اصلی اور نسلی تاجر

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2020

اصلی اور نسلی تاجر
کہتا ہے: چالیس سال گزر گئے ہیں اس بات کو، لیکن مجھے آج بھی اس دکاندار اور اس کے بیٹے کی شکل ہر زاویئے سے یاد ہے۔
جیسے ہی میرا مڈل سکول کا نتیجہ اخباروں میں چھپا، میرے تو پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ حالانکہ میں نے کوئی معرکہ نہیں سر کیا تھا۔ بس آٹھویں جماعت کو فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تھا۔ لیکن مجھے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ اپنی خوشی کا کیسے اظہار کروں۔
دوسرے دن میں نے منصوبہ بنایا کہ اپنے قصبے ''سویداء'' سے ''دمشق'' جا کر سیر کر کے آتا ہوں۔ میرے لیئے امتحان میں پاس ہونے کا اس سے بڑا جشن نہیں ہو سکتا تھا۔ میری جیب میں ایک ''لیرے'' کا سکہ تھا اور پانچ لیرے کا کڑکتا نوٹ۔ میں نے سیدھا بس کے اڈے پر جا کر دم لیا۔ بس والے نے سکے والا ایک لیرا کرایہ لے لیا، باقی کے پانچ لیرے میری جیب میں موجود تھے۔ میں نے منصوبہ بنا لیا تھا کہ ان پیسوں سے دمشقی مٹھائی گھر لے کر جاؤں گا اور مزے کروں گا۔ میرا شامی کیک خریدنے کا تو پکا ارادہ تھا۔دمشق کے بازار ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت۔ الصالحیہ بازار اور الحمیدیہ بازار کی تو کیا ہی بات تھی۔ وہیں جابی گیٹ کے پاس مجھے مٹھائی کی ایک بڑی دکان نظر آئی۔ میں نے اندر جا کر دکاندار سے، جس کے پہلو میں اس کا ایک بیٹا بھی بیٹھا ہوا تھا، کلو کیک، کلو برازق اور ایک کلو غُرائیبہ مانگا۔ لیکن جیسے ہی پیسے دینے کے لیے میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب خالی تھی، میرے پانچ لیرے جیب میں نہیں تھے۔میری حالت دیدنی تھی اور شاید میرے چہرے سے یاسیت بھی نظر آ رہی ہو گی۔ میں نے دکاندار سے معذرت کرتے ہوئے کہا: جناب، میں کچھ دیر بعد آؤں گا اپنا سامان اٹھانے کے لیے۔ دکاندار نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہاپیسے گھر بھول آئے ہو؟میں نے کہا:
نہیں پیسے تو میری جیب میں ہی تھے۔ پورے پانچ لیرے کا ایک ہی نوٹ تھا، کدھر رہتے ہو؟ دکاندار نے پوچھا۔سویداء میں رہتا ہوں۔ میں نے جواب دیا۔اچھا، ادھر آؤ، پہلے ذرا بیٹھ لو، تھوڑا آرام کرو۔پھر اس نے چائے کا ایک کپ مجھے بھر کر پکڑاتے ہوئے کہا؛ میرے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیو۔اتنی دیر میں دکاندار نے جو میرا سامان تول کر رکھا تھا، لفافوں میں پیک کر کے مجھے دیتے ہوئے کہا: یہ لو تمہارا سامان، جب کبھی دوبارہ دمشق آنا تو پیسے دے جانا۔میں نے انکار کرتے ہوئے کہا: سیدی، میں نے اتنی جلدی دوبارہ دمشق نہیں آنا۔ اور پھر یہ چیزیں کوئی ضروری بھی نہیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ، میں اب یہ نہیں خریدنا چاہتا، آپ رہنے دیجیئے۔ آپ کا شکریہ۔دکاندار نے کہا: بیٹے، تم دمشق ضرور آؤ گے۔ اور مجھے یہ بھی پورا یقین ہے کہ تم میرے پیسے بھی ضرور واپس کروگے۔
