سید منور حسن کی یاد میں

مصنف : رشید یوسف زئی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : اگست 2020

منافقت، ڈبل سٹینڈرڈز اور ریاکاری سے ایسا منزہ و پاک شخص وہ بھی سیاست میں دنیا نے نہیں دیکھا ہو گا

رشیدیوسف زئی
کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن DSF کی نیم مردہ راکھ سے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن NSF اٹھی تو اس کے روحِ رواں دہلی سے آئے مہاجر فیملی کے ٹیلنٹڈ نوجوان سید منور حسن تھے ۔عنفوانِ شباب میں ڈی ایس ایف کے سٹیج سے فصیح و بلیغ اردو میں مارکس و لینن کے حوالوں سے بھرپور پرجوش تقاریر کرتے تھے ۔لسانی طلاقت، فصاحت و بلاغت کے انہیں کمالات کی بناء پر 1959 میں نوزائیدہ این ایس ایف کے صدر منتخب ہوئے۔لیفٹسٹوں کے رنگ میں مکمل رنگے ہوئے تھے... ''سرخ ھو گا، ایشیا سرخ ھو گا'' کے نعرے ڈھول کی تھاپ پر لگاتے۔ خود موسیقی کے زبردست ماہر تھے ۔سٹیج سے موسیقی کے آلات بجاتے اور سامنے سینکڑوں طلبا رقص کرتے ۔ڈی ایس ایف معدوم ہو گئی ۔کاظمی و معراج محمد خان اور معراج خالد نیشنل عوامی پارٹی NAP میں چلے گئے، کچھ بھٹو کی پیپلزپارٹی PPP میں شامل ہوئے۔کامریڈ سید منور حسن نے کامریڈز کے برعکس دائیں طرف کی راہ لی۔بائیں بازو کے ادب و معاشیات کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھتے تھے۔متاثر ہوئے،راستہ بدل دیا۔بائیں بازوں کے ادب و سیاست کو خیرباد کہا جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ میں دل و جان سے شامل ہوئے،اور تادمِ مرگ جماعت کے رہے۔
سید صاحب 5 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان پر کراچی منتقل ہوئے۔کراچی یونیورسٹی سے ایم اے سوشیالوجی اور بعد میں ایم اے اسلامیات کئے۔بلا کے ذہین و حاضر جواب تھے۔ سامعین کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بولتے۔ کراچی سے کئی اخبارات و جرائد کے مدیر رہے ۔جو معیار خطابت و تقریر میں تھا وہی معیار نثر نگاری میں بھی قائم رکھا۔جماعتِ اسلامی کے سٹیج پر تنہا خطیب تھے۔بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس PNA بن گئی۔نوجوان خطیب و مقرر سید منور حسن جس جلسے میں جاتے، سامعین و شرکائے جلسہ کو اپنا فدائی و شیدائی بنا کے آتے۔ الائنس کے بڑے بڑے لیڈر سید صاحب کیلئے سٹیج چھوڑ دیتے ۔عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مذہبی خطابت کی دنیا منور حسن سے منور تھی۔ستتر کے انتخابات ہوئے چھتیس سالہ سید منور حسن نے تمام پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لئے...!
سید صاحب بے لاگ و ببیاک بولتے لیکن سنجیدگی و متانت ہمیشہ براقرار رکھتے۔ہرہر انچ نظریاتی اورجماعتی رہے۔عالمی امور پر جماعت کا چشمہ لگا کر ہی بات کرتے لیکن ایمانداری، دیانتداری اور اخلاص پر کبھی سرمو برابر معاملہ نہ کرتے۔منافقت، ڈبل سٹینڈرڈز اور ریاکاری سے ایسا منزہ و پاک شخص وہ بھی سیاست میں دنیا نے نہیں دیکھا ہو گا۔دو جوڑے کپڑے، ایک قراقلی کیپ کے ساتھ دنیائے سیاست میں آئے تھے. انہیں اثاثہ جات کے ساتھ آج دنیا چھوڑ گئے۔رہائش کیلئے سابق ناظمِ اعلی کراچی نعمت اللہ صاحب نے گھر کے دو کمرے دیئے تھے۔خرچ کیلئے جماعت اسلامی کے مقرر کردہ وظیفہ پر گزارہ کرتے۔دل کے قلندر تھے ،دنیا کے بھی قلندر رہے۔
جماعت اسلامی، پاکستان کی واحد جمہوری جماعت ہے ۔یہاں امیر کا بیٹا، بیٹی، پوتا، نواسا کبھی جانشین نہیں بن سکتا۔حسبِ روایات قاضی حسین احمد کے وفات پر یہ مردِ قلندر ارکانِ جماعت کے ووٹ سے امیرِ جماعت منتخب ہوئے۔کافی شکوک و شبہات ہیں کہ ارکان نے کیوں دوبارہ منتخب نہیں کیا۔جماعت کے واحد زندہ امیر تھے جو ایسے انداز میں ہٹائے گئے۔شاید سید صاحب کا غیر لچکدار رویہ یا سراج الحق صاحب کی کامیاب لابنگ سبب بنابہر حال جماعت کی اپنی ایک فری میسنری ہے اور باہر کے لوگوں کو کم ہی پتہ چلتا ہے کہ درونِ منصورہ کیا ہوتا ہے۔میرا ان سے تعارف جماعت کے روابطِ عمومی کے مسؤل سید بختیار معانی کی توسط سے ہوا۔ میں کبھی بھی سید صاحب کے خیالات و نظریات اور سیاسی طرز عمل سے متفق نہیں رہا۔لیکن انہوں نے میری مخالفت و تنقید کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ ہمیشہ ایسے جواب دیتے کہ میرا دل جیت لیتے جب بھی کال کی، میرے ملحدانہ سوالات کے جوابات شفقت سے دیتے۔آخر میں ''راہ راست پر آنے اور دین اسلام کی خدمت'' کیلئے طویل و پر خلوص دعا دیتے۔کاش مذہبی دنیا کو ایسا لیڈرز اور مل جائے۔
سید صاحب کی بہترین صلاحیت ان کی ایماندارانہ حاضر جوابی تھی۔جو بھی دل میں حقیقت سمجھتے، دنیا و جہان کی پروا کئے بغیر زبان پر لے آتے۔ساری دنیا بشمول جماعت اسلامی، طالبان کی مخالف ہو گئی، سید صاحب نے دفاع کیا۔ایک بار دوران گفتگو سوال کیا، سید صاحب! یہ آپ نے اچھا کیا کہ روس کو شکست دے کر امریکہ کو دنیا پر مسلط کیا؟ فرمایا: ''نزدیکی روس کو شکست دی کہ جگہ خالی ہو۔امریکہ یہاں آئے اور اسی پتھر سے اس کا بھی سر کچل دیں گے ۔جنرل پاشا کی سربراہی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے حسین حقانی کا میڈیا و عدالتی ٹرائل شروع کیا۔کسی نے سید صاحب سے طنزیہ سوال کیا کہ ''جناب، حسین حقانی صاحب جماعت کے پلیٹ فارم سے آئے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟''. جواب دیا: ''میں اب بھی مطمئن ہوں، حسین حقانی، جنرل پاشا سے زیادہ ایماندار پاکستانی ہے.''
ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر ایک مباحثہ کیلئے مدعو تھے. میزبان نے سوال کیا: منور حسن صاحب، آپ کہتے ہیں کہ جہاد کی کئی قسمیں ہیں غربت کے خلاف جہاد، جہالت کے خلاف جہادمگر جہاں تک ہم دیکھتے ہیں آپ کا جہاد صرف امریکہ کے خلاف ہی ہے یہ دوسرے جہاد کب شروع ہوں گے؟سید منور حسن نے بے ساختہ جواب دیا:''جب امریکہ یہاں سے چلا جائے گا

