تكبر رعونت اور انانيت كا استعارہ

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : فروري 2023

اپنی چالیس سالہ شعوری زندگی کے دوران میں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کبھی کسی کی موت پہ فرحت و اطمینان کا احساس ہوا ہو سوائے اس تازہ موت کے جوپانچ فروری ۲۰۲۳ کو واقع ہوئی ۔اپنے اس احساس پہ بھی میں بہت دن سوچتا رہا کہ کیا یہ جائزرویہ ہے ۔ پھر جب اسلاف میں سے اس طرزعمل کی مثال ملی تو یہ سطور لکھنے کا حوصلہ ہوا۔ 
’’امام ابوحنیفہ اپنے استاد امام حماد بن ابی سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے استاد امام ابراہیم نخعی کو حجاج کی موت کی خوش خبری دی تو وہ سجدے میں گر گئے۔حماد کہتے ہیں: میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کوئی خوشی سے روتا بھی ہے؛ اس دن ابراہیم نخعی کو خوشی سے آنسو بہاتے دیکھا تو اس کا پتا چلا۔‘‘(طبقات ابن سعد)
پانچ فروری ۲۰۲۳ کو بالآخر پرویز مشرف بھی اللہ کے حضور پیش ہو گیا۔ وہ پرویز مشرف جومحض آرمی چیف ‘یا چیف ایگزیکٹو یا صدر نہ تھا بلکہ تکبر ‘ رعونت‘ ظلم ‘ غصب ‘ انانیت‘آئین شکنی ‘ اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا استعارہ تھا۔۲۲ کروڑ عوام پر حکومت کرنے والا مسخرہ جو مکے لہر ا لہر ا کر اپنے تکبر اور انانیت کا مظاہر ہ کیا کرتا تھا۔ جو پہلے پاکستان کہہ کر مجبور و مظلوم افغانیوں کو مرواتا رہا اور سب سے پہلے پاکستان کہہ کر اپنے ہی پاکستانیوں کو امریکیوں کے ہاتھ بیچتا رہا۔جس نے عوام کے ووٹ سے برسر اقتدارآئی حکومت کو محض اس لیے چلتا کر دیا تھا کہ بندوق اس کے ہاتھ میں تھی جو چیف جسٹس سے محض اس لیے استعفی طلب کرتا تھا کہ وہ اس کی ربر سٹیمپ بننے کو تیار نہ تھا۔
آرزو تھی کہ وطن ‘ آئین اور دین کا یہ دشمن سسک سسک کر مرتا اور اس کی عبرت ناک موت بقول جسٹس وقار سیٹھ اس طرح واقع ہوتی کہ سب آئین شکنوں اور غداروں کے لیے عبر ت کا باعث بنتی لیکن کریم پھر کریم ہے اس نے کرم فرمایا کہ اسے وطن سے دور دبئی کے ایک ہسپتال میں موت عطا کر دی تاکہ پاکستانی عوام اسے دیکھ نہ سکیں اور یوں اس کا پردہ رہ جائے۔
پرویزمشرف کے اکاؤنٹ میں بعض اچھے کام بھی ہیں جیسے میڈیا کی آزادی ‘ یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ‘ سٹوڈنٹس کے لیے فارن سکالر شپ ‘ اختیارات اور فنڈز کی گراس روٹ لیول تک منتقلی ‘ہسپتالوں کی تعداد کا بڑھنا ‘ قصبوں اور تحصیلوں میں سڑکوں کا جال بچھنا‘  عالمی منڈیوں میں پاکستانی ایکسپورٹ کا کوٹہ بڑھنا جیسے معاشی اقدامات لیکن جس طرح بعض نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اسی طرح بعض برائیاں بھی نیکیوں کو ملیا میٹ کر دیتی ہیں۔ اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔
 اس کے جرائم کی فہرست اگرچہ طویل ہے مثلاً بلوچ رہنما بگٹی کا قتل ‘  بارہ مئی ۲۰۰۷ میں کراچی کا قتل عام‘ بے نظیر کا قتل ‘ جبری گمشدگیاں ‘ ماورائے قانون ہلاکتیں ‘ کارگل کا ایڈوینچر ‘عدالتوں اور انصاف کا قتل عام ‘ چیف جسٹس کو ربرسٹیمپ بنانے کی کوشش ‘ ایمر جینسی کا نفاذ ‘ جمہوری حکومت اور عوامی وزیراعظم کے خلاف ہولناک سازش حتی کہ اسے پھانسی دینے کی کوشش ‘ افغانستان کی بربادی کا آلہ کار بننا ‘ ڈرون حملوں سے بے گنا ہ دینی مدرسے کے طالب علموں اور عوام کا قتل‘اپنے ہی عوام کو امریکہ کے ہاتھ بیچ دینا لیکن یہ سب ایک طرف اور لال مسجد کی بربادی اور وہاں کا قتل عام ایک طرف ۔
 میری نظر میں لال مسجد کی بربادی اور وہاں کے معصوم بچوں اور طالب علموں کا قتل عام اس کا سب سے ہولناک جرم ہے ۔جولائی ۲۰۰۷ میں اپنے ہی وطن میں اپنے ہی لوگوں کاخوفناک محاصرہ کربلا کی یا د دلاتا ہے ۔لال مسجد کے واقعے نے بہت سی تاریخی غلط فہمیاں بھی دور کردیں اور پتہ چل گیا کہ کربلا میں لوگ قافلہ حسین کی مدد کو کیوں نہ نکلے ۔ پورا پنڈی ‘پورااسلام آباد بھرا پڑا تھا ۔ کوئی ایک بندہ کوئی ایک مولوی کوئی ایک نام نہاد سیاسی یا مذہبی لیڈر نہ نکلا کہ اس بربریت کے باپ کو روکتا اور اس سے کہتا کہ ان معصوم لوگوں سے نپٹنے یا ان کو قابو کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے موجود ہیں۔ انہیں گیس پھینک کر بے ہوش بھی کیا جا سکتا ہے یا ان کا کھانا پانی بند کر کے ان کو باہر آنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اس دیوانے کے سر پہ خون سوار تھا اور وہ خون کر کے ہی اس کی پیاس بجھی۔
 چلیں زیادہ دیر نہیں ہوئی اب قاتل و مقتول سب اُس بارگاہ میں حاضر ہیںجو دلوں کے بھید کو جانتی اور پورا پورا انصاف کرنے والی ہے ۔
دل کرتا ہے کہ ہر مرحوم کی طرح اس کے لیے بھی دعا کی جائے لیکن نہ جانے پھر کیوں زبان بھی رک جاتی ہے اور دل بھی بجھ سا جاتا ہے ۔ بس اس مولا سے یہی عرض ہے کہ مالک تو قادرو عادل بھی ہے اور رحیم و کریم بھی ۔قاتل و مقتول ‘ ظالم و مظلوم سب تیرے حضور حاضر ہیں۔ اس کو ان بیچاروں کے حوالے فرما تا کہ یہ بھی جان لے کہ تکبر اور ظلم کا انجام کیا ہوتا ہے اور اس سے اس کی آمریت اور غصب کے نو برسوں کا ایسا حساب لے جو تیرے شایان شان ہو۔اور اس کے ساتھ ساتھ میرے مالک یہ بھی عرض ہے کہ جس طرح تو قادر و عادل ہے اسی طرح رحیم و کریم بھی ہے اگر یہ تیرے رجسٹروں میں کسی حوالے سے کرم کا مستحق ہے تو اس پر ایسا کرم فرما جو اس کے سارے جرائم کو محو کر دے اور مظلومین کو اپنے پاس سے وہ اجر عطا فرما کہ ان کو اس کا ہر ستم اور ہر ظلم بھول جائے ۔