اور اس کے ساتھ ہی دکاندار نے اصرار کر کے مجھے سامان اٹھوا دیا۔میں سامان لیکر شرمندہ شرمندہ دکاندار اور اس کے بیٹے کو سلام کر کے باہر نکلا۔ ابھی چند قدم ہی دور گیا ہوں گا کہ دکاندار کا بیٹا مجھے پیچھے سے آوازیں دیتا ہوا دکھائی دیا۔میں رک گیا، دکاندار کے بیٹے نے مجھ آ کر بتایا کہ ابو کو تمہارے پانچ لیرے دکان می8ں گرے ہوئے مل گئے تھے۔ لگتا ہے تم نے جب جیب میں ہاتھ ڈالا ہوگا تو نیچے گر پڑے ہوں گے۔ابو نے اپنی مٹھائیوں کے پیسے کاٹ لیئے ہیں اور یہ رہے تمہارے باقی کے پیسے۔میری خوشی دیدنی تھی۔ کہاں میں ادھار کے بوجھ تلے دبا یہ سوچتا ہوا جا رہا تھا کہ چلو سامان تو ٹھیک ہے مگر سویداء جانے کا کرایہ کس سے مانگوں گا۔ اور کہاں اب یہ ادھار چکتا ہو گیا تھا، کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر کرائے کے پیسے نکل آئے تھے اور میں ہلکا پھلکا ہو چکا تھا۔میں نے دکاندار کے بیٹے کا شکریہ ادا کیا۔ اسے اپنے ابو کو جا کر میری طرف سے شکریہ ادا کرنے کا کہا، باقی کے پیسے جیب میں ڈالے اور اڈے کی طرف چل پڑا۔گھر جا کر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے میں نے جیسے ہی اپنی پرانی والی پتلون پہنی تو مجھے اپنے پانچ لیرے کا نوٹ اسی کی جیب میں مل گیا۔
ابا جی کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ سن کر مسکرا دیئے اور کہنے لگے۔پُتر، یہ لوگ شام کے تاجر ہیں۔ جدی پشتی تجارت پیشہ لوگ۔ ان کو انسانیت کے سارے معانی اور مطلب آتے ہیں۔ بہر حال پانچ لیرہ تیرے اوپر قرض ہے۔ اپنی امی سے کہہ، کل پرسوں تجھے میٹھے ڈھوڈھے بنا دے، ہماری طرف سے ھدیہ لیتا جا، پانچ لیرہ قرض بھی اتارنا، ہماری طرف سے شکریہ ادا کرنا اور ہماری طرف سے سلام بھی کہنا۔اگلے ہفتے میں نے امی سے میٹھی روٹیاں پکوا کر، اور پانچ لیرہ قرضہ چکانے کے لیے لیکر دمشق کی راہ لی۔دکاندار نے جیسے ہی مجھے دیکھا، ہنس دیا اور کہنے لگا: میں نہیں کہتا تھا کہ تو جلد ہی دمشق واپس آئیگا۔ یہ ایک کلوہریسہ میری طرف سے واپس لیتے جانا اور سویداء کے لوگوں کو میرا سلام کہہ دینا۔کہتا ہے: آج بھی جب میں کسی تاجر کو دیکھتا ہوں تو دل فوراً ہی نسلی تاجر اور فصلی تاجر کا موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔
دین آسانی ہے
