سوال جواب اپریل

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اپریل 2019

جواب:قرآن پاک کو کوئی بھی منسوخ نہیں کر سکتا پیغمبر بھی نہیں کر سکتا ۔ قل ما یکون لی ان ابد لہ من تلقاء نفسی ۔ ’’کہہ دیجئے کہ میں اپنی طرف سے اس میں ایک آیت بھی تبدیل نہیں کر سکتا ‘‘البتہ سنت کے احکام ایک حکمت کی وجہ سے تدریج کے اصول کے اعتبار سے حضورﷺ نے بعض جگہ منسوخ فرمائے ہیں ۔بعض احکام شروع میں دیئے گئے بعد میں انکو منسوخ کر کے دوسرا حکم دیا گیا۔ تدریج قرآن کے احکام میں بھی ملحو ظ رکھی گئی اور سنت میں بھی رکھی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن پاک میں کسی تبدیلی کا حق ہے وہ تو خود قرآن میں رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کر دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ مجھے اس کتاب کی ایک آیت میں بھی ذرہ برابرتبدیلی کرنے کا اختیار نہیں لیکن سنت کے معاملے میں حضور اکرم ﷺ نے تدریج سے کام لیتے ہوئے بعض احکام میں تقدیم و تأخیر کی ہے اور بعض احکام میں تخصیص و تقیید فرمائی ہے ۔ 
 

()

جواب:یہ بات جو حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب ہے یہ بہت Misquote اور Misuse ہوئی ہے اوّل تو میں نے بہت تحقیق کی کہ کسی مستند کتاب میں مجھے یہ بات مل جائے لیکن کسی مستند کتاب میں یہ بات نہیں ملی۔ حدیث کی کسی بھی مستند کتاب میں ہے نہ اس زمانے کے مستند ترین مؤرخین یا سیرت نگاروں میں سے کسی نے یہ بات لکھی ہے۔ یہ بات بعد کے لوگوں نے لکھی ہے ۔انہوں نے بھی جو لکھا ہے اسکا مفہوم صرف یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط سالی کے دنوں میں یہ حکم دیا تھا کہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے میں جلدی نہ کریں اور یہ دیکھو کہ اس نے کسی غربت یا فکر و فاقہ کی بنیاد پر تو چوری نہیں کی۔ یہ بات اس نتیجہ سے با لکل مختلف ہے جو متجدیدین اس وقعہ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یہاں سیدنا عمر کو ئی نئے بات نہیں فرما رہے ہیں بلکہ شریعت ہی کے حکم کی یادہانی کرا رہے ہیں 
