غریبوں کی مدد ، کامیابی کی شرط

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2013

مصطفی صادق الرافعی۱۸۸۰۔۱۹۳۷ایک لبنانی نژاد مصری شاعر اور ادیب ہو گزرا ہے جو باقاعدہ طور تعلیم محض پرائمری تک ہی حاصل کر پایا۔ ٹایفائید کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنی سماعت سے محروم ہو بیٹھا۔ باقاعدہ پڑھنے کا سلسلہ منقطع ہوا مگر وہ اپنے طور کچھ نہ کچھ علم کے حصول میں لگا رہا۔ اس کی قابلیت اور ادب دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا قومی ترانہ مصر میں 1923 سے 1936 تک رائج رہا۔ جبکہ اس کا تیونس کیلئے لکھا ہوا قومی ترانہ آج تک رائج ہے۔ وہ بیسیوں ادبی کتابوں کا مؤلف ہے مگر جو شہرت تین جلدوں پر مشتمل اْس کی کتاب وحی القلم کو ملی وہ کسی اور کتاب کو نہ مل سکی۔ اْس کے ہم عصر اور بعد کے علماء اْسکا تذکرہ ادب و احترام سے کرتے ہیں۔ زیر نظر قصہ اْس کی اس کتاب وحی القلم سے لیا گیا ہے۔

 کسی جگہ ابو نصر الصیاد نامی ایک شخص، اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی اور بچے کو بھوک سے نڈھال اور بلکتا روتا گھر میں چھوڑ کر خود غموں سے چور کہیں جا رہا تھا کہ راہ چلتے اس کا سامنا ایک عالم دین احمد بن مسکین سے ہوا، جسے دیکھتے ہی ابو نصر نے کہا؛ اے شیخ میں دکھوں کا مارا ہوں اور غموں سے تھک گیا ہوں۔شیخ نے کہا میرے پیچھے چلے آؤ، ہم دونوں سمندر پر چلتے ہیں۔سمندر پر پہنچ کر شیخ صاحب نے اْسے دو رکعت نفل نماز پڑھنے کو کہا، نماز پڑھ چکا تو اْسے ایک جال دیتے ہوئے کہا اسے بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں پھینکو۔جال میں پہلی بار ہی ایک بڑی ساری عظیم الشان مچھلی پھنس کر باہر آ گئی۔ شیخ صاحب نے ابو نصر سے کہا، اس مچھلی کو جا کر فروخت کرو اور حاصل ہونے والے پیسوں سے اپنے اہل خانہ کیلئے کچھ کھانے پینے کا سامان خرید لینا۔ابو نصر نے شہر جا کر مچھلی فروخت کی، حاصل ہونے والے پیسوں سے ایک قیمے والا اور ایک میٹھا پراٹھا خریدا اور سیدھا شیخ احمد بن مسکین کے پاس گیا اور اسے کہا کہ حضرت ان پراٹھوں میں سے کچھ لینا قبول کیجئے۔ شیخ صاحب نے کہا اگر تم نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا، میں نے تمہارے ساتھ نیکی گویا اپنی بھلائی کیلئے کی تھی نہ کہ کسی اجرت کیلئے۔ تم یہ پراٹھے لے کر جاؤ اور اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ۔ابو نصر پراٹھے لئے خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اْس نے راستے میں بھوکوں ماری ایک عورت کو روتے دیکھا جس کے پاس ہی اْس کا بے حال بیٹا بھی بیٹھا تھا۔ ابو نصر نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پراٹھوں کو دیکھا اور اپنے آپ سے کہا کہ اس عورت اور اس کے بچے اور اْس کے اپنے بچے اور بیوی میں کیا فرق ہے، معاملہ تو ایک جیسا ہی ہے، وہ بھی بھوکے ہیں اور یہ بھی بھوکے ہیں۔ پراٹھے کن کو دے؟ عورت کی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اس کے بہتے آنسو نہ دیکھ سکا اور اپنا سر جھکا لیا۔ پراٹھے عورت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو؛ خود بھی کھاؤ اور اپنے بیٹے کو بھی کھلاؤ۔ عورت کے چہرے پر خوشی اور اْس کے بیٹے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ابو نصر غمگین دل لئے واپس اپنے گھر کی طرف یہ سوچتے ہوئے چل دیا کہ اپنے بھوکے بیوی بیٹے کا کیسے سامنا کرے گا؟گھر جاتے ہوئے راستے میں اْس نے ایک منادی والا دیکھا جو کہہ رہا تھا؛ ہے کوئی جو اْسے ابو نصر سے ملا دے۔ لوگوں نے منادی والے سے کہا یہ دیکھو تو، یہی تو ہے ابو نصر۔ اْس نے ابو نصر سے کہا؛ تیرے باپ نے میرے پاس آج سے بیس سال پہلے تیس ہزار درہم امانت رکھے تھے مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پیسوں کا کرنا کیا ہے۔ جب سے تیرا والد فوت ہوا ہے میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں کہ کوئی میری ملاقات تجھ سے کرا دے۔ آج میں نے تمہیں پا ہی لیا ہے ۔یہ لو تیس ہزار درہم، یہ تیرے باپ کا مال ہے۔ابو نصر کہتا ہے؛ میں بیٹھے بٹھائے امیر ہو گیا۔ میرے کئی کئی گھر بنے اور میری تجارت پھیلتی چلی گئی۔ میں نے کبھی بھی اللہ کے نام پر دینے میں کنجوسی نہ کی۔ ایک ہی بار میں شکرانے کے طور پر ہزار ہزار درہم صدقہ دے دیا کرتا تھا۔ مجھے اپنے آپ پر رشک آتا تھا کہ کیسے فراخدلی سے صدقہ خیرات کرنے والا بن گیا ہوں۔

