قسط۱۰۵
نورالقرآن
سات تراجم ، نو تفاسیر
محمد صدیق بخاری
نورالقرآن میں اصلاً اردو داں طبقے کی تعلیم پیشِ نظر ہے۔اس لیے قصداً عربی تفاسیر سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو تفاسیر کا ماخذ بھی ،اصل میں، معروف عربی تفاسیر ہی ہیں۔اس لیے یہ اطمینان رہنا چاہیے کہ ان اردو تفاسیر میں ان کی روح بہر حال موجودہے۔ مرتب کے پیشِ نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دیناہے۔اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔تمام مکاتب ِ فکر کی آرا، کا خلاصہ عوام تک پہنچا نا پیشِ نظر ہے ۔ لیکن تمام آرا کو بیان کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مرتب کے نزدیک یہ سب صحیح ہیں۔ ان میں بہتر ’ غیر بہتر یا صحیح اور غلط کا انتخاب قاری کے ذمہ ہے۔ہمار ا مقصد امت کے تمام علمی دھاروں اور روایات کو قاری تک منتقل کرناہے اور اس کے اند ر یہ جستجو پیدا کرنا ہے کہ وہ حق کی تلاش میں آگے بڑھے ،اہل علم سے رجوع کرے اور مطالعہ و تحقیق کے ذوق کو ترقی دے۔اس سلسلہ کو مزید بہتر بنانے کے لئے قارئین کی آرا کا انتظار رہے گا۔
سورہ المائدہ
آیات۱۹۔۔۱۵
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًامِّمَّاکُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ۵ط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْر‘’ وَّکِتٰب‘’ مُّبِیْن‘’ ہلا ۱۵ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ہ۱۶ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہٗ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ط وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا ط یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر‘’ ہ۱۷ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤُہٗ ط قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ط بَلْ اَنْتُمْ بَشَر‘’ مِّمَّنْ خَلَقَ ط یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا ز وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ہ۱۸ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْامَاجَآءَ نَا مِنْ م بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ز فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْر‘’ وَّ نَذِیْر‘’ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر‘’ ہع ۱۹
تراجم
۱۔ ۱۵۔ اے کتاب والو! آیا ہے تم پاس ، رسول ہمارا ، کھولتا ہے تم پر بہت چیزیں ، جو تم چھپاتے تھے کتاب کی ، اور در گذر کرتا ہے بہت چیز سے ۔ تم پاس آئی ہے ، اللہ کی طرف سے روشنی ، اور کتاب بیان کرتی ۔ ۱۶۔جس سے اللہ راہ پر لاتا ہے ، جو کوئی تابع ہوا اس کی رضا کا ، بچاؤ کی راہ پر ، اور ان کو نکالتا ہے ، اندھیروں سے روشنی میں ، اپنے حکم سے ، اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ ۱۷۔بے شک کافر ہوئے ، جنہوں نے کہا اللہ وہی مسیح ہے مریم کا بیٹا۔ تو کہہ پھر کس کا کچھ چلتا ہے اللہ سے ، اگر وہ چاہے ، کہ کھپا وے (فنا کر دے ) مسیح مریم کے بیٹے کو ، اور اس کی ماں کو ، اور جتنے لوگ ہیں زمین میں سارے ، اور اللہ کو ہے سلطنت آسمان و زمین کی ، اور جو دونوں کے بیچ ہے ۔ بناتا ہے جو چاہے ۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ۱۸۔اور کہتے ہیں یہود اور نصاریٰ ، ہم بیٹے ہیں اللہ کے ، اور اس کے پیارے ۔ تو کہہ ، پھر کیوں عذاب کرتا ہے تم کو ، تمہارے گناہوں پر ؟ کوئی نہیں، تم بھی ایک انسان ہو اس کی پیدائش میں ۔ بخشے جس کو چاہے اور عذاب کرے جس کو چاہے ۔ اور اللہ کو ہے سلطنت آسمان و زمین کی ، اور جو دونوں کے بیچ ہے ۔ اور اسی کی طرف رجوع سے۔ ۱۹۔اے کتاب والو! آیا ہے تم پاس ، رسول ہمارا ، توڑا پڑے پیچھے رسولوں کا ، کبھی تم کہو، کہ ہم پاس نہ آیا کوئی خوشی یا ڈر سنانے والا، سو آ چکا تمہارے پاس خوشی اور ڈر سنانے والا ۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (شاہ عبدالقادرؒ)
۲۔ ۱۵۔اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آئے ہیں ، کتاب میں سے جن امور کا تم اخفاء کرتے ہو ان میں سے بہت سی باتوں کو تمہارے سامنے صاف صاف کھول دیتے ہیں اور بہت سے امور کو واگذاشت کر دیتے ہیں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور ایک کتاب واضح (یعنی قرآن مجید) ۱۶۔کہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں ، اور ان کو راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔ ۱۷۔بلاشبہ وہ لوگ کافر ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عین مسیح ابن مریم ہے آپ یوں پوچھیے کہ اگر ایسا ہے تو یہ بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے زمین میں ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہیں تو کوئی شخص ایسا ہے جو خدا تعالیٰ سے ان کو ذرا بھی بچا سکے ۔ اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خاص ہے حکومت آسمانوں اور زمین پر اور جتنی چیزیں ان دونوں کے درمیان میں ان پر اور وہ جس چیز کو چاہیں پیدا کر دیں اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر پوری قدرت ہے ۔۱۸۔اور یہود اور نصاریٰ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں ، آپ یہ پوچھئے کہ اچھا تو پھر تم کو تمہارے گناہوں کے عوض عذاب کیوں دیں گے بلکہ تم بھی منجملہ اور مخلوقات کے ایک معمولی آدمی ہو اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے بخشیں گے اور جس کو چاہیں گے سزا دیں گے اور اللہ ہی کی ہے سب حکومت آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ، ان میں بھی اور اللہ ہی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے ۔ ۱۹۔اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آ پہنچے جو کہ تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں ایسے وقت میں کہ رسولوں کا سلسلہ موقوف تھا ، تا کہ تم یوں نہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی بشیر اور نذیر نہیں آیا سو تمہارے پاس بشیر اور نذیر آ چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ (مولاناتھانویؒ)
۳۔ ۱۵۔اے کتاب والو ، بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول ، تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں، اور بہت سی معاف فرماتے ہیں، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا، اور روشن کتاب ۔۱۶۔اللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے ساتھ اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔ ۱۷۔بے شک کافر ہوئے وہ جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح بن مریم ہی ہے ، تم فرما دو پھر اللہ کا کوئی کیا کر سکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ، اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی جو چاہے پیدا کرتا ہے اور اللہ سب کچھ کر سکتا ہے ۔ ۱۸۔اور یہودی اور نصرانی بولے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، تم فرما دو پھر تمہیں کیوں تمہارے گناہوں پر عذاب فرماتا ہے ، بلکہ تم آدمی ہو اس کی مخلوقات سے جسے چاہے بخشتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی اور اسی کی طرف پھرنا ہے ۔ ۱۹۔اے کتاب والو بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول ، تشریف لائے کہ تم پر ہمارے احکام ظاہ۰ر فرماتے ہیں بعد اس کے کہ رسولوں کا آنا مدتوں بند رہا تھا ، کہ کبھی کہو کہ ہمارے پاس کوئی خوشی اور ڈر سنانے والا نہ آیا تو یہ خوشی اور ڈر سنانے والے تمہارے پاس تشریف لائے ہیں اور اللہ کو سب قدرت ہے ۔ (مولانا احمد رضا خانؒ)
۴۔ ۱۵۔اے اہل کتاب ! یقینا تمہارے پاس ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آ چکا جھو تمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے ، اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آ چکی ہے ۔ ۱۶۔جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ انہیں جو رضائے رب کے درپے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اور اپنی تو فیق سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہبری کرتا ہے ۔۱۷۔یقینا وہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو ؟ آسمان و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ۱۸۔یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے ؟ نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے ، زمین وآسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ ۱۹۔اے اہل کتاب! بالیقین ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک وقفے کے بعد آ پہنچا ہے ۔ جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کر رہا ہے تا کہ تمہاری یہ بات نہ رہ جائے کہ ہمارے پاس تو کوئی بھلائی ، برائی سنانے والا آیا ہی نہیں پس اب تو یقینا خوشخبری سنانے والا اورآگاہ کرنے والا آ پہنچا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (مولاناجوناگڑھیؒ)