شریعت کا حکم یہ ہی ہے اور اس پر تمام فقہا ء کا اتفاق ہے کہ محتاج اور فقیر شخص اگر اپنی فوری حاجت یا ضرورت کی خاطر چوری کر رہا ہے تو وہ چوری نہیں سمجھی جائے گی اور اس پر قطع ید نہیں ہو گا ایک بھوکا آدمی اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی کے گھر جا کر چوری کر لے اور وہاں سے کھانا چرا کر کھا لے اس پر قطع ید کی سزا نہیں ہو گی۔ یہ بات فقہا ء اکرام نے قرآن پاک ہی کے الفاظ سے اخذ کی ہے والسارق و السارقۃ فا قطعو ا ایدیھما جزاء بما کسبا (اورچور خواہ عور ت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ انکی کمائی کا بدلہ ہے ) جنہوں نے چوری کے ذریعے کسب کیا ہو یعنی اس میں کمانے کی یا کسب کی نیت شامل ہو کسی فوری اور حقیقی ضرورت کی تکمیل نہ ہو ۔
ایک غریب شخص مر رہا ہے علاج کے لئے اس کے پا س رقم نہیں آج کل چھ چھ ہزار آٹھ آٹھ ہزار کا ایک معمولی انجکشن آتا ہے اگر وہ نہ لگائے تو فوری طور پر جان کا خطرہ ہے یا جو دل کے مریض ہو تے ہیں وہ درد کے وقت فورا زبان کے نیچے گولی رکھتے ہیں ورنہ گڑبڑ ہو جاتی ہے اگر ایسی صورت میں وہ شخص کہیں سے قیمتی دوائیں چرا لے اور گولی لے کر منہ میں رکھ لے تو یہ اس شدید ضرورت کے تحت آئے گا اس پر قطع ید نہیں ہو گا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے آج کل کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں ایک Directive جاری کیا تھا جس میں شریعت کے اس حکم کی یا دہانی کرائی گئی تھی اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ہدیت کی تھی 
حضرت عمر فاروقؓ سے منسوب یہ واقعہ اگر درست ہے تو اس کا یہ ہی مفہوم ہے اس کا کوئی تعلق قرآن پاک کے کسی حکم کو منسوخ کرنے سے نہیں ہے جو حکم واضح طور پر قرآن پاک میں دیا گیا ہے اسکو حضرت عمر فاروقؓ تو کیا سارے صحابہ کو مل کر بھی تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس وا قعہ کی یہ تعبیر جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں اور زورو شور سے دہراتے ہیں یہ تعبیر لغو اور مہمل ہے اصل حوالہ کوئی نہیں دیتا بس ایک مبہم بات کہہ دی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حدمنسوخ کر دی ۔ اصل مین متجدد دین یہ کہنا چاھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کو حد ساقط کرنے کا اختیار تھا تو آخر ہم میں کیا کمی ہے ہمیں یہ اختیار کیوں نہیں مل سکتا ؟
یہ استدلال میرے خیال میں صحیح نہیں ہے اور نہ کسی فقیہ نے حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے سے لیکر آج تک یہ بات کہی آج کے زمانے میں استاد عبدلقادر عودہ جو اسلام کے فوج داری قانون پر سب سے بڑے آخری مصنف ہیں وہ خود مصری عدلیہ کے اعلی منصب پر فائز رہے اور زمانے کی ضرورت سے کم واقف نہیں تھے انہوں نے بھی یہ بات نہیں لکھی

()

جواب : میں کمپیو ٹر بالکل نہیں جانتا اس لیے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ سوال یا مثال درست ہے کہ نہیں لیکن میں ایک معلم ہوں اور بطور معلم میرا ایک تجربہ ہے جو میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں مجھے اس تجربہ سے تقدیر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ہے ممکن ہے آپ کو بھی مدد ملے ۔
تقدیر کے لفظی معنی ہیں اندازہ ( Assesment)اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے ان کا اندازہ بھی مکمل ہے ہم مخلوق ہیں ہمارا اندازہ بھی نامکمل ہو تا ہے ایک بہت بڑا انجینئر جب اندازہ کرتا ہے کہ اسکی بلڈنگ کیسی ہو گی تو جتنا بڑا ماہر ہوتا ہے اتنی ہی وہ بلڈنگ اسکے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ آپ اگر ایک اچھے معلم ہیں تو آپ کو اپنے طلبہ کی کارکردگی کا اندازہ ہو تا ہے میرا اپنے بارے میں یہ خیال ہے کہ میں اچھا معلم ہوں تو برا نہ مانیے گا کیونکہ ہر شخص اپنے بارے میں اچھا ہی خیال رکھتا ہے۔ میں اپنے بارے میں تجربہ رکھتا ہوں کہ مجھے اکثر اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ طالب علم اگرA پوزیشن میں نہیں تو Bمیں ضرور آئے گا اور وہ طالب علم کامیاب نہیں ہو گا فلاں طالب علم درمیان میں رہے گا۔ یہ اندازہ مجھے تقریباًسال کے وسط میں ہو جاتا ہے اور پچھلے تیس پینتیس سال میں کبھی ایسا نہیں ہو ا کہ یہ اندازہ بالکلیہ غلط ثابت ہو ا ہو۔ جس کے بارے میں اندازہ ہو تا ہے کہ اسکی پو زیشن آئے گی عموماً کسی نا کسی اندازہ میں اسکی پو زیشن آ ہی جا تی ہے۔ یہ پو زیشن اس لئے نہیں آتی کہ میں نے ایسا اندازہ کیا تھا میرا اندازہ اسکی پوزیشن آنے کا سبب یا علت ہرگز نہیں ہوتا بلکہ طالب علم کی پو زیشن اس لیے آتی کہ اس طالب علم کی کارکردگی اچھی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا اندازہ با لکل قطعی اور سو فیصد مکمل ہو تا ہے کوئی چیز اسکے اندازہ سے باہر نہیں جاسکتی لیکن اللہ تعالیٰ کے اندازہ اور علم میں اور اللہ کے حکم اور فیصلے میں فرق ہے۔ بندہ اللہ کے حکم اور فیصلے کا پابند ہو تا ہے۔ اسکا اندازہ انسان کو مجبور نہیں کرتا کہ انسان اچھی یا بری پرفامنس دے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کی کارکردگی کیسی ہو گی۔ ماں اپنے بچے کو جانتی ہے کہ چلنا سیکھا ہے چل سکتا ہے کہ نہیں سکتا جب ماں بچے کو بلاتی ہے کہ آؤ اور اسکو چلنے کی تربیت دے رہی ہوتی ہے تو اسکو معلوم ہوتا ہے کہ کتنے قدم چل سکے گا کتنے قدم نہیں چل سکے گا۔ جب وہ اتنے قدم چل لیتاہے تو لپک کر آگے بڑھ کر اسکو پکڑ لیتی ہے تو اندازہ ہمارے آئے دن کے مشاہدے میں ہے جو عموماً صحیح ہو تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا ہے ''اناکل شئی خلقناہ بقدر''(ہم نے ہر چیزکا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے )'''وما امرنا الا واحدۃ کلمح بالبصر",(اور ہمارے حکم میں ایک لمحہ کی تا خیر اور دیر نہیں ہوتی ) اس لیے اللہ تعالیٰ کا اندازہ مکمل ہے اس لئے تقدیر کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ تقدیر انسان کو مجبور نہیں کرتی ، بلکہ تقدیر انسان کو محرک فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس اندازہ کے مطابق ڈھال لے ۔اگر اچھا استاد کلاس میں کھڑے ہو کر کہے کہ میں یہ توقع رکھتا ہو ں کہ ہر طالب علم اپنی کارکردگی بہتر بنائے اور اس کی پوزیشن یہ اور یہ آنی چاہئے۔ استاد کے اس اندازہ سے اچھے طلبہ میں ایک داعیہ پیدا ہو گا اور وہ اپنی کارکردگی بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ تقدیر کا غالباً یہی منشا ہے ورنہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف سے بعید تر ہے کہ اس نے پہلے سے فیصلہ کر لیا ہو کہ میں جہنمی ہو ں اور بعد میں اپنے اسی سابقہ فیصلہ کے مطابق مجھے جہنم میں بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ میرا ہاں عدل و انصاف کے خلاف کوئی کام نہیں ہو تا " وما انا بظلا م للعبید،،ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ ''(اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم اپنے بندوں پر نہیں کرتا ) یہ ظلم تو بنیادی انسانی اوصاف کا حامل انسان بھی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی ذات تو اس سے بہت بعید ہے ۔

 

()

جواب : یہ بات کہ انسانی عقل میں ارتقا ہوا ہے درست ہے۔ انسانی عقل اورا س کے مزاج و طبیعت میں انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا کے ساتھ ساتھ ارتقاہوا ہے۔ اس نے طفولیت کے دورسے لڑکپن کے دور میں، لڑکپن سے جوانی اور پختگی کے دور میں قدم رکھا ہے۔ اسی حساب سے اللہ تعالیٰ کے انبیا عقیدے کو بیان کرتے رہے ہیں عقیدے کی حقیقت تو ایک ہی رہی ہے لیکن اس کے بیان کا انداز مختلف انبیاء کے زمانے میں مختلف رہا ہے ۔جیسے ایک بچہ پرائمری سکول میں پڑھتا ہے تو اس کو اس سطح پر مضامین پڑھاتے ہیں کہ وہ سمجھ سکے جب وہ پرائمری سے بڑھ کر مڈل میں داخل ہوتا ہے تو اسے آپ تاریخ کے ساتھ جغرافیہ بھی پڑھاتے ہیں۔ تاریخ و جغرافیہ میں کوئی تعارض نہیں ہو تا۔ ایک ہی تاریخ اور جغرافیہ ہے جو پرائمری مڈل اور آگے کے مراحل میں پڑھائی جاتی ہے لیکن سطح میں فرق ہو تا ہے ۔یہ فرق انبیا کی تعلیم میں ضرور رہا ہے شروع میں جو انبیا ء آئے انہوں نے عقیدے کو اس انداز سے اور اس سطح پر بیان کیا کہ اس زمانے کا ابتدائی انسان اس کو سمجھ سکے۔ جب انسانیت پختگی کے دور میں داخل ہو گئی اور بین الا قوامیت کا ایک دور آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام سوالات کا جواب اپنی زبان مبارک سے یا قر آن پاک کی شکل میں انسانیت کو دے دیا جس کی بنیا د پر آئندہ آنے والے تمام ادوار میں انسان عقیدے کو بیان کر سکے۔ یہ بات خود علم کلام کی تاریخ سے بھی نمایا ں ہے جو انداز عقیدے کو بیا ن کرنے کا فقہ اکبر میں ہے وہ انداز امام غزالی ؒ کی کتابوں میں نہیں ہے ۔یہ بات امام ابو حنیفہ ؒ یا ان کے معاصرین کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہو گی۔کہ جو گہرائی امام غزالی ؒ کے یا امام رازی کے انداز میں ہے وہ الفقہ الا کبر میں نہیں ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس انداز سے عقائد کو بیان کرنے کی اما م ابو حنیفہ ؒ نے ضرورت نہیں سمجھی۔ اس لیے کہ ان کے دور کے وہ مسائل نہیں تھے جس انداز سے مسائل کو مثال کے طور پر شاہ ولی اللہ ؒ نے بیان کیاوہ انداز بہت سے متقدمین کے انداز سے مختلف ہے ۔مجد د الف ثانی ؒ نے جو انداز اختیار کیا وہ امام رازی و امام غزالی ؒ کے انداز سے مختلف ہے اسی طرح علامہ اقبال ؒ نے جو انداز اختیار کیا وہ ان تمام سے مختلف ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے اس سے مختلف انداز اختیار کریں گے۔ اس لیے انداز بیان اور اسالیب استدلال میں تو ارتقا ء ہوتارہے گا لیکن عقیدے کی Coreمیں کسی بھی ارتقاء کی ضرورت نہیں اس لیے کہ وہ Coreان بنیادوں کو فراہم کرتی ہے یا ان بنیادوں کی نمائندگی کرتی ہے ان بنیادوں پر انداز بیان کی تبدیلی وقت کے ساتھ ساتھ ہو تی رہے گی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ارتقا ء علم کلام اور فکر کاہو تا رہے گا ۔
 

()

جواب : آپ نے شاید میری پوری بات نہیں سنی میں نے کہا تھا کہ طیبات کو حلال قرار دیا گیا ہے اور خبیثات کو حرام قرار دیا گیا ہے حلال کی حدود بتا دی گئی ہیں جن کی روشنی میں کسی چیز کے طیب ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔قواعد کی نشاندہی کر دی گئی ہے بعض طیبات کی مثال دے کر بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ اور اس طر ح کی چیزیں طیبات ہیں۔ خبیثات کے ساتھ بھی اسی طرح ہو ا وہاں بھی ضرور ی قواعد کی نشاندہی کر دی گئی لیکن اس سب تفصیل کے باوجود بعض نئی صورتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ Grey Areaوہ ہو طبیات اور خبیثات کے درمیان کا علاقہ ہو جس میں رائے کا اختلاف پیدا ہو نے کا خاصا امکان ہے۔ ایک شخص کا ذوق اور رائے اس کو طیبات کی ایک قسم قرار دے اور دوسرے کا ذوق اور رائے اس کو خبیثات میں سے قرار دے۔ اس طرح کے معا ملا ت کو جو بہت مستثنیات میں سے اور بہت شاذونادر ہوں گے سلیم الطبع لوگوں کے ذوق اور صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ۔مثال کے طور پر ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ہر ،، ذی مخلب ،، یعنی جو پنجے والا جانور ہے جو شکار کر کے گوشت کھا تا ہے یا جانور کو پکڑ کر کھا تا ہے وہ حرام ہے ۔اس طرح سے چوپائیوں میں ہر وہ جانور جو شکار کر کے گوشت کھاتا ہے وہ حرام ہے چنانچہ بھیڑیا شیر چیتا یہ سب حرام ہیں وہ جانور جو پنجے والے نہیں یا وہ جاندار جو شکار کر کے نہیں کھاتے جن کی اصل غذا نبا تا تی ہے اور انسانوں میں ان کا دودھ استعمال کرنے کا رواج شروع سے چلا آرہا ہے وہ جائز ہیں۔ اب کچھ جانور جو متعین ہیں یعنی بکری بھیڑ گائے بیل بھینس و غیرہ یہ تو معلوم ہیں ان دونوں کے درمیان ہو سکتا ہے کہ ایسے کئی جانور بعض علاقو ں میں پائے جاتے ہوں جن کے بارے میں قطعیت کے ساتھ یہ تعین دشوار ہو کہ اس کا تعلق کون سی قسم سے ہے۔ یہ جانور بعض علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور بعض علا قو ں میں نہیں پائے جاتے مثال کے طور پر زیبرے کے بارے میں یہ اختلاف پید ا ہو ا کہ زیبرے کا تعلق کس گرہ سے ہے زیبرے کو خالص جنگی جانور مانے جائے گا جیسا کہ مثلا گدھا ہے یا اس کو اس طرح کا جانور مانا جائے جس طرح مثا ل کے طور پر بیل یا ہرن یا نیل گائے ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف ہو سکتا ہے اس طرح کا اختلاف شریعت نے ذوق پرچھوڑ دیا کہ آپ کا ذوق اور شریعت کا فہم جو فیصلہ کرے اس کے مطابق آپ عمل کریں۔ اسی طرح سے مثال کے طور پر قرآن مجیدمیں کہا گیا ہے ،، احل لکم صید البحر و طعامہ ،، کہ سمندر کا شکار اور سمند ر کا کھانا تمہارے لیے حلا ل قرا ردیا گیا ہے اب سمندر کے کھانے اور سمندر کے شکار سے کیا مراد ہے ؟ 
کچھ فقہاء کا مثلاً امام ابو حنیفہ ؒ کا خیال ہے کہ اس سے مراد صرف مچھلی ہے اس لیے کہ مچھلی ہی وہ غذا ہے جسے طبع سلیم ہر دور میں پسند کرتی چلی آرہی ہے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، صحابہ کرامؓ کے زمانے میں اور تابعین کے زمانے میں مچھلی کھانے کا عام طور پر عربوں میں رواج تھا اور وہ مچھلی کھایا کرتے تھے۔ وہ جانور جن کو عرب کا سلیم الطبع انسان فطری طور پر ناپسند کرتا تھا وہ اگر سمندر سے پکڑے جائیں تو کیا وہ جائز ہوں گے مثلا کیکڑا یا اس طرح کے دوسرے جانور انکو امام ابو حنیفہ ؒ ناجائز کہتے ہیں جب کہ بعض دوسرے فقہا ء جائز قرار دیتے ہیں ۔

 

(ڈاکٹر محمود احمد غازی)

جواب : وہ ملت ابراہیمی کے طریقے کے مطابق حج کرتے تھے۔ ملت ابراہیمی کے بہت سے آثارعرب میں موجو د تھے کچھ چیزیں اس میں غلط شامل ہوگئی تھیں بعض قبائل غلط چیزوں میں مبتلا تھے بعض کم مبتلا تھے لیکن حج کے اکثر و بیشتر مراسم ملت ابراہیمی کے مطابق ادا ہوتے تھے۔
 

()

جواب: اسلام کی تعلیم کے مختلف حصے ہیں ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے عقائد سے ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات سے ہے۔ تیسر ا حصہ وہ ہے جس کاتعلق انسان کے ظاہری اعمال اور جوارح سے ہے۔ پہلے دو حصو ں کا ریاست سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے اس میں فرد خود ہی بڑی حد تک شریعت پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ معاشرہ اپنے اثرو رسوخ سے، خاندان اپنے دباؤ سے،اور نظام تعلیم اپنی تعلیم وتربیت سے ان دونوں چیزوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا ۔
شریعت کا تیسرا حصہ جس کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے اس میں بھی کچھ احکام تو وہ ہیں جو فرد کی براہ راست ذمہ داری ہے اور فرد ہی ان پر عمل درآمد کا مکف ہے۔ عبادات کے معاملات ہوں،اسی طرح سے نکاح و طلاق ،گھر کے اندر کے معا ملات ہوں ان میں بھی عمومی طور پر عام حالات میں ریاست کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسی طرح معاشرت اور آداب ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک اور سنت نے ہدایت دی ہے ۔ان معاشرتی آداب پر عمل درآمد میں بھی چند مستثنیات کے علاوہ ریاست کا کوئی رول اور کوئی کردار نہیں ہے البتہ جہاں تک تعلق ہے ان قوانین کا جن کے مخا طین اصحاب حکومت ہیں جن کے مخاطبین اولو الامر ہیں وہ براہ راست ریاست کی ذمہ داری ہیں اور ریاست بہرحال انکو نافذ کرے گی اور انکو توڑنے والوں کو سزا بھی دے گی ۔اگر اسلام کوئی معاشرہ قائم کرتا ہے کوئی تہذیب قائم کرتا ہے تو اس تہذیب کے تحفظ کے لئے ریاست بھی قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور وہ ریاست اسلامی قوانین کے مطابق کام کرتی ہے تو وہاں یہ کہنا انتہائی لغو اور مہمل بات ہے کہ ریاست قا نون پر عمل درآمد کے معاملہ میں مداخلت نہ کرے اس لغو اور مہمل بات کے معنی یہ ہیں کہ مثلاً چور کو کچھ نہ کہا جائے اس لئے کہ شریعت نے انسانوں کو آزادی دی ہے۔ یہ بات دنیا کا کوئی بھی نظام یا نظریہ قبول نہیں کرتا۔ نہ یہ کوئی معقول عذر ہو گا کہ چونکہ شریعت نے آزادی دی ہے لہذا چوری کی آزادی ہو نی چاہئے بد اخلاقی کی آزادی بھی ہو نی چاہئے مخدرات کے استعمال کی آزادی بھی ہو نی چاہئے۔ ان امور کا تعلق اسلام کے قوانین فوجداری سے ہے اوریہ وہ چیزیں ہیں جن پر عمل در�آمدکرانا لازماً ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ دنیا کی ہر ریاست کی طرح اسلامی ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فوجداری قوانین کو نافذ کرے۔ دنیا کی ہر ریاست اپنے قوانین کو نافذکرتی ہے اسی طرح اسلام کی ریاست بھی قوانین کو نافذ کرے گی۔
اسلام کے قوانین کی اساس اخلاقی ضوابط اور رو حانی اصولوں پر ہے اس لئے اسلام میں بعض او قات قانون اور اخلاقیات کی حدودمل جاتی ہیں۔ کہیں کہیں ایک ہو جاتی ہیں اور وہاں تعیین دشوار ہو تاہے کہ کس حد تک قانون کی ذمہ داری ہے اورکہاں قانون کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ شریعت نے اس معاملہ میں واضح ہدایات دی ہیں۔ اس ضمن میں کہیں کہیں دو ر جدید کے قانونی تصورات سے اسلامی قانون کا اختلاف پیدا ہو تا ہے۔اسلامی قانون بنیادی طور پر ایک اخلاقی قانون ہے اور وہ اسلام کی دینی تعلیم اور اخلاقی اصو لوں سے ہی اپنی سند جواز حاصل کرتا ہے۔ وہ اپنی قوت نافذہ قانونی اصول سے اخذ کرتا ہے لہذٰ ا اسلام میں قانونی اصو ل کا اصل مقصد اخلاقی اصول پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور اخلاقی معاشرہ قائم کرنا ہے ۔لہذا یہاں قانون اور اخلاق میں اس نو عیت کی علیحدگی ممکن ہی نہیں جواہل مغرب نے پید اکر دی ہے تاہم ریاست کی مداخلت کا دائرہ عام طور پر صرف قانونی معاملات ہیں اخلاقی امور عام طور پر ریاست کی مداخلت کے بغیر ہی انجام پانے چاہییں ۔
اسلامی تاریخ میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں کہ حکومت وقت نے کوئی فیصلہ کرنا چاہا اورریاست کے کسی شہری نے اس کو ذاتی آزادی کے خلاف سمجھا سیدنا عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ یہ فیصلہ کیا کہ مہر کی رقم کو محدود کر دیا جائے، لوگ مقابلہ کرنے لگے ہیں کہ زیادہ کون مہر رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے سوچ کر یہ طے کیا کہ اس کی ایک حد بندی ہونی چاہئے اور پابند کیا جائے کہ لوگ ایک خاص حد سے زیادہ مہر ادا نہ کریں انہوں نے اس کا اعلان کیا جب وہ خطبہ دے کر نماز کے بعد مسجدسے باہر نکل رہے تھے تو دیکھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوگئیں بوڑھی خاتون تھیں انہوں نے خلیفہ راشد کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہیں یہ حق کس نے دیا ہے قرآن پاک تو کہتا ہے ’’ واٰتیتم احداھن قنطارا فلا تأ خذوا منہ شیئا ،،( اگر تم نے اسے سونے کا ایک ڈھیر بھی دیا ہوا ہو تو واپس نہ لو )لہذا جہاں سونے کا ڈھیر دیا جاسکتا ہے تو وہاں آپ کی حد بندی کیا معنی رکھتی ہے حضرت عمرؓ نے کہا کہ اصابت امرأۃ و اخطأعمر ،، (عورت نے صحیح کہا اور عمر نے غلطی کی ) دوبارہ لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا لوگ دوبارہ جمع ہوئے فرمایا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی میں اس کو واپس لیتا ہوں ۔اس لیے کہ انہوں نے فوراً احساس کر لیا کہ یہ فرد کا معاملہ ہے اور خاندان کے افراد آپس میں مشورے سے جو طے کرنا چاہتے ہیں وہ کر یں اس طرح کے معاملا ت میں ریاست کو مدا خلت نہیں کرنی چاہئے لہذا اخلاقی ہدایات اور قانونی احکام کے درمیان میر اخیال ہے حدوو ہیں وہ بہت واضح ہیں ان میں کوئی التباس اسلامی شریعت کے اعتبار سے نہیں ہے ۔
*

()