شاڑت فلم

مصنف : ابنِ عبداللہ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2019

اصلاح و دعوت
شارٹ فلم 
ابن عبداللہ،  انتخاب، نائلہ رضی

    امریکہ کے ایک سینما میں کمرشل فلم سے پہلے ایک شارٹ فلم چلائی گئی۔جو احباب شارٹ فلم سے ناآشنا ہیں‘ ان کے لیے عرض ہے کہ یہ مختصر دورانیے کی فلم ہوتی ہے‘ جس میں ایک بھرپور میسج دیا جاتاہے۔ انٹرنیٹ پر بڑی تعداد میں یہ شارٹ فلمز موجود ہیں‘جن کا دورانیہ عموماً دس سے پندرہ منٹ ہوتاہے۔پوری دنیا میں ان کے خصوصی میلے منعقد ہوتے ہیں‘ جس میں انعامات بھی دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسی فلمیں بہت زیادہ بنتی ہیں‘ لیکن صرف انٹرنیٹ پر ہی ملتی ہیں یورپ‘ امریکہ اور انڈیا میں‘ البتہ اس پر بہت زیادہ کام ہورہا ہے۔ انڈیا کی شارٹ فلمز میں تو اُ ن کی فلم کے چوٹی کے اداکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔شارٹ فلموں کو آپ افسانوی ادب میں شمار کرسکتے ہیں۔ یہ کسی ایک لمحے یا واقعے پر مشتمل ہوتی ہیں‘جو ایک دفعہ ذہن کی سکرین سے چپک جائے‘تو پھر آسانی سے نہیں اُترتا۔مختصر ترین وقت میں بہترین میسج کے ساتھ یہ شارٹ فلمز دنیا بھر میں مقبول ہوتی جارہی ہیں۔
ہاں تو شارٹ فلم شروع ہوئی۔یہ واقعہ میرے دوست نے مجھے بتایا ہے‘ جو حال ہی میں امریکہ ہوکر آیا ہے۔اُس نے بتایا کہ سکرین پر ایک منظر تھا‘جس میں چھت کا پنکھا دکھایا گیا تھا‘ یہ پنکھا پرانے ماڈل کا تھا اور مسلسل چل رہا تھا۔ اس پنکھے کے علاوہ فریم میں اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سینما دیکھنے والے بڑے تجسس سے یہ سین دیکھ رہے تھے‘ اُنہیں یقین تھا کہ ابھی کچھ دیر میں منظر بدلے گا اور کچھ ایسا دیکھنے کو ملے گا‘ جو سیدھا اُن کے دل پر اثر کرے گا‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔دو منٹ گزر گئے اور صرف پنکھا ہی چلتا دکھائی دیتا رہا۔ سینما ہال میں موجود کئی حاضرین نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔یوں لگ رہا تھا جیسے سب کو یقین ہوچکا ہے کہ شارٹ فلم میں اُ ن کے دیکھنے لائق کچھ نہیں۔شائقین توقع کررہے تھے کہ شاید آگے چل کر کچھ واقعی دیکھنے لائق نظر آجائے...!!!پانچ منٹ بعد بھی سین نہیں بدلا۔ بیزار طبع لوگوں نے پاپ کارن کے پیکٹ کھول لیے۔ فلم کے آغاز میں جو سکوت طاری تھا‘ وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا تھا۔لوگوں کی توجہ بھی سکرین پر مرکوز نہیں رہی تھی‘جن کے پاس پاپ کارن نہیں تھے انہوں نے موبائل نکال لیے تھے اور وقت گزاری کے لیے سوشل میڈیا کھول لیا تھا‘تاہم سب لوگ وقفے وقفے سے ایک نظر سینما سکرین پر بھی ڈال لیتے تھے‘ لیکن وہاں وہی منظر تھا۔چھت پر چلتا ہوا پرانے ماڈل کا پنکھا...!!!
چھٹا منٹ شروع ہوا تو دبی دبی سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ کتنی بورنگ ہے‘یہ شارٹ فلم۔ ایک صاحب نے تبصرہ کیا کہ یقینا یہ کوئی آرٹ کی نئی قسم ہے‘ کیونکہ اکثر بور ترین چیز کو آرٹ کا نام دے دیا جاتاہے۔ ایک اور آواز آئی ''ہوسکتا ہے فلم کے آخر میں یہ بتایا جائے کہ پنکھا بھی ہمارے سانس کی طرح ہے‘جو چلتا جارہا ہے‘ لیکن جب کوئی بٹن دباتا ہے‘ تو یہ بند ہوجاتا ہے...اور اگر واقعی یہی اختتام ہوا تو میں لعنت بھیجوں گا‘ ایسی بورنگ شارٹ فلم بنانے پر۔“ ایک رائے آئی''یہ فلم اس لیے دکھائی جارہی ہے‘تاکہ جب کمرشل فلم شروع ہو تو وہ ہمیں زیادہ اچھی لگے...“ یہ بات سن کر کئی لوگ قہقہے لگانے لگے۔ ایک موٹے امریکی نے تو باقاعدہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کہہ بھی دیا کہ یہ شارٹ فلم نہیں‘ بلکہ ہمارے صبر کا امتحان ہے۔پچھلی سیٹوں پر بیٹھی ایک خاتون کی بھی آواز آئی کہ ''پنکھا بند کردیا جائے‘ بلاوجہ سردی محسوس ہورہی ہے۔“ اُسی کی ایک ساتھی کی آواز گونجی ''ہاں! اور ساتھ ہی یہ شارٹ فلم بنانے کو بھی بند کر دیا جائے“۔
ہوتے ہوتے دسواں منٹ سٹارٹ ہوگیا۔ شارٹ فلم کے آغاز میں ہی بتایا گیا تھا کہ اس کا دورانیہ 10 منٹ ہے‘ لیکن اب تو دسواں منٹ شروع ہوگیا تھا اور سکرین پر صرف چھت والا پنکھا چلتا دکھائی دے رہا تھا۔آخر محض ایک چلتے ہوئے پنکھے کو فلم دیکھنے والے کتنی دیر تک برداشت کر سکتے ہیں۔ہال میں اب لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔کئی لوگ طنزیہ جملے بھی کسنا شروع ہوگئے۔
اتنے میں اچانک شارٹ فلم کا منظر بدلا اور کیمرہ دھیرے سے گھومتا ہوا پنکھے کے بالکل الٹی سمت میں حرکت کرگیا۔ اب سکرین پر ایک بیڈ نظر آرہا تھا‘ جس پرایک شخص ساکت لیٹا ہوا چھت کے پنکھے کو خالی نظروں سے دیکھے جارہا تھا۔ منظر بدلتے ہی سینما ہال میں موجود لوگ بھی چونک گئے  سرگوشیاں بند ہوگئیں اور نظریں سکرین پر جم گئیں۔ دس منٹ ختم ہونے میں پندرہ سیکنڈ باقی تھے۔تبھی سینما ہال میں ایک آواز گونجی۔یہ شخص ہلنے جلنے سے قاصر ہے‘جس منظر کو آپ دس منٹ نہیں دیکھ سکے‘ اُسے یہ شخص دس سال سے مسلسل اسی طرح دیکھ رہا ہے“۔ 
ایک لمحے کے لیے ہر طرف خاموشی چھا گئی اور پھرپورا ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔
ایسے لوگ ہمارے ہاں بھی موجود ہیں‘ جو آزادی کے اس مفہوم سے ناآشنا ہیں۔ کوئی آزادی سے اُٹھ نہیں سکتا‘ کسی کے پاؤں بیماری نے جکڑرکھے ہیں۔کوئی آوازیں سننے سے قاصر ہے اور کسی کے نصیب میں برستی بارش دیکھنا نہیں۔ کوئی آزادی سے ہر چیز کھانے کا رسک نہیں لے سکتا۔کسی کی سانس آکسیجن سلنڈر کی محتاج بن کر رہ گئی ہے‘کوئی ہاتھ بڑھا کر پانی کا گلاس خود نہیں پی سکتا اور کسی کے لیے خواب آور گولیوں کے بغیر سونا ممکن نہیں۔ ایسے لوگ تقریباً ہر گھر میں موجود ہیں۔ ماں کی شکل میں‘ باپ کی شکل میں یا کسی قریبی عزیز کی شکل میں۔یہ آزادی سے جشن ِآزادی بھی نہیں منا سکتے۔*انہیں روزانہ دس منٹ ایسے ضرور دیجئے‘ جس میں آپ کی برداشت جواب نہ دے...!!!
٭٭٭

میں اپنی توقیر ہو سکتی ہے اور نہ دوسروں کی نظروں میں۔ پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔ مگر یہ محاورہ سچ ہونا تب ہی ممکن ہے کہ خود کو غیر برصغیری ایتھنک سنڈروم سے آزاد کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے اور ان مسلمان قوموں سے سبق لیا جائے جو اپنی اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں مگر ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑتا۔ آپ یہاں کے ہیں اور یہیں کے ہی رہیں گے۔ بھلے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ دوسرے آپ کو یہی مانتے ہیں۔