۵۔ اے اہل کتاب ! ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب الہی کی بہت سی ان باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے ، اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کر جاتا ہے۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب ۔ (۱۵) جس کے ذریعہ سے اللہ تعالی ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ (۱۶) یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے۔ اے محمدؐ ! ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اس کو اس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کو اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔ (۱۷) یہود اور نصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔ ان سے پوچھو، پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں سزا کیوں دیتا ہے؟ درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں ۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتا اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے۔ زمین اور آسمان اور ان کی ساری موجودات اس کی مِلک ہیں ، اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ (۱۸) اے اہل کتاب! ہمارا یہ رسول ایسے وقت تمہارے پاس آیا ہے اور دین کی واضح تعلیم تمہیں دے رہا ہے جبکہ رسولوں کی آمد کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا ، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو دیکھو! اب و ہی بشارت دینے اور ڈرانے والا آگیا …… اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (۱۹) (مولانامودودیؒ)
۶۔ اے اہل کتاب ،تمھارے پاس ہمارا رسول وہ بہت سی باتیں ظاہر کرتا ہو ا آگیا ہے جو تم کتاب کی چھپاتے رہے ہو اور وہ بہت سی باتیں نظر اندا ز بھی کر رہا ہے ۔اب تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور ایک واضح کرنے والی کتاب آگئی ۔(۱۵)اس کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کی راہیں دکھا رہا ہے اورا پنی توفیق سے ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لا رہاہے اور ایک صراط مستقیم کی طرف ان کی رہنمائی کر رہا ہے ۔(۱۶)بے شک ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے ۔پوچھو ،کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کر دے مسیح ابن مریم کو ،اس کی ماں کو اور جو زمین میں ہیں ان سب کو ۔اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ،سب کی بادشاہی ۔وہ پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔(۱۷)اور یہود اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۔ان سے پوچھو کہ پھر وہ تمھیں تمھارے جرموں پر سزا کیو ں دیتا رہا ہے ؟بلکہ تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے بشر ہو ۔وہ جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا ۔اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہی اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے ۔(۱۸)اے اہل کتاب ،تمھارے پاس ہمار ا رسول ،رسولوں کے ایک وقفے کے بعد ،تمھارے لیے دین کو واضح کرتا ہوا آگیا ہے ۔مبا دا تم کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور ہوشیار کرنے والا تو آیا ہی نہیں ۔دیکھ لو ،ایک بشیر ونذیر تمھارے پاس آگیا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔(۱۹)(مولاناامین احسن اصلاحیؒ)
۷۔ اے اہل کتاب، ہمارا پیغمبر تمھارے پاس آگیا ہے جو کتاب الٰہی کی وہ بہت سی باتیں تمھارے لیے کھول رہا ہے جنھیں تم چھپاتے رہے ہو اور بہت سی باتیں نظرانداز بھی کر رہا ہے۔تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آگئی ہے، یعنی ایک ایسی کتاب جو (دین و شریعت سے متعلق ہر چیز کو) واضح کر دینے والی ہے۔(۱۵) اِس کے ذریعے سے اللہ اُن لوگوں کو جو اُس کی خوشنودی چاہتے ہیں، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اور اپنی توفیق و عنایتسے اُنھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور ایک سیدھی راہ کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے۔ (۱۶) اِس میں شبہ نہیں کہ اُن لوگوں نے کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے۔اِ ن سے پوچھو کہ اللہ کے آگے کس کا کچھ چلتا ہے، اگر وہ چاہے کہ مسیح ابن مریم کو، اُس کی ماں کو اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دے۔ (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ) زمین و آسمان اور اُن کے درمیان میں جو کچھ ہے، اُس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کر دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (۱۷) اِن یہود و نصاریٰ کا دعویٰ ہے کہ ہم خدا کے بیٹے اور اُس کے چہیتے ہیں۔ اِن سے پوچھو، پھر تمھارے گناہوں پر وہ تمھیں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟ (ہرگز نہیں)، بلکہ تم بھی اُس کے پیدا کیے ہوئے انسانوں میں سے انسان ہی ہو۔ وہ (تم میں سے) جس کو چاہے گا، بخش دے گا اور جس کو چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) سزا دے گا (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ) زمین و آسمان اور اُن کے درمیان میں جو کچھ ہے، اُس کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور (تم میں سے ہر ایک کو) اُسی کی طرف لوٹنا ہے۔ (۱۸) اے اہل کتاب، ہمارا یہ پیغمبر رسولوں کی بعثت میں ایک وقفے کے بعد تمھارے پاس آیا ہے اور (دین کو ہر پہلو سے) تمھارے لیے واضح کر رہا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا آیا ہی نہیں۔ سو دیکھ لو، وہ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا تمھارے پاس آگیا ہے۔ (اِسے نہیں مانو گے تو اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکو گے۔ وہ تم کو لازماً پکڑے گا) اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (۱۹) (محترم جاویدا حمد غامدیؒ)
