افراد کی صلاحیتوں کی پہچان او ران سے کام لینا

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2020

اگر فرد بطور فرد اپنا مقصد تخلیق جان لے اور اسے حاصل کرنے میں جت جائے تو کامیابی خود آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لے گی۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔احزاب کا معرکہ مدینہ والوں کے لیے اس قدر خوفناک تھا کہ قرآن کے الفاظ میں آنکھیں پتھرا گئی تھیں اورکلیجے اچھل کر حلق میں اٹک گئے تھے۔باہر سے محاصرہ تھا، پڑوس میں بنوقریظہ چھپ کر حملہ کرنے کو تیار تھے، مدینہ کے اندر منافقین کی فوج ہر گلی اور محلے میں کسی موقع کی منتظر تھی۔خواتین اور بچوں کا تحفظ سب سے مشکل مسئلہ تھا۔انہیں ایک محفوظ حویلی میں ٹھہرا کر حضرت حسان بن ثابت کو جو میدان کارزار کے فرد نہیں تھے بطور محافظ کھڑا کر دیا۔سیدہ صفیہ نے اوپر سے دیکھا کہ ایک یہودی حویلی کے آس پاس منڈلا رہا ہے۔حسان سے کہا،جاؤ اس کا سر کاٹ کر لے آؤ، مبادا مخبری کر دے۔
انہوں نے جواب دیا، میں اس میدان کا دھنی ہوتا تو یہاں عورتوں بچوں کے ساتھ ہوتا۔عبدالمطلب کی بیٹی تھیں، خیمے کی ایک لکڑی اٹھائی اور اس زور سے یہودی کے سر پر ماری کہ اس کا سر ہی نہیں سر میں مچلتی سازش بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔واپس آکر پھر حسان سے کہا کہ جاؤ اس کی تلوار لے کر اس کا سر کاٹ لاؤ۔انہوں نے پھر معذرت کی۔سیدہ صفیہ نے خود جا کر سرکاٹ کر باہر پھینک دیا تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ حویلی میں بھی مسلح محافظ موجود ہیں۔لیکن یہی حسان بن ثابت اس درجے کے شاعر تھے کہ رسول اکرم ان کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے اس پر خود حسان کو بٹھاتے اور ان سے کہتے کہ اب تم قریش کے خلاف ہجویہ قصیدہ پڑھو اور ساتھ دعا فرماتے اللھم ایدہ بروح القدسپھر بتاتے کہ حسان کے اشعار قریش کے دلوں کو تیروں اور نیزوں سے زیادہ زخمی کرتے ہیں۔اگر ہر فرد کو اپنی منفرد صلاحیت کا علم ہو اور وہ اسے ترقی دے کر کام میں لائے تو کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ناکامی تب ہوتی ہے جب ہم وہ کام کرتے ہیں جس کے لیے اللہ نے ہمیں پیدا نہیں کیا ہوتا۔اسی طرح ایک قائد کو اپنی ٹیم کے ہر فرد کے بارے میں معلوم ہو اس کی مخصوص صلاحیتیں کیا ہیں اور وہ اس کی صلاحیت کے مطابق اس سے کام لے اس کی حوصلہ افزائی کرے تو کوئی فرد بے مصرف نہیں ہوتا۔
شخصیت کو دلیل پر ترجیح دینا شرک ہے 
ڈاکٹر طفیل ہاشمی
ایک بار ایم ایس کے ایک طالب علم، میرے پاس کسی شعبہ جاتی ضرورت کے تحت آئے تو کام کی تکمیل کے بعد اچانک کہنے لگے''آپ مجھے پسند نہیں کرتے''