ایک بار میں نے خواب دیکھا کہ حساب کتاب کا دن آن پہنچا ہے اور میدان میں ترازو نصب کر دیا گیاہے۔ منادی کرنے والے نے آواز دی ابو نصر کو لایا جائے اور اْس کے گناہ و ثواب تولے جائیں۔کہتا ہے؛ پلڑے میں ایک طرف میری نیکیاں اور دوسری طرف میرے گناہ رکھے گئے تو گناہوں کا پلڑا بھاری تھا۔میں نے پوچھا آخر کہاں گئے ہیں میرے صدقات جو میں اللہ کی راہ میں دیتا رہا تھا؟تولنے والوں نے میرے صدقات نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دیئے۔ ہر ہزار ہزار درہم کے صدقہ کے نیچے نفس کی شہوت، میری خود نمائی کی خواہش اور ریا کاری کا ملمع چڑھا ہوا تھا جس نے ان صدقات کو روئی سے بھی زیادہ ہلکا بنا دیا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا ابھی بھی بھاری تھا۔ میں رو پڑا اور کہا، ہائے رے میری نجات کیسے ہوگی؟منادی والے نے میری بات کو سْنا تو پھر پوچھا؛ ہے کوئی باقی اس کا عمل تو لے آؤ۔میں نے سْنا ایک فرشتہ کہہ رہا تھا ہاں اس کے دیئے ہوئے دو پْراٹھے ہیں جو ابھی تک میزان میں نہیں رکھے گئے۔ وہ دو پْراٹھے ترازو پر رکھے گئے تو نیکیوں کا پلڑا اْٹھا ضرور مگر ابھی نہ تو برابر تھا اور نہ ہی زیادہ۔مْنادی کرنے والے نے پھر پوچھا؛ ہے کچھ اس کا اور کوئی عمل؟ فرشتے نے جواب دیا ہاں اس کیلئے ابھی کچھ باقی ہے۔ منادی نے پوچھا وہ کیا؟ کہا اْس عورت کے آنسو جسے اس نے اپنے دو پراٹھے دیئے تھے۔عورت کے آنسو نیکیوں کے پلڑے میں ڈالے گئے جن کے پہاڑ جیسے وزن نے ترازو کے نیکیوں والے پلڑے کو گناہوں کے پلڑے کے برابر لا کر کھڑا کر دیا۔ ابو نصر کہتا ہے میرا دل خوش ہوا کہ اب نجات ہو جائے گی۔منادی وا لے نے پوچھا ہے کوئی کچھ اور باقی عمل اس کا؟فرشتے نے کہا؛ ہاں، ابھی اس بچے کی مْسکراہٹ کو پلڑے میں رکھنا باقی ہے جو پراٹھے لیتے ہوئے اس کے چہرے پر آئی تھی۔ مسکراہٹ کیا پلڑے میں رکھی گئی نیکیوں والا پلڑا بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا۔ منادی کرنے ولا بول اْٹھا یہ شخص نجات پا گیا ہے۔ابو نصر کہتا ہے؛ میری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا؛ اگر میں نے اپنے کھانے کیلئے جال پھینکا ہوتا تو کسی مچھلی نے نہیں پھنسنا تھا اور اپنے کھانے کیلئے پراٹھے خریدے ہوتے تو آج نجات بھی نہیں ہونی تھی۔