تفاسیر
نظم کلام
‘‘یہود اور نصاریٰ کے لیے نجات کی راہ
آگے یہود اور نصاریٰ دونوں کو بانداز تنبیہ توجہ دلائی ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ کر اور اس کی کتابیں ضائع کر کے جس تاریکی اور جس مذہبی جنگ و جدل میں پھنس گئے ہو اس سے نکالنے اور سلامتی کی راہ پر لانےؒؒؒؒ کے لیے اللہ نے تمہیں پھر روشنی دکھائی ہے اور ایک واضح کتاب بھیجی ہے۔ اب اس کتاب اور اس رسول کے بعد تمھارے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اگر اس اتمامِ حجت کے بعد بھی تم اسی تاریکی میں پڑے رہے تو یاد رکھو، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی گرفت سے باہر کوئی نہیں نکل سکتا۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص۴۷۸، فاران فاونڈیشن لاہور)
یاھل الکتب قد جآ کم…… الی صراط مستقیم
لفظ ‘اخفا’ تحریف کی ایک جامع تعبیر ہے
‘‘یبین لکم کثیرا…… ویعفوا عن کثیر، تحریف خواہ تبدیلی الفاظ کی نوعیت کی ہو یا تبدیلی ٔ معنی کی نوعیت کی، اس کا اصل مقصد حقیقت پر پردہ ڈالنا اور خلق کی آنکھوں میں دُھول جھونکنا ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے قرآن نے اس کے لیے جامع لفظ اِخفا کا استعمال کیا ہے جس کے تحت ان کی لفظی و معنوی تحریفیں بھی آگئیں اور ان کی کتابوں کی وہ آیتیں بھی جن کو اہلِ کتاب کے علماء اس اندیشے سے عام لوگوں سے چھپاتے تھے کہ ان کے خلافِ شریعت اقدامات کی پردہ دری نہ ہو یا ان کی بنا پر آخری بعثت کے باب میں ان پر کوئی حجت نہ قائم ہوسکے۔ فرمایا کہ یہ رسول تمہاری بہت سی تحریفات بے نقاب کر رہاہے اور ایسی بھی بہت سی ہیں جن کو نظرانداز کر رہا ہے اس لیے کہ مقصود اصل حقیقت کو ظاہر کرنا اور شریعت الٰہی کی تجدید و تکمیل ہے نہ کہ تمہاری تذلیل و تفضیح۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص۴۸۱، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘نور’ اور ‘کتابِ مبین’ سے مراد
نور سے مراد قرآن اور کتاب مبین بطور تفسیر
‘‘قد جآء کم من اللّٰہ نور وکتب مبین،نور سے مراد قرآنِ مجید ہے اور کتاب مبین کا لفظ بطور تفسیر ہے۔ قرآن حکیم حکمت اور شریعت دونوں کا مجموعہ ہے۔ وہ ذہنی تاریکیوں سے بھی نکالتا ہے اور زندگی کے لیے عمل کی صحیح شاہراہ بھی متعین کرتا ہے۔ اس وجہ سے وہ نور بھی ہے اور کتابِ مبین بھی۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص۴۸۱، فاران فاونڈیشن لاہور)
نور سے مراد نبی کریمﷺ
‘‘ امام المفسرین ابن جریر لکھتے ہیں: یعنی بالنور محمدا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم الذی انار اللّٰہ بہ الحق واظھر بہ الاسلام ومحق بہ الشرک فھو نور لمن استنار بہ (تفسیر ابن جریر) یعنی نور سے مراد یہاں ذات پاک محمدمصطفی علیہ الصلوٰۃ والثناء ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حق کو روشن کر دیا۔ اسلام کو ظاہر فرمایا، شرک کو نیست و نابود کیا۔ حضور نور ہیں مگر اس کے لیے جو اس نور سے دل کی آنکھوں کو روشن کرنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ اس نور مجسم کی تابانیوں اور درخشانیوں سے ہمارے آئینۂ دل کو منور فرمائے اور اپنے محبوب کی غلامی اور محبت کی سعادت سے بہرہ اندوز فرمائے، آمین! جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو نور فرما رہا ہے تو کسی کو کیا اعتراض؟ کتابِ مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔ یہ کہنا کہ ‘‘نور’’ سے بھی قرآن کریم مراد ہے درست نہیں کیونکہ واؤ عاطفہ تغایر پر دلالت کرتی ہے۔ (ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۴۵۳، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
‘‘شاید ‘‘نور’’سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ‘‘کتابِ مبین’’ سے قرآن کریم مراد ہے۔’’ (تفسیرعثمانی ، ص ۱۴۶ ، پاک کمپنی لاہور)
‘‘سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دُور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی۔’’ ( خزائن العرفان ، ص ۱۹۸ ، ضیا القرآن پبلی کیشنزلاہور)