مجھے حیرت ہوئی، میں نے کبھی طلبہ میں کسی قسم کا سماجی یا فرقہ وارانہ امتیاز نہیں رکھا. میں نے کہا، ایسی کوئی بات نہیں۔لیکن میں سوچ میں پڑ گیا کہ آخر ان کو یہ احساس کیوں ہوا جبکہ میں تمام طلبہ سے بے تکلف رہتا ہوں۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی آستانے کے گدی نشین ہیں اور دوسرے اساتذہ انہیں پیر و مرشد کا پروٹوکول دیتے ہیں اورشاید نذر و نیاز میں سے حصہ بھی وصولتے ہیں جبکہ میں اس طرح کے طلبہ کو سب سے پہلے لینڈ کرواتا ہوں۔لینڈ کروانے سے یاد آیا کہ دارالعلوم کراچی کے بہت سے فضلاوقتا فوقتاً میرے پاس پڑھنے آتے رہے چونکہ دارالعلوم ملک بھر سے چھانٹ کر بہترین طلبہ کو داخلہ دیتا ہے اس لیے اس کے فضلا بلاشبہ نسبتاً زیادہ با صلاحیت ہوتے ہیں لیکن کچھ ادارے کی نسبت سے اور کچھ وہاں رہ کر ''ہمارے فضلاء'' کی بکثرت سماعت سے ان کا دماغ ساتویں آسمان سے بلند تر ہوتا ہے۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یونیورسٹی پروفیسر جاہل محض ہوتے ہیں،بس سسٹم کی مجبوری ہے کہ ان سے پڑھنا پڑتا ہے۔بتدریج انہیں پتہ چلتا ہے کہ کنوئیں کے باہر بھی پانی ہو سکتا ہے اور سمندر نہ ہو تب بھی چھوٹا موٹا حوض تو ہوگاہی۔ایک سمسٹر گزرنے پرآخر وہ لینڈ کر جاتے ہیں اور تب واقعتاً نکھر جاتے ہیں۔
اور جب میں انہیں طلبہ سے شرعی حیلوں کے خلاف، مقاصد شریعت پر اور اسلامی بنکاری کی خرابیوں پر مقالات لکھواتا ہوں تو مجھے اطمینان ہوتا ہے کہ اب یہ مسائل کو شخصیات کے بجائے دلائل پر جانچا کریں گے۔
شخصیت کو دلیل پر ترجیح دینا ہی شرک کی وہ قسم ہے جو '' اہل علم اور اہل اللہ ''کے تمام اعمال غارت کرنے کے لیے کافی ہے۔
تاریخ کی اہمیت
ڈاکٹر طفیل ہاشمی
ہمارے عہد کے فرقہ پرست تاریخ کی بے حرمتی کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ایسے افراد جن کے ملفوظات کو ان کا حلقہ ارادت کتاب و سنت پر ترجیح دیتا ہے، جب کسی واقعہ کو اپنے موقف کے خلاف دیکھتے ہیں تو اپنی جہالت کو تاریخ کی غلط بیانی کے پردے میں لپیٹ کر فروخت کر دیتے ہیں۔تاریخ نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ معصوم ہے لیکن قرآن نے سب سے زیادہ تاریخ سے استدلال کیا ہے جس سے تاریخ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن تاریخ اس لئے نہیں ہوتی کہ اس کی بنا پر فرقے بنائے جائیں، اس سے عقائد کشید کئے جائیں، اس کے دامن میں بھرے ہوئے اختلافات اور جنگوں کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے بلکہ تاریخ ہر لمحہ یہ کہتی ہے کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہو۔ تاریخ حال کو درست کرنے اور درست رکھنے میں ایک استاذ کا کردار ادا کرتی ہے اور مستقبل کی راہ متعین کرنے کے لیے ایک باد نما ہے۔آپ ماضی میں ہونے والے واقعات کو تبدیل نہیں کر سکتے، انہیں وجہ نزاع یا موجب سنگ زنی بنانے کے بجائے ان سے عبرت، نصیحت اور موعظت حاصل کریں۔اگر آپ حساس اسلامی تاریخ کو دیکھیں تو خلفاء اربعہ کی خلافت، مشاجرات صحابہ، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ، عصبیت کی اثر آفرینی اور متبادل عصبیت سے اس کی شکست تاریخی حقائق ہیں۔ان میں کون کہاں کھڑا تھا، ان میں سے کسی بھی فریق کے برسر حق اور برسر باطل ہونے کے فیصلے کے بغیر بھی تاریخ ایسی رہنمائی کرتی ہے جس سے ہر ملک و قوم اپنا مستقبل سنوار سکتی ہے۔ان واقعات میں تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ تاریخی عمل cause and effect کی بنا پر جاری رہتا ہے۔