میرے پاؤں کے انگوٹھے غالباً یورک ایسڈ کی وجہ سے متورم رہتے ہیں، اس وجہ سے میں نماز کے جلسے میں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ کر کے ویسے نہیں بیٹھتا جیسے شرع میں بیٹھنے کا حکم ہے۔ مگر میری یہ حرکت میری مجبوری ہے بغاوت نہیں۔صفا مروہ کی سعی کے دوران میرے پاؤں سپاٹ فرش کی وجہ سے بہت ہی عجیب انداز میں تھک جاتے ہیں۔ میرا بڑا دل کرتا ہے کہ میں چپل پہن کر سعی کروں (بیشمار لوگ ایسا کرتے ہیں)۔ اور کئی بار میں نے بھی ایسا کیا ہے۔ تاہم ایسے میں، میں دیوار کے ساتھ لگ لگ کر چلتا ہوں تاکہ میری چپلوں پر لوگوں کی کم سے کم نظر پڑے۔آجکل والدین کی خواہش کے طور پر یا پھر والدین کیلیئے اللہ کی رحمت سمیٹنے کیلیئے؛ بہت سارے لوگ سٹریچر پر پڑے اپنے والدین کو حرم میں لے آتے ہیں۔ طواف کے دوران ان مریضوں کے یورین بیگز سٹریچر سے لٹکے ہوئے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔کندھے پر بچوں کو اٹھائے ہوئے میں نے ایک عرب معتمر کو دیکھا جس کا احرام کھل گیا تھا۔ معتمر کی گھر والی نے بھاگ کر خاوند کو باقاعدہ جپھی ڈال کر ستر مہیا کیا اور پھر نیچے سے اترا ہوا احرام اٹھا کر باندھنے میں مدد کی۔
میرے (شوگر پیشنٹ اور فالج زدہ) مہمان نے حرم مدینہ میں ماہ رمضان میں افطاری سے پہلے کھجوریں، روٹی اور دیگر چیزیں کھانا شروع کر دیں۔ ساتھ والے میرے مہمان کو چائے (قہوہ) بھی پلاتے رہے تھے اور یہ سب کچھ بالکل نارمل تھا۔مجھے ایک مدنی عرب نے (غیر رمضان میں) روک کر التجا کی کہ میں روزہ ان کے دسترخوان پر افطار کروں۔ میں نے اس کے کان میں کہا مجھے شرمندہ نہ کرو میں روزے سے نہیں ہوں۔ اس نے جوباً میرے کان میں کہا: میں کونسا روزے سے ہوں۔ مہربانی کرو مجھے ضیافت کا موقع دیئے بغیر نہ جاؤ۔بہت پہلے ایک بار مجھے ایک حاجن نے چپلوں والا تھیلا اٹھائے دیکھ کر کہا تھا: یہ تو اپنی جوتیوں کو بھی طواف کروا رہا ہے۔ایک بار میں نے سعودی امیگریشن کاؤنٹر پر اپنی باری آنے پر بے خیالی میں کافی دیر ایک حاجیوں کو ھدیہ دیتے عربی کے ساتھ گپ شپ کرتے دیر لگا دی۔ جواباً کاؤنٹر پر بیٹھے افسر نے مجھے عناد کے طور پر پندرہ منٹ کھڑا کیئے رکھا اور پوری کوشش کی کہ میری پرواز چھوٹ جائے۔ آخری حربے کے طور پر میں نے اسے بتایا کہ مجھے اندر جانے دو تاکہ میری افطاری (یوم عاشورہ) مزید لیٹ نہ ہو۔ اب یہ افسر میرے پاؤں چومنے کی کوشش میں لگ رہا تھا۔
 پس تحریر 
 اگر آپ کو کسی عاجز و مجبور انسان کی عبادات و معاملات میں کوئی اچھوتی، غیر معتاد، غیر معمولی یا غیر مروج بات نظر آئے تو حسن ظن رکھیئے۔ اس کی وہ حرکت کسی بشری مجبوری، ناتوانی، بڑھتی عمر یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے آپ اس کی مثبت و منفی ترجمانی، وکالت یا بھد نہ اڑائیے۔
 آپ عبادات میں بہت اچھے ہیں۔ اللہ آپ کی اچھائیوں کو مزید نکھارے۔ اپنی اچھائی کو کسی کی عبادات ناپنے کیلیئے کسوٹی نہ بنائیے۔
 کچھ لوگ اپنی کمزوریوں کا دفاع نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مزید ڈریئے کیونکہ یہ لوگ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے والے ہوتے ہیں۔
٭٭٭