‘‘ نور اور کتابِ مبین دونوں سے مراد قرآن کریم ہے۔ ان کے درمیان واؤ، مغایرتِ مصداق نہیں مغایرت معنی کے لیے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جارہا ہے۔ یھدی بہ اللّٰہ (کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے) اگر نور اور کتاب یہ دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ یھدی بھما اللّٰہ ہوتے (یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے) قرآن کریم کی اس نص سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتابِ مبین دونوں سے مراد ایک ہی چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب سے قرآنِ مجید مراد ہے۔ جیساکہ وہ اہلِ بدعت باور کراتے ہیں جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت نور من نوراللّٰہ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لیے ایک حدیث بھی بیان کرتے کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ اُس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا: ان اول ما خلق اللّٰہ القلم،یہ روایت ترمذی اور ابوداؤد میں ہے۔ محدث البانی لکھتے ہیں: فالحدیث صحیح بلاریب وھو من الادلۃ الظاھرۃ بُطلان الحدیث المشھور اول ما خلق اللّٰہ نور نبیک یاجابر (تعلیقات المشکوٰۃ، جلد ۱، ص۳۴) ‘‘مشہور حدیث جابر، کہ اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبیؐ کا نور پیدا کیا،باطل ہے’’۔ ( احسن البیان، ص۱۴۱، دارالسلام لاہور)
ہدایت کے لیے طلب و جستجو شرط ہے
‘‘یھدی بہ اللّٰہ……،یہ اس کتاب کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب اس لیے اتاری ہے کہ تم اس پر ایمان لائے تو یہ تم کو اس جنگ و جدال سے نجات دے کر امن و سلامتی کی راہ پراورخدا کے صراط مستقیم پر لائے گی، بشرطیکہ تمہارے اندر خدا کی خوشنودی کی طلب ہو اور تم اپنے تعصبات کی پٹیاں اپنی آنکھوں سے کھول کر اس روشنی کو دیکھو اور اس کی قدر کرو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جن کے اندر رضائے الٰہی کی جستجو نہ ہو، بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پرستار بنے رہیں، ان کے لیے توفیق کا دروازہ نہیں کھلتا۔ باذنہ کے لفظ سے اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے، یعنی یہ سعادت خدا کے اذن سے حاصل ہوتی ہے اور یہ اذن ان کے لیے ہوتا ہے جن کے اندر رضائے الٰہی کی جستجو ہو۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص۴۸۱، فاران فاونڈیشن لاہور)
ویخرجہم من الظلمت الی لنور
‘‘تاریکیاں اوراندھیرے کئی قسم کے ہیں۔ شرک و کفر کا اندھیرا، گناہ و سرکشی کا اندھیرا، نفس پرستی اور بدعت کی تاریکی، غفلت اور سُستی کی ظلمت اس لیے ظلمات جمع کالفظ ذکر کیا لیکن نور صرف ایک ہی ہے اس لیے واحد کا لفظ ہی استعمال فرمایا۔ صراطِ مستقیم یعنی شریعتِ محمدیؐ کی اطاعت کی برکت سے انسان مختلف قسم کے اندھیروں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آتا ہے۔ (ضیاء القرآن، ج۱ ، ص ۴۵۴، ضیا القرآن پبلی کیشنز لاہور)
لقد کفر الذین………… علی کل شئی قدیر
پال کے عقیدے کی اصل روح
‘‘اب یہ نصاریٰ کے نقضِ عہد کی ایک مثال بیان ہوئی ہے کہ انھوں نے تمام عہدومیثاق کی جو جڑ ہے یعنی توحید، اسی پر کلہاڑا رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے بجائے مسیح ابن مریم کو خدا بنا بیٹھے۔ موجودہ مسیحیت ،جس کا بانی پال ہے، اصلاً تو حلول و اتحاد کے عقیدے پر مبنی ہے۔ یعنی پال کے نزدیک مسیحؑ کی شکل میں خدا ہی نے ظہور کیا ہے لیکن بعض اعتراضات سے بچنے کے لیے، جیساکہ ہم نے سورۂ نساء کی تفسیر میں اشارہ کیا ہے، اس کو اس نے اس چیستاں کی شکل میں پیش کیا ہے، جس کو تثلیث کہتے ہیں۔ گویا حلول اس عقیدے کی روح ہے اور تثلیث اس کی تعبیر۔ قرآن نے کہیں اس گمراہی کی روح کو واضح کیا ہے، کہیں اس کی معروف تعبیر سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پال کا اصل مقصود مسیحؑ کو خدا ثابت کرنا تھا۔ اس کے لیے اس نے ان کی خارق عادت ولادت اور ان کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے سے مواد فراہم کیا لیکن انجیلوں میں چونکہ باپ اور روح القدس کا بھی ذکر تھا اس وجہ سے اسے یہ محنت کرنی پڑی کہ الوہیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی ایسی تعبیر اختیار کرے کہ ان سب کے لیے اس میں کوئی نہ کوئی جگہ نکل آئے۔ لیکن یہ سارا گورکھ دھندا تو بس چند بال کی کھال ادھیڑنے والوں کے ذہن میں یا چند چیستاں قسم کی کتابوں کے اندر بند رہتا ہے، عام ذہن تو خلاصہ پسند ہوتا ہے، وہ ان موشگافیوں میں کہاں پڑتا ہے۔ چنانچہ عوام نے اس سارے افسانے میں سے صرف اتنی بات اپنے ذہن میں راسخ کرلی کہ مسیحؑ خدا ہیں۔ یہی حال عربوں کا ہوا۔ انھوں نے بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو جو شریک کیا تو اپنے ایک مزعومہ فلسفے کے تحت کیا لیکن پھر صورتیں اور مورتیں خدا بن گئیں اور خدایا تو بالکل غائب ہوگیا، یا اس طرح پس منظر میں چھپا دیا گیا کہ اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہوگیا۔ ’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص۴۸۲، فاران فاونڈیشن لاہور)
