شکر گزاری

مصنف : رخسانہ بشیر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2013

             ہیلن کیلر کا نام آپ نے سنا ہو گا جسے مارک ٹوئن نے انیسویں صدی کی سب سے دلچسپ شخصیت قراردیا تھا۔ ہیلن کیلر بینائی، گویائی اور سماعت سے محروم تھی، وہ محض لمس محسوس کر سکتی تھی۔ لیکن اس کے اندر کچھ کر دکھانے کی طلب نے اسے اس مقام پر لاکھڑا کیا ،کہ وہ اتنی محرومیوں کے باوجود نامور خاتون بن گئی۔اس نے اپنی آپ بیتی میں ایک کمال کی کی بات لکھی۔ ‘‘میں خوش ہوں کہ میرے خدا نے میرے اوپر بڑا کرم کیا۔ اگر یہ ساری چیزیں،یہ ساری نعمتیں.. بینائی، گویائی اور سماعت مجھے ملی ہوتیں تو میں دنیا کی ایک نامور عورت نہیں معمولی سی گھریلو عورت ہوتی۔’’

            شیخ سعدی کے پاؤں میں جوتا نہ تھا اور یہی بات اندر ہی اندر انہیں ملول کر رہی تھی۔ جنگل میں چلے جا رہے تھے کہ ایک اپاہج کو دیکھا جو بیساکھی کے سہارے چل رہا تھا۔ پاؤں ہی نہ تھے، لیکن پھر بھی وہ شکر گزار تھا۔ شیخ سعدی بہت متاثر ہوئے اور شکر کیا کہ ان کے پیر تو ہیں سو شکر گزاری سیکھنے کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ سر اٹھا کر دیکھنے کے بجائے کبھی سر جھکا کر بھی دیکھ لیا جائے۔ ممکن ہے وہ لوگ نظر آ جائیں جو مال و دولت، مرتبہ، تعلیم میں آپ سے کم ، لیکن شکر گزاری میں آپ سے کہیں بڑھ کر ہوں کہتے ہیں ‘‘جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا، وہ اللہ کا شکر گزار کیسے ہو سکتا ہے؟’’ اللہ کے بندوں کا شکر گزار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ بھلائیاں اور نیکیاں یاد رکھیں جو انھوں نے ہمارے ساتھ کیں۔

             جب دوسروں میں کوتاہیاں اور خامیاں نظر آئیں تو اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں؟ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں اپنی کوتاہیاں دوسروں کی خامیاں بیان کرنے سے باز رکھتی ہیں۔ جو لوگ اپنی کوتاہیوں پر نگاہ رکھیں، عموماً وہ دوسروں سے گلہ، شکوہ کم کرتے ہیں۔

             کچھ لوگوں کو اپنے حالات، ماحول، خاندان، یاکم وسائل سے شکوہ ہوتا ہے۔ وہ جب دوسروں کو سبقت لے جاتے دیکھیں تو نامناسب حالات، محدود مواقع اور غیر فائدہ مند خاندانی پسِ منظر کا گلہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں بہت سی نامور اور عظیم شخصیات ایسی گزری ہیں جن کا تعلق انتہائی عام خاندانوں سے تھا اور جنھوں نے بہت غربت میں پرورش پائی۔ لہٰذا آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا اصل راز اپنی صلاحیتوں پر اعتماد اور اللہ پر بھروسہ رکھنا ہے۔

             اکثر یہ الفاظ دہراتے رہا کریں۔ ‘‘یا اللہ! مجھے اپنی رضا میں راضی کر لے۔ مجھے ویسا بننے کی توفیق دے جیسا تْو اپنے بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔’’ یہ مشق تسلیم و رضا سیکھنے کے لیے بہترین ہے۔

