قربانی کا تصور محض دین اسلام میں نہیں بلکہ دیگر الہامی اور غیرالہامی مذاہب میں بھی ہزاروں سال سے قربانی کا تصور رائج رہا ہے۔ کچھ مذاہب میں تو یہ سلسلہ اب منقطع ہوچکا ہے جبکہ اسلام سمیت کچھ مذاہب میں تاحال یہ جاری و ساری ہے۔
سیکڑوں سال قبل دنیا کے ناقابل رسائی جنگلات میں بہت سے مشرک قبائل حتیٰ کہ آدم خور قبائل بھی ان دیکھے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے قربانی دیتے آئے ہیں۔بعض قبائل میں تو اس کے لیے انسان تک کی قربانی دی جاتی رہی ہے۔ زمانہ قدیم میں اہل مصر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اچھی فصل کے لیے نیل کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے انسان، جو عام طور پر کوئی کنواری دوشیزہ ہوا کرتی تھی، کی قربانی دیا کرتے تھے۔ انڈونیشیا کے وحشی اور آدم خور قبائل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔جنوبی امریکا کے بہت سے جنگلی قبائل میں بھی اس امر کے اشارے ملتے ہیں کہ وہ بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ جانوروں کی قربانی تو مختلف مذاہب میں عام رہی ہے اور آج بھی دی جاتی ہے تاہم اس سلسلے میں حرام حلال جانور کی تمیز نہیں کی جاتی۔ہندو مت میں بھی مختلف دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے ‘‘بھینٹ’’ کا تصور موجود ہے۔قربانی کے لیے ضروری نہیں کہ ان مذاہب میں صرف جانوروں کو قربان کیا جائے بلکہ خوراک اور دیگر مختلف اشیا کی شکل میں بھی قربانی دی جاتی ہے۔
قربانی کو مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔مثال کے طورپر ماقبل عیسائیت کے مختلف علاقائی مذاہب میں قربانی کے لیے جو نام استعمال کیے جاتے تھے ، ان میں ہندوؤں میں اسے ‘‘بھینٹ’’ اور ‘یگیا ’’، یونانیوں میں ‘‘تھوسیا’’ ، جرمانی قبائل میں ‘‘بلوٹان’’ اور صیہونی یا عبرانی زبان میں ‘‘قربان’’ کہا جاتا تھا۔
جانوروں کی قربانی
جانوروں کی قربانی مختلف مذاہب میں دیوتاؤں کو خوش کرنے اور موسم میں تبدیلی لانے کی استدعا کے طور پر دی جاتی تھی۔یہ قربانی لگ بھگ تمام مذاہب کے پیروکاروں جیسے عبرانیوں ، یونانیوں ، رومیوں ، قدیم مصریوں ، مایا، ایزٹک کے ہاں دی جاتی رہی ہے۔یونان کے دیہات میں رہنے والے عیسائی آرتھوڈوکس سینٹس کو خوش کرنے کے لیے جانوروں کو قربان کیا کرتے تھے اور یہ رسم ‘‘قوربانیا’’ کہلاتی تھی۔اگرچہ دیگر لوگ اس رسم سے ناخوش تھے تاہم بہرحال اس سلسلے میں رواداری کامظاہرہ کیا جاتا تھا۔
قربانی کے تصور کے حوالے سے اسکالر والٹر برکرٹ کہتے ہیں کہ یونانیوں میں قربانی کے تصور نے شکار کے عمل سے جنم لیا۔ شکاری اپنی خوراک کے لیے جانوروں کو شکار کرتے تھے لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرتے تھے۔ لہٰذا وہ قربانی کے عمل کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ایتھنز میں اس رسم کے دوران ایک بیل کو قربان کیا جاتا تھا۔ اس قربانی کا ہیرو کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے استعمال ہونے والا بیل ہوتا تھا۔اس بیل کو ویسے تو مارنا جرم تھا لیکن اسے ذبح کرکے ‘‘قربانی’’ کا اظہار کیا جاتا تھا اوراس کے بعد سب کو اجازت مل جاتی تھی کہ وہ اپنی خوراک کے لیے جنگلی جانوروں کا شکار کریں۔اس طرح یونان کی ریاست ایتھنز میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے سیکڑوں بیلوں کی قربانی دی جاتی تھی اور بعدازاں ان کے گوشت کو پکا کر دعوت کی جاتی اور سرکاری میلہ سجایا جاتا تھا۔
قدیم اسرائیل میں قربانی
قدیم اسرائیل میں قربانی کا تصور واضح ہے۔بائبل کے افتتاحی ابواب میں قربانی کا صحیح صحیح طریقہ تک موجود ہے۔جاندارکی قربانی کے سلسلے میں انھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ پہلے میں جاندار کو مکمل طورپر جلایا جاتا تھا۔دوسری میں جانور کو جزوی طور پر جلایا جاتا تھا اور باقی حصے کو مذہبی پیشوا کی خدمت میں نذر کردیا جاتا تھا۔ تیسری میں جانور کے کسی مخصوص حصے کو جلایا جاتا تھااور باقی کو کھالیاجاتا تھا۔اس قربانی کا مقصد خدا کو خوش کرنا اور اخلاقیات کا تعین کرنا تھا۔زمانہ وسطیٰ کا یہودی فلسفی میمون کہتا ہے کہ قربانی کے مقابلے میں خدا عبادت اور مراقبے کو زیادہ ترجیح حاصل ہے تاہم وہ اس بات کو سمجھتا تھا کہ بنی اسرائیل قربانی کے عادی تھے خاص طور پر آس پاس کے مختلف مشرک قبائل اس کو خدا سے رابطے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ میمون کے مطابق یہ بات فطری تھی کہ اہل اسرائیل قربانی کو خدا اور انسان کے درمیان رابطے کا ضروری حصہ سمجھتے تھے۔خدا کی طرف سے انسانوں کو قربانی کی اجازت دراصل ان کی نفسیاتی محدودات کے حوالے سے ایک رعایت تھی۔یہ ایک قسم کا پہلا قدم تھا جس کے ذریعے امید کی جاتی تھی کہ بنی اسرائیل مشرکانہ پوجا پاٹ چھوڑ کر عبادت اور مراقبے کی طرف آئیں گے۔
عیسائیت میں قربانی
عیسائیت میں قربانی کا تصور کیا ہے اور بائبل میں حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے کی قربانی کے واقعے کو کس طرح بیان کیا گیا ہے ، اس سلسلے میں مسیحی عالم پادری عمانویل کھوکھر (ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ لاہور) سے گفتگو کی گئی۔ پادری عمانویل کھوکھر نے بتایا کہ بائبل کے مطابق خدا تعالیٰ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان کس قدر پختہ ہے، اس مقصد کے لیے انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی دیں۔پادری عمانویل کھوکھر نے مزید بتایا کہ حضرت ابراہیم کا ایمان مضبوط تھا اس لیے انھوں نے فوری طور پر خداتعالیٰ کے حکم کے آگے سرخم تسلیم کرلیا۔حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کی قربانی دے رہے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے رحم کیا اور قربانی میں ان کے بیٹے کی جگہ مینڈھا ظاہر ہوگیا جس کی انھوں نے قربانی دی اور یوں حضرت اسحاق کی جان بچ گئی۔ رومن کیتھولک چرچ ، مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے ساتھ ساتھ ہائی چرچ اینجلیکن اور عیسائیت کے دیگر فرقوں میں بھی اس عمل کو قربانی کے طوپر دیکھا جاتا ہے۔بائبل میں اس قربانی کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ موجود ہے۔ (یاد رہے کہ دین اسلام کے مطابق یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل تھے جن کی قربانی حضرت ابراہیم دینے لگے تھے لیکن مینڈھا ظاہر ہوگیا تھا جبکہ مسیحی عقیدے کے مطابق وہ حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسحاق تھے)
ہندو مت میں قربانی
ہندو مت میں قربانی کا تصور غیر جاندار کی قربانی سے وابستہ ہے۔ ہندو مت میں قربانی کے لیے کسی جاندار کو استعمال کرنے کی روایت نہیں۔ البتہ خوراک کی نیت سے ذبح کیے گئے جانور کا گوشت یا دیگر اعضا قربانی کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ ہندو مت میں قربانی عبادت کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ سنسکرت میں ‘‘یگیا’’ کا لفظ ہے جسے ترجمہ کرنے کی صور ت میں ‘‘قربانی’’کا لفظ ہی سامنے آتا ہے۔قربانی کے لیے گھی ، اناج ، مصالحوں اور لکڑی وغیرہ کو آگ میں پھینکا جاتا ہے۔اس موقع پر منتر اور اشلوک پڑھے جاتے ہیں۔ آگ دیوی اگنی کہلاتی ہے جو کہ اس قربانی کو لے کردیوتاؤں کے پاس جاتی ہے۔ ویدوں کے زمانے میں یگیا کے لیے عام طورپر دودھ ، ملائی ، گھی ، اناج اور کچھ پودوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جانوروں کی قربانی نہیں دی جاتی تھی۔ جدید زمانے میں یگیا کا عمل شادیوں اور تدفین کے علاوہ ذاتی پوجا پاٹ کے دوران بھی کیا جاتا ہے۔