کسی فریق کا تقوی، للہیت اور نیکی یا کسی فریق کا فسق و فجور نتائج پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اسباب ہی نتائج کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس معرکے میں شریک افراد کی کامیابی یا ناکامی ان کے حق و باطل کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ یہ فیصلہ یوم الدین پر اٹھا رکھا گیا ہے۔قرآنی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر آپ سدومی روایات کو اپنی مقتدر سماجی روایات بنا لیں گے یا طاقت کے بل بوتے پر وسائل رزق پر قبضہ کر لیں گے توپاک پوتر ہونے کے دعوے آپ کو آسمانی سنگ ساری اور زمینی سونامی سے نہیں بچا سکتے۔
فوج اور زراعت و تجارت
ڈاکٹر طفیل ہاشمی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں عراق فتح ہوا تو دجلہ اور فرات کا درمیانی وسیع علاقہ زرخیز ترین زمینوں پر مشتمل تھا۔سابق روایت یہی تھی کہ مفتوحہ زمین مجاہدین میں تقسیم کر دی جائے۔حضرت عمر اس کے سخت خلاف تھے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ اگر افواج اور عسکری نسل زراعت اور تجارت میں مصروف ہو گئی تو ملک کا دفاع کون کرے گا۔جہاد کیسے جاری رہے گا۔صحابہ کرام کی اکثریت کا شدید ترین اصرار تھا کہ زمینیں ان میں تقسیم کر دی جائیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں گنتی کے ووٹ تھے لیکن ساری بحث سے، جو تین دن جاری رہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ فوج کو زراعت اور تجارت میں ملوث کرنے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں تھے۔آخر صحابہ کرام کو مطمئن کرنے کے لیے انہوں نے مقاصد شریعت کے تقاضوں کو مبرہن کرنے کے لیے نص کی تلاش شروع کی اور تیسرے دن انہیں سورہ الحشر کی آیت نمبر نو اور دس نظر آ گئی اور انہوں نے اس آیت کے اقتضا سے استدلال کر کے اپنا موقف نافذ کر دیا۔اگر اس روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ لچک دکھاتے تو اسلامی ریاست کی آخری سرحد سواد عراق سے آگے نہ بڑھتی بلکہ ہمسایہ ممالک یہ مقبوضات بھی بتدریج ان زمینداروں اور تاجروں سے چھین لیتے۔
قرآن کی ترتیب میں مخاطبین کی رعایت
ڈاکٹر طفیل ہاشمی
ہمیں معلوم ہے کہ قرآن حکیم کی ترتیب نزولی اور ترتیب تدوین میں فرق ہے۔ ترتیب نزولی کا تعلق مراحل دعوت و إنذار سے ہے۔ جس مرحلے پر مخالفین کے جو اعتراضات تھے، جو ردعمل تھا، جس نوع کی ایذا رسانی تھی اس کے تناظر میں آیات و سور کا نزول ہوا۔گویا ترتیب نزولی کے پیش نظر سیرت طیبہ کی حتمی تدوین کی جا سکتی ہے 
لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا تو اس کے مخاطبین بدل گئے۔اب اولین مخاطب مسلم سماج (افراد و اجتماع) تھا۔اس لئے ترتیب میں سماجی، سیاسی اور بین الاقوامی امور شروع میں آ گئے۔
کیا آپ خضر جیسا علم رکھتے ہیں؟
پروفیسر محمد مشتاق
قانون ہاتھ میں لینے پر بحث کے دوران میں محترم جناب مفتی محمد زاہد صاحب نے ایک الہامی جملہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
''علما چونکہ خضر کے نہیں موسیٰ کے وارث ہیں اس لیے انھیں مسئلہ وہی بتانا چاہیے جو شریعت کا مقتضا ہو.''