‘‘مسیحیت کے عقیدۂ تثلیث کو نہایت عمدگی سے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے، باپ بھی خدا ہے، بیٹا بھی خدا ہے اور روح القدس بھی خدا ہے۔ بایں ہمہ وہ تین خدا نہیں بلکہ ایک خدا ہے ۔’’ ( ضیاالقرآن ،ج۱ ،ص ۴۵۵، ضیاالقرآن ، پبلی کیشنز لاہور)
نصاریٰ پر اظہارِ غضب
‘‘فمن یملک من اللّٰہ شیئا،کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے ارادے میں کوئی حائل و مانع نہیں ہوسکتا، مثلاً لاستغفرن لک وما املک لک من اللّٰہ من شیءٍ (الممتحنہ:۱۴) (میں آپ کے لیے خدا سے مغفرت مانگوں گا، لیکن میں آپ کے معاملے میں خدا کے کسی فیصلے میں کوئی دخل نہیں رکھتا) یہ مسیحؑ کو خدا بنانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہارِ غضب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نادانو! یہ کس قسم کی باتیں کرتے ہو، کیا مسیح، کیا ان کی ماں اور کیا یہ ساری مخلوق، خدا سب سے بے نیاز اورمستغنی ہے۔ سب کو وجود اسی نے بخشا ہے اور اگر وہ ان سب کو فنا کردینا چاہے تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے۔ کسی کا بغیر باپ کے پیدا ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں ہوجاتا کہ وہ خدا بن گیا یا خدائی میں شریک ہوگیا۔ خدا کسی کو چاہے تو بن باپ کے بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر بھی پیدا کرسکتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔’’ (تدبر قرآن ، ج۲ ،ص2۴۸، فاران فاونڈیشن لاہور)
قل فمن یملک من اللہ شیئا ان اراد ان یہلک المسیح ابن مریم ومن فی الارض جمیعا۔۔۔
‘‘ یعنی اگر فرض کرو خدائے قادر و قہار یہ چاہے کہ حضرت مسیح اور مریم اور اگلے پچھلے کل زمین پر بسنے والوں کو اکٹھا کرکے ایک دم میں ہلاک کر دے،تو تم ہی بتلاؤ کہ اس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ یعنی ازل و ابد کے سارے انسان بھی اگر فرض کرو مجتمع کردیئے جائیں اورخدا ایک آن میں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو سب کی اجتماعی قوت بھی خدا کے ارادہ کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی نہیں کرسکتی کیونکہ مخلوقات کی قدرت جو عطائی اور محدود ہے، خدا کی ذاتی اور لامحدود قدرت کے مقابلہ میں عاجز محض ہے جس کا اعتراف خود وہ لوگ بھی کرتے ہیں جن کے رد میں یہ خطاب کیا جا رہا ہے بلکہ خود مسیح ابن مریم بھی جن کو یہ لوگ خدا بنا رہے ہیں، اس کے معترف ہیں۔ چنانچہ مرقس کی انجیل میں حضرت مسیحؑ کا یہ مقولہ موجود ہے: ‘اے باپ ہر چیز تیری قدرت کے تحت میں ہے تو مجھ سے یہ (موت کا) پیالہ ٹلا دے اس طرح نہیں جو میں چاہتا ہوں بلکہ اس طرح جیسے تیرا ارادہ ہے’’۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام جن کو تم خدا کہتے ہو اور ان کی والدہ ماجدہ مریم صدیقہ جو تمہارے زعم میں خدا کی ماں ہوئیں۔ وہ دونوں بھی تمام من فی الارض کے ساتھ مل کر خدا کی مشیت و ارادہ کے سامنے عاجز ٹھہرے تو خود سوچ لو کہ ان کی یا ان کی والدہ یا کسی اور مخلوق کی نسبت خدائی کا دعویٰ کرنا کس قدر گستاخی اور شوخ چشمی ہوگی۔ آیت کی اس تقریر میں ہم نے ‘‘ہلاک’’ کو ‘‘موت’’ کے معنی میں لیا ہے۔ مگر جمیعاً کے لفظ کی تھوڑی سی وضاحت کر دی جو مدلول لفظ جمیعاً کا ہم نے بیان کیا وہ آئمہ عربیہ کی تصریحات کے عین موافق ہے۔ اس کے سوا یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں ‘‘ہلاک’’ کے معنی موت کے نہ لیے جائیں جیساکہ راغب نے لکھا ہے۔ کبھی ‘‘ہلاک’’ کے معنی ہوتے ہیں ‘‘کسی چیزکا مطلقاً فنا اور نیست و نابود ہوجانا’’۔ مثلاً کل شی ھالک الا وجھہ، یعنی خدا کی ذات کے سوا ہر چیز نابود ہونے والی ہے۔ اس معنی پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر خدائے قدیر حضرت مسیح اور اُن کی والدہ اور تمام من فی الارض کو قطعاً نیست و نابود اور بالکلیہ فنا کرڈالنے کا ارادہ کرلے تو کون ہے جو اس کے ارادہ کو روک دے گا۔ اوست سلطان ہرچہ خواہد آں کند عالمے را درد مے ویراں کند۔حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ نبیوں کے حق میں ایسی بات فرماتے ہیں تاکہ ان کی اُمت بندگی کی حد سے زیادہ نہ چڑھادے و اِلا نبی اس لائق کاہے کو ہیں کہ ان کے مرتبۂ عالی اور وجاہت عنداللہ کا خیال کرتے ہوئے ایسا خطاب کیا جاتا۔’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۷ ، پاک کمپنی لاہور)
وقالت الیھود والنصریٰ……والیہ المصیر
اہلِ کتاب کا محبوبِ خدا ہونے کا زعمِ باطل
‘‘ نحن ابنؤا اللّٰہ واحباؤہ،اہلِ کتاب کا یہی زعم باطل تھا جس نے ان کو عہدِ الٰہی کی ذمہ داریوں سے سب سے زیادہ بے پروا بنایا۔ انھوں نے گمان کیا کہ وہ خدا کے محبوب اور برگزیدوں کی اولاد ہیں۔ اس وجہ سے عمل و اطاعت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہیں۔ جنت ان کا پیدائشی حق ہے۔ دوزخ میں اوّل تو وہ ڈالے نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گے تو بس یونہی چند دنوں کے لیے۔ اس فتنے کے اصل بانی تو یہود ہوئے لیکن آخر نصاریٰ ان کو جنت کا واحد اجارہ دار کیوں بننے دیتے۔ چنانچہ یہاں قرآن نے اس کو دونوں ہی کے مشترک عقیدے کی حیثیت سے ذکر کیاہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۳، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
‘‘چونکہ کسی مخلوق کا حقیقتاً ‘‘ابن اللہ’’ ہونا بالکل محال اور بدیہی البطلان ہے اور خدا کا محبوب بن جانا ممکن تھا۔ یحبھم ویحبونہ (مائدہ، رکوع۸)اس لیے اس جملہ میں اول ‘‘محبوبیت’’ (پیارے ہونے) کے دعوے کا رد کیا گیا یعنی جو قوم علانیہ بغاوتوں اور شدید ترین گناہوں کی بدولت یہاں بھی کئی طرح کی رسوائیوں اور عذاب میں گرفتار ہوچکی اور آخرت میں بھی حبسِ دوام کی سزا کا عقلاً و نقلاً استحقاق رکھتی ہے۔ کیا ایسی باغی و عاصی قوم کی نسبت ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی ذی شعور یہ خیال کرسکتا ہے کہ وہ خدا کی محبوب اور پیاری ہوگی؟ خدا سے کسی کا نسبی رشتہ نہیں۔ اس کا پیاراور اس کی محبت صرف اطاعت اور حسنِ عمل سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ایسے کٹر مجرموں کو جو سخت سے سخت سزا کے مستحق اور مورد بن چکے ہوں، شرمانا چاہیے کہ وہ نحن ابنآء اللّٰہ واحباؤہ کا دعویٰ کریں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کو باوجودیکہ ان کا صلبی بیٹا تھا خدا نے فرما دیا: انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح (ہود، رکوع ۴)’’ (تفسیر عثمانی ، ص ۱۴۷ ، پاک کمپنی لاہور)
زعمِ باطل کی تردید خود ان کی اپنی تاریخ سے
‘‘قل فلم یعذبکم بذنوبکم،یہ ان کے اس زعم باطل کی تردید خود ان کی اپنی تاریخ سے کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خدا کے محبوب اور چہیتے ہونے کے سبب سے تم خدا کے مواخذے اور عذاب سے بری ہو تو تمہاری یہ محبوبیت اور تمہارا یہ چہیتا پن اس دنیا میں تمہارے کچھ کام کیوں نہ آیا؟ یہاں تو تمہاری پوری تاریخ اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جب جب تم نے خدا سے سرکشی کی ہے اس نے تمہیں نہایت عبرت انگیز سزائیں بھی دی ہیں۔ ایسی عبرت انگیز کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں ایسی سزاؤں کی مثال نہی مل سکتی۔ پوری قوم کی غلامی، پوری قوم کی صحرا گردی، پوری قوم کی جلاوطنی، متعدد بار پوری قوم کا قتلِ عام اور بیت المقدس کی عبرت انگیز تباہی، یہ سارے واقعات خود تورات میں موجود ہیں۔ اگر ابراہیم ؑو اسحاق کی اولاد ہونے کی وجہ سے تمہیں خدا کی طرف سے کوئی برأت نامہ حاصل ہے تو اس برأت نامے نے تمھیں ان عذابوں سے کیوں نہ بچایا؟’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۳، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
اصل حقیقت کا اظہار
‘‘بل انتم بشر ممن خلق، یہ اصل حقیقت کا اظہار ہے کہ ابنوا اللّٰہ اور احباء اللّٰہ ہونے کے خبط سے نکلو، جس طرح خدا کی ساری مخلوق ہے اسی طرح تم بھی اس کی مخلوق ہو اور جس طرح سب کو خدا سے نسبت ایمان و عملِ صالح کے توسط سے حاصل ہوتی ہے اسی طرح تمہیں بھی خدا سے کوئی نسبت حاصل ہوگی تو ایمان و عملِ صالح ہی کے واسطے سے حاصل ہوگی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۴، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
بشر
‘‘ بشر،اصل لغت میں کھال کی اُوپر والی سطح کو کہتے ہیں۔ تھوڑی سی مناسبت سے آدمی کو ‘‘بشر’’ کہنے لگے۔ شاید اس لفظ کے یہاں اختیار کرنے میں یہ نکتہ ہو کہ تم کو خدا کا بیٹا اور پیارا تو درکنار، شریف اور ممتاز انسان بھی نہیں کہا جاسکتا۔ صرف بشرہ اور شکل و صورت کے لحاظ سے خدا کے پیدا کیے ہوئے ایک معمولی آدمی کہلائے جاسکتے ہو جن کی پیدائش بھی اسی معتاد طریقہ سے ہوئی ہے جس طرح عام انسانوں کی ہوتی ہے۔ پھر بھلا ‘‘ابنیت’’ کا وہم کدھر سے راہ پاسکتا ہے۔’’ (تفسیر عثمانی ،ص ۱۴۷، پاک کمپنی لاہور)
یغفر لمن یشآء ویعذب من یشآء
‘‘یعنی مغفرت اور عذابِ خدا ہی کے اختیار میں ہے وہ جن کو مغفرت کا مستحق پائے گا ان کی مغفرت فرمائے گا، جن کو سزا کا مستحق پائے گا ان کو سزا دے گا۔ اگر کسی نے بزرگوں سے خاندانی نسبت یا ان کی موہوم شفاعتوں پر بھروسہ کرکے خدا کے عہد ہی کو توڑ دیا ہے تو اس کو خدا کے عذاب سے بچانے والا کوئی بھی نہیں بن سکے گا۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۴، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
یاھل الکتب قد جآء کم…… علٰی کل شی قدیر
‘فترۃ’ کا مفہوم
‘‘فترۃ اس وقفہ کو کہتے ہیں جو ایک چیز کے ظہور کے بعد اس کے دوسرے ظہور سے پہلے واقع ہوتا ہے، مثلاً باری کے بخار کے دو حملوں کے درمیان جو وقفہ ہوگا اس کو فترہ کہیں گے۔ آیت میں اس سے مراد وہ وقفہ ہے جو دو نبیوں کی بعثت کے درمیان ہوتا ہے۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۔۴۸۴، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
