، تقویٰ، عبادت، ریاضت اور علم و اخلاق کا میدان ہے۔ قرآن نے اِس کے لیے جگہ جگہ ایمان اور عمل صالح کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ مسابقت اور تنافس کا میدان درحقیقت یہی ہے۔ اِس میں بڑھنے کے لیے کسی پرکوئی پابندی نہیں، بلکہ مسابقت اِس میدان میں اُتنی ہی محمود ہے، جتنی خلقی صفات کے میدان میں مذموم ہے۔ مرد بڑھے تو اُسے بھی اپنی جدوجہد کا پھل ملے گا اور عورت بڑھے تو وہ بھی اپنی تگ و دو کا ثمرہ پائے گی۔ بانو، باندی، آزاد، غلام، شریف، وضیع، خوب صورت، بدصورت اور بینا و نابینا، سب کے لیے یہ میدان یکساں کھلا ہوا ہے۔ دوسروں پر فضیلت کی خواہش ہو تو انسان کو اِس میدان میں خدا کا فضل تلاش کرنے کے لیے نکلنا چاہیے۔ اپنی محنت غلط میدان میں برباد کرنے سے لاحاصل تصادم اور بے فائدہ تنازعات کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ حوصلہ آزمانے اور ارمان نکالنے کا صحیح میدان یہ ہے۔ جس کو اترنا ہو، وہ اِس میدان میں اترے۔’’ (البیان ،از غامدی)

ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان۔۔۔

 لفظ ‘مولیٰ ’ کا مفہوم

‘‘لفظ ‘مولیٰ ’ عربی میں بہت وسیع معنوں میں آتا ہے ۔زیادہ تر اس کا تعین مو قع محل اور قرینے سے ہوتا ہے ۔یہاں قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد ہر مورث کے ورثاہیں ۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘مَوَالِی ، مَولٰی کی جمع ہے۔ مولٰی کے کئی معنی ہیں ۔ دوست، آزاد کردہ غلام ، چچا زاد ، پڑوسی ۔ لیکن یہاں اس سے مراد ورثا ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد عورت ، جو کچھ چھوڑ جائیں گے ، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہوں گے۔ اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے ۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور اَیمَانُکُم (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لیے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا ۔ نَصِیبَھُم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاو ن و تناصر کا حصہ ہے ۔ اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیمَانُکُم سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری او رمہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر ،انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے ، وارث ہوتا تھا ۔ لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا ، اس لیے پھر اُولُوالَارحَامِ بَعضُھُم اَولٰی بِبَعض فِی کِتَابِ اللہ (الانفال ۔۷۵ ) رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ نازل فرما کر اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اب فَاٰ تُوھُم نَصِیبَھُم سے مراد ، دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد ، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہو گا۔ اہل علم کے ا یک اور گروہ نے اس سے مراد ایسے دو شخصوں کو لیا ہے جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے ۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مَولٰی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا ۔ اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مذکورہ شخص لے گا ۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو ۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں والذین عقدت ایمانکم سے مراد بیوی اور شوہر ہیں۔ اور اس کا عطف لَا تَربُونَ پر ہے ۔ معنی یہ ہیں کہ ’’ماں باپ نے ، قرابت داروں نے ، اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے (یعنی شوہر یا بیوی) انہوں نے جو کچھ چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کر دیے ہیں ۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو۔’’ گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلاً جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالاً ان کی ادائیگی کی تاکیدِ مزید کی گئی ہے۔ ’’ ( احسن البیان ، ص۱۰۷، دارالسلام لاہور)

خدا کے مقرر کردہ وارث ہی اصلی وارث ہیں

‘‘اس آیت میں اشارہ تقسیم وراثت کے اس ضابطے کی طرف ہے جو آیت ۷میں مذکورہے ۔للرجال نصیب مما ترک والوالدٰن والا قربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدٰن والاقربون الایۃ اس حوالے سے مقصود اس کو مزید موکد کرنا ہے کہ ہر مورث کے جو وارث خدا نے ٹھہرا دیے ہیں وہی اصلی وارث ہیں ۔اب ان میں اپنے ذاتی رجحانات کی بنا پر نہ کسی ترمیم و تبدیلی کی گنجائش ہے اور نہ ان کے مقرر ہ حصوں میں کسی کمی بیشی کی ۔اگر کسی نے کسی غیر وارث سے کچھ دینے دلانے کا وعدہ کر رکھا ہے تو اس کو وہ حصہ دے جو اس کا ہے ‘اس کا حصہ’ سے مراد ظاہر ہے کہ وہی حصہ ہو سکتا ہے جسکی مورث کو وصیت کی اجازت ملی ہوئی ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے تقسیم سے علیحدہ کر رکھا ہے ۔یہ حصہ درحقیقت ایسے ہی لوگوں کے لیے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑا گیا ہے اس وجہ سے اس کے لیے ‘نصیبھم ’کا لفظ استعمال ہوا ۔ آخر میں اپنی صفت ‘علیٰ کل شیء شھیدا’ کا حوالہ بطور تنبیہ دیا ہے کہ بے جا جانبداری کی مخفی سے مخفی کوشش بھی اللہ کے علم سے مخفی نہیں رہ سکتی ۔وہ ہر جگہ حاضروناظر اور ہر جلی و خفی سے آگاہ ہے ’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ، ص ۲۸۹، فاران فاؤنڈیشن لاہور)

‘‘اس آیت کے آخر میں جو باہمی معاہدہ کی بنا پر حصہ دینا مذکور ہے ۔یہ ابتداء اسلام میں تھا ،بعد میں آیت واولوا الارحام بعضھم اولی ببعض ۔سے یہ منسوخ ہو گیا ۔اب اگر دوسرے ورثا موجود ہوں تو دو شخص کے باہمی معاہدہ کا میراث پر کچھ اثر نہیں پڑتا ۔’’ (معارف القرآن ،ج۲ ، ۳۹۳، ادارۃالمعارف کراچی)

‘‘اہل عرب میں قاعدہ تھا کہ جن لوگوں کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ کے عہد وپیمان ہوجاتے تھے وہ ایک دوسرے کی میراث کے حق دار بن جاتے تھے ۔اسی طرح جسے بیٹا بنا لیا جاتا تھا وہ بھی منہ بولے باپ کا وارث قرار پاتا تھا ۔اس آیت میں جاہلیت کے اس طریقے کو منسوخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وراثت تو اسی قاعدہ کے مطابق رشتہ داروں میں تقسیم ہونی چاہیے جو ہم نے مقرر کر دیا ہے ،البتہ جن لوگوں سے تمھارے عہد و پیمان ہوں ان کو اپنی زندگی میں تم جو چاہو دے سکتے ہو ’’ (تفہیم القرآن ،ج۱ ،ص ۳۴۸ ، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی)

مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی

تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیعؒ  ،۳۔ خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہریؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی