نیکی کر دریا میں ڈال

مصنف : طاہر محمود

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اکتوبر 2019

 

* چند دن قبل میرے ایک جاننے والے کا ٹچ موبائل سواریوں والی گاڑی میں رہ گیا۔ انہوں نے کسی سے موبائل لے کر اپنے نمبر پر کال کی تو ڈرائیور نے کال ریسیو کی اور موبائل ایک دکان پر رکھوا دیا۔انہوں نے جا کر وہاں سے لے لیا۔
* میرا اپنا موبائل ایک دفعہ گم ہو گیا تھا دوسرے نمبر سے کال کی تو ایک بندے نے کال ریسیو کی اور جگہ بتائی وہاں جا کر ان سے موبائل وصول کر لیا۔
* تقریباً بیس سال پہلے کی بات ہے کہ بارہ تیرہ سال کے تین بچوں کو کھیلتے ہوئے ایک انگوٹھی ملی گھر جا کر دکھائی تو پتہ چلا کہ سونے کی اور اچھی بھلی قیمت کی ہے۔والدین نے آس پاس کے گھروں میں بات کی تو مالک کا پتہ چل گیا۔اسے انگوٹھی لوٹا دی (وہ بچے میں اور میرے دو کزن تھے)
* تیرہ سال قبل کی بات ہے کہ میرا کمپیوٹر کا کچھ سامان رکشے میں رہ گیارکشے والے کو گھر نہ مل سکا تو اس نے وہ سامان اس دکان پر پہنچا دیا جس دکان سے میں نے کمپیوٹر اور سامان رکشے پر رکھا تھا۔
* پچھلے سال میں کالج کے طلبا کے ساتھ ٹور پر اسلام آباد گیا۔وہاں ایک مسجد میں نماز پڑھی تو ہمارے ایک ساتھی کی تقریباً چالیس ہزار کی قیمتی گھڑی وضو کرتے ہوئے وہاں رہ گئی ۔کافی دیر کے بعد اسے یاد آیا۔ہم فورًا واپس گئے۔ادھر کسی نے گھڑی اٹھا کر امام صاحب کو دے دی تھی۔امام صاحب نے ہم سے نشانی پوچھ کر گھڑی ہمارے حوالے کر دی۔
* ایک دفعہ میرا لیپ ٹاپ والا بیگ ایک دکان پر رہ گیا۔تقریباً پچپن ہزار کا لیپ ٹاپ تھا۔میں واپس گیا تو دکاندار نے بیگ سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔
* میں ایک دفعہ صبح صبح اپنی گاڑی مکینک کے پاس چھوڑ آیا۔جب دوپہر جو گاڑی واپس لینے گیا تو اس نے صرف تین سو روپے مانگے۔حالانکہ کام کی نوعیت دیکھتے ہوئے میرا اندازہ تھا کہ کم از کم تین چار ہزار کا بل بنے گا۔جب میں نے حیرانی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ معمولی سا نقص تھا اور صبح ہی تھوڑی دیر میں دور ہو گیا تھا۔ میں اس کی امانتداری سے بڑا متاثر ہوا کہ اگر وہ چاہتا تو دھوکہ دے کر تین چار ہزار روپے لے سکتا تھا۔
* رات گیارہ بجے کے لگ بھگ بائیک اور ڈیمپر آمنے سامنے ٹکرا گئے۔بائیک والا شدید زخمی ہو گیا۔لوگوں نے فوراً اٹھایا اور ہسپتال لے گئے۔بندے کی جان بچ گئی۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر مریض کو لانے میں مزید کچھ دیر ہو جاتی اور خون مزید نکل جاتا تو مریض نہ بچ پاتا۔یہ چوک ہری پور کا واقعہ ہے۔
* دو بائیکس آمنے سامنے ٹکرا گئیں اور چار بندے شدید زخمی ہو گئے۔لوگ انہیں فوراً اٹھا کر ہسپتال لے گئے۔ان پر خود خرچ بھی کیا اور خون کی ضرورت پڑی تو خون بھی دیا۔چاروں کی جان بچ گئی۔
* ایک بندہ حادثے میں شدید زخمی ہو گیا۔ لوگ اٹھا کر ہسپتال لے گئے مگر انہوں نے دیکھنے سے انکار کر دیاوہ لوگ اسے دوسرے شہر ایبٹ آباد لے گئے۔پاس سے اچھا بھلا خرچ بھی کیا، کافی سارا وقت بھی دیا اور اپنا خون تک دیا۔حالانکہ ان میں سے کوئی بھی زخمی کو نہیں جانتا تھا۔
* رمضان کے آخر کی بات ہے۔گلگت سے اسلام آباد جاتی ہوئی کار کا سرائے صالح ہری پور میں حادثہ ہو گیا۔گاڑی بالکل ٹوٹ گئی مگر اللہ نے سواریوں کو بچا لیامقامی سات آٹھ افراد اس وقت تک ان کی مدد میں لگے رہے، جب تک ان کے سارے معاملات حل نہیں ہو گئے۔
* میرے ایک جاننے والے کا اپنی غلطی سے حادثہ ہو گیا۔دو دن بعد ہوش آیا۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ آپ کو کچھ لوگ بروقت ہسپتال لے آئے تھے اور آپ کے علاج کے لیے بیس ہزار روپے بھی دے گئے۔میرے جاننے والے کی بعد میں اپنے ان محسنوں سے کبھی بھی ملاقات تک نہیں ہوئی۔
* بائیک گاڑی سے ٹکرا گئی۔گاڑی والے کی کوئی غلطی بھی بھی نہیں تھی۔مگر اس نے اپنی قیمتی گاڑی ادھر ہی چھوڑی اور بائیک والے کو دوسری گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔زخمی بہت سیریس تھامگر بروقت طبی امداد ملنے سے اس کی جان بچ گئی۔اسے تقریباً دس دن بعد ہوش آیا۔اس دوران گاڑی والے بندے مسلسل اس کے ساتھ رہے اور اس کا لاکھوں روپے کا خرچ بھی برداشت کیا۔حالانکہ ان کی کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔انہوں نے یہ سب محض انسانی ہمدردی سے کیا۔
یقین مانیں کہ یہ ان ہزاروں میں سے صرف چند واقعات ہیں جن سے میں خود ذاتی طور پر واقف ہوں۔ایسے سینکڑوں واقعات پاکستان میں روزانہ رونما ہوتے ہیں مگر ان کو کبھی بھی نمایاں نہیں کیا جاتا۔ان کی کوئی کوریج بھی نہیں ہوتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا میڈیا صرف منفی کو دیکھنے، سننے اور بولنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں مثبت میں بھی منفی نظر آنے لگتا ہے
ہمارے میڈیا نے پاکستان کی عوام کے صرف منفی پہلو دکھا دکھا کر لوگوں کے دل و دماغ میں منفیت بھر دی ہے، لہذا ہم ہر چیز کو اسی منفیت کی عینک سے دیکھتے ہیں اور دنیا بھی یہی سمجھتی ہے کہ یہ ہر خوبی سے محروم قوم ہے حالانکہ جتنا دوسروں کی مدد کا جذبہ اس قوم میں ہے شاید ہی کسی دوسری قوم میں ہو۔بس انہیں شعور دلانے، حوصلہ افزائی کرنے اور صحیح رخ پر چلانے کی ضرورت ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ بعض اوقات اس کے برعکس واقعات بھی وقوع پذیر ہوتے ہیں مگر میں ان کا ذکر نہیں کر رہا۔کیونکہ ان کا دن رات اور ہر وقت ذکر کرنے کے لیے ہمارا میڈیا اور دیگر بہت سارے حضرات پہلے سے ہی موجود ہیں۔
مفت کھانا اور ناشتہ
پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام
یہ 2005 کا واقعہ ہے، میں سوشل ویلفیر کا ڈائریکٹر تھا، چونکہ میرا تعلق تعلیم و تحقیق کے شعبے سے تھا اس لئے کوئی بھی پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے ریسرچ سٹڈی ضرور کرتا تھا۔ اُن دنوں ایک مسئلہ خطرناک صورت اختیار کر چکا تھا وہ یہ کہ راتوں کو یونیورسٹی روڈ کی فٹ پاتھوں پرسینکڑوں لوگ کھلے آسمان تلے سوتے تھے۔ میں نے محکمے کے دو افسروں کے ذریعے کارخانو مارکیٹ سے لیکر شہر تک ایک سٹڈی کروائی کہ پتہ چلائیں کہ یہ لوگ کون ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں؟ رپورٹ تیار ہوئی تو پتہ چلا کہ تین قسم کے لوگ راتوں کو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں: روزانہ دہاڑی والے مزدور، بھکاری اور منشیات کے عادی افراد۔ میں نے تجویز کیا کہ ان تینوں طبقات کے لئے قابل عمل پراجیکٹ بنائے جائیں، چنانچہ ریسرچ رپورٹ اور اپنی تجاویز لیکراُس وقت کے سینئر وزیر سراج الحق کے ساتھ ملاقات کی، آپ کے پاس پلاننگ و ڈیولپمنٹ کا محکمہ بھی تھا آپ نے نہ صرف تجاویز کو منظور کرلیا بلکہ تین عدد پی سی ون تیار کرنے کی ہدایت بھی کی جو میں نے فی الفور کردیا، تینوں پی سی ون منظور ہوگئے، اس ضمن میں وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے بھی غیر معمولی تعاون کیا۔ میں یہاں مزدوروں کے لئے عمارت بنانے کا واقعہ بیان کررہاہوں باقی پراجیکٹس کا احوال بعد میں۔
ایک شام میں حیات آباد میں اپنے گھر پہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کے پی ایس او قیصرعالم کا فون آیا کہ وزیر اعلیٰ سپین جماعت کے قریب سڑک کے کنارے کھڑے ہیں اور انہوں نے آپ کو طلب کیا ہے، میں جلدی سے وہاں پہنچا۔ سی ایم چوک پہ کھڑے تھے پولیس کی بھاری نفری بھی موجود تھی۔ جوں ہی مجھے دیکھا تو کہا ''ڈاکٹر صاحب! مزدوروں کے لئے عمارت کہاں بنوانی ہے؟''۔ میں نے کہا سر! اس علاقے میں تین ممکنہ جگہیں ہوسکتی ہیں: پی سی ایس آئی آر لیبارٹری، پلوسء روڈ کے کنارے گرین بلٹ، اوریا پھر خیبر ٹیچنگ ہسپتال۔ کھڑے کھڑے مشورہ ہوا کہ بلڈنگ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں تعمیر کرنی ہے۔ اُسی وقت خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو، سرجن چنگیزخان اور پی ڈی اے کے ڈی جی سریر خان کو بلایا۔ ڈاکٹر ہاسٹل اور کیجولٹی کے پاس پلاٹ کا تعین کیا گیا، وزیر اعلیٰ نے دونوں محکموں کو ڈائریکٹیو جاری کی،ایک ہفتے کے اندر تعمیراتی کام شروع ہوا اور ریکارڈ مدت میں شانداردومنزلہ عمارت کھڑی ہوگئی جس کا نام ہم نے ''سرکاری سرائے'' رکھا۔
تقریباً پانچ مہینے بعد 9 دسمبر 2005کو اکرم خان درانی اور سراج الحق صاحبان نے مشترکہ طور پر اس کا افتتاح کیا۔چنانچہ سپین جماعت اور یونیورسٹی کے سامنے فٹ پاتھوں پر سونے والوں کے علاوہ ہسپتال میں مریضوں کے لواحقین کوبھی چھت میسر آگئی۔ اس کامیاب تجربے کے بعد ہم نے صوبے کے دیگر بڑے ہسپتالوں یعنی حیات آباد میڈیکل کمپلکس، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان اور ایبٹ آباد میں ایسی عمارتیں بنائیں۔ یہ عمارتیں آج بھی موجود ہیں۔
آخر میں ایک ایمان افروز واقعہ: خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی سرائے میں مزدور اور بیماروں کے لواحقین آنے لگے، تو ایک شام کو میں نے وہاں کا دورہ کیا، ایک صاحب میرے پاس آئے اور رازداری سے کہاکہ وہ ایک صاحب ثروت آدمی کے ملازم ہیں(جو کسی بھی صورت میں اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے)، اُن کی خواہش ہے کہ ان مزدوروں کوایک سال کے لئے رات کا کھانا اور صبح کا ناشتہ صدقے کے طور پر کھلائے، اگر میری اجازت ہو تو۔۔۔ میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ، اوراُن کو فی الفور اجازت دے دی۔ مفت کھانے کی یہ سہولت اگلے تین سالوں تک باقاعدگی سے جاری رہی۔
٭٭٭