بدھ مت میں قربانی
مدھ مت میں قربانی کا تصور موجود نہیں۔ بلکہ بدھ مت سرے سے قربانی کی مخالفت کرتا ہے۔بدھ مت کے نزدیک کسی انسان یا دیگر جانداروں کی قربانی جائز نہیں۔بدھ مت کے بانی بدھا جانوروں کو قربان کرنے کے خلاف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ تمام جاندار ہماری محبت کے حق دار ہیں۔
بدھا کے زمانے میں برہمنوں کی جانب سے مختلف طریقوں سے قربانی کا عمل کیا جاتا تھا۔ بدھا اس قربانی کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نہ تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ محض دکھاوے کی رسومات تھیں۔ان کے نزدیک اگر کوئی صححیح قربانی ہوسکتی ہے تو وہ اپنے ‘‘اندر’’ یا روح سے دی جانے والی قربانی ہے۔بدھا کا کہنا تھا:اے برہمن ، میں لکڑی ڈال کر آگ نہیں جلاتامیں صرف اندرکی حرارت سے آگ جلاتا ہوں۔
انسانی قربانی
جانوروں کی قربانی سے بہت پہلے انسانوں کو قربان کیے جانے کا تصور قدیم ادوار میں موجود رہا ہے۔حتیٰ کہ سولہویں صدی میں جنوبی امریکا کے ایزٹک دور میں انسان کو قربان کیا جاتاتھا۔انسانوں کو قربان کرنے کا مقصد دیوتاؤں اور ارواح کو خوش کرنا ہوتا تھا۔اس کے علاوہ کسی نئے مندریا پل کی تعمیر کے موقع پربھی انسانی قربانی دی جاتی تھی۔کسی بادشاہ ، عظیم پیشوا یا لیڈر کی موت پر بھی انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ مرنے والے کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ جاسکیں۔کسی بڑی آفت جیسے خشک سالی ، زلزلے ، آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے بھی انسانوں کو قربان کیا جاتا تھا تاکہ دیوتاؤں کی ناراضگی ختم ہو۔
کولمبین دور سے قبل امریکا کے وحشی قبائل میں بڑے پیمانے پر انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایزٹک قبائل سورج کو طلوع ہونے پر ‘‘تیار’’ ہونے یا کسی عظیم مندر کی تعمیر کے موقع پر انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔اس موقع پر ایک انسان کے بجائے سیکڑوں انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ یہ لوگ عام طور پر دشمن قبیلے کے ہوتے تھے۔ ہسپانوی مہم جوؤں نے جب میکسیکو کو فتح کیا تو بڑی تعداد میں ہسپانوی لوگوں کو وحشی قبائل نے پکڑلیا۔ وہ ان کی قربانی دینے والے تھے لیکن انھیں بچالیا گیا۔ سکینڈے نیویا اور جرمن قبائل کے غیرالہامی مذہب کے پیروکار انسانی قربانی کی رسم ادا کرتے تھے۔اس طرح الہامی مذاہب سے قبل کے یونان کے مختلف خطوں میں انسانی قربانی کا تصور تھا اور اس سلسلے میں آثار قدیمہ سے ملنے والی باقیات کو شواہد مانا جاتا ہے۔قربانی کے لیے بچوں اور نوجوان مرد اور عورتوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔کریٹ کے قلعے سے ملنے والی بچوں کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں ذبح کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایتھنز سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ان روایات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہاں پر منوٹار دیوتا کو خوش کرنے کے لیے سات نوجوان مردوں اور سات نوجوان عورتوں کو قربانی کے لیے کریٹ بھیجا جاتا تھا۔اس طرح سمندروں کے دیوتا ‘‘پوسیڈن’’کو خوش کرنے کے لیے بھی انسانی قربانی جیسا قبیح فعل رائج تھا۔
٭٭٭