تب

 آپ اپنے اثاثہ declare کریں
مجیب الرحمان شامی
اثاثے declare کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اثاثے ہوں میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز(تین مرلہ) مکان کے علاوہ Asset نام کی کوئی چیز نہیں۔یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں ملاتھا، میں حلال کی کمائی سے گھر تو دور کی بات ہے گاڑی بھی نہیں خرید سکا۔جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی ذمہ داری ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتا ہوں ورنہ ساری زندگی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی ہے۔اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور ہے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ہے بس مجھے اس کی ادائیگی کی پریشانی رہتی ہے۔
یہ اس شحص کا حال ہے جو الیکشن 1977 میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے خود ممبر قومی اسمبلی بھی رہا اور پانچ سال تک انکی زوجہ محترمہ ممبر قومی اسمبلی رہیں۔بیس سال جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل اور پانچ امیر جماعت اسلامی رہامگر انکے پاس اپنی بیوی کی وراثت میں ملا سو گز کا مکان سو گز ہی رہا اور آج اسی گھر سے انکا جنازہ اٹھایا گیا۔
بیٹے کی شادی کی تو وہ اس وقت امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی حالانکہ اس وقت وزیر اعظم وزراء وزراء اعلیٰ گورنر اور میں خود بھی شریک ہوا، ہم سب نے پوچھا تو کہنے لگے بس اتنی ہی استطاعت رکھتے ہیں۔مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بیٹی کی شادی میں بے شمار تحفے ملے تو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دئیے کہ یہ میری بیٹی کو امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے ملے ہیں اور ان پر حق جماعت اسلامی کا بنتا ہے۔
جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذات نفس کے پیچھے نہیں پڑتے ۔منور حسن صاحب جس زہد و تقوی کی معراج پر تھے آج ہر شخص انکی مثال دے رہا ہے کہ اس شخص کو نماز پڑھتے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا۔جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسوؤں سے تر ہوتا، کبھی تہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑتے ۔تین چار کپڑے کے سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ اور انکی بھی حالت کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی ہوتی ۔ہم پاکستانی نہ جانے کب اپنے پاس رہتے ہوئے ان نگینوں کو سمجھ سکیں گے۔(مجیب الرحمٰن شامی کے کالم سے اقتباس)
٭٭٭