زمانۂ فترت کی تحقیق
‘‘حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا زمانہ ہے۔ اس تمام مدت میں انبیا علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اس میں کبھی فترت نہیں ہوئی۔ صرف بنی اسرائیل میں سے ایک ہزار انبیاء اس عرصہ میں مبعوث ہوئے۔ اور غیربنی اسرائیل میں سے جو انبیاء ہوئے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے درمیان صرف پانچ سو سال کا عرصہ ہے۔ اس میں سلسلہ انبیاء بند رہا، اسی لیے اس زمانہ کو زمانۂ فترت کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کبھی اتنا زمانہ انبیاء کی بعثت سے خالی نہیں رہا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام و عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کی مدت، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کی مدت میں اور بھی مختلف روایات ہیں جن میں اس سے کم و بیش مدتیں بیان ہوئی ہیں مگر اصل مقصد پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ امام بخاریؒ نے حضرت سلمان فارسی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اور خاتم الانبیا علیہما السلام کے درمیان کا زمانہ چھ سو سال کا تھا، اور اس پوری مدت میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے جیساکہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے مشکوٰۃ شریف میں حدیث آئی ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انا اولی الناس بعیسیٰ، یعنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ قریب ہوں۔ اور اس کا مطلب آخر حدیث میں یہ بیان فرمایا، لیس بیننا نبی،یعنی ہم دونوں کے درمیان کوئی نبی مبعوث نہیں ہوئے۔اور سورۂ یٰس میں جو تین رسولوں کا ذکر ہے وہ درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فرستادہ قاصد تھے جن کو لغوی معنے کے اعتبار سے رسول کہا گیا ہے۔آیت مذکورہ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی قوم ایسی ہو کہ اُن کے پاس نہ کوئی رسول اور نہ کوئی پیغمبر آیا اور نہ اُن کے نائبین پہنچے، اور نہ پچھلے انبیاء کی شریعت ان کے پاس محفوظ تھی تو یہ لوگ اگر شرک کے علاوہ کسی غلط کاری اور گمراہی میں مبتلا ہوجائیں تو وہ معذور سمھجے جاوئیں گے۔ وہ مستحق عذاب نہیں ہوں گے۔ اسی لیے حضرات فقہاء کا اہلِ فترت کے معاملہ میں اختلاف ہے کہ وہ بخشے جائیں گے یا نہیں۔جمہور کا رجحان یہ ہے کہ اُمید اسی کی ہے کہ وہ بخش دیئے جائیں گے جبکہ وہ اپنے اس مذہب کے پابند رہے ہوں جو غلط سلط اُن کے پاس حضرت موسیٰ یا عیسیٰ علیہما السلام کی طرف منسوب ہوکر موجود تھا۔ بشرطیکہ وہ توحید کے مخالف اور شرک میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ مسئلہ توحید کسی نقل کا محتاج نہیں۔ وہ ہر انسان ذرا سا غور کرے تو اپنی ہی عقل سے معلوم کرسکتا ہے۔’’ (معارف القرآن ،ج۳ ،ص۹۰، ادارۃ المعارف کراچی)
اہلِ کتاب کو تنبیہ
آخر ی درجے میں اتمام حجت
‘‘یہ اہلِ کتاب کو تنبیہ ہے کہ اپنی کتاب کی جن چیزوں کو تم نے چھپایا یا ضائع کر دیا، ان سب کو واضح اور خدا کی صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہوا ہماررسول تمھارے پاس آگیا ہے۔ اب تمھارے پاس اپنی گمراہی پر جمے رہنے کے لیے یہ عذر بھی باقی نہیں رہا کہ پہلے رسولوں کی بعثت پر ایک زمانہ گزر چکا تھا اور تم ایک نذیر و بشیر کے محتاج تھے۔ تمہارے اس عذر کو بھی ختم کرنے کے لیے ہم نے نذیر و بشیر بھیج دیا۔ اب اس اتمامِ حجت کے بعد بھی تم نے اپنی روش نہ بدلی تو خدا کو بے بس ہستی نہ سمجھنا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ اہلِ کتاب کا یہ عذر کوئی قابلِ لحاظ عذر نہیں تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی لحاظ فرمایا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان پر آخری درجے میں حجت تمام کر دی گئی۔’’ (تدبر قرآن ،ج۲ ،ص ۴۸۴، فاران فاؤ نڈیشن لاہور)
مترجمین: ۱۔ شا ہ عبد القادرؒ، ۲۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ۳۔ مولانا احمد رضا خاںؒ ، ۴۔ مولانا محمد جونا گڑھیؒ ، ۵۔ سیدّابوالاعلی مودودیؒ ، ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ ، ۷۔ محترم جاویداحمد غامدی
تفاسیرومفسرین: ۱۔ تفسیر عثمانی ،مولانا شبیرؒ احمد عثمانی، ۲۔ معارف القرآن ، مفتی محمد شفیع ؒ ، ۳۔خزائن العرفان ،مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادیؒ ، ۴۔ تفہیم القرآن،مولانا مودودیؒ ، ۵۔ احسن البیان، محترم صلاح الدین یوسف ، ۶۔ ضیا ء القرآن ، پیرکرم شاہ الازہری ؒ ، ۷۔ تفسیر ماجدی ، مولانا عبدالماجدؒ دریابادی، ۸۔ تدبر قرآن ، مولانا امین احسنؒ اصلاحی، ۹۔ البیان، محترم جاوید احمد غامدی