دوسروں کو خوشی دیجیے 

مصنف : ظفراللہ خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2019

اصلاح و دعوت
دوسروں کو خوشی دیجیے 
ظفراللہ خان

 

    بارہ سال پہلے ایک چاند رات کی بات ہے۔ پنڈی سے کوئٹہ آتے ہوئے رات کے دو بجے ٹرین روہڑی جنکشن پر رکی تھی۔ ہم لوگ چائے پینے نیچے اتر آئے تھے۔ ایک ٹی سٹال کے قریب ایک مفلوک الحال آدمی اپنے چھ سات سال کے بچے کے ساتھ کسی ٹرین کا انتظار کر رہا تھا۔ بیٹا باپ سے سرگوشیوں میں کچھ کہتا۔ مفلوک الحال باپ پہلے اسے دھتکارتا، پھر اسے پکڑ کر سینے لگاتا، ایک نگاہ ارد گرد دوڑاتا اور پھر آسمان کی طرف دیکھ کر جانے کیا بڑبڑاتا۔ دھتکارنے اور بھینچنے کا یہ عمل تین چار ہوا۔ مجھے ان کی زبان تو سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن اتنا اندازہ ہوا کہ وہ سندھی بول رہے تھے۔
انسان کبھی کبھی ویسے ہی اپنی الجھنوں سے چھٹکارا پانے کے لئے دوسروں کے مسائل میں خود کو الجھا لیتا ہے۔ میں اس کے قریب گیا تاکہ جان سکوں کہ مسئلہ کیا ہے؟ لیکن نہ مجھے اس کی کوئی بات سمجھ آئی اور نہ اسے میری۔ اتنے میں کھوکھے والا چائے لے کر آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس آدمی سے پوچھو کہ اس کو کیا مسئلہ ہے؟ یہ کیوں اپنے بیٹے کو بار بار دھتکار رہا ہے۔جواب مختصر تھا۔ وہ کسی بھٹے میں مزدور تھا۔ عید پر گھر جا رہے تھے۔ جو مزدوری ملی وہ بیوی کے علاج پر لگ گئی۔ بیٹے کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ عید پر اسے پینٹ شرٹ لے کر دے گا لیکن پیسے نہیں تھے۔میں سٹوڈنٹ تھا۔ سال بعد گھر جاتا تھا۔ گھر والوں کے لئے کچھ تحائف ضرور لے کر جاتا لیکن چھ سال کے بچے کے لئے میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں اپنے ڈبے میں گیا اور یونیورسٹی کے باقی دوستوں سے درخواست کی کہ اگر کسی کے پاس چھ سال کے بچے کے لئے کوئی جوڑا ہو تو ایک غریب بچے کی عید ہو جائے گی۔ دوستوں نے سخاوت کا مظاہرہ کیا۔ ایک کے بیگ سے جینز، شرٹ نکلی۔ دوسرے کے بیگ سے کرتا نکلا۔ تیسرے کے بیگ سے جوتے نکلے۔ ایک دوست نے اس غریب آدمی کے لئے اپنا نیا جوڑا نکال کر دیا۔ کچھ غیرت مجھے بھی آئی اور اس کی بیوی کے لئے ماں جی کے لئے لیا ہوا ایک جوڑا نکالا۔ ہم سب دوستوں نے یہ چیزیں مل کر اس آدمی کے حوالے کیں۔ دوستوں نے کچھ رقم جوڑ کر اس کے حوالے کی۔
شاید بہت بار اس سے مفلوک الحال اور غریب لوگوں کو ہم نے نظر انداز کیا ہو گا۔ بہت بار پیشہ ور اور ٹھگ سمجھ کر دھتکارا بھی ہو گا۔ یہ بس ایک جذباتی سی کیفیت تھی۔ شاید ہم میں سے کسی نے بھی اس کو کوئی نیکی یا کوئی قربانی نہ سمجھا ہو۔ یونیورسٹی کے لڑکے ایک ٹرین میں گاتے ہنستے گھروں کو جا رہے تھے اور راستہ میں ایک غریب ملا تو اس کے بچے کی ایک خواہش پوری ہو گئی اور بس۔۔
داغستان کے ابو طالب نے کہا تھا کہ میں نے ٹالسٹائی جیسی ہیٹ تو خرید لی ہے مگر اس جیسا سر کہاں سے لاؤں۔ چاند راتیں بہت آئیں مگر اس جیسی چاند رات کہاں سے لاؤں؟ ٹرین کی طرف واپس جاتے اس مفلوک الحال کی آنکھوں میں آنسوؤں نے مجھے بری طرح جکڑ لیا۔ ان آنسوؤں کو دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی وہ کسی اور چاند رات کو نصیب نہ ہو سکی۔
یہ پیغام دینا، نیکی کی دعوت دینا، اچھے کی ترغیب دینا، نصیحت کرنا بڑے لوگوں کے کام ہیں۔ ہم تو بقول رسول حمزہ توف پتھر ہیں۔ اور وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہم جڑ جائیں گے، کسی گرجے،زنداں یا باڑی کی دیوار میں۔
کہنا صرف یہ ہے کہ کبھی کسی کی چھوٹی سی آرزو، ایک آس ایک خوشی کی امید بن جائیں تو خوشی روح کی گہرائیوں میں اتر جائے گی۔ اپنی خوشی کے لئے آزما کر دیکھ لیجیے۔٭٭٭