            ہمیں زندگی میں دو طرح کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں ذرا سی تکلیف پہنچے یا ذرا سا دکھ ملے تو گلہ ان کی زبان پر آ جاتا ہے۔ ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ ساری کائنات کے خلاف بولنے لگتے ہیں کہتے ہیں ‘‘جب سے چاند ستارے بنے ہیں مجھے کوئی نہ کوئی تکلیف رہتی ہے۔’’ یہ وہی لوگ ہیں جن کی پْر بہار زندگی میں اگر خزاں کا ایک پتا بھی گرے تو یہ ناشکری کرتے ہیں۔ پھولوں بھری زندگی میں ایک کانٹا بھی آ جائے تو گلہ کرتے ہیں۔یہ ہمیشہ برسنے والی رحمتوں، عنایات اور عطاؤں کی بارش بھول جاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھتے ہیں تو لْو کا وہ ایک تھپیٹرا جس نے کبھی انھیں ہلکے سے چھوا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جوتا گم ہونے پرچلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ان کی نظریں شیشے پر مری مکھی پر جا ٹھہرتی ہیں، لیکن شیشے کے اس پار تاحدِ نگاہ پھیلا حسن و جمال محسوس نہیں ہوتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خوشیوں کی پوٹلی میں سے چھانٹ چھانٹ کر دکھ نکالتے ہیں اور پھر انہیں تعویذ بنا کر گلے میں ڈال لیتے ہیں۔یہی لوگ زندگی کے ڈھیر سارے خوشگوار لمحوں میں سے کوئی ناخوشگوار لمحہ ڈھونڈ کر کیلنڈر کی صورت دیوار پر لگا لیتے اور پھر ہر وقت اسے یاد کر کے آہیں بھرتے، تقدیر سے گلہ اور ناشکری کرتے ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنھیں دھوپ میں کھڑا کیا جائے یا چھاؤں میں ان کے دل کا پیمانہ شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات سے لبریز رہتا ہے۔ان کی خزاں زدہ زندگی میں بہار کا ایک معطر جھونکا بھی بہت معنی رکھتا ہے وہ اس جھونکے کو ساری زندگی یاد کر کے اپنی حبس زدہ زندگی مہکاتے رہتے ہیں۔خوشی کا ایک لمحہ عطا ہونے پر بھی کہتے ہیں ‘‘میرے اللہ! تو ہمیشہ سے مجھ پر مہربان ہے، میں نے جب بھی اس کی طرف ایک قدم بڑھایا تو وہ دس قدم ضرور میری طرف آیا ہے۔’’ یہی لوگ ہیں جن کے پاس جوتا تودرکنارپاؤں بھی نہیں ہوتے پھر بھی زبان پر شکوہ نہیں لاتے۔یہی وہ لوگ ہیں جو ہیلن کیلر کی طرح محرومیوں کو نعمت کہتے ہیں۔ ناخوشگوار لمحوں کو کارٹون بنا کر ان پر رنجیدہ ہونے کے بجائے ہنسنے کا ہنر سیکھتے ہیں۔ آدھا خالی گلاس دیکھ کر پریشان ہونے کے بجائے آدھا بھرا ہوا گلاس دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ وقت کے تاریک جنگل سے ملنے والے جگنو جیسے ایک پل کوبھی مٹھی میں قید کر کے ساری زندگی روشن کر لیتے ہیں، زندگی کے تپتے صحرا میں اڑتی ریت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ اِکا دْکا سایہ فراہم کرتے،درختوں کی بات کرتے ہیں۔یہی لوگ ہر کٹھن لمحہ میں اپنے آپ سے بہت دھیرے سے پْر یقین انداز میں کہتے ہیں: ‘‘جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتاہے، صحیح کرتا ہے۔’’یہی مقصودِ فطرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اسی لیے جب ان کے سپنے بکھریں اور ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں دل میں ترازو ہوں تو وہ فگارِ دل اور چھلنی جگر کے ساتھ بھی چہرے پر مسکراہٹ سجانے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں۔ وہ چپکے چپکے اللہ سے کہتے ہیں ‘‘ اگر تو اس بات میں راضی ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں۔’’

            سوال یہ ہے کہ پہلی قسم کے لوگوں سے نکل کر دوسری صف میں کھڑے لوگوں میں شامل ہونا ہمیں کب آئے گا؟ گلے، شکوے، شکایات، ناشکری اور بے جا تقاضے سے نکل کر شکر گزار اور تسلیم و رضا کے مرحلہ میں ہم کب داخل ہوں گے؟

            یہ وہ سوالیہ نشان ہیں جن پر سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نعمتوں کا ادراک اور اعتراف کر سکیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے۔ ‘‘اگر تم شکر کرو گے تو میں تمھارے لیے نعمتوں کو بڑھا دوں گا۔’’

٭٭٭