٭٭٭

انتظار

خلیل ایک منفرد شخصیت کا مالک خوبرو نوجوان تھا جس کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں تھا۔ مگراپنی اس خامی کی وجہ سے’ کہ کسی کام سے جلدی اْکتا جانا، تیس سال کا ہو جانے کے باوجود بھی زندگی کی حقیقی کامیابیوں سے کہیں دور تھا۔ تعلیمی میدان میں ایک کو چھوڑکر دوسرے علم کے پیچھے بھاگتا رہا اور اب ملازمتوں کا بھی یہی حال کہ کہیں ٹک کر کام نہیں کر پا رہا تھا۔ شادی کے نام سے اْس کا بدکنا محض اسی بناء پر تھا کہ وہ ابھی تک کسی ملازمت کو مستقل اپنانے کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار ہی نہیں کر پا رہا تھا۔

خلیل کے ماں باپ اپنے بیٹے کی اس چلبلی طبیعت سے خوب واقف ’ہر وقت اْس کیلئے پریشان رہتے تھے۔ ایک دن اْس کے باپ نے اْسے صبح صبح فون کیا کہ آج ہم تیرے شہر میں آ رہے ہیں اور وہاں کے مشہور ریستوران میں تین بجے اکھٹے دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔خلیل اس شہر میں پچھلے چند ماہ سے رہ رہا تھا۔ اس دوران اْس کی والدین سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ والدین سے ملنے کی خوشی میں وقت سے پہلے ہی مطلوبہ ریستوران چلا گیا اور باہر کا منظر خوبصورت دکھائی دینے والی ایک میز پر براجمان ہو گیا۔ بیرے کو اْس نے بتا دیا کہ وہ اپنے والدین کا انتظار کر رہا ہے اور اْن کے آنے پر کھانا طلب کرے گا۔تین بجے خلیل نے اپنے والد کو فون کر کے پوچھا کہ آپ ابھی تک پہنچے نہیں تو اْس نے جواب دیا وہ راستے میں ہیں اور ابھی پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ ساڑھے تین بجے ایک بار پھر خلیل نے فون کر کے والد سے تصدیق کی کہ وہ راستے میں ہی ہیں ناں؟چار بجے خلیل نے ایک بار پھر اپنے والد کو فون کر کے خیریت پوچھی تو اْس نے کہا؛ میں نے کہہ دیا ہے ناں کہ میں اور تیری ماں ہم دونوں راستے میں ہیں اور آ ہی رہے ہیں۔انتظار کی کوفت میں مبتلا خلیل نے پانچ بجے باپ کی بجائے اپنی ماں کو فون کرکے پوچھا تاکہ صحیح صورتحال کی سمجھ آئے مگر اْس کی ماں نے بھی وہی جواب دیا جو اْس کے باپ نے دیا تھا کہ ہم راستے میں ہیں اور بس پہنچا ہی چاہتے ہیں۔انتظار کی کوفت اور اذیت میں مبتلا خلیل کی حالت دیدنی تھی۔ نہ وہ ریستوران چھوڑ کر کہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی فون پر چیخ چلا کر اپنی کوفت کا اظہار کر سکتا تھا، کیونکہ یہ کوئی اور نہیں اْس کے ماں باپ تھے۔ اپنی طبیعت کے برعکس زہر کا کڑوا گھونٹ بھرے وہیں مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق بیٹھا انتظار کرتا رہا۔اسی طرح چھ بجے تو اْس کے ماں باپ ریستوران میں داخل ہوتے دکھائی دیئے۔ خلیل نے اپنی ناگواری کو دبائے سرد مزاجی سے کھڑے ہو کر ماں باپ سے سلام دْعا لی اور چھوٹتے ہی پوچھا؛ کیا ہوگیا تھا آپ لوگوں کے ساتھ؟ کیوں اتنی دیر لگا دی؟اْس کے باپ نے نہایت دھیمے سے لہجے میں کہا تیری وجہ سے ہمیں یہ ساری دیر ہوئی ہے۔

میری وجہ سے؟ خلیل نے اپنی حیرت کو دباتے ہوئے باپ سے پوچھا۔باپ نے پھر سے دھیمے لہجے میں خلیل کو اپنا وہی جواب دیا ہاں تیری وجہ سے دیر ہوئی ہے یہ ساری۔اس بار خلیل کی ماں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا؛ چلو بیٹا کیا ہو گیا اب، آخر ہم پہنچ ہی گئے ہیں ناں۔ ہو سکتا ہے تم نے کوئی اچھا سبق ہی سیکھا ہو آج کی اس ملاقات سے۔خلیل نے پوچھا امی جی، اس کوفت سے جو میں نے اْٹھائی ہے بھلا کونسا اچھا سبق نکلتا ہے مجھے بھی تو بتا ئیے؟

خلیل کے والد نے کہا؛ بیٹے تم چاہتے ہوئے بھی آج ریستوران کو چھوڑ کر نہ جا سکے کیونکہ تم جن لوگوں کے انتظار میں یہاں بیٹھے رہے وہ کوئی اور نہیں تمہارے والدین تھے۔، تم بار بار اپنی جھنجھلاہٹ کو دبا کر ہمیں فون کرتے رہے۔ چاہنے کے باوجود بھی اپنی آواز کو اونچا نہ کر سکے کہ سامنے کوئی اور نہیں تمہارے والدین تھے۔ اگر تمہارا آج کا مقصد یہاں بیٹھ کر اپنے پیارے والدین سے ملاقات کرنا تھی اور اْن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی سعادت حاصل کرنا تھی تو تمہیں انتظار کی کوفت تو اْٹھانا پڑی مگر تم اپنے مقصد میں کامیاب رہے ۔خلیل جو ابھی تک اپنے غصے اْکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ کو دبائے ہوئے تھا اس بات کا مطلب نہ سمجھ سکا اور پوچھ ہی لیا کہ ابا جی مجھے آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ خلیل کے والد پھر گویا ہوئے؛ بیٹے تمہارے اندر زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب ہونے کی پوری صلاحیتیں ہیں، مگر ہر کوشش کے نتائج بر آنے تک صبر کے ساتھ ایک انتظار کی ضرورت ہوتی ہے جو تمہارے اندر نہیں ہے۔ صبر ایک تکلیف دہ مرحلہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کے نتائج میٹھے پھلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے اس طرح صبر کے ساتھ انتظار کرو جس طرح تم نے آج اپنے والدین کے خیریت سے پہنچ جانے کا کیا ہے۔ آج تم چاہتے ہوئے بھی اپنے منہ سے اْف نہ کر سکے کہ معاملہ والدین کا تھا جن کو نہ چھوڑا جا سکتا تھا اور نہ کچھ بولا جا سکتا تھا۔ آج اگر تْم نے انتظار کیا ہے تو اپنی مراد بھی تو پائی ہے۔آج پہلی بار تھا کہ خلیل سر جھکائے اپنے والدین کی باتیں اس توجہ سے سْن رہا تھا۔ اندر سے اْسکا دل اپنی اْن تمام ناکام کوششوں کیلئے دھاڑیں مار کر رو رہا تھا جن کے نتائج کا انتظار کیئے بغیر اپنی لااْبالی طبیعت کے ہاتھوں مجبور وہ ایک کو چھوڑ دوسری کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے تھک چکا تھا۔ کاش یہ سب کچھ وہ بہت پہلے سیکھ پاتا کہ خواب حقیقت بنتے دیکھنے کیلئے صبر کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔

مشہورسائنسدان تھامس ایڈیسن کہتا ہے زندگانی میں ناکام ہونے والے اکثر لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوششیں اس وقت ترک کیں جب انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ وہ کامیابی کے کس قدر نزدیک جا پہنچے ہیں۔

٭٭٭