امام محمد بن الحسن الشیبانی کی کتاب الاصل میں کتاب السیر پتہ نہیں کتنی دفعہ پڑھی ہے لیکن یہ روایت پتہ نہیں کیسے بھول گیا تھا۔ آج امام سرخسی کی مبسوط میں کتاب السیر پر کام کے دوران میں پھر سامنے آگئی۔ 
روایت یوں ہے کہ مشہور خارجی لیڈر نجدہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جو سوالات کیے تھے، ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ بچوں کو قتل کرنا کیوں ناجائز ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی عالم نے بچے کو قتل کیا تھا؟ (ذرا دیکھیے کہ پرانے خوارج اور موجودہ خوارج ''نصوص سے براہ راست استدلال'' میں کیسے ایک ہی نوعیت کی ٹھوکریں کھاتے ہیں!) ترجمان القرآن اور حبر الامۃ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کا کیا خوب جواب دیا۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بچوں کے قتل سے منع کیا اور موسیٰ علیہ السلام کے عالم دوست نے بچے کو قتل کیا تھا، تو اگر آپ موسی علیہ السلام کے عالم دوست جیسا علم رکھتے ہیں، تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ 
قرآن کریم کی قرأت میں ایک عام غلطی
پروفیسر محمد مشتاق
ہمارے ہاں لوگوں نے یہ فرض کیا ہوا ہے کہ اچھا قاری وہ ہوتا ہے جو اچھی آواز کا حامل ہو اور جس کا لہجہ پیارا ہو، حالانکہ قرأت اصل میں یہ جاننے کا علم ہے کہ (حروف کو ان کے صحیح مخارج سے ادا کرنے کے بعد) وقف کہاں کرنا ہے، وصل کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ اسلام آباد میں عموماً تو جمعہ کی نماز فیصل مسجد یا اسلامی یونی ورسٹی کی مسجد میں پڑھتا ہوں جہاں، ما شاء
 اللہ، اچھے قاری موجود ہیں لیکن کبھی کبھار گھر کے قریب کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے اور جب بھی امام صاحب خطبے کے دوران میں سورۃ النحل کی یہ آیت لہک لہک کر پڑھتے ہیں، تو ان کے وقف اور وصل کا یہ حال ہوتا ہے کہ ایک ہی سانس میں پڑھ جاتے ہیں:ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآء ذی القربی و ینھی عن الفحشآء و المنکرپھر سانس توڑ کر اگلی سانس میں پڑھتے ہیں:و البغی یعظکم لعلکم تذکرون۔
میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ امام صاحب عربی بھی مناسب حد تک جانتے ہیں اور قرأت بھی بس ٹھیک ہی ہے لیکن اس آیت میں وہ کیوں ایسا کر جاتے ہیں؟ وہ یہ کیوں نہیں کرتے کہ ذی القربی پر وقف کریں اور پھر ینھی سے آگے پڑھیں؟
تہوار منانے کا بھی اھتمام کیجئے
زاہد مغل
اگر اللہ تعالی نے آپ کو توفیق دی ہے تو قربانی کا جانور خرید کر گھر لائیں اور اس کی آؤ بھگت کیجئے، بچوں کو اس میں شریک کیجئے۔ رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ مل کر قربانی کا جانور خریدنا اور اگر ہمت و صلاحیت ہو تو خود قربانی کرنا مذھبی سوشلا ئزیشن کا بہترین ذریعہ ہے۔ روحانی فوائد کے حصول کے علاوہ یہ دینی رسومات کے تسلسل کا بھی طریقہ ہے۔ کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ جانور کا گوشت بھی گھر پر نہیں آنے دیتے، اجتماعی قربانی کرنے والے کسی ادارے کو رقم دے کر کہتے ہیں کہ گوشت بھی خود ہی بانٹ دو ہمیں نہیں چاہئے۔ خود یہ لوگ اپنے گھروں پر سوئے پڑے رہتے ہیں۔ جب گھر سے دین کے تہوار اور انہیں منائے جانے کی رسومات اور خوشیاں بھی رخصت ہوجائیں تو اس کے بعد کچھ بچ نہیں رہتا۔ آج آپ کے بچے آپ کو ان تہواروں کو مناتا دیکھیں گے تو کل وہ بھی منائیں گے، ورنہ وہ بھی انہیں سو کر گزاریں گے۔ اور ہاں، وہ قربانی کے لئے رقم کی تقسیم سے بھی جاتے رہیں گے بلکہ اسے فلاحی اداروں کو دینا اتنا ہی ثواب سمجھیں گے جتنا قربانی کرنے کو۔