یہ مری اَنا کی شکست ہے، نہ دوا کرو نہ دعا کرو

مصنف : اقبال عظیم

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2014

یہ مری اَنا کی شکست ہے، نہ دوا کرو نہ دعا کرو
جو کرو تو بس یہ کرم کرو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

 

جو کسی کو کوئی ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اصول کی بات ہے، جو خفا ہے مجھ سے کوئی تو ہو

 

یہ فقط تمھارے سوال کا مرا مختصر سا جواب ہے
یہ گلہ نہیں ہے، خلوص ہے، مری گفتگو کا اثر نہ لو

 

یہ ادھورے چاند کی چاندنی بھی اندھیری رات میں کم نہیں
کہیں یہ بھی ساتھ نہ چھوڑ دے، ابھی روشنی ہے چلے چلو
٭٭٭

 

میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید

 

جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید

 

میں نے تو پرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر آپ کا شیوہ ہی نہیں شاید

 

بات اب منزلِ تشہیر تک آ پہنچی ہے جستہ جستہ
اب بجز ترکِ تعلق کوئی رستہ ہی نہیں ہے شاید

 

آپ کچھ بھی کہیں ناقابلِ تردید حقیقت ہے یہ
آپ کو میری صداقت پر بھروسہ ہی نہیں ہے شاید

 

اب وہ احباب نہ ماحول نہ آداب نہ پرسش نہ سلام
اب تو محفل میں کوئی اپنا شناسا ہی نہیں ہے شاید

 

حاکم شہر پہ تنقید کا اقبال نتیجہ معلوم
اور وہ یہ کہ تمھیں شہر میں رہنا نہیں ہے شاید

٭٭٭